انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت ارقم ؓ بن الارقم نام ،نسب ارقم نام،ابوعبداللہ کنیت،والد کا نام عبدمناف ،ابوالارقم کنیت اوروالدہ کا نام امیمہ تھا، شجرہ نسب یہ ہے: ارقم بن ابی الارقم بن اسد بن عبداللہ بن عمربن مخزوم حضرت ارقم ؓ کا خاندان ایامِ جاہلیت میں مخصوص عزت واقتدار کا مالک تھا، ان کے دادا ابو جندب اسد بن عبداللہ اپنے زمانہ میں مکہ کے ایک نہایت سربرآوردہ رئیس تھے۔ اسلام حضرت ارقم ؓ گیارہ یا بارہ، اصحاب کے بعد ایمان لائے،اسوقت آنحضرت ﷺ اورتمام کلمہ گویوں کی زندگی نہایت خطرہ میں تھی، مشرکین قریش چاہتے تھے کہ اس تحریک کو بااثر ہونے سے پہلے معدوم کردیں،لیکن اسلام فنا ہونےکے لیے نہیں آیا تھا، حضرت ارقمؓ نے مہبط وحی والہام اور تمام مسلمانوں کو اپنے مکان میں چھپایا،حضرت عمر فاروق ؓ اسی گھر میں اسلام لے آئے ،ان کے اسلام لانے کے وقت کم وبیش چالیس آدمی شرفِ اسلام سے مشرف ہوچکے تھے،آپ کے اسلام لانے سے مسلمانوں میں قوت پیدا ہو گئی،اس وقت اس خطیرۂ قدس کو چھوڑا۔ (اسد الغابہ جلد ۱:۶۰، واصابہ تذکرہ ارقم) ہجرت بعثت کے تیرہویں سال ہجرت کا حکم ہوا، تو حضرت ارقم ؓ بھی دوسرے صحابہ کرام کے ساتھ مدینہ پہنچے، یہاں حضرت ابو طلحہؓ زیدبن سہل سے مواخات ہوئی، اورآنحضرت ﷺ نے مستقل سکونت کے لیے بنی زریق کے محلہ میں ایک قطعہ زمین عطا فرمایا۔ (طبقات ابن سعد قسم اول جز ۳: ۱۷۴) غزوات حق وباطل کی اول کشمکش یعنی غزوۂ بدر میں شریک کارزارتھے، اس جنگ میں حضرت سرورِکائنات ﷺ نے ان کو ایک تلوار مرحمت فرمائی تھی، احد، خندق، خیبر اورتمام دوسرے اہم معرکوں میں بھی پامردی وشجاعت سے لڑے۔ (اسد الغابہ :۱/۶۰) عہدہ زمانۂ رسالت میں تحصیل زکوٰۃ کی خدمت پر مامور تھے۔ (اسد الغابہ:۱/۶۰) وفات ۸۳ برس کی عمر پاکر ۵۳ ھ میں رحلت گزین عالم جاوداں ہوئے ،انہوں نے وصیت فرمائی تھی کہ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ جنازہ کی نماز پڑھائیں، لیکن وہ مدینہ سے کچھ فاصلہ پر مقام عقیق میں تھے، ان کے آنے میں دیر ہوئی تو مروان بن حکم والی مدینہ نے کہا کہ ایک شخص کے انتظار میں جنازہ کب تک پڑا رہے گا؟ اورچاہا کہ خود آگے بڑھ کر امامت کرے، لیکن عبید اللہ بن ارقم ؓ نے اجازت نہ دی اورقبیلہ بنی مخزوم ان کی حمایت پر تیار ہوگیا، غرض بات بڑھ چلی تھی کہ اسی اثناء میں حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ تشریف لے آئے اورانہوں نے نماز پڑھا کربقیع کے گورستان میں دفن کیا۔ (طبقات ابن سعد قسم اول جز ۳ :۱۷۴) انا للہ وانا الیہ راجعون اخلاق تقویٰ،تدین،زہدوراستبازی حضرت ارقم ؓ کے نمایاں اوصاف تھے،عبادت وشب زندہ داری سے بے حد شوق تھا، ایک دفعہ انہوں نے بیت المقدس کا قصد کیا اوررختِ سفر درست کرکے رسول اللہ ﷺ سے رخصت ہونے آئے، آپ نے پوچھا کہ تجارت کے خیال سے جاتے ہویا کوئی خاص ضرورت ہے؟ بولے میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں یا رسول اللہ ﷺ کوئی ضرورت نہیں ہے، صرف بیت المقدس میں نماز پڑھنا چاہتاہوں، ارشاد ہوا کہ میری اس مسجد کی ایک نماز مسجد حرام کے سوا تمام مساجد کی ہزار نمازوں سے بہتر ہے، حضرت ارقم ؓ یہ سنتے ہی بیٹھ گئے اورارادہ فسخ ہوگیا۔ (مستدرک حاکم:۳/۵۰۴) ذریعۂ معاش مختلف جاگیروں کے علاوہ اصلی ذریعہ ٔمعاش تجارت تھی۔ مکہ کا تاریخی مکان ہجرت کے بعد مدینہ وطن ہوگیا تھا، اس لیے انہوں نے مکہ کے مکان کو جو اپنی تاریخی عظمت کے لحاظ سے مرجع زائرین تھا، وقف الاولاد کردیا، تاکہ بیع ووراثت کے جھگڑوں سے محفوظ رہے۔ (مستدرک حاکم :۳/۵۰۴) یہ مکان کوہِ صفا کے نیچے ایسے موقع پر تھا کہ جو لوگ حج میں صفا ومروہ کے درمیان سعی کرتے تھے وہ ٹھیک اس کے دروازے پر سے ہوکر گذرتے تھے، ۱۴۰ھ میں خلیفہ منصور عباسی کے عہد تک وہ بجنسہ اپنی حالت پر موجود تھا، لیکن اسی سال محمد بن عبداللہ بن حسن نے مدینہ میں خروج کیا ؛چونکہ حضرت ارقم ؓ کے پوتے عبداللہ بن عثمان ان کے معاونین میں تھے، اس لیے منصور نے والی مدینہ کو لکھ کر ان کو گرفتار کرایا اوراپنے ایک خاص معتمد شہاب بن عبدرب کو بھیج کر اس مکان کو فروخت کرنے کی ترغیب دی، عبداللہ بن عثمان نے پہلے انکار کیا، لیکن پھر قید سے مخلصی پانے کی بشارت اورگراں قدر معاوضہ کے طمع نے بیچنے پر راضی کردیا، غرض منصور نے سترہ ہزار دینار پر ان کا حصہ خرید لیا، رفتہ رفتہ دوسرے شرکاء بھی راضی ہوگئے،لیکن ان کا زرِ معاوضہ اس کے علاوہ ہے۔ ابو جعفر منصور کے بعد خلیفہ مہدی نے اپنی جاریہ خیز ران کو دے دیا، جس نے منہدم کرکے نئے سرے سے ایک محل تعمیر کرایا، پھر گردشِ ایام نے اس میں گونا گون تغیرات پیدا کیے، اوراس طرح آغاز اسلام کی وہ پر عظمت یاد گار جو عرصہ تک مطلع انوار الہی و مہبط ملائکہ آسمانی رہی تھی، صفحہ ہستی سے معدوم ہوگئی۔ (طبقات ابن سعد قسم اول جز ۲:۱۷۳ وتاریخ یعقوبی) اولاد حضرت ارقمؓ نے دو لڑکے عبیداللہ،عثمان اورتین لڑکیاں امیہ، مریم اورصفیہ یادگارچھوڑیں۔ (طبقات ابن سعد قسم اول جز ۲:۱۷۳ وتاریخ یعقوبی)