انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** جہنم سے نجات کا ذریعہ خوف خدا قرآن وحدیث میں کثرت سے وارد ہے کہ خوف خدا سے رونے پر جہنم سے نجات ملتی ہے چونکہ جہنم کے خوف سے رونا بھی اللہ کے خوف سے رونا ہے کیونکہ یہ اللہ کے عذاب وعتاب کے خوف سے ہے اورخدا تعالی سے اس کی رحمت سے اسکی قرب سے اوراس کی جنت سے دوری کی وجہ سے رونا ہے۔ (ذیل میں اس کے متعلق چند احادیث وغیرہ بیان کی جاتی ہیں) (حدیث)حضرت ابوہریرہؓ نبی کریمﷺسےنقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: لَا يَلِجُ النَّارَ رَجُلٌ بَکَى مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ حَتَّى يَعُودَ اللَّبَنُ فِي الضَّرْعِ (ترمذی،باب ماجاء فی فضل الغبار فی سبیل،حدیث نمبر۱۵۵۷) (ترجمہ)جہنم میں وہ آدمی داخل نہیں ہوگا جو خوف خدا سے روئے یہاں تک کہ دودھ تھن میں لوٹ جائے۔ (فائدہ)یعنی جس طرح دودھ کا تھن میں واپس جانا ناممکن ہے اسی طرح خوف خدا سے رونے والے کا دوزخ میں داخل ہونا بھی مشکل ہے۔ (حدیث)حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا: عَيْنَانِ لَا تَمَسُّهُمَا النَّارُ عَيْنٌ بَکَتْ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ وَعَيْنٌ بَاتَتْ تَحْرُسُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ (ترمذی،باب ماجاء فی فضل الحرس فی سبیل،حدیث نمبر۱۵۶۳) (ترجمہ)دوآنکھیں ایسی ہیں کہ ان کو جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی ایک وہ آنکھ جو آدھی رات کو خوف خدا سے روئی ،دوسری وہ جوفی سبیل اللہ پہرہ دیتے ہوئے جاگتی رہی۔ چارقسم کی آنکھوں پر دوزخ حرام ہے (حدیث)حضورﷺ نے فرمایا: حرمت النار علی عین سھرت بکتاب اللہ وحرمت النار علی عین دمعت من خشیۃ اللہ وحرمت النار علی عین غضت عن محارم اللہ اوفقٔت فی سبیل اللہ (الجوزجانی) (ترجمہ)اس آنکھ پر جہنم حرام ہے جس نے کتاب اللہ کے ساتھ جاگ کر گذاری (یعنی تلاوت وغیرہ کرتا رہا) اس آنکھ پر آگ حرام ہے جو خوف خدا سے بہ پڑی،اس آنکھ پر جہنم حرام ہے جو اللہ کی حرام کردہ اشیاء کو دیکھنے سے بند رہی،یا اللہ کی راہ میں پھوڑدی گئی۔ (حدیث)حضرت ابن مسعودؓ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: مَا مِنْ عَبْدٍ مُؤْمِنٍ يَخْرُجُ مِنْ عَيْنَيْهِ دُمُوعٌ وَإِنْ کَانَ مِثْلَ رَأْسِ الذُّبَابِ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ ثُمَّ تُصِيبُ شَيْئًا مِنْ حُرِّ وَجْهِهِ إِلَّا حَرَّمَهُ اللَّهُ عَلَى النَّارِ (سنن ابن ماجہ،باب الحزن ولبکاء،حدیث نمبر:۴۱۸۷) (ترجمہ)جس مومن بندے کی آنکھوں سے خوف خدا سے آنسو بہ پڑیں چاہے وہ مکھی کے سر کے برابر بھی ہوں پھر وہ رخسار تک جا پہنچیں تو اللہ تعالی اسے دوزخ پر حرام کردیتے ہیں۔ (حدیث)حضرت زید بن ارقمؓ فرماتے ہیں ایک آدمی نے عرض کیا یا رسول اللہ میں کسی طرح جہنم سے بچ سکتا ہوں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: یدموع عینیک فان عینا بکت من خشیۃ اللہ لا تمسھا النار ابدا (ابن ابی الدنیا بضعف) (ترجمہ)اپنی آنکھوں کے آنسوؤں سے ؛کیونکہ جو آنکھ اللہ کے خوف سے روپڑی اس کو جہنم کی آگ کبھی نہیں چھوئے گی۔ ایک آنسو کا مقام (حدیث)رسول اللہ ﷺ سے روایت کی گئی ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ما اغرورقت عينا عبد من خشية الله إلا حرم الله جسدها على النار ، فإن فاضت على خده لم يرهق وجهه قتر ولا ذلة ، ولو أن عبدا بكى في أمة من الأمم ، لأنجى الله ببكاء ذلك العبد تلك الأمة من النار ، وما من عمل إلا له وزن أو ثواب ، إلا الدموع ؛ فإنها تطفئ بحورا من النار (القسم،ابن ابی الدنیا،کتاب،الرقۃ والبکاء،باب ما اغرورقت عینا عبدمن خشیۃ:۱/۱۶) (ترجمہ)جس بندے کی آنکھیں خوف خدا کے آنسو سے بھر جائیں اللہ تعالی اس کے جسم کو جہنم پر حرام کردیتے ہیں پھر اگر وہ اس کے رخسار پر بھی بہہ پڑے تو اس کے چہرہ کو نہ کوئی تکلیف پہنچے گی اورنہ ذلت اور اگر کوئی بندہ جماعتوں میں سے کسی جماعت میں روپڑے تو اللہ عزوجل اس بندے کے رونے کی خاطر اس جماعت کو جہنم سے نجات دیدیں گے، ہر عمل کا وزن اورثواب ہے لیکن آنسو کے ثواب کا کوئی حدوحساب نہیں یہ تو جہنم کے دریاؤں کو بجھا کے رکھ دیتا ہے۔ حضرت زاذان فرماتے ہیں ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ جو جہنم کے خوف سے رویا اللہ اس کو جہنم سے پناہ دیدیتے ہیں اور جو جنت کے شوق سے رویا اس کو اللہ تعالی جنت میں داخل کریں گے۔ حضرت عبدالواحد بن زیدؒ فرماتے تھے اے بھائیو تم شوق خدا سے کیوں نہیں روتے؟کیا تمہیں معلوم نہیں جو اپنے سردار کے شوق میں روئے اسے وہ اپنے دیدار سے محروم نہیں کرتا،اے بھائیو تم خوف جہنم سے کیوں نہیں روتے؟کیا تمہیں معلوم نہیں جو خوف جہنم سے رویا اسے اللہ تعالی جہنم سے پناہ دیں گے۔ حضرت فرقد سنجیؒ کہتے ہیں میں نے کسی کتاب میں پڑھا ہے جنت کے شوق میں رونے والے کے لئے اپنے رب کے سامنے خود جنت شفاعت کرتی ہے اورکہتی ہے کہ جیسے یہ میرے لئے رویا ہے اسے اسی طرح جنت میں داخل بھی فرمادے اورجہنم بھی اس کے لئے اپنے رب سے پناہ مانگتی اورکہتی ہے اے رب اسے مجھ سے پناہ میں رکھئے جیسا اس نے مجھ سے پناہ مانگی اورمجھ میں داخلے کے خوف سے روپڑا۔ خوفِ خدا کی طاقت (حدیث)حضرت عبدالرحمان بن سمرہؓ حضورﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے رات کو ایک خواب دیکھا جس کا ایک حصہ یہ بھی تھا: رأيت رجلا من أمتي على شفير جهنم فجاءه وجله من الله تعالى فاستنفذه من ذلك ورأيت رجلا من أمتي من انتهى تهوي في النار فجاءته دموعه التي بكى من خشية الله عز وجل فاستخرجته من النار (العلل المتناھیۃ فی الاحادیث، کتاب النوم:۲/۲۱۰) (ترجمہ) (آپﷺ فرماتے ہیں)میں نے امت کے ایک مرد کو جہنم کے کنارے پر دیکھا جس کے پاس خوف خدا آیا اوراس کو جہنم سے بچالے گیا، اسی طرح اپنی امت کے دوسرے مرد کو دیکھا جو جہنم میں گرنے لگا تھا تو اس کے پاس اس کے وہ آنسو آئے جو خوف خدا سے بہے تھے انہوں نے(بھی) اسے آگ سے نکال لیا۔ (حدیث)حضرت انسؓ فرماتے ہیں۔ تلارسول اللہ ﷺ ھذہ الایۃ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ (التحریم:۶) وبین یدیہ رجل اسود فھتف بالبکاء فنزل جبریل علیہ السلام فقال من ھذا الباکی بین یدیک؟قال رجل من الحبشۃ واثنی علیہ معروفا،قال فان اللہ عزوجل یقول وعزتی وجلالی وارتفاعی فوق عرشی لاتبکی عین عبد فی الدنیا من خشیتی الاکثرت ضحکہ فی الجنۃ (التخویف:۴۳) (ترجمہ)جناب رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی کہ(اے ایمان والو اپنے نفسوں کو،اپنے خاندان کو) آگ (سے بچاؤ)جس کا ایندھن لوگ اورپتھر ہیں، اس وقت آپ ﷺ کے سامنے ایک سیاہ فام آدمی بیٹھا ہوا تھا جو بلبلاتے ہوئے روپڑا تو جبرئیل علیہ السلام نازل ہوئے اورکہا ،یہ آپ کے سامنے رونے والا کون ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا حبشہ کا آدمی ہے اورآپ ﷺ نے اس کی اچھی تعریف فرمائی ،تو جبریل علیہ السلام نے فرمایا بلاشبہ اللہ عزوجل فرماتے ہیں مجھے میری عزت ،میرے جلال اورمیرے عرش پر میرے بلند ہونے کی قسم دنیا میں میرے بندے کی کوئی آنکھ میرے خوف سے نہیں روتی مگر جنت میں اس کا ہنسنا(خوش ہونا)بہت کثرت سے ہوگا۔ جہنم سے پناہ کا بیان اللہ تعالی کا فرمان ہے الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَکَرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلًا سُبْحَانَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ، رَبَّنَا إِنَّکَ مَنْ تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ أَخْزَيْتَهُ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنْصَارٍ ، رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِي لِلْإِيمَانِ أَنْ آمِنُوا بِرَبِّكُمْ فَآمَنَّا رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَکَفِّرْ عَنَّا سَيِّئَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ ، رَبَّنَا وَآتِنَا مَا وَعَدْتَنَا عَلَى رُسُلِکَ وَلَا تُخْزِنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّکَ لَا تُخْلِفُ الْمِيعَادَ،فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ (آل عمران:۱۹۱سے۱۹۵) (ترجمہ)وہ ولوگ (ہرحال میں دل و زبان سے)اللہ تعالی کی یاد کرتے ہیں،کھڑے بھی ،بیٹھے بھی،لیٹے بھی اورآسمانوں اورزمینوں کے پیدا ہونے میں(اپنی قوت عقیلہ سے)غور کرتے ہیں(اورغور کا جو نتیجہ ہوتا ہے اس کو اس طرح ظاہر کرتے ہیں) کہ اے ہمارے پروردگار آپ نے اس(مخلوق) کو لایعنی پیدا نہیں کیا ہم آپ کو (لا یعنی پیدا کرنے سے) منزہ سمجھتے ہیں سو ہم کو(موحد اورمومن ہونے کی وجہ سے) عذاب دوزخ سے بچا لیجئے، اے ہمارے پروردگار بے شک آپ جس کو دوزخ میں داخل کریں اس کو واقعی رسوا ہی کردیا(مراد اس سے کافر ہے) اورایسے بے انصافوں کاجن کی اصلی جزا دوزخ تجویز کی جاوے) کوئی بھی ساتھ دینے والا نہیں(اورآپ کا وعدہ ہے اہل ایمان کے لئے رسوانہ کرنے کا بھی اورنصرت کرنے کا بھی بس ایمان لاکر ہماری درخواست ہے کہ کفر کی اصل جزاء سے بچائیے ایمان کا اصل مقتضاء یعنی دوزخ سے نجات مرتب فرمائیے اے ہمارے پروردگار ہم نے(جیسے مصنوعات کی دلالت سے عقلی استدلال کیا اسی طرح ہم نے) ایک (حق کی طرف) پکارنے والے کو(مراد اس سے حضرت محمد ﷺ ہیں بواسطہ یا بلاواسطہ) وہ ایمان لانے کے لئے اعلان کررہےہیں کہ (اے لوگو)تم اپنے پروردگار(کی ذات وصفات) پر ایمان لاؤ سو ہم(اس دلیل نقلی سے استدلال کرکے بھی ایمان لے آئے،اے ہماری پروردگار (اس کے بعد ہماری یہ درخواست ہے کہ) ہمارے (بڑے) گناہوں کو بھی معاف فرمادیجئے اورہماری(چھوٹی)بدیوں کو ہم سے (معاف کرکے)زائل کردیجئے اور(ہمارے انجام بھی جس پر مدار ہے درست کیجئے اس طرح) کہ ہم کو نیک لوگوں کے ساتھے (شامل رکھ کر) موت دیجئے (یعنی نیکی پر خاتمہ ہو) اے پروردگار اورہم کو وہ چیز(یعنی ثواب وجنت) بھی دیجئے جس کا ہم سے اپنے پیغمبروں کی معرفت آپ نے وعدہ فرمایا ہے کہ(مومنین وابرار کو اجر عظیم ملے گا اورہم کو قیامت کے روز رسوانہ کیجئے یقیناً آپ (تو) وعدہ خلافی نہیں کرتے۔(لیکن ہم) کو یہ خوف ہے کہ جن کے لئے وعدہ ہے(یعنی مومنین وابرار کہیں) ایسا نہ ہوکہ خدانخواستہ ہم ان صفات سے موصوف نہ رہیں جن پر وعدہ ہے اس لئے ہم آپ سے یہ التجا ئیں کرتے ہیں کہ ہم کو اپنے وعدہ کی چیزیں دیجئے یعنی ہم کو ایسا کردیجئے اورایسا ہی رکھئے جس سے ہم وعدہ کے مطابق ومحل ہوجائیں سو قبول کرلیا ان کی دعاؤں کو ان کے رب نے۔ (فائدہ)گذشتہ آیات میں اللہ تعالی نے مومنین کی زبانی دوزخ سے پناہ مانگنے کی تعریف فرمائی ہے اوریہ بھی کہ جو یہ دعا مانگتے ہیں اللہ تعالی ان کی اس دعا کو قبول بھی فرماتا ہے،ہمیں بھی چاہیے کہ ہم بھی دوزخ سے پناہ مانگنے کے لئے اس آیت کو یاد کرکے پڑھا کریں کبھی ناغہ نہ کریں اور مزید دعائیں اس کتاب کے آخر آرہی ہیں ان کو بھی اپنا معمول بنائیں فرشتے دوزخ سے پناہ مانگنے والوں کی مجالس میں (حدیث)حضرت ابوہریرہؓ نبی اکرم ﷺ سے وہ حدیث روایت کرتے ہیں جس میں ان فرشتوں کا ذکر ہے جو مجالس ذکر کی تلاش میں رہتے ہیں اس حدیث میں یہ مضمون بھی ہے۔ ان اللہ عزوجل یسئالھم وھوا اعلم بھم فیقولَ فَمِمَّ يَتَعَوَّذُونَ؟فيَقُولُونَ مِنْ النَّارِ فَيَقُولُ وَهَلْ رَأَوْهَا؟ قَالَوا لَا وَاللَّهِ مَا رَأَوْهَافَيَقُولُ کَيْفَ لَوْ رَأَوْهَا؟ فَيَقُولُونَ لَوْ رَأَوْهَا کَانُوا أَشَدَّ مِنْهَا فِرَارًا وَأَشَدَّ مِنْهَا مَخَافَةً قَالَ فَيَقُولُ أَنِّي اشھد کم انی قَدْ غَفَرْتُ لَهُمْ (بخاری ومسلم) (ترجمہ)اللہ تعالی ان فرشتوں سے پوچھتے ہیں حالانکہ وہ ان سے زیادہ واقف ہوتے ہیں پس فرماتے ہیں وہ کس سے پناہ مانگ رہے تھے،تو وہ کہتے ہیں جہنم سے،پھر اللہ تعالی پوچھتے ہیں کیا انہوں نے جہنم کو دیکھا ہے؟ عرض کرتے ہیں نہیں اللہ کی قسم ہے انہوں نے اسے نہیں دیکھا،پھر پوچھتے ہیں اگر انہوں نے اسےدیکھا ہوتا تو ان کی کیا حالت ہوتی؟ تو فرشتے عرض کرتے ہیں اگر انہوں نے اسے دیکھا ہوتا تو وہ اس سے بہت زیادہ دور بھاگنے والے ہوتے اورشدید ڈرنے والے ہوتے، حضورﷺ فرماتے ہیں پس اللہ تعالی فرماتے ہیں میں تمہیں اس بات پر گواہ بناتا ہوں کہ میں نے ان کی مغفرت فرمادی۔ دوزخ سے پناہ مانگنے والے کے لئے دوزخ پناہ مانگتی ہے (حدیث)حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: مامن مسلم یسال اللہ الجنۃ ثلاثا الا قالت الجنۃ اللھم ادخلہ الجنۃ ومن استجار من النار ثلاثا قالت النار اللھم اجرہ من النار (ترمذی،نسائی،ابن ماجہ) (ترجمہ)جو آدمی جہنم سے سات مرتبہ پناہ مانگے تو جہنم عرض کرتی ہے اے رب آپ کے فلانے بندے نے مجھ سے نجات طلب کی ہےآپ اس کی نجات فرمادیجئے اسی طرح جس آدمی نے ساتھ مرتبہ جنت کو طلب کیا تو جنت بھی سفارش کرتی ہے کہ اے میرے پروردگار تیرے فلانے بندے نے مجھے طلب کیا ہے اندر داخل فرمادیجئے۔ (فائدہ)ان دوحدیثوں سے معلوم ہوا کہ جو انسان دوزخ سے پناہ مانگے دوزخ بھی اس کے لئے اپنے سے حفاظت کی دعا کرتی ہے۔ جس کےاعمالنامہ میں دو خ سے پناہ کی طلب ہوگی (حدیث)حضرت انسؓ کے واسطہ سے حضور ﷺ سے روایت کی گئی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: یقول اللہ عزوجل انظر وافی دیوان عبدی فمن رایتموہ سالنی الجنۃ اعطیۃ ومن استعاذ بی من النار اعذہ (واسناد ضعیف) (ترجمہ)اللہ عزوجل (فرشتوں سے)فرماتے ہیں میرے بندوں کے اعمالنامہ میں نظر کرو سو تم جس کو بھی مجھ سے جنت کا سوال کرتا ہوا پاؤ میں اسے جنت دوں گا اورجسے میرے ساتھ جہنم سے پناہ کا سوال کرتا ہوا پاؤ میں اسے جہنم سے نجات دوں گا۔ (حدیث)حضرت ابو سعید یا حضرت ابوہریرہ یا ان دونوں سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: إذا كان يوم حار ، فقال الرجل : لا إله إلا الله ، ما أشد حر هذا اليوم ، اللهم أجرني من حر جهنم ، قال الله عز وجل لجهنم : إن عبدا من عبادي استجار بي من حرك فاشهدي أني أجرته ، وإن كان يوم شديد البرد ، فإذا قال العبد : لا إله إلا الله ، ما أشد برد هذا اليوم ، اللهم أجرني من زمهرير جهنم ، قال الله عز وجل لجهنم : إن عبدا من عبادي قد استجارني من زمهريرك ، وإني أشهدك أني قد أجرته » . قالوا : ما زمهرير جهنم ؟ قال : « بيت يلقى فيه الكافر ، فيتميز من شدة بردها (عمل الیوم واللیلۃ لابن السنی،باب اذاکان یوم حار،فقال الرجل:۲/۸۰۹) (ترجمہ)جب گرم دن ہوتا ہے اورآدمی یہ دعا کرتا ہے لا الہ الا اللہ مااشد حرھذالیوم اللھم اجرنی من حرجھنم(اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں آج کتنی سخت گرمی ہے،اے اللہ مجھے جہنم کی گرمی سے نجات عطا فرما،تو اللہ تعالی جہنم کو فرماتے ہیں کہ میرے بندوں میں سے ایک بندے نے تیری گرمی سے مجھ سے نجات طلب کی ہے میں تجھے گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اسے نجات دیدی اورجب سخت سردی کا دن ہوتا ہے اوربندہ یہ دعا کرتا ہے لا الہ الا اللہ ما اشد بردھذا الیوم اللھم اجرنی من زمھریر جھنم(اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں آج کتنی سخت سردی ہے اے اللہ مجھے جہنم کے زمہریر (سرد طبقہ) سے نجات عطا فرما، تو اللہ تعالی جہنم کو فرماتے ہیں بلاشبہ میرے بندوں میں سے ایک بندے نے مجھے تیرے زمہریر سے نجات طلب کی ہے میں تجھے گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اسے نجات دیدی،صحابہ نے عرض کیا یہ جہنم کا زمہریر کیا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا یہ ایسا گھر ہے جس میں کافر کو ڈالا جائے گا تو سردی کی شدت سے اس کا جسم پھٹ جائے گا۔ (فائدہ)حضرت مجاہد سے منقول ہے روز قیامت ایک بندے کو جہنم میں داخل ہونے کا حکم دیا جائے گا تو وہ سکڑ جائے گی پس اللہ تعالی یا جہنم کا دربان جہنم سے کہے گا یہ کیا ہے ؟تو کہے گی اس نے تو مجھ سے نجات طلب کرلی تھی، تو فرمائیں گے چلو اس کا راستہ چھوڑ دو(منہ)۔ سفیانؒ مشعر سے عبدالاعلی کا قول نقل کرتے ہیں کہ جنت اورجہنم کو ابن آدم کی باتیں سننے کی طاقت دی گئی جب کوئی بندہ یہ دعا کرتا ہے اعوذباللہ من النار (میں آگ سے اللہ کی پناہ لیتا ہوں) تو آگ کہتی ہے اے اللہ اس کو پناہ دے دیجئے اور جب کوئی اللہ تعالی سے جنت طلب کرتا ہے تو جنت کہتی ہے اے اللہ اسے (میرے اندر)پہنچادیجئے۔ ہر دعا میں دوزخ کا ذکر اورپناہ کی دعا ابو مسلم خولانی فرماتے ہیں میں جو دعا بھی کرتا ہوں اس میں جہنم کا ذکر ضرور کرتا ہوں پھر اس سے پناہ کی طرف اس کے ذکر کو پھیر دیتا ہوں۔ دوزخ سے سات بار پناہ مانگنے والے کی دوزخ کو ضرورت نہیں حضرت عطا خراسانی فرماتے ہیں جس نے اللہ تعالی سے سات بار جہنم سے پناہ مانگی تو جہنم کہتی ہے مجھے تیری ضرورت نہیں ہے۔