انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** عرب کی اخلاقی حالت ملک عرب جیسا کہ اوپر بیان ہوچکا ہے،قدیم سے سامی خاندان کا گہوارہ رہاہے،طبقہ اولیٰ یعنی عرب بائدہ کے حالات بہت ہی کم معلوم ہوسکے ہیں اوران سے یہ اندازہ نہیں ہوسکتا کہ عرب بائدہ کی اخلاقی حالت اپنے ہم عصرا قوام عالم کے مقابلہ میں کیا تھی،تاہم یہ قیاس ضرور کیا جاسکتا ہے کہ اس کے ابتدائی زمانے میں جب کہ ربع مسکون پر انسانی آبادی تعدادِ نفوس کے اعتبار سے بہت کم ہوگی،عموماً سب کی اخلاقی حالت ایک ہی درجہ کی ہوگی،بنی اسمٰعیل کے عروج وترقی سے پیشتر اور عرب بائدہ کے بعد قحطانی عربوں کے دور دورہ میں عرب کے اندر بہت سی حکومتوں اورسلطنتوں کا پتہ چلتا ہے؛ لیکن کسی زمانہ میں بھی کوئی ایک سلطنت تمام ملکِ عرب پر قابض ومتصرف نہیں ہوئی،صوبہ صوبہ میں علیحدہ علیحدہ حکومتیں قائم تھیں اوراُن میں بعض زیادہ مشہور بھی تھیں،تاہم ملک کے اندر آزاد گروہ خانہ بدوشی کے عالم میں اونٹوں پر اپنے خیمے اور چھولداریاں لادے ہوئے سفر کرتے اور پھرتے ہوئے دیکھے جاتے رہے ہیں،سبزہ ،پانی،ضروریات زندگی کی نایابی نے اہل عرب کو ہمیشہ آوارہ وسرگرداں اوراس مدامی سفر نے اُن کو ہمیشہ جفا کش اورمستعد رکھا،ضروریاتِ زندگی کی کمی نے اُن کے تمدن کو ترقی کرنے نہیں دی اوراُن کی معاشرت میں کوئی نمایاں اصلاح اور قابلِ تذکرہ تغیر واقع نہ ہوا،مشاغل کی کمی اورمناظر کی ایک رنگی نے اُن کی فرصتوں کو بہت وسیع اورفارغ اوقات کو بہت طویل کردیا تھا،ریگستانوں کی وسعت وکثرت،پیداوار،ملکی اورقیمتی اشیاء کی ناپیدگی آبادیوں اورشہروں کی قلت نے کسی بیرونی فتح مند قوم اورملک گیر بادشاہ کو ملکِ عرب کی طرف متوجہ نہ ہونے دیا،سیاحوں اورتاجروں کے متوجہ کرلینے کا بھی کوئی سامان اس جزیرہ نما میں نہ تھا لہذا غیر قوموں اوردنیا کے دوسرے ملکوں کی ترقیات سے اہل عرب عموماً بے خبر رہے اور کسی بیرونی ملک اوربیرونی قوم کے تمدن،اخلاق اورمعاشرت سے اہلِ عرب متاثر نہ ہوسکے،خواجہ حالی نے عرب کی نسبت بالکل صحیح لکھا ہے کہ نہ وہ غیر قوموں ،پہ چڑھ کر گیاتھا نہ اس پر کوئی غیر فرماں روا تھا