انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** غزوہ احزاب(خندق) (ذی قعدہ ۵ہجری) اس غزوہ کو غزوہ ٔخندق اس لئے کہتے ہیں کہ اس موقع پر خندق کھودکر مدینہ کی حفاظت کی گئی تھی، غزوۂ احزاب اس لئے کہتے ہیں کہ کفار ، یہودی اور ان کے حلیف کئی حزب ( گروہ) مسلمانوں کے خلاف جتھا بنا کر ایک ہو گئے تھے، حزب کی جمع احزاب ہے، سابقہ غزوات میں مشرکین مکہ کے بہت سے سردار قتل ہوئے تھے جن کا بدلہ لینے کے لئے وہ مضطرب تھے ، قریش کی تجارت کے راستے بند ہوجانے سے وہ معاشی ناکہ بندی کی صورت حال میں مبتلاء ہو گئے تھے، یہودیوں کی معیشت بھی کافی متاثر ہوئی تھی ، دو یہودی قبائل بنو نضیر اور بنو قینقاع مدینہ سے نکال دیئے گئے تھے، بنو نضیر مدینہ سے نکالے جانے کے بعد بہت پریشان تھے ، اس لئے انھوں نے یہ منصوبہ بنایا کہ اگر اس موقع پر مسلمانوں کا خاتمہ نہ کیا گیا تو آئندہ ان سے مقابلہ کرنا مشکل ہو جائے گا ، لہٰذا وہ بے بہا رقم خرچ کر کے مشرکین عرب کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکانے کی مہم چلا رہے تھے، بنو نضیر مدینہ سے نکل کر خیبر پہنچے تو انھوں نے ایک عظیم الشان سازش شروع کی، ان کے روساء میں سے سلام بن ابی الحقیق ‘ حیٔ بن اخطب، کنانہ بن الربیع اور بنی وائل سے ہرزہ بن قیس وغیرہ مکہ معظّمہ گئے اور قریش سے مل کر کہا کہ اگر وہ ان کا ساتھ دیں تو اسلام کا استیصال کر دیا جا سکتا ہے، قریش اس کے لئے ہمیشہ تیار تھے، قریش کو آ مادہ کرکے یہ لوگ قبیلہ غطفان کے پاس گئے اور ان کو لالچ دیا کہ خیبر کا نصف محاصل ان کو ہمیشہ دیا کریں گے، وہ فوراً تیار ہو گئے ، بنو اسد‘ غطفان کے حلیف تھے، غطفان والوں نے ان کو لکھا کہ تم بھی فوجیں لے کر آؤ ، قبیلہ بنو سلیم سے قریش کی قرابت تھی ، اس لئے انھوں نے بھی ساتھ دیا، بنو سعد کا قبیلہ یہود کا حلیف تھا ، اس بناء پر یہود نے ان کو بھی آمادہ کیا، غرض تمام قبائل عرب سے لشکر گراں تیار ہو کر مدینہ کی طرف بڑھا جس کی تعداد دس ہزار تھی، فتح الباری کی روایت کے مطابق چوبیس ہزار سے زائد کی جماعت تھی ، اس میں تین سو گھوڑے اور ایک ہزار پانچ سو اونٹ تھے، اس لشکر کا قائداعظم ابو سفیان تھا جس میں قبیلہ بنو اسد ، قبیلہ بنو سلیم وغیرہ شریک تھے، یہ لشکر تین مستقل فوجوں میں تقسیم تھا، غطفان کی فوجیں عینیہ بن حصن فزاری کی کمان میں تھیں جو عرب کا مشہور سردار تھا، بنو اسد طلیحہ کی افسری میں تھے اور ابو سفیان بن حرب سپہ سالار کل تھا، آنحضرت ﷺ نے یہ خبریں سنیں تو صحابہ ؓ سے مشورہ کیا، حضرت سلمان ؓ فارسی ایرانی النسل ہونے کی وجہ سے خندق کے طریقہ سے واقف تھے، انھوں نے رائے دی کہ کھلے میدان میں نکل کی مقابلہ کرنا مصلحت نہیں، ایک محفوظ مقام میں لشکر جمع کیا جائے اور ایک خندق کھود لی جائے، تمام لوگوں نے اس رائے کو پسند کیا، مدینہ میں تین جانب مکانات اور نخلستان کا سلسلہ تھا جو شہر پناہ کا کام دیتا تھا، صرف شامی رُخ کھلا ہواتھا، آنحضرت ﷺ نے