انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت ثمامہ اثال نام ونسب ثمامہ نام، ابو امامہ کنیت، نسب نامہ یہ ہے،ثمامہ بن آثال بن نعمان بن سلمہ بن عتبہ ابن ثعلبہ بن یربوع بن ثعلبہ بن دؤل بن حنفیہ حنفی یمامی،ثمامہ کے سرداروں میں تھے۔ اسلام فتح مکہ کے کچھ دنوں پہلے آنحضرتﷺ نے یمامہ کی طرف ایک مختصر سریہ جس میں چند سوار تھے بھیجا تھا، ان لوگوں نے لوٹتے وقت ثمامہ کو گرفتار کرلیا اوروہ لاکر مسجد نبویﷺ کے ستون میں باندھ دیئے گئے، آنحضرتﷺ نے ان کے پاس آکر پوچھا کیوں ثمامہ کیا ہوا، کہا محمدﷺ بہت اچھا ہوا اگر تم مجھ کو قتل کروگے تو ایک جاندار کو قتل کروگے اوراگر احسان کرکے چھوڑدو گے تو ایک احسان شناس پر احسان کروگے ،دوسرے دن پھر یہی سوال جواب ہوا، تیسرے دن بھی یہی واقعہ پیش آیا تیسری مرتبہ سوال وجواب کے بعد آنحضرتﷺ نے انہیں رہا کردیا، ثمامہ پر اس رحم و کرم کا یہ اثر ہوا کہ رہائی پانے کے بعد اسلام کے اسیر ہوگئے،مسجد نبویﷺ کے قریب ایک نخلستان میں گئے اورنہا دھو کر مسجد میں آئے اورکلمۂ شہادت پڑھ کر آنحضرتﷺ سے کہا خدا کی قسم آپ کی ذات ،آ پ کے مذہب اورآپ کے شہر سے زیادہ روئے زمین پر مجھے کسی سے بغض نہیں تھا؛ لیکن اب آپ کی ذات ،آپ کے مذہب اورآپ کے شہر سے زیادہ کوئی ذات کوئی مذہب اورکوئی شہر محبوب نہیں ہے ،میں عمرہ کا قصد کررہا تھا کہ آپ کے سواروں نے مجھے پکڑ لیا، اب کیا حکم ہوتا ہے؟ آپ نے بشارت دی اورعمرہ پورا کرنے کا حکم دیا؛چنانچہ وہ عمرہ کے لئے مکہ گئے،کسی نے پوچھا ،تم بے دین ہوگئے ،کہا نہیں ؛بلکہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اسلام لایا،یاد رکھو اب بغیر رسول اللہ ﷺ کی اجازت کے گیہوں کا ایک دانہ بھی یمامہ سے مکہ نہیں آسکتا۔ (بخاری کتاب المغازی باب ودربنی حنیفہ وحدیث ثمامہ بن آثال) عمرہ پورا کرنےکے بعد یمامہ جاکر غلہ رکوادیا،مکہ والوں کا دارمدار یمامہ کے غلہ پر تھا، اس لیے وہاں آفت بپا ہوگئی،اہل مکہ نے آنحضرتﷺ کے پاس لکھ بھیجا کہ تم صلہ رحمی کی تعلیم دیتے ہو، لیکن تمہارا عمل اس کے برعکس ہے، تم نے سن رسیدہ لوگوں کو تلوار سے اوربچوں کو بھوک سے مارڈالا ان کی اس تحریر پر آپ نے حکم دیا کہ غلہ نہ روکا جائے۔ فتنہ ارتداد کی روک تھام مشہور مدعی نبوت مسیلمۂ کذاب ثمامہ کا ہم وطن تھا، اس نے حیاتِ نبویﷺ ہی میں نبوت کا دعویٰ کیا تھا لیکن آفتاب حقیقت پر اس کی تاریکی غالب نہ آسکی، آنحضرتﷺ کی وفات کے بعد مسیلمہ بڑے زور شور کے ساتھ اٹھا، اہل یمن اس کے دامِ تزویر میں پھنس کر مرتد ہو گئے اور مسیلمہ نے یمن پر قبضہ کرلیا، اس زمانہ میں ثمامہ وطن ہی میں موجود تھے، انہوں نے اہل یمامہ کو ارتداد سے بچانے کی بہت کوشش کی، ہر شخص کے کانوں تک یہ آواز پہنچاتے تھے کہ لوگو! اس تاریکی سے بچو جس میں نور کی کوئی کرن نہیں ہے، لیکن مسیلمہ کی آواز کے سامنے ان کی آواز صد ابصحرا ثابت ہوئی،جب انہوں نے دیکھا کہ ان کے پند و نصائح کا کوئی اثر نہیں ہوسکتااور لوگ مسیلمہ کے دام میں پھنس چکے ہیں، تو خود یمامہ چھوڑدینے کا فیصلہ کرلیا۔ اسی دوران میں علاء ابن حضرمی جو مرتدین کے استیصال پر مامور ہوئےتھے، یمامہ کی طرف سے گذرے ،ثمامہ کو خبر ہوئی ،تو انہوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ بنی حنیفہ کے ارتداد کے بعد میں ان کے ساتھ نہیں رہ سکتا، عنقریب خدان پر ایسی مصیبت نازل کریگا کہ ان سے اُٹھتے، بیٹھے نہ بنے گا، مسلمان اس فتنہ کو فرو کرنے کے لئے آئے ہیں، ان سے نہ پچھڑنا چاہیے، تم میں سے جس کو چلنا ہو، وہ فورا تیار ہو جائے،غرض اپنے ہم خیال اشخاص کو ساتھ لے کر علاء کی مدد کو پہنچے،جب مرتدین کو یہ معلوم ہوا کہ کچھ بنی حنیفہ بھی علاء کی امداد پر آمادہ ہیں، تو وہ کمزور پڑگئے،یمامہ کی مہم خالدؓ کے سپرد تھی اور علاء بحرین کے مرتدین پر مامور تھے؛چنانچہ ثمامہ بھی علاء کے ساتھ بحرین چلے گئے اور مرتدین کے استیصال میں برابر کے شریک رہے۔ شہادت مرتدین کے استیصال کے بعد بنی قیس کے مرتد سردار حطیم کا حُلہ اس کے قاتل سے خریدا اوراسے پہن کر نکلے، بنو قیس نے ان کے بدن پر حطیم کا حلہ دیکھ کر سمجھا کہ ان ہی نے حطیم کو قتل کیا ہے اوریہ حلہ انہیں سلب میں ملا ہے، اس شبہ میں ثمامہ ؓ کو شہید کردیا۔ فضل وکمال فضل وکمال میں شاعری کے علاوہ اورکوئی خصوصیت لائق ذکر نہیں ہے ،مسیلمۂ کذاب کے سلسلہ میں یہ اشعار کہے تھے۔ دعاذاالی ترک الدانۃ والھدی مسیلمۃ الکذاب اذجاء یسجع فیاعجبا من معشر قد تتابعوا لہ فی سبیل الغنی والغی اشنع