انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ریاست بنوسلیمان (مکہ) مکہ مکرمہ کی حکومت پردربارِ خلافت بغداد سے عاملوں کا تقرر ہوا کرتا تھا؛ مگرسنہ۳۰۱ھ میں ایک شخص محمد بن سلیمان نے جوسلیمان بن داؤد بن حسن مثنیٰ بن حسن بن علی بن ابی طالب کی اولاد میں سے تھا، اپنی خود مختار حکومت قائم کی (محمد بن سلیما نکوسلیمان بن داؤ دکا بیٹا نہیں سمجھنا چاہیے، ان دونوں سلیمانوں کے درمیان غالباً دوتین شخص اور ہیں) محمد بن سلیمان کی قائم کی ہوئی یہ ریاست سنہ۴۳۰ھ تک قائم رہی، اس سواسوسال سے زیادہ عرصہ میں مکہ مکرمہ کے اندر بڑے بڑے فساد اور ہنگامے برپا رہے، چار پانچ شخصوں نے اس خاندان میں مکہ کی حکومت کی؛ مگران کی حکومت عجیب قسم کی تھی، ایامِ حج میں مصر اور بغداد کے قافلے آتے اور امارت حج اور خطبہ پڑھنے میں جھگڑا ہوتا، آپس میں لڑتے اور حاکم مکہ کوکوئی چیز نہ سمجھا جاتا؛ اگربغداد کا امیرحج غالب ہوا تواس نے بنوبویہ اور خلیفہ بغداد کے نام کا خطبہ پڑھا؛ اگرمصری امیرحج غالب ہوگیا تواس نے بنواخشید کے نام کا خطبہ پڑھا؛ پھرجب عبیدی مصر پرغالب ومتصرف ہوگئے توعبیدیوں اور عباسیوں کے خطبہ میں جھگڑا ہوتا، ادھرقرامطہ آجاتے توانہیں کا عمل دخل قائم ہوجاتا، وہ تمام حاجیوں کوقتل کرتے اور لوٹ مار مچادیتے، کبھی مصری لوگ سنگ اسود کی بے حرمتی کرتے، پتھرمارتے اور سنگ اسود کوگالیاں دیتے توعراقی لوگ مشتعل ہوکر ان کوقتل کرناشروع کردیتے؛ اسی زمانے میں قرامطہ سنگ اسود کواکھیڑ کربحرین لے گئے اور بیس یازیادہ برسوں کے بعد مکہ میں واپس بھیجا؛ غرض ایام حج میں بنوسلیمان کی حکومت کا کوئی نشان مکہ میں نہیں پایا جاتا تھا، یہ لوگ زیدیہ شیعہ تھے، اس لیے بالطبع عبیدیوں کی جانب مائل تھے؛ مگران کی حالت یہ تھی کہ جس کوطاقتور دیکھتے؛ اسی کا کلمہ پڑھنے لگتے۔