تین ہزار صحابہ کے ساتھ شہر سے باہر نکل کراس مقام میں خندق کھودنے کی تیاریاں شروع کیں، ذیقعدہ ۵ ہجری کی ۸ تاریخ تھی، آنحضرت ﷺ نے حدود قائم کئے، داغ بیل ڈال کر دس دس آدمیوں پر دس دس گز زمین تقسیم کی، حضور ﷺ بہ نفس نفیس ان مجاہدوں کے ساتھ خندق کھودنے میں شریک تھے، کئی کئی دن فاقہ سے گزر رہے تھے اس پر بھی اسلام کے شیدائیوں کا جوش ٹھنڈا نہیں ہوتا تھا، ہاتھوں سے مٹی کھودتے اور پیٹھوں پر اس کو لاد لاد کر پھینکتے تھے اور آواز میں آواز ملا کر یہ شعر گاتے تھے ! " ہم ہیں جنھوں نے محمد(ﷺ) کے ہاتھ پر اس عہد پر بیعت کی ہے کہ جب تک جان میں جان ہے ہم خدا کی راہ میں لڑتے جائیں گے، خندق کی گہرائی پانچ گزرکھی گئی، خندق کی کھدائی کے دوران حضرت ابو طلحہؓ نے رسول اﷲﷺ سے بھوک کا شکوہ کیا اور اپنے شکم کھول کر ایک پتھر دکھلائے تو رسول اﷲ ﷺ نے اپنا شکم کھول کر دو پتھر دکھلائے ( جامع ترمذی) حضور ﷺ کی دعوت اس کھدائی کے دوران نبوت کی کئی نشانیاں ظاہر ہوئیں، صحیح بخاری کی روایت ہے کہ حضرت جابرؓ نے حضور اکرم ﷺ کے اندر سخت بھوک کے آثار دیکھے تو بکری کا ایک بچہ ذبح کیا اور ان کی بیوی نے ایک صاع (تقریباًڈھائی کیلو) جوَ پیسا ، پھر حضور اکرم ﷺ سے رازداری سے خفیہ طور پر گذارش کی کہ اپنے چند رفقاء کے ہمراہ تشریف لائیں؛ لیکن حضور ﷺ تمام اہل خندق کو جن کی تعداد ایک ہزار تھی ہمراہ لے کر چل پڑے، سب لوگوں نے اتنے کھانے سے شکم سیر ہوکر کھایا، پھر بھی گوشت کی ہانڈی اپنی حالت میں برقرار رہی اور بھری کی بھری جوش مارتی رہی اور گوندھا ہوا آٹا اپنی حالت پر برقرار رہا، اس سے روٹی پکائی جاتی رہی (صحیح بخاری) بیس دن میں تین ہزار مبارک ہاتھوں سے خندق کی کھدوائی مکمل ہوئی، خندق کی کھدوائی کے دوران ایک جگہ سفید رنگ کی گول چٹان برآمد ہوئی جو اس قدر سخت تھی کہ کدالیں ٹوٹ گئیں ، آخر حضرت سلمان ؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں پہنچے اور صورت حال بیان کی ، حضور ﷺ خود تشریف لائے ، بھوک کی وجہ سے شکم مبارک پر پتھر بندھے ہوئے تھے، حضرت سلمانؓ سے کدال لی اور بسم اللہ کہہ کر ضرب لگائی ، ایک چمک کے ساتھ ایک تہائی چٹان ٹوٹ گئی، آپ ﷺ نے اللہ اکبر کا نعرہ بلند فرمایا سب نے بھی اللہ اکبر کا نعرہ لگایا ، دوسری ضرب سے مزید تہائی حصہ گر گیا، آپ ﷺ نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا ، تیسری ضرب میں چٹان پاش پاش ہو گئی، آپ ﷺ نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور سب نے بھی ساتھ دیا ، فرمایا ! پہلی چمک میں مجھے ملک شام کی کنجیاں عطا کی گئیں، میں نے حیرہ کے سرخ محلات کو دیکھا، دوسری ضرب کی روشنی میں فارس کی چابیاں عطا ہوئیں اور میں نے مدائن کے قصر ابیض کو دیکھا ، تیسری ضرب پر مدائن کی کنجیاں ملیں اور میں صفاء کے محلوں کو یہاں سے دیکھ رہاہوں ، جبریل ؑ نے مجھے خبر دی کہ میری اُمت ان شہروں کو فتح کرے گی، پھر آپﷺ نے حضرت سلمان ؓ فارسی کو مدائن کے محلات