انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** علم تفسیر علم تفسیر قرآن کریم کی آیات دو قسم کی ہیں ،ایک تو وہ آیتیں ہیں جن میں عام نصیحت کی باتیں،جنت ودوزخ کا تذکرہ اور فکر آخرت پیدا کرنے والی باتیں وغیرہ جس کو ہر عربی داں شخص سمجھ سکتا ہے؛بلکہ مستند ترجمہ کی مدد سے اپنی مادری زبان میں بھی ان آیات کو سمجھ سکتا ہے،ان آیات کے متعلق اللہ تعالی کا ارشاد ہے: "وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِر"۔ٍ (القمر:۱۷) اور حقیقت یہ ہے کہ ہم نے قرآن کو نصیحت حاصل کرنے کے لیے آسان بنادیا ہے؛ اب کیا کوئی ہے جو نصیحت حاصل کرے؟۔ دوسری قسم کی آیتیں وہ ہیں جو احکام وقوانین،عقائد اور علمی مضامین پر مشتمل ہیں ،اس قسم کی آیتوں کو پوری طرح سمجھنے اوران سے احکام ومسائل مستنبط کرنے کےلیےعلم تفسیرکاجانناضروری ہے ،صرف عربی زبان کا سمجھنااس کے لیے کافی نہیں ہے، صحابہ کرامؓ اہل عرب ہونے کے باوجودایسی آیتوں کی تفسیر اللہ کے رسول ﷺ سے معلوم کیا کرتے تھے،اس کی تفصیلی مثالیں اس مقالہ میں آچکی ہیں؛یہاں سمجھنے کے لیے ایک مثال پر اکتفا کیا جارہا ہے،روزوں سے متعلق جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی: "وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ"۔ (البقرۃ:۱۸۷) اورکھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ سفید اور سیاہ دھاگے میں تمہیں فرق معلوم ہونے لگے۔ اس آیت کو سننے کے بعدحضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ(۶۷ھ) نے سفید اورسیاہ دھاگے اپنے تکئے کے نیچے رکھ لیے؛ تاکہ جب دونوں ایک دوسرے سے ممتاز ہونے لگیں تو اس سے وہ اپنے روزے کی ابتداء کرلیا کریں؛اسی طرح اور ایک روایت میں حضرت سہل بن سعدؓ (۹۸۱ھ) کہتے ہیں:کچھ لوگ جنہوں نے روزے کی نیت کی ہوتی وہ اپنے دونوں پاؤں سے سفید اورسیاہ دھاگے باندھ رہتے اور برابر سحری کھاتے رہتے؛یہاں تک کہ وہ دونوں دھاگے آپس میں ممتاز نہ ہوجائیں،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو سمجھا یا کہ یہاں سفید اورسیاہ دھاگے سے مراد دن کی سفیدی اورشب کی سیاہی ہے۔ (بخاری،بَاب قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى، وَكُلُوا وَاشْرَبُوا،حدیث نمبر:۱۷۸۳، شاملہ، موقع الإسلام) الغرض !قرآن کریم کی تفسیر کرنے کے لیے علم تفسیر کا جاننا ضروری ہے،کسی بھی آیت کی تفسیر اپنی رائے سے کرنے والا غلطی پر ہے،خود بھی گمراہ ہوگا اور دوسروں کو بھی گمراہ کرے گا،قرآن کریم کی تفسیرسمجھنے کے لیے مستند تفاسیر کا مطالعہ کرنا چاہیے اور علماء سے استفادہ کرنا چاہیے،اس مضمون کے آخر میں مستنداردو تفاسیر کے نام ذکر کیے گئے ہیں ،درج ذیل احادیث میں تفسیر قرآن کی باریکی کا اندازہ ہوتا ہے : "مَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِغَيْرِ عِلْمٍ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ"۔ جو شخص قرآن میں بغیر علم کے گفتگو کرے وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔ "مَنْ قَالَ فِي كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ بِرَأْيِهِ فَأَصَابَ فَقَدْ أَخْطَأ"۔ جو شخص قرآن کے معاملے میں (محض) اپنی رائے سے گفتگو کرے اور اس میں کوئی صحیح بات بھی کہہ دے تب بھی اس نے غلطی کی۔ (ترمذی،باب ماجاء فی یفسر القرآن ،حدیث نمبر:۲۸۷۴۔ ابو داؤد،الکلام فی کتاب اللہ بغیر علم،حدیث نمبر:۳۱۶۷) سابقہ تمام تفصیل سے یہ ثابت ہواکہ تفسیر قرآن مجید کے لیے کچھ ضروری علوم ہوتے ہیں جن کے بغیر تفسیر کرنا ایسا ہے جیسے بغیر آلات کے صناعی کرنا، کہ جیسے کوئی بھی فن بغیر آلاتِ ضروریہ کے نہیں آتا ایسے ہی ہر علم کا بھی یہی مسئلہ ہے؛ چنانچہ مفسرین اوراہل علم نے ضروری علوم کی تفصیل یوں بتلائی ہے:علم لغت،صرف ونحو، معانی ،بیان، بدیع ،عربی ادب، علم کلام،منطق ،حکمت وفلسفہ،علم عقائد،علم تفسیر،پھر اس میں درجات اہل علم کے ہاں مانے گئےہیں،چنانچہ ابتدائی لغت وصرف نحو ادب یہ عربی زبان سیکھنے اور اس کی باریکیوں کو جاننے کے لیے ہیں؛ کیونکہ قرآن مجید عربی زبان میں نازل کیا گیا نیز معانی بیان وبدیع وغیرہ اس کی رعنایوں کو سمجھنے ک لیے اورمنطق حکمت وفلسفہ کلام،دوسری زبانوں سے مستعا رعلوم کے ذریعہ جو گمراہیاں آ سکتی ہیں اس کے دفع کے لیے، پھر علم تفسیر کے اندر بھی کئی تفصیلات بتلائی گئی ہے؛ مثلا وحی اوراس کی ضرورت کو سمجھنا پھر وحی کی اقسام مثلاً، وحی قلبی، وحی ملکی، پھر وحی کی مختلف شکلیں جیسے صلصلۃ الجرس اورفرشتے کاانسانی شکل میں آنا،رویائے صادقہ ،نفث فی الروع، پھر وحی متلو وغیر متلو، پھر قرآن کریم کے نزول کے متعلق تفصیلات اورسورتوں کی تدوین مکی ومدنی ہونے کے اعتبار سے نیز بعض مدنی سورتوں میں مکی آیتیں اوربعض مکی سورتوں میں مدنی آیتیں کونسی ہیں اسکا استقصاء پھر قرآن کریم سات حروف پر نازل ہونے کا کیا مطلب ہے؛ پھر ناسخ و منسوخ آیتوں کی تفصیلات ،سبعہ احرف سے کیا مراد ہے اورحفاظت قرآن اورجمع قرآن کی تفصیلات پھر اس کے اندر دیئے ہوئے علامات وقف کی تفصیلات اوراسی میں پاروں کی تقسیم اوراس کے اعراب وحرکات سے متعلق تفصیلات پھر قرآن کریم میں جو مضامین ذکرکئے گئے ہیں،مثلا عقائد،واقعات اورایام اللہ وانعم اللہ،پھر آیات مقطعات و متشابھات ومحکمات وغیرہ کی تفصیلات،بہرحال یہ تو چندضروری علوم کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، ان کی تفصیل میں جائیں تو بہت وقت لگ جائے ۔