انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** رسول سے صحابہ کی والہانہ محبت عُروہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے باتیں کررہا تھا تو وہ اپنا ہاتھ پھیلا پھیلا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی کے قریب لے جاتا تھا،حضرت مغیرہ بن شعبہؓ کو اس کی یہ حرکت ناگوار گذری،انہوں نے اپنا قبضہؓ شمشیر اُس کے ہاتھ پر مارا اورمود بانہ کلام کے لئے کہا ،عُروہ جب قریشِ مکہ کے پاس واپس گیا تو کہا کہ اے معاشر قریش میں نےہر اقلہ روم اوراکاسرہ ایران کے دربار دیکھے ہیں میں نے کسی بادشاہ کو اپنے ہمراہیوں میں اس قدر محبوب ومکرم نہیں پایا جس قدر محمد صلی اللہ علیہ وسلم اصحاب میں محبوب وباعزت ہیں،اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حالت ہے کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کا پانی زمین پر نہیں گرنے دیتے،جب وہ کلام کرتے ہیں تو سب خاموشی سے سُنتے ہیں اور تعظیم کی راہ سے اُن کی طرف نگاہ بھر کر نہیں دیکھتے،یہ لوگ کسی طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نہیں چھوڑسکتے،محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بات تمہارے سامنے پیش کی ہے،تم اس کو قبول کرلو اورمناسب یہی ہے کہ صلح کو غنیمت جانو،اس کے بعد قریش مکہ نے سہیل بن عمرو کو اپنا مختارِ کل بناکر بھیجا اوراس کو سمجھا دیا کہ صلح صرف اس طرح ہوسکتی ہے کہ امسال محمد صلی اللہ علیہ وسلم معہ اپنے ہمراہیوں کے واپس چلے جائیں اورآئندہ سال آکر عمرہ کریں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دُور سے سہیل کو آتے ہوئے دیکھا تو فرمایا کہ معاملہ اب سہل ہوگیا،قریش نے جب اس شخص کو بھیجا ہے تو ان کی نیت مصالحت کی ہے؛چنانچہ سہیل نے شرائط صلح پیش کئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن شرائط کو قبول فرمالیا،اُسی وقت حضرت علی کرم اللہ وجہہ صلح نامہ لکھنے کے لئے طلب کئے گئے، حضرت علیؓ نے دستاویز کی پیشانی پر ‘‘بسم اللہ الرحمن الرحیم’’ لکھا تو سہیل نے کہا کہ ہم رحمٰن کو نہیں جانتے تم ہمارے دستور کے موافق باسمک اللہم لکھو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا ایسے ہی لکھ دو،جب حضرت علیؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ‘‘محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم’’لکھا تو سہیل نے اس پر بھی اعتراض کیا اورکہا کہ اگر ہم آپؐ کو رسول تسلیم کرتے تو پھر یہاں تک نوبت ہی کیوں پہنچتی،تم صرف محمدؐ ہی لکھو،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اللہ کا رسول ہوں،خواہ تم مانو یا نہ مانو ،پھر حضرت علیؓ کی طرف مخاطب ہوکر فرمایا کہ سہیل کی خواہش کے مطابق اس لفظ کو کاٹ دو،حضرت علیؓ نے عرض کیا کہ مجھ سے یہ نہ ہوسکے گا کہ میں لفظ،رسول اللہ کو قلم سے کاٹوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لاؤ میں اپنے ہاتھ سے کاٹے دیتا ہوں، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے ہاتھ سے اس لفظ پر قلم پھیردیا۔