انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** یہود مدینہ سے معاہدہ اُوپران کے اور مسلمانوں کے تعلقات کے سلسلہ میں ہم معاہدہ کا ذکر کررہے تھے کہ ضمناً ان اسباب ومواع کا ذکر کردینا مناسب معلوم ہوا، جن کی وجہ سے یہود اسلام کی طرف بڑھنے کے بجائے اس سے دور ہوتے جارہے تھے، اب پھراس سلسلہ بحث کوہم شروع کرتے ہیں، معاہدہ انصار اور یہود دونوں سے ہوا تھاجوحصہ یہود سے متعلق ہے اس کا خلاصہ یہ ہے: (۱)یہود کومذہبی آزادی حاصل ہوگی اور ان کے مذہبی اُمور سے کوئی تعرض نہیں کیا جائے گا۔ (۲)یہود اور مسلمان باہم دوستانہ برتاؤ رکھیں گے۔ (۳)یہود یامسلمانوں کوکسی سے لڑائی پیش آئے گی توایک فریق دوسرے کی مددکریگا۔ (۴)قریش اور اُن کے حلیف قبائل کوکوئی امان نہ دے گا۔ (۵)کسی دشمن سے اگرایک فریق صلح کرے گا تودوسرا بھی شریک صلح ہوگا؛ لیکن مذہبی لڑائی اس سے مستثنیٰ ہوگی۔ (۶)مدینہ پرکوئی حملہ کرے گا تودونوں فریق مل کرمقابلہ کریں گے۔ (۷)خون بہا اور فدیہ کا جوطریقہ پہلے سے چلا آرہا تھاوہ بدستور قائم رہے گا۔ (۸)یہود اور انصار میں اگرکوئی احتلاف ہوگا تواللہ اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کیا جائے گا۔ یہ آخری دفعہ انصار اور یہود دونوں کے معاہدات میں موجود ہے، یہ معاہدہ ۴۷/دفعات پرمشتمل ہے جن میں تقریباً بائیس دفعات یہود سے متعلق ہیں جس کا خلاصہ یہاں بیان کردیا گیا ہے، یہود کے معاہدہ میں یہ بات بھی کئی باردہرائی گئی ہے کہ جوکوئی شخص یاقبیلہ عہد شکنی یاظلم کریگا اس کواس کا وبال اُٹھانا پڑیگا۔ اس معاہدہ کے سلسلہ میں دوباتیں قابل غور ہیں، ایک یہ کہ یہ کس سنہ میں ہوا اور دوسرا یہ کہ اس میں یہود کے مشہور قبائل مثلاً بنوقریظہ، بنونظیر اور بنوقینقاع کا ذکر کیوں نہیں ہے؟ تمام ارباب سیرمعاہدہ کا ذکر ہجرت کے پہلے سال کے سلسلہ واقعات میں میں کرتے ہیں؛ لیکن حمیداللہ صاحب نے اپنی کتاب عہدنبوی میں نظامِ حکمرانی کے صفحہ نمبر:۸۵ تا ۸۶ میں یہود کے معاہدہ کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ غزوۂ بدر کے بعد یعنی سنہ۳ھجری میں مرتب ہوا اس پرانھوں نے علمی طور پرکچھ دلائل بھی دیئے ہیں؛ مگرعاجز کوڈاکٹرصاحب موصوف کی رائے سے اختلاف ہے اور اس کے لیے اس کے پاس دلائل بھی ہیں، جن کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ہے، اس سلسلہ میں صرف اتنا اشارہ کافی ہے کہ معاہدہ کا انعقاد اگرغزوۂ بدر کے بعد تسلیم کیا جائےتوپھربنوقینقاع کے زمانہ اخراج کوکچھ آگے بڑھانا پڑے گا، اس لیے کہ سنہ۲ھ کے رمضان میں غزوۂ بدر پیش آتا ہے اور شوال کے مہینہ میں بنوقینقاع کا اخراج عمل میں آتا ہے، ظاہر ہے کہ ان سے معاہدہ کرنے اور ان کے اخراج میں اتنا کم فصل کسی طرح قرینِ قیاس نہیں ہوسکتا، اس معاہدہ میں یہود کے کسی مشہور قبیلہ کا ذکر نہیں ہے؛ بلکہ زیادہ تران ذیلی قبائل کا ذکرہے جوجدید الیہودیہ تھے، اس لیے خیال ہوتا ہے کہ یاتوان سے اس سے الگ کوئی دوسرا معاہدہ ہوا یاپھران قبائل میں سے ہرایک سے علیحدہ علیحدہ معاہدہ ہوا۔ یہ بات اس لیے اور بھی قرین قیاس ہے کہ اس معاہدہ میں دس یہودی قبائل کا الگ الگ ذکرکیا گیا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہود کا ہرقبیلہ اپنی ایک علیحدہ وحدت اور جداگانہ حیثیت کے ساتھ اس میں شریک ہوا تھا؛ یہی وجہ ہے کہ جب ان میں سے کسی قبیلہ نے مسلمانوں سے جنگ کی تودوسرے خاموش رہے؛ بلکہ بعض مواقع پرتوانھوں نے اپنے ہم مذہبوں کے علی الرغم مسلمانوں کی مدد بھی کی؛ اگریہ تمام یہودی قبائل کا یہ متحدہ معاہدہ ہوتا توکسی ایک سے جنگ چھڑجانے پردوسرے خاموش نہ رہتے۔