کی تفصیل بتلائی ، حضرت سلمانؓ نے عرض کیا : اس ذات کی قسم : جس نے آپﷺ کو نبی بنا کر بھیجا ہے قصر ابیض ایسا ہی ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ آپﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ اس سلسلہ میں جدید تحقیق جوڈاکٹر محمد حمید اللہ نے کی اسے اپنی کتاب " سیاسی وثیقہ جات " میں درج کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت ابو سفیان نے حضور ﷺکو ایک خط لکھا تھا اور حضور ﷺنے اس کا جواب بھی دیا تھا، ابو سفیان کا خط یہ تھا : " من جانب ابو سفیان بن حرب بخدمت محمد بن عبداللہ ( صلی اللہ علیہ و سلم )با سمک اللہم " اپنے بتوں لات ، عزّیٰ ، منات ، نائلہ اور ہبل کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں اپنے ہمراہ وہ بے کراں لشکر لے کر آرہا ہوں جو مدینہ کی اینٹ سے اینٹ بجا سکتا ہے ، میں نے آپﷺ کے حوصلے دیکھ لئے، مقابلے کی تاب نہ لا کر شہر کے ارد گرد خندق کھدوائی ، آپ ﷺ تو یہ طریقہ جانتے نہ تھے ،اگر اس مرتبہ ہم مدینہ سے ناکام واپس لوٹے تو جس طرح اُحد میں ہم نے آپﷺ کو پامال کیا تھا اور آپﷺ کے لشکریوں کی گرفت سے ہم اپنی عورتوں کو بچا لائے کسی وقت اُحد کی مانند پھر آپﷺ کو نرغہ میں لے کے پیس دیں گے، رسول اللہ ﷺ کے پاس یہ خط پہنچا تو آپﷺ نے ابی ابن کعب کو اپنے خیمہ میں لے جاکر ان سے سنا اور مندرجہ ذیل جواب لکھوایا: منجانب محمد ﷺرسول اللہ بنام ابو سفیان بن حرب ،واضح ہو کہ تمہارا خط ملا ، میں جانتا ہوں کہ تم سدا سے اللہ تعالیٰ کے خلاف غرور میں مبتلاء ہو ،یہ جو تم نے مدینہ پر ایسا حملہ کرنے کا ذکر کیا ہے جس میں تمہارے ہمراہ لشکر جرار ہو گا اور کہتے ہو کہ تمہاری فوج مدینہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دے گی تو یہ خدا کی مرضی پر منحصر ہے ، وہ اگر چاہے تو آپ لوگوں سے لات و عزّیٰ کا نام لینے کی طاقت سلب کر سکتا ہے اور یہ جو تم نے لکھا ہے کہ مجھے خندق کھودنے کا طریقہ یاد نہ تھا تو یہ طریقہ مجھے اللہ تعالیٰ نے اس وقت القا فرمایا جب تمہارا اور تمہارے ہمراہیوں کا غیض و غضب یہاں تک آ پہنچا کہ تم لوگ مدینہ کی اینٹ سے اینٹ بجا نے پر تل گئے ،سنو ! تمہاری خام امیدوں کا پورا ہونا تو کجا وقت آگیاہے کہ لات و عزّیٰ ‘ منات اور نائلہ ایک ایک کے ٹکڑے کر دئیے جائیں۔ اس غزوہ میں یہ نئی بات تھی جس نے کفار کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ، بدر میں صف بندی، اُحد میں میدان جنگ کا انتخاب اور اب خندق کے ذریعہ حفاظت کا انوکھا طریقہ۔ ( شاہ مصباح الدین شکیل ، سیرت احمد مجتبیٰ) جب خندق کھودی جا رہی تھی تو بھوکے پیاسے مجاہدوں کو لگن اور محنت سے کام کرتے ہوئے دیکھ کر آپﷺ نے فرمایا : "اللھم لا عیش اِلا عیش الاٰخرہ فا غفر للمھاجرین والانصار" ائے اللہ ! زندگی تو بس آخرت کی زندگی ہے ، پس مہاجرین اور انصار کو بخش دے ، کام کے بوجھ اور موسم کی شدت کو ہلکا کرنے کے لئے حضرت عبداللہ ؓ بن رواحہ اورجعیل رجز کے اشعار پڑھتے ، تمام مسلمان اور خود اللہ کے رسول اﷲ ﷺ ان کی آواز میں آواز ملاتے ، منافقین نے خندق کی کھدائی میں حصہ نہیں لیا،سَلع کی پہاڑ کو پشت پر رکھ کر صف آرائی کی گئی، مستورات شہر کے محفوظ قلعوں میں بھیج دی گئیں اور چونکہ بنو قریظہ کے حملہ کا اندیشہ تھا اس لئے حضرت سلمہؓ بن اسلم (۲۰۰) آدمیوں کے ساتھ متعین کئے گئے کہ ادھر سے حملہ نہ ہونے پائے،بنو قریظہ کے یہود اب تک الگ تھے؛ لیکن بنو نضیر نے ان کو ملا لینے کی کوشش کی، حئی بن اخطب (اُم المومنین حضرت صفیہؓ کا باپ) خود قریظہ کے سردار کعب بن اسد کے پاس گیا، اس نے ملنے سے انکار کیا، حئی نے کہا: میں فوجوں کا دریائے بے کراں لایا ہوں،قریش اور تمام عرب امنڈ آیا ہے اور ہر ایک محمد(ﷺ )کے خون کا پیاسا ہے،یہ موقع ہاتھ سے جانے دینے کے قابل نہیں، اب اسلام کا خاتمہ ہے ،کعب اب بھی راضی نہ تھا ، اس نے کہا: میں نے محمدﷺ کو ہمیشہ صادق الوعد پایا، ان سے عہد شکنی خلاف مروت ہے،لیکن حئی کا جادو رائیگاں نہیں جا سکتا تھا، آنحضرت ﷺ کو یہ حال معلوم ہوا تو تحقیق اور اتمام صحت کے لئے حضرت سعدؓ بن معاذ اور حضرت سعدؓ بن عبادہ کو بھیجا اور فرمایا کہ اگر درحقیقت بنوقریظہ نے معاہدہ توڑ دیا ہے تو وہاں سے آکر اس خبر کو مبہم لفظوں میں بیان کرنا کہ لوگوں میں بے دلی نہ پھیلنے پائے، دونوں صاحبوں نے بنو قریظہ کو معاہدہ یاد دلایا تو انھو ں نے کہا: ہم نہیں جانتے محمد( ﷺ )کون ہیں اور معاہدہ کیا چیز ہے؟" غرض بنو قریظہ نے اس بے شمار فوج میں اور اضافہ کر دیا، قریش ، یہوداور قبائل عرب کی دس ہزار فوج تین حصوں میں تقسیم ہو کر مدینہ کی تین طرف اس زور و شورسے حملہ آور ہوئیں کہ مدینہ کی زمین دہل گئی۔ مسلمانوں کی فوج میں منافقو ں کی تعداد بھی شامل تھی جو بظاہر مسلمانوں کے ساتھ تھے لیکن موسم کی سختی‘ رسد کی قلت‘متواتر فاقے‘ راتوں کی بے خوابی‘ بے شمار فوجو ں کا ہجوم ایسے واقعات تھے جنھوں نے ان کا پردہ فاش کر دیا، آنحضرت ﷺ کے پاس جا کر اجازت مانگنی شروع کی کہ ہمارے گھر محفوظ نہیں‘ ہم کو شہر میں واپس جانے کی اجازت دی جائے؛ لیکن جانثاران اسلام نے حضور ﷺ کا ساتھ نہیں چھوڑا، تقریباً ایک مہینہ تک اس سختی سے محاصرہ رہا کہ آنحضرتﷺ اور صحابہؓ پر تین تین دن کے فاقے گزر گئے، ایک دفعہ آنحضرت ﷺ نے لوگوں سے خطاب کر کے فرمایا کہ کوئی ہے جو باہر نکل کرمحاصرین کی خبر لائے، تین دفعہ آپﷺ نے یہ الفاظ فرمائے؛ لیکن زبیر ؓ کے سوا کو ئی صدانہیں آئی، آنحضرت ﷺ نے اس موقع پر حضرت زبیرؓ کو حواری کا لقب دیا۔ محاصرین نے ایک طرف خندق کا محاصرہ کر رکھا تھا تو دوسری طرف اس غرض سے مدینہ پر حملہ کرنا چاہا کہ آنحضرت ﷺ اور صحابہ ؓ کے اہل و عیال یہیں قلعوں میں پناہ گزیں تھے، محاصرین خندق کو عبور نہیں کر سکتے تھے اس لئے دور سے تیر اور پتھر برساتے تھے، آنحضر ت ﷺ نے خندق کے مختلف حصوں پر فوجیں تقسیم کر دی تھیں جو محاصرین کے حملوں کامقابلہ کرتی تھیں ، ایک حصہ خود آپﷺ کے اہتمام میں تھا، محاصرہ کی سختی دیکھ کر آپ ﷺ کو خیال ہوا کہ ایسا نہ ہو کہ انصار ہمت ہار جائیں، اس لئے آپ ﷺ نے غطفان سے اس شرط پر معاہدہ کرنا چاہا کہ مدینہ کی پیداوار کا ایک ثلث ان کو دے دیا جائے، حضرت سعدؓ بن عبادہ اور حضرت سعدؓ بن معاذ کوجو روسائے انصار تھے بلا کر مشورہ کیا، دونوں نے عرض کیا کہ اگر یہ خدا کا حکم ہے تو انکار کی مجال نہیں لیکن اگر رائے ہے تو یہ عرض ہے کہ کفر کی حالت میں بھی کوئی شخص ہم سے خراج مانگنے کی جرأت نہ کر سکا اور اب تو اسلام نے ہمارا پایہ بہت بلند کر دیا ہے، یہ استقلال دیکھ کر آپﷺ کو اطمینان ہوا، حضرت سعدؓ نے معاہدہ کا کاغذ ہاتھ میں لے کر تمام عبارت سنا دی اور کہا کہ ان لوگوں سے جو بن آئے کر دکھائیں ، مشرکین کی طرف سے حملہ کا یہ انتظام کیا گیا تھا کہ قریش کے مشہور جنرل یعنی ابو سفیان، خالدبن ولید، عمرو بن العاص، ضرار بن الخطاب ، جبیرہ کا ایک ایک دن مقرر ہوا، ہر جنرل اپنی باری کے دن پوری فوج کو لے کر لڑتا تھا، خندق کو عبور نہیں کر سکتے تھے لیکن خندق کا عرض چونکہ زیادہ نہ تھااس لئے باہر سے پتھر اور تیر برساتے تھے چونکہ اس طریقہ میں کامیابی نہیں ہوئی اس لئے قرار پایا کہ اب عام حملہ کیا جائے، تمام فوجیں یکجا ہوئیں، قبائل کے تمام سردار آگے آگے تھے ، خندق ایک جگہ اتفاقاً کم عریض تھی، یہ موقع حملہ کے لئے انتخاب کیا گیا، عرب کے مشہور بہادروں یعنی ضرار‘ جبیرہ‘ نوفل‘ عمرو بن عبدود نے خندق کے اس کنارے سے گھوڑوں کو مہمیز کیا جواس پار تھے، ان میں سب سے زیادہ مشہور عمرو بن عبدود تھا، وہ ایک ہزار سوار کے برابر مانا جاتا تھا، جنگ بدر میں زخمی ہو کر واپس چلا گیا تھا اور قسم کھائی تھی کہ جب تک انتقام نہ لوں گا بالو ں میں تیل نہ ڈالوں گا، اس وقت اس کی عمر نوے برس تھی تا ہم سب سے پہلے وہی آگے بڑھا اور عرب کے دستور کے مطابق پکارا کہ مقابلہ کوکون آتا ہے؟ حضرت علیؓ آگے بڑھے ، دونوں میں مقابلہ ہوا جس میں عمرو بن عبدودمارا گیا، اس کے بعد ضرار اور جبیر نے حملہ کیا لیکن حضرت علیؓ نے انہیں پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا، حملہ کا دن بہت سخت تھا، تمام دن لڑآئی جاری رہی، کفار ہرطرف سے تیر اور پتھر برسا رہے تھے اور ایک دن کے لئے بارش تھمنے نہ پاتی تھی، یہی دن ہے جس کا ذکر اکثر احادیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ کی مسلسل چار نمازیں ظہر ، عصر ، مغرب ، عشاء قضاء ہوئیں، مسلسل تیر اندازی اور سنگباری سے جگہ سے ہٹنا نا ممکن تھا، جب دونوں جماعتیں متفرق ہوکر اپنی اپنی جگہ واپس ہوئیں تو آپ ﷺ نے حضرت بلالؓ کو اذان کا حکم دیا، پہلے ظہر کی اقامت کہی گئی اور آپﷺ نے نماز پڑھی، پھر ہر نماز کے لئے علحٰدہ علحٰدہ اقامت کہی گئی اور آپﷺ اور صحابہ کرامؓ نے قضاء نمازیں پڑھیں اور آپﷺ نے فرمایا کہ ان لوگوں نے ہمیں نماز وسطٰی یعنی عصر سے بعض رکھا ، اﷲ ان کے شکموں اور قبروں میں آگ بھردے، (طبقات ابن سعد)