انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** آثارِ صحابہ رضی اللہ عنہم کی تشریعی حیثیت ہمارے نبی کریمﷺ اور دیگرانبیاء کرام کے بعد دنیائے انسانیت میں کوئی تقدس مآب اور قابل صداحترام اگرجماعت ہے تووہ حضراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم کی ہے، جوعشقِ نبوی سے سرشار، نورِ نبوت سے فیض یاب اور وحی الہٰی کی روشنی میں تربیت یافتہ تھی، نورِ نبوت کی روشنی کی کرنیں ان پرکیا پڑیں ان کے قلوب مجلی ومصفی ہوگئے، بارگاہِ الہٰی کے منتخب اورچنیدہ بندے قرار پائے، دنیا ہی میں منجانب اللہ خوشنودی رب کے تمغہ امتیاز سے سرفراز ہوگئے، یہ وہ مقدس گروہ ہے جورسول اللہﷺ اور عام امت کے درمیان ایک منتخب کردہ واسطہ ہے، اس واسطہ کے بغیر نہ امت کوقرآن ہاتھ آسکتا ہے نہ قرآن کے وہ مضامین جن کوقرآن میں رسول اللہﷺ کے بیان پرچھوڑا گیا لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَانُزِّلَ إِلَيْهِمْ (النحل:۴۴) اور نہ رسالت اور اس کی تعلیمات کا اس واسطے کے بغیر علم ہوسکتا ہے، یہ رسول اللہﷺ کی زندگی کے ساتھی، آپ کی تعلیمات کواپنے آل واولاد سے اور اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھنے والے اور آپ کے پیغام پراپنی جانیں نثار کرنے والے تھے، صحابہؓ اور عام امت کے درمیان یہ وہ واسطہ ہیں جس کے بغیر نہ قرآن کوسمجھا جاسکتا ہے اور نہ حدیث کو؛ اگرصحابہؓ کے اس واسطے کودرمیان سے ہٹادیا جائے تونہ صرف قرآن وحدیث کا سمجھنا مشکل ہوجائے گا؛ یہی وجہ ہےکہ قرآن وحدیث کی حیثیتِ تشریعی کوباقی رکھنے کے لیے آثارِ صحابہ واقوال واعمال صحابہ کی توضیح وتشریح کو بھی بے انتہا اہمیت حاصل ہے۔ اقوالِ صحابہ، اعمالِ صحابہ وآثارِ صحابہ باین حیثیت شرعی حجت ہیں کہ وہ آپ ﷺ کے تربیت یافتہ اور آپ کے فیض صحبت سے تزکیہ وتصفیہ کی دولت پاتے تھے، ان کے اعمال واقوال میں حضوراکرمﷺ کی تعلیم قدسی کی جھلک اور پرتو تھی اور ان ہی کے واسطے سے دین کا تسلسل قائم ہے، علمِ حدیث کوحضوراکرمﷺ کے ارشادات واعمال کے ساتھ آپ کے اصحاب کرام کے اقوال واعمال کا بے حد ربط اور تعلق ہے؛ یہی وجہ ہے کہ حدیث کی تقریباً کتابوں میں ان نفوسِ قدسیہ کے فضائل ومناقب کے بیان کے لیے مستقل ابواب ہیں، انہیں چھوڑ کر دین پرچلنے کی کوئی راہ نہیں۔ محدثین کرام کتبِ حدیث میں صرف مرفوع حدیثیں (وہ حدیثیں جوحضورﷺ تک پہنچتی ہوں) ہی نہیں لکھتے؛ بلکہ ان میں ایک بڑا ذخیرہ ان روایات کا بھی ہوتا ہے جن میں صحابہؓ کے اقوال واعمال مروی ہوں اور یہ سلسلہ روایات مرفوع احادیث کے ساتھ ساتھ چلتا ہے، امام زہریؒ (۱۲۴ھ) اور صالح بن کیسان (۱۴۰ھ) حدیث کی طالب علمی میں اکٹھے رہے ان دونوں نے جمعِ حدیث کے لیے کمرباندھی، جب ان دونوں نے مرفوع روایات لکھ ڈالیں توآپس میں مشورہ کیا کہ صحابہ کے اقوال واعمال بھی ساتھ میں لکھے جائیں یانہیں؟ صالح بن کیسان کا بیان ہے کہ میں نے کہا: لالیس بسنۃ نہیں لکھے جائیں؛کیونکہ وہ سنت نہیں ہیں؛ اور امام زہریؒ نے کہابلی ھوسنۃ کیوں نہیں وہ بھی سنت ہیں،سو انہوں نے لکھا اور میں نے نہ لکھا، وہ کامیاب رہے اور میں ضائع ہوگیا۔ (مصنف عبدالرزاق، باب کتاب العلم، حدیث نمبر:۲۰۴۸۷) بہرِحال یہ حقیقت ہے کہ صحابہ کرامؓ کے اقوال واعمال بھی حدیث کا موضوع ہیں، صحیح بخاری ومسلم ہی کودیکھ لیجئے، ان میں صحابہ کی روایات کس قدر پائی جاتی ہیں، امام مالکؒ سے لیکر مستدرک اور سنن بیہقی تک کودیکھئے ہرکتاب میں صحابہؓ وتابعین کے ارشادات، آثار اور فتاوے بکثرت ملیں گے، انہیں دیکھ کر یقین ہوتا ہے کہ امامِ زہریؒ واقعی کامیاب رہے اور جنہوں نے صحابہ کی روایت کوحدیث کا موضوع اور قابل حجت اور دلیلِ شرعی نہیں سمجھا ان کی محنتیں ضائع ہوگئیں، اس لیے حق یہ ہے کہ علم حدیث کا موضوع صحابہ کی زندگیوں کوبھی شامل ہے اور ان کے تعامل کومعلوم کیے بغیر حدیث کی معرفت دشوار کن ہے؛ یہی اکابرِامت ہیں کہ جب تک علم ان سے ملے گا اس میں خیر ہے اور جب لوگ اپنے جیسوں سے علم لینے لگیں تواس میں ہلاکت ہوگی حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ (۳۲ھ) فرماتے ہیں: لايزال الناس صالحين متماسكين ماأتاهم العلم من أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم ومن أكابرهم، فإذا أتاهم من أصاغرهم هلكوا۔ (مصنف عبدالرزاق، باب العلم، حدیث نمبر۲۰۴۸۳) ترجمہ:جب تک علم اصحابِ رسول سے اور اپنے بڑوں سے آتا رہے لوگ نیک اور مضبوط رہیں گے اور جب لوگوں کوعلم ان کے اصاغر سے ملنے لگے (جواوپر سے لینے والے نہیں اپنے طور پر سوچنے والے اہلِ ہواء ہیں) وہ ہلاک ہوں گے۔ حضرت امام اوزاعی (۱۵۷ھ) نے بقیہ بن ولید کونہایت واضح الفاظ میں کہا تھا کہ جوچیز صحابہ سے منقول نہ ہو وہ علم ہی نہیں: يابقية، العلم ماجاء عن أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم ومالم يجئ عن أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم فليس بعلم۔ (جامع بیان العلم وفضلہ، باب بیان معرفۃ العلم:۲/۲۹، دارالکتب العلمیۃ) حضرت عبداللہ بن عمر کی عظمت ومنزلت صحابہ میں محتاج تعارف نہیں، آپ اکابر اہل علم میں سے ہیں، آپ کھل کرکہتے تھے کہ حضوراکرمﷺ کے بعد اگرکوئی قابل اقتداء ہے تووہ اصحاب رسول ہیں، ان کا علم گہرا تھا، وہ تکلف سے کوسوں دور تھے، ان کے دل نیک تھے، انھیں اللہ عزوجل نے اپنے نبی پاکﷺ کی صحبت کے لیے چن لیا تھا۔ مَنْ كَانَ مِنْكُمْ مُسْتَنًّا فَلْيَسْتَنَّ بِمَنْ قَدْ مَاتَ، فَإِنَّ الْحَيَّ لَاتُؤْمَنُ عَلَيْهِ الْفِتْنَةُ، أُولَئِكَ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍﷺ کَانُوْا اَفْضَلَ هَذِهِ الْأُمَّةِ ابرَّھًا قُلُوبًا، وَأَعْمَقُهَا عِلْمًا، وَأَقَلُّهَا تَكَلُّفًا اخْتَارَهُمْ اللَّهُ لِصُحْبَةِ نَبِيِّهِ وَلْإِقَامَةِ دِينِهِ، فَاعْرِفُوْا لَهُمْ فَضْلَھُمْ وَاتَّبَعُوْا عَلَی آثَارِهِمْ، وَتَمَسَّكُوا بِمَااسْتَطَعْتُمْ مِنْ أَخْلَاقِهِمْ وَسِیَرَھُمْ فَإِنَّهُمْ كَانُوا عَلَى الْهُدَى الْمُسْتَقِيمِ۔ (حلیۃ الاؤلیاء، عبداللہ بن عمر بن خطاب:۱/۳۰۵، دارالکتاب العربی، الطبعۃ الرابعۃ) ترجمہ:جوشخص کسی کی پیروی کرنا چاہے اسے فوت شدگان کی پیروی کرنا چاہیے؛ کیونکہ زندہ کوفتنے سے محفوظ نہیں سمجھا جاسکتا وہ فوت شدگان اصحاب رسول ہیں، جواس امت کا بہترین طبقہ تھے، ان کے دل نیک تھے، ان کا علم گہرا تھا، تکلف سے بہت دور تھے، اللہ نے انہیں اپنے نبی کی صحبت کے لیے اور اس کے دین کی اقامت کے لیے چن لیا تھا، ان کے فضل کوپہچانو، ان کے نقشِ پا کی پیروی کرو؛ جہاں تک ہوسکے ان کے اخلاق اور ان کی عادات سے سند پکڑو، بے شک وہ سیدھے راہ پر تھے۔ حضرت حسن بصریؒ نے تواسے قسم کھاکر یہاں تک کہا ہے اور ان کے عمل کوصراطِ مستقیم ٹھہرایا ہے: فتشبہوا باخلاقھم وطرائقھم فانھم ورب الکعبۃ علی الصراط المستقیم۔ (حلیۃ الاؤلیا، عبداللہ بن عمر:۱/۳۰۶، دارالکتاب العربی) ترجمہ:ان کے اخلاق اور عادتوں کواپناؤ، رب کعبہ کی قسم صحابہ سب صراطِ مستقیم پرتھے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے ایک اور موقع سے فرمایا: اتبعوا آثارنا ولاتبتدعوا فقد کفیتم۔ (کتاب الاعتصام للشاطبی، الباب الثانی فی ثم البدع:۱/۷۹، مکتبۃ التجاریۃ الکبری، مصر) ترجمہ:تم ہم صحابہ کے نقش قدم پر چلتے رہو، نئی نئی باتیں نہ نکالو، ہماری پیروی تمہارے لیے کافی ہے۔ یہاں پرعبداللہ بن مسعود صحابہ کے آثار کوپوری امت کے لیے نمونہ کہا ہے اور اس پربھی متنبہ فرمایا کہ بدعت کی حد صحابہ کے بعد سے شروع ہوتی ہے، آنحضرتﷺ نے خود بھی صحابہ کرام کوفرمادیا تھا کہ لوگ تمہارے مقتدی ہوں گے دنیا کے مختلف کناروں سے تم سے دین لینے آئیں گے، حضرت ابوسعید خدریؓ (۵۷ھ) کہتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا: إِنَّ النَّاسَ لَكُمْ تَبَعٌ وَإِنَّ رِجَالًا يَأْتُونَكُمْ مِنْ أَقْطَارِ الْأَرَضِينَ يَتَفَقَّهُونَ فِي الدِّينِ۔ (ترمذی، كِتَاب الْعِلْمِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،بَاب مَاجَاءَ فِي الِاسْتِيصَاءِ بِمَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ،حدیث نمبر:۲۵۷۴، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:بے شک (بعد میں آنے والے ) لوگ تمہارے پیرو ہوں گے وہ دنیا کے کناروں سے تمہارے پاس پہونچیں گے تاکہ دین میں (اپنے لیے) کچھ سمجھ پیدا کرلیں۔ اس میں یہ نہیں فرمایا کہ وہ میری روایات لینے کے لیے تمہارے پاس پہونچیں گے؛ بلکہ فرمایا يَتَفَقَّهُونَ فِي الدِّينِ وہ دین کی سمجھ لینے کے لیے تمہارے پاس پہونچیں گے۔ معلوم ہوا کہ فہم صحابہ حجت اور سند ہے اور بعد میں آنے والے لوگوں کے لیے ان کی پیروی اور ان کے پاس دین سیکھنے کے لیے آنا اور ان سے دین سمجھنا لازم اور ضروری ہے، حضرت شیخ محدث عبدالحق دہلویؒ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں: فیہ أن الصحابۃ متبوعون یجب علی الناس متابعتہم والاتیان علیہم لطلب العلم۔ (لمعات التنقیح) ترجمہ:اس حدیث سے ثابت ہوتاہےکہ صحابہ مقتدا اور پیشوا ہیں، لوگوں پران کی پیروی کرنا اورطلبِ علم کے لیے ان کے پاس آنا واجب ہے۔ کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ حضراتِ صحابہؓ صرف تابعین کے لیے قابل اقتدا ہیں؛ بلکہ ان کی پیروی ان کے بعد بھی جاری رہے گی اور امت ان کے عہد میں بھی اور ان کے بعد بھی ہمیشہ ان کواپنا مقتدا اور پیشوا سمجھے گی، حضرت امام نوویؒ (۶۷۶ھ) لکھتے ہیں: أَنَّهُمْ الْأَئِمَّة الْأَعْلَام، وَقَادَة الْإِسْلَام، وَيُقْتَدَى بِهِمْ فِي عَصْرهمْ وَبَعْدهمْ۔ (شرح صحیح مسلم للنووی، كِتَاب الْحَجّ، بَاب بَيَان وُجُوه الْإِحْرَام وَأَنَّهُ يَجُوز إِفْرَاد الْحَجّ وَالتَّمَتُّع:۸/۱۳۶، داراحیاء التراث العربی، بیروت، الطبعۃ الثانیۃ) ترجمہ: بے شک یہ حضرات (صحابہ کرام) مرکزی پیشوا ہیں اور یہی حضرات قافلہ اسلام کے قائدہیں، ان کی پیروی ان کے اپنے وقتوں میں بھی تھی اور ان کے بعد بھی جاری رہے گی۔ امام نوویؒ نے صحابہ کویہ جوپیشوا اور مقتدی کہا یہ تعبیر خود حضرات صحابہؓ سے لی گئی ہے، حضرت عمرؓ نے آنحضرتﷺ اورحضرت ابوبکر صدیقؓ کے بارے میں فرمایا: هُمَا الْمَرْءَانِ يُقْتَدَى بِهِمَا۔ (بخاری،كِتَاب الِاعْتِصَامِ بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ،بَاب الِاقْتِدَاءِ بِسُنَنِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ،حدیث نمبر:۶۷۳۳، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:یہ وہ دومرد ہیں جن کی پیروی کی جائے گی۔ یہ حضرت عمرؓ کے حوالے سے کہا ہے، باقی احاد امت کے لیے حضرت عمرؓ نے کل صحابہ کرام کوپیشوا ٹھہرایا ہے، ایک دفعہ حضرت عمرؓ نے طلحہ بن عبیداللہ پرحالتِ احرام میں رنگ دار چادر دیکھی،حضرت طلحہ ؓنے کہا:جناب اس رنگ میں خوشبو نہیں __________ عام لوگوں کے لیے اس میں مغالطہ کا اندیشہ تھا، اس پرحضرت عمرؓ نے حضرت طلحہ کومخاطب کرکے کہا: إِنَّكُمْ أَيُّهَا الرَّهْطُ أَئِمَّةٌ يَقْتَدِي بِكُمْ النَّاسُ۔ (مؤطا امام مالک،كِتَاب الْحَجِّ،بَاب لُبْسِ الثِّيَابِ الْمُصَبَّغَةِ فِي الْإِحْرَامِ، حدیث نمبر:۶۲۶، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:اے اس گروہ کے لوگو! تم امام ہو لوگ تمہاری پیروی کریں گے۔ اور ایک موقع پر فرمایا: إنَّكُمْ مَعْشَرَ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ مَتَى تَخْتَلِفُونَ تَخْتَلِفُ النَّاسُ بَعْدَكُمْ وَالنَّاسُ حَدِيثُ عَهْدٍ بِالْجَاهِلِيَّةِ ، فَأَجْمِعُوا عَلَى شَيْءٍ يَجْمَعُ عَلَيْهِ مَنْ بَعْدَكُمْ۔ (شرح فتح القدیر لابن ہمام، فصل فی الصلاۃ علی المیت:۲/۱۲۳، دارالفکر، بیروت) ترجمہ:بیشک تم حضورﷺ کے صحابہ ہو جب تم اختلاف میں پڑوگے توتمہارے بعد اور اختلاف کرنے لگیں گے، لوگ ابھی ابھی جاہلیت سے نکلے ہیں تم ایک بات پرجمع ہوکر رہو بعد والے بھی اس پرجمع رہیں گے۔ حضرت حذیفۃ الیمان نے مدائن میں ایک یہودی عورت سے نکاح کرلیا توباوجود یکہ اہلِ کتاب سے نکاح حلال تھا حضرت عمرؓ نے انہیں حکم دیا کہ وہ فوراً اسے طلاق دیں، اس کی وجہ آپ نے یہ فرمائی کہ صحابی کی حیثیت چونکہ مقتداء کی ہوتی ہے اس لیے اندیشہ ہے کہ اورمسلمان بھی اس راہ پرنہ چل پڑیں آپ نے انہیں لکھا: أعزم عليك ألاتضع كتابي هذا، حتى تخلي سبيلها، فإني أخاف أن يقتدي بك المسلمون، فيختارون نساء أهل الذمة لجمالهن۔ (کتاب الآثار، بحوالہ: الفِقْهُ الإسلاميُّ وأدلَّتُهُ:۹/۱۴۶، الناشر:دار الفكر،سوريَّة،دمشق) ترجمہ:میں تجھے قسم دیتا ہوں کہ میرا یہ خط رکھنے سے پہلے اس عورت کوفارغ کردو، مجھے ڈر ہے کہ مسلمان تمہاری پیروی کریں اور اہلِ ذمہ کی عورتوں کوان کے حسن وجمال کی وجہ سے پسند کرنے لگیں۔ اسلام میں صحابہ کی مقتداء کی حیثیت ہمیشہ ہی مسلم رہی ہے، حضرت عمرؓ نے ایک دفعہ حضرت عبدالرحمن بن عوف کوایک خاص قسم کے موزے پہنے دیکھا، آپ نے فرمایا: عَزَمْتُ عَلَيْكَ إِلَّانَزَعْتَهُمَا فَإِنِّي أَخَافُ أَنْ يَنْظُرَ النَّاسُ إِلَيْكَ فَيَقْتَدُونَ بِكَ۔ (مسنداحمد بن حمبل، حديث عبد الرحمن بن عوف الزهري رضي الله عنه،حدیث نمبر:۱۶۶۸، شاملہ، الناشر: مؤسسة قرطبة،القاهرة) ترجمہ:میں تمھیں قسم دیتا ہوں کہ انہیں ابھی اتار دومجھے ڈر ہے کہ لوگ تمھیں اس طرح دیکھیں اور تمہاری پیروی کرنے لگیں۔ صحابہ کی حیثیت مقتدا اور ان کے اعمال کی حیثیت حجتِ شرعیہ کی نہ ہوتی توصحابہ کو اس قدر محتاط رہ کرقدم اٹھانے کے لیے نہ کہا جاتا، حضرت فاروقِ اعظمؓ نے حضرت عبداللہ بن مسعود کوجب کوفہ بھیجا توان کے ساتھ حضرت عماربن یاسر بھی تھے، دونوں کی عبقری شخصیت صحابہ میں خوب معروف تھی، حضرت فاروقِ اعظم نے سب اہلِ کوفہ کوان کی اقتداء کا حکم دیا۔ فاقتدوا بهما واسمعوا، وقد آثرتكم بعبد الله بن مسعود على نفسي۔ (تذکرۃ الحفاظ، الطبقۃ الاولی من الکتاب:۱/۱۴) ترجمہ:تم ان دونوں کی اتباع کرو اور ان کی بات مانو اور بے شک میں نے عبداللہ بن مسعود کوتمہارے یہاں بھیج کرتمھیں اپنی ذات پرترجیح دی ہے۔ صحابہ کی اتباع تابعین میں جاری رہی اور ہرہرروایت پرکوئی نہ کوئی صحابی ضرور عامل رہا اور اس طرح جملہ احادیث تابعین میں پھیلتی گئیں، صحابہ کی مقتداوالی پوزیشن تابعین اور تبع تابعین میں مسلم رہی، حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ تعلیم شریعت رہتی دنیا تک اسی تسلسل سے رہنی چاہیے۔ تعلموا منی احکام الشریعۃ لیتعلم منکم التابعون بعدکم وکذالک اتباعھم الی انقراض الدنیا۔ (فتح الباری، قولہ باب ھل یأخذالامام اذاشک:۲/۲۰۵، دارالمعرفۃ، بیروت) ترجمہ:تم مجھ سے احکامِ شریعت سیکھو! تم سے تابعین سیکھیں اور اسی طرح تبع تابعین ان سے سیکھیں اور اسی طرح تبع تابعین سےلوگ سیکھیں؛ یہاں تک کہ دنیا اپنے آخر کوجاپہونچے۔ حضرت سالم بن عبداللہ نے حضرت ابوبکر صدیق کے پوتے حضرت قاسم بن محمد سے قرأۃ خلف الامام کا مسئلہ پوچھا توآپ نے فرمایا: ان ترکت فقد ترکہ اناس یقتدی بھم وان قرأت فقد قرأہ ناس یقتدی بھم۔ (موطا محمد، باب القرأۃ فی الصلاۃ، حدیث نمبر:۱۱۹، دارالقلم دمشق، الطبعۃ الاؤلی) ترجمہ:اگرقرأۃ خلف ا لامام چھوڑدو توبیشک اسے ان لوگوں نے ترک کیا جوامت کے مقتدا تھے (یعنی صحابہ کرامؓ) اور تم پڑھ لوتوبیشک ان لوگوں نے پڑھا ہے جن کی امت میں پیروی کی جارہی ہے۔ تابعین میں اس اس پیرائے میں صحابہ کرامؓ کا ذکر ان کے مقتدٰی ولی حیثیت کوواضح کرتا ہے؛ انہیں سے سنت اسلام جاری ہوئی حضرت سعد بن ابی وقاصؓ (۵۵ھ) جب گھر میں نماز پڑھتے تونماز لمبی کرتے، رکوع وسجود طویل کرتے اور جب مسجد میں نماز پڑھتے توجلدی کرتے، آپ کے بیٹے مصعب نے اس کی وجہ پوچھی، آپ نے فرمایا: قَالَ أَنَا ائِمَّۃ یقتدی بنا (مصنف عبدالرزاق، حدیث نمبر:۳۷۲۹،شاملہ، موقع یعسوب) ترجمہ:اے بیٹے! بیشک ہم صحابہ ائمہ ہیں ہماری پیروی (امت میں) کی جاتی رہے گی۔ صحابہ کے عمل کے لیے سنت کا اطلاق آثار واعمالِ صحابہ چونکہ حدیث کے بعد حجت شرعیہ اور سنتِ رسول کی طرح قابل عمل واتباع گردانے جاتے تھے اس لیے نبی کریمﷺ نے بھی اپنی سنت کے ساتھ خلفائے راشدین کے عمل کوسنت گردانا ہے، آپ نے فرمایا: فَمَنْ أَدْرَكَ ذَلِكَ مِنْكُمْ فَعَلَيْهِ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ۔ (ترمذی، كِتَاب الْعِلْمِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،بَاب مَاجَاءَ فِي الْأَخْذِ بِالسُّنَّةِ وَاجْتِنَابِ الْبِدَعِ ،حدیث نمبر:۲۶۰۰،شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:سوتم میں سے جوشخص اس وقت کوپائے سواسے چاہیے کہ میری سنت اور خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑے۔ آپ نے خلفا ئے راشدین کے علاوہ دیگر حضرات صحابہ کے عمل پرسنت کا اطلاق کیا ہے ایک دفعہ آپﷺ نے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے عمل کے حوالے سے فرمایا: إن ابن مسعود سن لكم سنة فاستنوا بها۔ (مصنف عبدالرزاق، باب الذی کون لہ، حدیث نمبر:۳۱۷۶، شاملہ، موقع یعسوب) ترجمہ:بیشک ابن مسعود نے تمہارے لیے ایک طریقہ واضح کیا ہے، اس کی پیروی کرتے رہنا۔ علامہ ابن ہمام (۶۸۱ھ)، حضرت معاذ بن جبل (۱۸ھ) کے بارے میں روایت کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: قد سن لکم معاذ فاقتدوا بہ (فتح القدیر، لابن ہمام، فی الصلاۃ علی المیت:۲/۱۲۵،دارالفکر، بیروت) ترجمہ:معاذ نے تمہارے لیے ایک سنت قائم کیا ہے، سو تم اس کی پیروی کرو، جولوگ دنیا میں دین قائم کرنے کے لیے چنے گئے تھے اور انہیں خدا تعالیٰ نے آخری پیغمبر کی صحبتِ قدسیہ کے لیے پیدا کیا تھا جو دین کوآگے پہونچانے میں امینِ نبوت تھے، توہدایت اگران کے نقشِ قدم پر نہیں تو اور کہاں ملے گی؟ حضرت عباد بن عباد الخواص الشامی لکھتے ہیں: وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِمَاماً لأَصْحَابِهِ، وَكَانَ أَصْحَابُهُ أَئِمَّةً لِمَنْ بَعْدَهُمْ۔ (سنن دارمی، كتاب المقدمة،بَابُ رِسَالَةِ عَبَّادِ بْنِ عَبَّادٍ الْخَوَّاصِ الشَّامِىِّ،حدیث نمبر:۶۷۴، شاملہ، موقع وزارة الأوقاف المصرية) حضورﷺ اپنے صحابہؓ کے امام تھے اور آپ کے صحابہ اپنے بعد میں آنے والے لوگوں کے امام تھے۔ امام شہاب زھریؒ نے (۱۲۴ھ) صاف الفاظ میں صالح بن کیسان سے کہہ دیاتھا نکتب ماجاء من اصحابہ فانہ سنۃ (تاریخ ابوزرعۃ،الخامس من التاریخ:۱/۳۸) ترجمہ:ہم صحابہ سے کی گئی مرویات بھی لکھیں گے؛ کیونکہ وہ بھی سنت ہیں۔ صحابہ کرام کے پیشوا والی حیثیت اہلِ حق میں مسلم رہی ہے، امام اعظم اور امام احمد توان کی پیروی کوواجب قرار دیتے ہیں؛ یہی حضرات اسلام کا ہراول دستہ تھے، ان کے بعد آنے والے اس کے تابعین تھے کہ یہ حضرات متبوعین تھے؛ اگران کی پیروی جاری نہ ہوتی تواس امت کی دوسری صف بھی تابعین کا اعزاز نہ پاتی، جلیل القدر تابعی خلیفہ راشد حضرت عمر بن عبدالعزیز (۱۰۰ھ) صحابہ کی دینی بصیرت کا ان پرشکوہ الفاظ میں ذکر کرتے ہیں: فَارْضَ لِنَفْسِكَ مَارَضِيَ بِهِ الْقَوْمُ لِأَنْفُسِهِمْ فَإِنَّهُمْ عَلَى عِلْمٍ وَقَفُوا وَبِبَصَرٍ نَافِذٍ كَفُّوا وَهُمْ عَلَى كَشْفِ الْأُمُورِ كَانُوا أَقْوَى وَبِفَضْلِ مَاكَانُوا فِيهِ أَوْلَى فَإِنْ كَانَ الْهُدَى مَاأَنْتُمْ عَلَيْهِ لَقَدْ سَبَقْتُمُوهُمْ إِلَيْهِ۔ (ابوداؤد، كِتَاب السُّنَّةِ،بَاب لُزُومِ السُّنَّةِ،حدیث نمبر۳۹۹۶، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:تم اپنے لیے وہی (عقیدہ اور عمل) پسند کرو جوصحابہ نے اپنے لیے پسند کیا تھا وہ علم پرپوری طرح جمے تھے اور دین پرگہری نظر رکھتے تھے، وہی حقیقتوں کے کھلنے کی تم سب سے زیادہ اہمیت رکھتے تھے اور علم وفضل میں وہ تم سے بہت آگے تھے؛ اگرتم یہ سمجھ بیٹھے ہوکہ تم (ا ن سے ہٹ کر) راہِ راست پرہوتوتم اس کے مدعی ہوکر دین میں تم ان سے آگے نکل گئے۔ حضرت عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی یہ نصیحت کہ اپنے لیے وہی عقیدہ اور عمل پسند کرو جوصحابہ نے اپنے لیے کیا تھا یہ سننِ ابوداؤد جیسی حدیث کی مرکزی کتابوں میں اس قسم کی نصیحتوں کا ہونا پتہ دیتا ہے کہ صحابہ کی شخصیات کریمہ بے شک علمِ حدیث کا موضوع ہیں اور ان کے اعمال واقوال کوجانے بغیر تعلیماتِ رسالت کوان کے صحیح پیمانے میں اتارنا کسی طرح ممکن نہیں؛ یہی وجہ ہے حدیث کی تقریباً ہرکتاب میں صحابہ کے اقوال واعمال کوقرار واقعی جگہ دی گئی ہے اور حق یہ ہے کہ ان کا اتفاق واجماع ہی علمِ صحیح اور حجت ثابتہ ہے، حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ (۴۶۳ھ) لکھتے ہیں: إجماع الصحابة حجة ثابتة وعلم صحيح إذاكان طريق ذلك الإجماع التوقيف فهو أقوى مايكون من السنن وإن كان اجتهادا ولم يكن في شيء من ذلك مخالفا فهوأيضا علم وحجة لازمة قال الله عز وجل: ﴿ وَيَتَّبِعْ غَيْرَسَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَاتَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيراً﴾ وهكذا إجماع الأمة، إذااجتمعت على شيء فهو الحق الذي لاشك فيه۔ (التمهيد لمافي الموطأ من المعاني والأسانيد:۴/۲۶۷، شاملہ، موقع مكتبة المدينة الرقمية) ترجمہ:صحابہ کا اجماع ایک حجۃ قائمہ اور علم ثابت ہے یہ اجماع توقیف سے ہوتویہ سنن میں سب سے زیادہ قوی ہے اور اگریہ اجتہاد سے ہواور کوئی بات اس کے خلاف نہ ٹھہرے تویہ بھی علمِ ثابت اور حجۃ ہی ہے، قرآن کریم میں ہےجومؤمنین کے طریقے کے خلاف چلے ہم اسے ادھر ہی لوٹا دیتے ہیں جدھر وہ خود پھرا اور اسے جہنم میں پہنچادیتے ہیں اور وہ بہت برا ٹھکانہ ہے اس طرح (اس اجماع کی طرح ) امت کا اجماع ہے جب وہ کسی بات پرجمع ہوگی تووہ ایسی سچائی ہے جس میں شک نہیں کیا جاسکتا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی شخصیات جرح سے بالا تر ہیں، حافظ ابن اثیرؒ جزری (۶۳۰ھ) کہتے ہیں: لايتطرق إليهم الجرح؛ لأن الله عز وجل ورسوله زكياهم وعدلاهم۔ (اسدالغابۃ، مقدمۃ المؤلف:۱/۱۱۰، دارالکتب العلمیۃ، بیروت) ترجمہ:جرح ان کی طرف راہ نہیں پاتی؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے ان کا تزکیہ کیا اور تعدیل کی ہے۔ جب یہ حضرات جرح وتعدیل سے بالا ہیں اور سب کے سب عدول ہیں توان کے تعلیم رسالت سے تعلیم یافتہ ہونے اور تزکیہ رسالت سے تزکیہ یافتہ ہونے کا تقاضا ہے کہ ان میں سے ہرایک کوسند سمجھا جائے، حضرت امام احمد بن حنبلؒ سے پوچھا گیا کہ جب صحابہؓ کسی مسئلہ میں خود مختلف ہوں توان میں غور کرنا کہ کس کی بات راست ہے کیا جائز ہے؟ آپ نے فرمایا: تم جس کی چاہے پیروی کرو؛ لیکن ان میں سے کسی کے موقف پر رائے زنی نہ کرو: إذَااخْتَلَفَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَسْأَلَةٍ هَلْ يَجُوزُ لَنَا أَنْ نَنْظُرَ فِي أَقْوَالِهِمْ لِنَعْلَمَ مَعَ مَنْ الصَّوَابُ مِنْهُمْ فَتَتَبَّعْهُ فَقَالَ لَايَجُوزُ النَّظَرُ بَيْنَ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْت كَيْفَ الْوَجْهُ فِي ذَلِكَ فَقَالَ تُقَلِّدُ أَيَّهُمْ أَحْبَبْت۔ (جامع بیان العلم وفضلہ، باب جامع بیان مایلزم الناظر:۲/۸۳، دارالکتب العلمیہ) ترجمہ:صحابہ کرام میں جب کسی مسئلہ میں اختلاف ہوتوکیا جائز ہے کہ ہم ان کے اقوال کا جائزہ لیں کہ راستی کس کے پاس ہے؛ تاکہ ہم ان کی پیروی کریں؟ آپ نے مجھے فرمایا کہ نہیں جائز ہےکہ اصحاب رسول کا جائزہ لیا جائے میں نے کہا: پھرکیا کیا جائے؟ آپ نے فرمایا: ان میں سے جس کی چاہو پیروی کرو۔ امام ابن صلاح لکھتے ہیں، صحابہ کی خصوصیت ہے کہ ان میں سے کسی کی عدالت پرسوال نہیں ہوسکتا کہ یہ سب سے بہترین امت تھے، آپ لکھتے ہیں: على الإطلاق معدلين بنصوص الكتاب والسنة وإجماع من يعتد به في الإجماع من الأمة قال الله تعالى: ﴿ كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ﴾ ۔ (علم الحدیث، للامام ابن صلاح، معرفۃ الصحابۃ:۱/۱۷۱، مکتبۃ الفارابی، الطبعۃ الاوّل) ترجمہ:وہ سب کتاب وسنت اور امت میں جن کا اعتبار ہے ان کے اجماع کی رو سے مطلقاً عادل تھے، اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کہا ہے تم بہترین امت ہو جولوگوں کے لیے لائے گئے۔ خلاصہ یہ کہ ان احادیث ،اقوال صحابہ وائمہ کی روشنی میں آثار صحابہ کی تشریعی حیثیت کا تعین اور اقوال صحابہؓ کے مقام ومرتبہ اور ان کا دلیل شرعی اورحجتِ شرعیہ ہونا خود بخود واضح اور ظاہر ہوجاتا ہے۔