انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ، ابتدائی حالات حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ ہجرت سے سترہ سال پہلے پیدا ہوئے تھے، یعنی وہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے چھ سال چھوٹے تھے، حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی ماں ہند بنتِ عتبہ کی شادی اوّل فاکہ بن مغیرہ قریشی سے ہوئی تھی، فاکہ کوایک مرتبہ اپنی بیوی ہند کی عصمت وپاک دامنی کے متعلق شبہ گذرا، اس نے ہند کوٹھوکریں مارکر گھر سے نکال دیا، اس کا لوگوں میں چرچا ہوا اور ہند کے باپ عتبہ نے بیٹی سے پوچھا کہ یہ کیا معاملہ ہے؟ صاف بتاؤ؛ اگرفاکہ تم کومتہم کرنے میں سچا ہے توہم کسی شخص سے کہہ دیں گے، وہ فاکہ قتل کردے گا اور ہم بدنامی سے بچ جائیں گے؛ لیکن اگروہ جھوٹا ہے اور بلاوجہ بدنام کرتا ہے توہم اس معاملہ کوکسی کاہن کی طرف رجوع کریں گے، ہند نے اپنی برأت وبے گناہی ثابت کرنے کے لیے قسمیں کھائیں اور الزام سے قطعی انکار کیا، عتبہ کوجب بیٹی کی بے گناہی کا یقین آگیا تواس نے فاکہ بن مغیرہ کومجبور کیا کہ وہ اپنی قوم بنی مخروم کے لوگوں کو ہمراہ لے کریمن کے کسی کاہن کے پاس چلے؛ اسی طرح عتبہ بن ربیعہ بھی اپنے ہمراہ عبدمناف کے چند لوگوں اور ہند کومعہ اس کی ایک سہیلی کے لے کرروانہ ہوا، کاہن کے پاس ان لوگوں نے پہنچ کرکہا کہ ان دونوں عورتوں کے معاملہ کی طرف توجہ کیجئے۔ کاہن اوّل ہند کی سہیلی کے پاس گیا اور اس کے دونوں مونڈھوں پرکچھ ضربیں لگاکر کہا کہ اُٹھ؛ پھرہند کے پاس آیا اور اس کو بھی مار کر کہا کہ اُٹھ، نہ تجھ سے کوئی بدی سرزد ہوئی ہے، نہ تونے زنا کیا ہے اور توایک بادشاہ کوجنے گی جس کا نام معاویہ ہوگا، فاکہ نے یہ سن کرہند کا ہاتھ پکڑ لیا؛ مگرہند نے اس کا ہاتھ جھٹک دیا اور کہا کہ اگرمیرے پیٹ سے کوئی بادشاہ ہونے والا ہے تووہ تیرے نطفہ سے نہ ہوگا؛ چنانچہ اس تصدیق بے گناہی کے بعد ہند نے فاکہ سے کوئی تعلق نہ رکھا، اس کے بعد ابوسفیان بن حرب نے ہند سے شادی کرلی اور معاویہ پیدا ہوئے۔ معاویہ کی یہ پیدائش کے وقت ابوسفیان کی عمر چالیس سال سے کچھ زیادہ تھی، ابوسفیان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دس سال عمر میں بڑھے تھے، امیرمعاویہ میں لڑکپن ہی سے ایسے حالات پائے جاتے تھے جس سے لوگ ان کوکسرائے عرب کہتے تھے، ان کی دانائی، خوش تدبیری، سلامت روی اور اعتدال پسندی کی خاص طور پرشہرت تھی، وہ طویل القامت، سرخ وسفید رنگ، خوبصورت اور مہیب آدمی تھے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے امیرمعاویہ کودیکھ کر فرمایا ہ یہ عرب کے کسریٰ ہیں، جس روز معاویہ تم میں سے اُٹھ جائیں گے توتم دیکھوگے کہ بہت سے سرجسموں سے جدا کیئے جائیں گے، آخر عمر میں امیرمعاویہ کا پیٹ کسی قدر بڑھ گیا تھا اور منبر پربیٹھ کرخطبہ سناتے تھے، بیٹھ کر خطبہ سنانے کی ابتدا امیرمعاویہ ہی سے ہوئی، امیرمعاویہ خوب پڑھے لکھے آدمی تھے، فتح مکہ کے روز اپنے باپ ابوسفیان کے ہمارہ آکر پچیس سال کی عمر میں مسلمان ہوئے اور پھروفاتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے۔ جنگ حنین اور محاصرۂ طائف میں بھی شریک تھے، اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں تشریف لاکر عمرہ ادا کرنے کے بعد مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئے توامیرمعاویہ بھی آپ کے ہمراہ مدینہ میں آئے اور کاتب وحی مقرر ہوئے، کتابت وحی کی خدمت کے علاوہ باہر سے آئے ہوئے وفود کی مدارات اور ان کے قیام وطعام کے اہتمام کے بعد حضرت ابوبکر صدیق خلیفہ اوّل نے جب امیرمعاویہ کے بھائی یزید بن ابی سفیان کوایک لشکر کے ساتھ شام کی طرف بھیجا توامیرمعاویہ کوایک دستہ فوج دیکر ان کا کمکی مقرر کیا، فتوحات شام میں انھوں نے اکثرلڑائیوں کے اندر بطور مقدمۃ الجیش کا رہائے نمایاں انجام دیئے اور اپنی شجاعت ومردانگی کا سکہ دلوں پربٹھایا، فاروق اعظم نے ان کوعلاقہ اردن کا مستقل حاکم مقرر کیا، طاعون عمواس میں جب حضرت ابوعبیدہ اور یزید ابن ابی سفیان وغیرہ صحابی فوت ہوگئے توفاروق اعظم نے ان کوان کے بھائی یزید کی ولایت دمشق کا والی مقرر فرمایا، علاقہ اردن اور دوسرے اضلاع بھی ان کی حکومت میں شامل رہے۔ فاروق اعظم جب بیت المقدس تشریف لے گئے توحضرت امیرمعاویہ پراعتراض کیا کہ تم نے شاہانہ شان وشکوہ اختیار کی ہے اور سنا ہے کہ تم نے دربان بھی مقرر کیئے ہیں، حضرت امیرمعاویہ نے جواب دیا کہ ملکِ شام کی سرحدوں پرقیصر کی فوجوں کا اجتماع اور حملہ آوری کا ہمیشہ خطرہ رہتا ہے، قیصر کے جاسوس ملکِ شام میں پھیلے ہوئے ہیں، قیصر اور عیسائیوں کومرعوب رکھنے کے لیئے ظاہری شان وشوکت اور قیصر کے جاسوسوں سے محفوظ رہنے کے لیئے دربانوں کوضروری سمجھتا ہوں۔ فاروق اعظم نے اس جواب کومعقول سمجھ کرپھرکوئی تعرض نہیں فرمایا، حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ سے بحری حملے کی اجازت طلب کی کہ قسطنطنیہ پربحری حملہ کیا جائے اور بحرروم کے جزیروں کوبھی فتح کرلیا جائے؛ لیکن فاروق اعظم نے ان کواس کی اجازت نہیں دی، فاروق اعظم کے بعد جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے توانھوں نے امیر معاویہ کوتمام ملک شام اور اس کے متعلقات کا حاکم بنادیا، بحری فوج کے تیار کرنے کی بھی اجازت دے دی، ان کے اختیارات کوبھی وسیع کردیا، حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے تمام ملکِ شام پرقابض ومتصرف ہوکر اس ملک میں حکومت اسلامیہ کوخوب مضبوط ومستحکم کیا اور ہمیشہ قیصرروم کواپنی طرف سے خائف ومرعوب رکھ کر اس امر کا موقع نہیں دیا کہ عیسائی لوگ اسلامی ممالک پرحملہ آوری کی جرأت کرسکیں، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے مقابلے میں جوکچھ کیا اس کا ذکر پہلی جلد میں آچکا ہے، ربیع الاوّل سنہ۴۱ھ کے آخری عشرہ میں حضرت امیرمعاویہ اور حضرت امام حسن علیہ السلام کے درمیان مصالحت ہوئی اور تمام عالم اسلامی نے امیرمعاویہ کے ہاتھ پربیعت کرکے ان کوخلیفہ وقت تسلیم کیا، اس وقت یعنی ربیع الاوّل سنہ۴۱ھ تک امیرمعاویہ بیس سال سے ملکِ شام کے حاکم چلے آتے تھے، اس کے بعد سے وہ تمام عالم اسلامی کے خلیفہ اور شہنشاہ ہوکر بیس سال اور زندہ رہے، ان کی حکمرانی کا کل زمانہ چالیس کے قریب ہے، اس چالیس سال کے نصف اوّل میں وہ ایک صوبہ داریا کے گورنر تھے اور نصف آخر میں خلیفہ یاشہنشاہ، نصف اوّل کے مجمل حالات اور اہم واقعات پہلی جلد میں بیان ہوچکے ہیں، اس جگہ ہم کوان کے حالات بحیثیت خلیفہ یعنی نصفِ آخر کے واقعات بیان کرنے ہیں اور ان کا نام بطورِ خلیفہ زیب عنوان کیا گیا ہے۔