انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** خالد بن ولید ملک شام میں ایرانیوں کی جانب سے کسی قدر اطمینان ہوچکا تھا اوراُمید نہ تھی کہ اب جلد وہ مدینہ منورہ پر فوج کشی کے خواب دیکھیں گے،جس وقت عرب کے ہر ایک حصہ میں فتنہ ارتداد فرو ہوگیا اورایرانی خطرہ کی اہمیت بھی کسی عجلت کی متقاضی نہ رہی تو اب سب سے مقدم اورسب سے زیادہ اہم ملک شام کا انتظام اوراُس طرف سے رومی وغسا فی خطرہ کی روک تھام تھی،شرجیل بن عمرو غسانی بادشاہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایلچی کو شہید کردیا تھا، جس کے بعد جنگ موتہ ہوئی،پھر رومیوں اورغسانیوں نے مل کر مدینہ منورہ پر فوج کشی کی تیاریاں کیں،جس کا حال سُن کر خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوج لے کر تبوک تک تشریف لے گئے،مگر اُس وقت تک عیسائی پورے طور پر اتنے بڑے عربی واسلامی لشکر کے مقابلہ کی جرأت نہ کرسکے اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سرحد شام پر رعب ڈال کر واپس تشریف لے آئے،اس کے بعد پھر خبر پہنچی کہ سرحدِ شام پر فوجی تیاریاں ہورہی ہیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اُسامہ بن زیدؓ کو روانہ کیا،جو بعد وفات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سرحد شام کی طرف گئے اور جو مقابل ہوا اس کو شکست دے کر جلدی سے واپس چلے آئے،کیونکہ فتنہ ارتداد کا اندرون ملک میں خوب زور شور تھا، فتنہ ارتداد کی روک تھام کے لئے حضرت ابوبکرؓ نے جب گیارہ لشکر تیار کرکے روانہ کئے تو اُن میں سے ایک لشکر حضرت خالد بن ولیدؓ کو دے کر حکم دیا کہ تم سرحدِ شام کی طرف جاؤ،حضرت ابوبکرصدیقؓ بھی شامی خطرہ کو محسوس کئے ہوئے تھے اور انہوں نے فتنۂ ارتداد کے فرو کرنے میں شامی خطرہ کو بخوبی پیش نظر رکھا تھا، جب ارتداد سے اطمینان ہوگیا تو انہوں نے حضرت خالد بن ولیدؓ کو تو عراق کی طرف متوجہ کردیا کہ ایرانی خطرہ کی طرف سے اطمینان حاصل ہوا اورملک عرب کے ہر حصہ میں ایلچی بھیج کر لڑائی کے لئے جنگی سپاہیوں کو ہر قبیلہ سے طلب کیا،مدعا اس سے یہ تھا کہ عرب کی متحدہ طاقت سے رومی ایرانی شہنشاہیوں کا مقابلہ کیا جائے تاکہ ہمیشہ کے لئے عیسائیوں اورمجوسیوں کے خطرہ سے عرب کو نجات مل جائے، دوسرے عرب کے جنگ جو قبائل جو خاموش بیٹھنے کے عادی نہ تھے اُن کو ہر حصہ ملک سے طلب کرکے غیر مسلم دشمنوں کے مقابلہ میں شام و عراق کی طرف بھیج دیا جائے تاکہ عرب کے اتحاد وقوت اوراسلام کی مرکزی قوت کے لئے کسی اندرونی فتنہ کا اندیشہ باقی نہ رہے،اندریں صورت کہا جاسکتا ہے کہ فتنہ ارتداد بھی اسلامی فتوحات کا ایک بہت بڑا سبب تھا اور حضرت ابوبکرصدیقؓ کی تدبیررائے نے اسلامی عظمت وشوکت کی نشو ونما کے لئے وہ کام کیا جو ایک تجربہ کار اورہوشیار مالی اپنے باغیچہ کی سرسبزی کے لئے کرسکتا ہے۔ حضرت خالد بن ولیدؓ کے ساتھ بہت تھوڑے سے آدمی تھے لیکن وہ راستے سے صدیقی ہدایت کے موافق جس قدر مسلمان ہوسکے اپنے ہمراہ لیتے گئے،خالد بن ولیدؓ کو حکم دیا گیا تھا کہ جہاں تک ہوسکے مرتدین کو درست کرنا اور عیسائی لشکر مقابلہ پر آئے تو حتی الامکان جنگ چپاول سے کام لینا ،میدان داری اورجم کر مقابلہ کرنے سے پرہیز کرناا ایسا حکم دینے کی وجہ یہ تھی کہ صدیقِ اکبرؓ سب سے اول عرب کو قابو میں لانا چاہتے تھے اورجب تک فتنہ ارتداد کلی طور پر فرونہ ہوجائے اس وقت تک ہر قل و کسریٰ کی فوجوں سے لڑائی چھیڑنا مناسب نہ سمجھتے تھے،جس طرح دوسرے سرداران لشکر کے ساتھ دربار خلافت سے خط وکتابت جاری تھا، اسی طرح خالد بن ولیدؓ کی نقل وحرکت سے بھی صدیق اکبر ؓ باخبر تھے اوربرابر خالد بن ولید ؓ کے پاس مدینہ منورہ سے احکام پہنچتے رہتے تھے ۔ ہر قل نے اسلامی لشکر کے حدود شام میں موجود ہونے کی خبر سُن کر اول سرحدی قبائل اور سرحد ی رؤسا کو مقابلے کے لئے ابھارا،لیکن جب یہ چھوٹے چھوٹے رئیس اور عرب مستنصرہ کے قبائل اسلامی لشکر کے مقابلہ میں مغلوب ہوتے گئے،تو قیصر روم ہر قل نے ہامان نامی رومی لشکر عظیم کےساتھ آگے بڑھایا جب عیسائی اوراسلامی فوجوں کا مقابلہ ہوا توہامان کے لشکر کو شکست ہوئی اورمسلمانوں کے ہاتھ بہت سامالِ غنیمت آیا،اس شکست کا حال سن کر ہر قل خود سلطنت قسطنطنیہ سے روانہ ہوکر ملک شام میں آیا اورتمام فوجوں کو جمع کرکے لڑائی کا اہتمام اُس نے براہ راست اپنے ہاتھ میں لیا،خالد بن ولیدؓ کے خط سے یہ تمام کیفیت صدیق اکبرؓ کو معلوم ہوئی،جس کا ان کو پہلے سے اندازہ تھا، اتفاقا جس روز یہ خط مدینہ میں پہنچا ہے اسی روز عکرمہؓ بن ابی جہل اپنی مہم سے فارغ ہوکر مدینے میں پہنچے تھے ،ساتھ ہی ملک کے ہر حصہ سے لڑائی کے لئے آمادہ اورجہاد فی سبیل اللہ کے لئے تیار ہو ہو کر قبائل آنے شروع ہوگئے تھے، صدیق اکبرؓ رضی اللہ عنہ نے عکرمہؓ بن ابی جہل کو فوراً خالد بن ولیدؓ کی طرف روانہ کردیا اُن کے بعد عمرو بن العاصؓ کو ایک لشکر دے کر روانہ کیا کہ خالد بن ولیدؓ اوراُن کے ہمراہیوں کو ساتھ لئے ہوئے فلسطین کے راستے حملہ آور ہوں، اُن کے بعد آئے ہوئے قبائل کی ایک فوج مرتب کرکے یزید بن ابی سفیان کو سردار بنا کر روانہ کیا اورحکم دیا کہ تم دمشق کی طرف حملہ آور ہو،پھر ایک اور فوج ترتیب دے کر اُس کا سردار حضرت ابو عبیدہؓ بن الجراح کو بنایا اورحکم دیا کہ تم حمص کی جانب جاکر حملہ کرو، اسی عرصہ میں شرجیل ؓ بن حسنہ عراق کی طرف سے مدینہ منورہ میں تشریف لائے تھے،صدیق اکبرؓ نے ایک اور لشکر مرتب فرما کر اُس کا سردار شرجیلؓ بن حسنہ کو مقرر فرمادیا اورحکم دیا کہ تم اُردن کی جانب سے حملہ کرو،اس طرح صدیق اکبرؓ نے چار لشکر مرتب فرما کر چار مختلف راستوں سے ماہِ محرم ۱۳ ھ میں روانہ کئے کہ ملک شام پر حملہ آور ہوں۔ جب یہ چاروں لشکر حدودِ شام میں پہنچے اورہر قل کو اس کی اطلاع ملی کہ عربوں نے چار حصوں میں منقسم ہوکر چار مقامات پر حملہ آوری کا قصد کیا ہے تو اس نے بھی اپنے چار سپہ سالاروں کو چار عظیم الشان لشکر دے کر الگ الگ روانہ کیا ،عمرو بن العاصؓ کے مقابلہ کے واسطے اُس نے اپنے حقیقی بھائی تذارق کو نوئے ہزار فوج دے کر فلسطین کی طرف روانہ کیا،جرجہ بن نوذر کوچالیس ہزار فوج دے کر یزید بنؓ ابی سفیان کے مقابل دمشق کی سمت بھیجا،راقص نامی سردار کو پچاس ہزار فوج کے ساتھ شرجیل ؓ بن حسنہ کے مقابلہ پر اُردن کی جانب اور رفیقاء بن نسطورس کو ساٹھ ہزار کی جمعیت کے ساتھ ابو عبیدہؓ بن الجراح کے مقابلہ کو حمص کی طرف روانہ کیا، ہر قل نے اپنے چاروں سرداروں کے ماتحت کل دو لاکھ چالیس ہزار فوج مسلمانوں کے مقابلہ کی غرض سے روانہ کی ؛حالانکہ مسلمانوں کے چاروں لشکروں کا مجموعہ تیس ہزار کے قریب تھا، اس سے بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے کہ ہر قل نے کیسی زبردست تیاریاں مسلمانوں کے استیصال کی پہلے سے کر رکھی تھیں؛ لیکن اس میں شک نہیں کہ خود ہر قل اپنی ذات سے اس بات کا خواہش مند نہ تھا کہ ضرور مسلمانوں سے لڑے وہ تو لڑائی کو ٹالنا اورجہاں تک ممکن ہو مسلمانوں سے بے تعلق رہنا چاہتا تھا؛ لیکن اُس کے تمام درباری تمام امراء، تمام سرداران فوج اورتمام صوبیدار ہم تن آمادہ و مستعد تھے کہ ملک عرب پر حملہ کیا جائے، اس مطلب کو ان الفاظ میں بھی ادا کیا جاسکتا ہے کہ ہر قل تو لڑائی پر آمادہ نہ تھا مگر رومی گورنمنٹ پورے طور پر آمادہ ومستعد تھی،لہذا ہرقل کو رومی گورنمنٹ کا شہنشاہ ہونے کی حیثیت سے ہر ایک اہتمام ایک ہوشیار وتجربہ کار مہتمم کی طرح کرنا پڑتا تھا۔ مسلمان سردار اگرچہ ایک دوسرے سے جدا سفر کررہے تھے لیکن حکم صدیقی کے موافق ایک دوسرے کے حالات سے باخبر اورآپس میں سلسلہ پیام رسانی کو قائم رکھے ہوئے تھے،جب حدود شام میں داخل ہونے کے بعد اُن کو معلوم ہوا کہ ہر ایک لشکر کے مقابلہ پر اس سے آٹھ گنی رومی فوج جو ہرطرح کیل کانٹے سے درست ہے آرہی ہے تو ایک طرف صدیق اکبرؓ کو اطلاع دی،دوسری طرف انہوں نے مناسب سمجھا کہ ہم کو ایک جگہ متحد ہوکر مقابلہ کرنا چاہئے، اتفاق کی بات کہ ادھر چاروں سردار اپنی اپنی فوجوں کو لئے ہوئے ایک جگہ یرموک میں جمع ہوئے،اُدھر صدیق اکبرؓ نے رومی لشکر کی کثرت اورتیاریوں کا حال سُن کر ایک طرف توچاروں سرداروں کے نام ایک جگہ جمع ہوکر