انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت عثمانؓ بن حنیف نام ونسب عثمان نام، ابو عمروکنیت،قبیلۂ اوس سے ہیں، نسب نامہ یہ ہے عثمان بن حنیف بن واہب بن العکیم بن ثعلبہ بن حارث بن مجدعہ بن عمرو بن حنش بن عوف بن عمرو بن عوف بن مالک بن اوس اسلام اپنے برادر اکبر حضرت سہل بن حنیفؓ کے ساتھ مسلمان ہوئے۔ غزوات احد اور ما بعد کے غزوات میں شرکت کی، امام ترمذی کے نزدیک بدر میں بھی شریک تھے، لیکن یہ رائے جمہور محدثین کے خلاف ہے۔ دیگر حالات عراق اور کوفہ فتح ہوگئے تو ۱۶ ھ میں حضرت عمرؓ نے خراج کے نظم و نسق کی طرف توجہ کی،ان کا یہ عام اصول تھا کہ ہر ملک کا انتظام وہاں کے قدیم رسم و رواج کے موافق کسی قدر اصلاح کے ساتھ بحال رکھتے ،لیکن عراق میں اس وقت جو مالگذاری کا طریقہ رائج تھا اس میں قدیم دستور کے خلاف مختلف تبدیلیاں ہوچکی تھیں اس بناء پر حضرت عمرؓ نے مزید تحقیقات کے لئے عراق کی پیمائش کا فیصلہ کیا۔ چونکہ اس کام کے لئے دیانت وامانت کے علاوہ پیمائش اورحساب کا جا ننا نہایت ضروری تھا اوراس زمانہ میں عرب عموما ًان چیزوں سے نا آشنا تھے، اس لئے حضرت عمرؓ کو انتخاب میں سخت دقت پیش آئی، مجلس شوریٰ قائم کرکے اس کے سامنے انتخاب کامسئلہ پیش کیا ،تمام صحابہؓ بن حنیف کے لئے بالاتفاق رائے دی اورکہا کہ وہ اس سے بھی زیادہ اہم کام انجام دینے کی قابلیت رکھتے ہیں ،(استیعاب:۲/۴۹۵) حضرت عمرؓ نے صحابہ کے اجماع سے عثمانؓ بن حنیف کو بندوبست کی تولیت کے لئے نامزد فرمایا۔ چلتے وقت پیمانہ بنا کردیا، (یعقوبی:۲/۱۷۴) حضرت عثمانؓ نےاسی کے بموجب پیمائش کی اس موقع پر جو احتیاط ان کی جانب سے وقوع میں آئی اس کو قاضی ابو یوسف صاحب کتاب الخراج میں اس طرح بیان کرتے ہیں: کان عثمان عالما بالخراج فمسحھا مساحۃ الدیباج عثمان کو خراج میں پوری واقفیت تھی اس بناء پر زمین کو اس اہتمام کے ساتھ پیمائش کیا جس طرح قیمتی کپڑانا پاجاتا ہے۔ یہ کام کئی مہینے تک جاری رہا،پہاڑ،صحرا اوردریا کو چھوڑ کر قابل زراعت زمین تین کروڑ ۶۰ لاکھ جریب ٹھہری (کتاب مذکور:۲۱،۲۲) پہاڑ وغیرہ کی پیمائش کو خود حضرت عمرؓ نے منع کردیا تھا۔ (یعقوبی:۲/۲۷۴) بندوبست ختم ہوا تو کوفہ کے صاحب الخراج (کلکٹر) مقرر ہوئے،مصنف استیعاب لکھتے ہیں: ولا ہ عمر مساحۃ الارضین وجباتیھا وضرب الخراج والجزیۃ علی اھلھا (استیعاب:۲/۹۴۵) حضرت عمرؓ نے ان کو زمین کی پیمائش ،مالگذاری کی وصولی اورخراج کی وجزیہ کی تشخیص پر مامور کیا تھا۔ اس عہدہ پر مامور ہونے کے بعدانہوں نے مالگذاری کی تشخیص کی اورحسب ذیل شرح پر لگان مقرر کی: (کتاب الخراج:۲۰) انگور فی جریب یعنی پون بیگہ پختہ ۱۰درہم سال نخلستان // ۸ // نیشکرِ // ۶ // گیہوں // ۴ // جو // ۲ // جزیہ کی شرح حسب ذیل تھی: امراء سے ۴۸ درہم سال متوسطین سے ۲۴ // غربا سے ۱۲ // عورتیں اور بچے جزیہ سے مستثنیٰ تھے۔ (کتاب الخراج:۲۰،ویعقوبی:۲/۱۷۴) جزیہ کے وصول کرنے کا طریقہ یہ تھا کہ ذمیوں کے روساء جن کو دہقان کہتے تھے ان کو لیکر عدالت میں حاضر ہوتے تھے،حضرت عثمانؓ ان سے روپے لیتے اور مہر لگاتے ، چنانچہ ۵ لاکھ ذمیوں کے مہریں لگائیں، اس کے بعد ان کو سرداروں کے سپرد کیا اور انگوٹھیاں توڑ ڈالی گئیں۔ بندوبست جس اہتمام اورخوبی سے ہوا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دوسرے ہی سال خراج کی مقدار ۸ کروڑ سے ۱۰ کروڑ بیس ہزار درہم تک پہونچ گئی، (یعقوبی:۲/۱۷۴) اس کے بعد برابر اضافہ ہوتا چلا گیا۔ خاص کوفہ جو خود ان کا دارالامارۃ تھا، اس کی آمدنی میں حیرت انگیز ترقی ہوئی؛ چنانچہ حضرت عمرؓ کی وفات کے ایک سال قبل اس کا خراج ایک کروڑ تک پہونچ گیا تھا۔ (استیعاب:۲/۴۹۶) تشخیص میں جس قدر نرمی اورآسانی کی گئی تھی اس کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ حضرت عمرؓ کی وفات سے ۳،۴ سال قبل عثمانؓ اورحذیفہؓ مدینہ آئے تو انہوں نے فرمایا شاید تم نے زمین پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ لاددیا ہے، اس موقع پر حضرت عثمانؓ نے جو جواب دیا یہ تھا: لقد ترکت النصف ولو شئت لاخذتہ میں نے آدھا چھوڑدیا ہے،آپ چاہیں تو وہ بھی مل سکتا ہے۔ باایں ہمہ جب خراج روانہ ہوتا تو کوفہ اوربصرہ کے دس دس آدمی مدینہ جاتے اور حضرتؓ کے سامنے شرعی قسم کھا کر کہتے کہ اس میں کسی مسلمان یا ذمی سے ایک حبہ بھی جبراًوصول نہیں کیا گیا ہے۔ (کتاب الخراج:۶۵) حضرت عثمانؓ نے جس قابلیت سے خراج اور جزیہ کی تشخیص کی تھی اس کا مقتضایہ تھا کہ سلطنت کے دوسرے صوبوں میں بھی اس کو نافذ کیا جائے،چنانچہ حضرت عمرؓ نے حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ حاکم بصرہ کو حکم بھیجا کہ تم بصرہ میں کوفہ کے مطابق خراج مقرر کرو۔ (یعقوبی:۲/۱۷۴،۱۷۵) ملک کی اس کثیر آمدنی میں سے حضرت عثمانؓ کو جو کچھ ملتا تھا وہ قابل ذکر ہے ابن واضح کاتب عباسی لکھتے ہیں: واجری علی عثمان بن حنیف خمسۃ درھم فی کل یوم وجرا بامن دقیق (یعقوبی:۲/۱۷۴،۱۷۵) عثمان کوپانچ درہم یومیہ اورایک تھیلی آٹا ملتا تھا۔ قاضی ابو یوسف صاحب نے گوشت کے متعلق بھی تصریح کی ہے یعنی ایک بکری کے تین حصے ہوتے تھے، ایک حصہ والی کو ایک قاضی کو اورایک عثمانؓ کو ملتا تھا، حضرت عمرؓ نے ان لوگوں سے فرمایا تھا کہ میں اور تم اس مال سے اس قدر لے سکتے ہیں جتنا ایک یتیم کا کفیل یتیم کی جائداد سے لیتا ہے،اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ جو غنی ہو ایثار کرے اور جو محتاج ہو وہ مناسب رقم لے،کیونکہ جو زمین ایک بکری روزانہ دے گی، خدا کی قسم بہت جلدی تباہ ہوجائے گی۔ (کتاب الخراج:۲۰) خلافت فاروقی کے بعد خلافت عثمانی میں مدینہ آئے، (مسند:۴/۱۳۸) اورحضرت علیؓ کے عہد مبارک میں بصرہ کے حاکم مقرر ہوئے ،ابھی چند ماہ گذرے تھےکہ حجاز سے ایک طوفان اٹھا جس نے بصرہ کے قصر امن وامان کی اینٹ سے اینٹ بجادی، حضرت طلحہؓ، حضرت زبیرؓ اورحضرت عائشہؓ نے حضرت علیؓ کے مقابلہ میں خروج کے لئے اسی مقام کو تاکا تھا یہاں پہلے سے ان بزرگوں کا اثر قائم تھا اس بنا پر حضرت عثمانؓ بن حنیف کو رفع شور وشراور قیام امن میں طرح طرح کی دقتیں پیس آئیں، یہ سیلاب بصرہ پہنچا تو امن وسکون کی دیواریں ہل گئیں، لوگوں نے حضرت عثمانؓ کو خبر کی، انہوں نے دو آدمیوں کو اس لشکر کے سرگروہوں کے پاس روانہ کیا ؛لیکن جواب نہایت مایوس کن ملا، حضرت عثمانؓ نے سن کر کہا : إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ دارتہ حی لا سلام ورب الکعبۃ: افسوس! مسلمانوں میں خانہ جنگی شروع ہوگئی لوگوں سے مشورہ کرکے مدافعت کے لئے تیار ہوئے حجازی گروہ شہر کے قریب پہنچا تو حکومت کی فوج مزاحم ہوئی ،جس میں لڑائی تک نوبت پہنچی، اس موقع پر حضرت عائشہؓ کی پر اثر آواز نے افواج حکومت پر سحرو افسوں کا کام کیا اور دو فرقے پیدا ہوگئے جن میں سے ایک ٹوٹ کر حجازیوں سے جاملا نتیجہ یہ ہوا کہ افواجِ حکومت نے شکست کھائی اورایک صلحنا مہ مرتب کیا گیا جو بجنسہ درجہ ذیل ہے۔ بسم الله الرحمن الرحيم. هذا ما اصطلح عليه طلحة والزّبير ومن معهما من المؤمنين والمسلمين، وعثمان بن حنيف ومن معه من المؤمنين والمسلمين. إنّ عثمان يقيم حيث أدركه الصّلح على ما في يده، وإنّ طلحة والزّبير يقيمان حيث دركهما الصّلح على ما في أيديهما، حتى يرجع أمين الفريقين ورسولهم كعب بن مسور من المدينة. ولا يضارّ واحدٌ من الفريقين الآخر في مسجد ولا سوق ولا طيريق ولا فرضة، بينهم عيبة مفتوحة حتى يرجع كعب بالخبر؛ فإن رجع بأنّ القوم أكرهوا طلحة والزّبير فالأمر أمرهما، وإن شاء عثمان خرج حتى يلحق بطيّته، وإن شاء دخل معهما؛ وإن رجع بأنّهما لم يكرها فالأمر أمر عثمان، فإن شاء طلحة والزّبير أقاما على طاعة عليّ وإن شاءا خرجا حتى يلحقا بطيّتهما؛ والمؤمنون أعوان الفالح منهما صلحنامہ کے بموجب کعب بن سورازدی مدینہ گئے اور جمعہ کے دن مسجد نبوی میں مجمع عام سے سوال کیا کہ کیا طلحہؓ و زبیرؓ نے جبراً بیعت کی؟ تمام مجمع خاموش تھا،لیکن اسامہ بن زیدؓ بول اٹھے کہ خدا کی قسم انہوں نے جبرا ًبیعت کی ! اس پر مجمع کے کچھ لوگ اسامہ کے رتبہ کا بھی پاس نہ کرکے ان کی طرف بڑھے، حضرت ایوبؓ ،محمد بن سلمہؓ اوردیگر اکابر صحابہؓ نے حضرت اسامہؓ کو خطرہ میں دیکھ کر بیک زبان کہا ہاں انہوں نے جبراً بیعت کی، اسامہؓ کو چھوڑدو،اس آواز پر مجمع منتشر ہوگیا اورحضرت اسامہؓ کی جان بچ گئی ،کعب کے لئے اس سے زیادہ اور کیا ثبوت ہوسکتا تھا،مدینہ سے روانہ ہوئے،حضرت علیؓ نے عثمانؓ بن حنیف کو ایک خط لکھا کہ طلحہؓ اور زبیرؓ کو اگر مجبور بھی کیا گیا تو عام مسلمانوں کے اتفاق اوراجماع پر نہ کہ تفریق واختلاف پر ،اس لئے وہ بیعت توڑتے ہیں تو مجھے کیا جواب دیں گے اوراگر اس کے سوا کوئی اور ارادہ ہے تو ان کو اور ہم کو اس پر غور کرنا چاہیے، یہ خط اگرچہ سرتا پا حق وصداقت تھا تاہم مخالفت کے مفید مطلب تھا، کعب نے بصرہ پہنچ کر سارا حال بیان کیا تو صلحنامہ کا لعدم ہوگیا، اورحضرت طلحہؓ و زبیرؓ کی طرف سے شہر خالی کرنے کا مطالبہ پیش ہوا، حضرت عثمانؓ نے جواب دیا کہ اب بحث دوسری پیدا ہوگئی ؛چونکہ امنگ وجوش کا فیصلہ دلیل وبحث کے بجائے تیغ و خنجر کی زبان کرتی ہے،حضرت طلحہؓ و زبیرؓ نے رات کے وقت اپنی جماعت کے آدمیوں کو جامع مسجد بھیجا، عشاء کا وقت تھا،اندھیری رات اور سردی کا موسم حضرت عثمانؓ کے برآمد ہونے میں دیر ہوگئی ان لوگوں نے اپنی جماعت کے ایک شخص عتاب بن اسید کو امام بنا کر آگے بڑھا دیا؛ چونکہ امامت اس زمانہ میں لازمہ حکومت تھی اوربڑی اہمیت رکھتی تھی اس لئے زط اورسیابچہ نے جو شہر کے انتظام کے لئے مقرر تھے عتاب کو امامت سے روکا جس میں تلوار تک نوبت پہنچی ان لوگوں نے سپاہیوں کو ایک طرف مصروف کرکے قصر امارت کا رخ کیا، چونکہ نماز عشا بہت دیر میں پڑھی جاتی تھی ا س لئے پہرہ دار جو تعداد میں چالیس تھے سوگئے،یہ لوگ موقع پاکر اندر گھسے اور حضرت عثمان کو پکڑ کر حضرت طلحہ وزبیر کے سامنے لائے انہوں نے حضرت عائشہ سے پوچھا، حکم ہوا اس کو قتل کردو، لیکن اس سے انصار کے برہم ہونے کا خوف تھا،اس لئے قتل کےبجائے قید کرنے کی تجویز ٹھہری ،چنانچہ اسی مقام پر پیروں سے روندے گئے ۴۰کوڑے پڑے اورداڑھی ،سر، آبرو اورپلکوں کے بال انتہائی بے رحمی سے نوچ لئے گئے۔ اللہ اکبر! یہ کیسا عجیب نظارہ تھا، حاکم عراق ،خلافت عظمیٰ کا دست و باروعہد فاروقی کا ایک مدبر اور معزز افسر اورسب سے بڑھ کر یہ کہ مسند نبوت کا ایک حاشیہ نشین کس بے رحمی سے ذلیل و رسوا کیا جاتا ہے ،جو شخص کل تک جاہ و جلال خیل وسپاہ اور تیغ وسناں کا مالک تھا آج اس کی بے کسی کا یہ عالم ہے کہ اس کے لئے خود اپنا سر بھی وبال جان ہوگیا ہے۔ لیکن یہ ابتلا، یہ صبر اور یہ تحمل بے کار نہیں جاسکتا تھا، حکیم بن جبلہ کو خبر ہوئی تو صبح کے وقت عبد القیس اوربکر بن وائل کے قبائل کو لے کر ابن زبیرؓ کے پاس پہنچا اور چند شرطیں پیش کیں جن میں ایک عثمانؓ کی قید سے سبکدوشی بھی تھی، ابن زبیرؓ نے صاف انکار کیا اورابن جبلہ کے ساتھیوں اورابن زبیرؓ کی جماعت میں کشت وخون کا بازار گرم ہوگیا جس میں ابن جبلہ مع کثیر رفقاء کے کام آیا، حضرت طلحہؓ وزبیرؓ کو خبر پہنچی انہوں نے حضرت عائشہؓ کے پاس آدمی بھیج کر حضرت عثمانؓ کا بند قید کاٹ دیا، اوروہ ربذہ روانہ ہوگئے، حضرت علی کرم اللہ وجہہ مدینہ سے کوچ کرکے یہیں مقیم تھے، عثمانؓ سامنے آئے تو لوگوں سے فرمایا، دیکھو میں نے ان کو بوڑھا بھیجا تھا، اب جواب واپس آئے ہیں، عثمانؓ نے کہا ،امیر المومنین! آپ نے مجھے داڑھی مونچھوں کے ساتھ بھیجا تھا، لیکن آج آپ کے سامنے ایک بے ریش و بروت امرد کی صور ت میں ہوں فرمایا اصیت اجراً وخیراً تم کو اس کا اجر ملے گا۔ اس کے بعد غزوہ جمل پیش آیا اوربصرہ فتح ہوکر عبداللہ بنؓ عباس والی مقرر ہوئے، حضرت عثمانؓ نے کوفہ کو جس کودار الخلافت ہونے کا شرف حاصل ہوا تھا، اقامت اختیار کی۔ وفات امیر معاویہؓ کے زمانہ خلافت میں انتقال کیا۔ اولاد عبدالرحمان نام ایک لڑکا یاد گار چھوڑا فضل وکمال حضرت عثمانؓ عرب میں غیر معمولی قابلیت کے انسان تھے، حساب دانی اورمساحت کا کام جس خوبی سے انہوں نے انجام دیا ،اس کو آپ اوپر پڑھ چکے ہیں ،حساب کتاب کے علاوہ حدیث و فقہ کی واقفیت اورمسائل پر عبور کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ حضرت علیؓ نے ان کو بصرہ کا والی مقرر کیا تھا، افسوس ہے کہ ان کی عدالت عالیہ کا کوئی فیصلہ ہمارے پیش نظر نہیں ورنہ اس سے قوت فیصلہ کا بخوبی اندازہ ہوسکتا ۔ چند احادیث بھی روایت کیں ، ابو امامہ بن سہل بن حنیف( برادر زادہ) ہانی بن معاویہ صدفی، عمارہ بن خزیمہ بن ثابت، عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ، نوفل بن مساحق، ان کے سلسلۂ روایت میں داخل ہیں۔ اخلاق دیانت، حق پرستی ،صبروشکر جرأت اظہار حق ان کے صحیفہ اخلاق کے نمایاں ابواب ہیں جس کا مفصل تذکرہ اوپر گذرچکا ہے،یہاں اس کے اعادہ کی چنداں ضرورت نہیں۔