مقابلہ کرنے کا حکم بھیجا،دوسری طرف حضرت خالد بن ولیدؓ کو لکھا کہ تم صوبہ حیرہ میں اپنی جگہ مثنی بن حارثہؓ کو وہاں کا ذمہ دار افسر بناکر نصف فوج مثنیٰ کے پاس چھوڑ کر اورنصف فوج خود لے کر شام کی طرف چلے جاؤ اوروہاں کی تمام افواج اسلام کا اہتمام بہ حیثیت سپہ سالار اعظم اپنے ہاتھ میں لے لو،صدیق اکبرؓ دیکھ چکے تھے کہ خالد بن ولیدؓ نے ایرانی فوج کو کس طرح پیہم شکستیں دے کر ایک بڑا علاقہ سلطنت ایران سے چھین لیا تھا،اُن کی نظر میں خالدؓ سے بہتر کوئی شخص نہ تھا جو اس خطرناک حالت میں رومیوں کا مقابلہ کامیابی سے کرسکے،یہ وہ بھی جانتے تھے کہ خالدؓ کا سب سے بڑا اورسب سے پہلا کارنامہ جنگِ موتہ تھا کہ انہوں نے اسلامی لشکر کی بگڑی ہوئی حالت کو سدھار لیا تھا جس کے صلہ میں بارگاہ ایزدی سے اُن کو سیف اللہ کا خطاب ملا تھا لہذا انہوں نے مناسب سمجھا کہ چاروں نہایت زبردست اورقبائل سپہ سالاروں کے پاس سیف اللہ کو بھیجنا اوراُن چاروں پر اُن کو سردار بنادینا ضرور مفید ہوگا ؛چنانچہ خالد بن ولیدؓ نے دس ہزار فوج مثنیٰ بن حارثہؓ کے پاس چھوڑی اوردس ہزار فوج لے کر شام روانہ ہوئے۔ اُدھر ہر قل نے جب یہ دیکھا کہ چاروں اسلامی لشکر ایک جگہ جمع ہوگئے ہیں تو اُس نے بھی اپنے چاروں سرداروں کو حکم دیا کہ ایک جگہ جمع ہوکر مقابلہ کرو، چاروں رومی لشکر جمع ہوکر چشمہ یرموک کے دوسری جانب ایک ایسے بیضوی میدان میں خیمہ زن ہوئے جو پشت پر جانب پہاڑ اورسامنے کی جانب پانی سے محصور تھا، اس دو لاکھ چالیس ہزار رومی لشکر کا سپہ سالارِ اعظم ہرقل کا بھائی تذارق تھا،ہرقل نے اس کو لکھا کہ میں ایک زبردست لشکر تمہاری کمک کے لئے روانہ کررہا ہوں؛چنانچہ ہامان نامی سردار کو یرموک کی طرف روانہ کیا، اسلامی لشکر جو چشمہ یرموک کے اُس طرف میدان میں پڑا ہوا تھا خود رومیوں پر اپنی قلت کے سبب حملہ نہ کرسکتا تھا،اُدھر رومی جو ایک قدرتی حصار کے اندر محفوظ تھے باہر نکل کر مسلمانوں پر حملہ آور ہونے میں پس و پیش کررہے تھے۔ یرموک میں جب دونوں طرف کے لشکر جمع ہوئے ہیں تو صفر کا مہینہ تھا،انہیں ایام میں یادو چار روز بعد حضرت خالد بن ولیدؓ عراق سے اپنا دس ہزار لشکر لے کر یرموک کی جانب روانہ ہوئے راستہ میں حضرت خالد بن ولیدؓ کو کئی جگہ دشمن قبائل اور دشمن رئیسوں کی فوجوں نے روکا ٹوکا، ہر جگہ خالدؓ لڑتے دشمنوں کو ماربھگاتے اورسامنے سے ہٹاتے ہوئے ماہِ ربیع الاول ۱۳ھ میں یرموک پہنچ گئے،یرموک میں ہر قل کی طرف سے کئی سردار اوربطریق فوجی امداد کے ساتھ رومی لشکر میں آ آ کر شریک ہوچکے تھے،حضرت خالدؓ کے آنے سے پہلے اگرچہ معمولی چھیڑ چھاڑ دونوں لشکروں میں ہوجاتی تھی مگر کوئی اہم قابل تذکرہ معرکہ ابھی تک نہیں ہوا تھا۔