انوار اسلام |
س کتاب ک |
نماز سے متعلق اوربھی جدید مسائل آدھی آستین والی قمیص میں نماز پڑھنا آدھی آستین والی قمیص، جیسے ٹی شرٹ وغیرہ پہن کریا آدھی آستین چڑھاکر نماز پڑھنے سے نماز مکروہ ہوتی ہے۔ (فتاویٰ عثمانی:۱/۴۶۲) قبلہ نما کی شرعی حیثیت نماز کے شرطوں میں ایک اہم شرط قبلہ کا استقبال ہے، کعبہ جن کی نگاہوں کے سامنے نہ ہو ان کے لیے یہ بات ضروری نہیں کہ بعینہ قبلہ اس کے سامنے پڑے بلکہ یہ بات کافی ہے کہ ان کی نماز قبلہ کی سمت اور جہت میں ہو؛ اِس سے واضح ہوتا ہے کہ شریعت اس معاملے میں سہولت اور آسانی برتنا چاہتی ہے، اس لیے کسی بھی ایسی صورت پرجس سے غالب گمان جہتِ کعبہ کے استقبال کا ہو جائے عمل کرلینا کافی ہے؛ چنانچہ اس بنیاد پر اس بات کوکافی قرار دیا گیا ہے کہ پہلے سے تعمیر شدہ مساجد اور محرابوں کوبنیاد بناکر یاستاروں کودیکھ کرسمتِ قبلہ کا تعین کیا جائے، آج کل قبلہ نما اس بات کا گمانِ غالب پیدا کرنے کے لیے کافی ہے؛ جیسا کہ مختلف جہات اور سمتوں کوبتانے والے آلات کے تجربے اور استعمال سے اندازہ ہوتا ہے۔ (ملخص جدید فقہی مسائل:۱/۱۲۶) اسپنچ وغیرہ کے گدوں پرسجدہ سجدہ کے سلسلے میں اصول یہ ہے کہ ایسی جگہ پرسجدہ کیا جائے، جہاں پیشانی اور ناک کاٹکاؤ ہوسکے اور اگروہ نرم وگداز جگہ ہوتوپیشانی رکھنے کے بعد بالآخر دباؤ اور سختی محسوس کی جائے، اس لیے روئی اور اسپنچ کے گدوں کا حکم بھی اسی اصل پرمبنی ہے؛ اگرگدّے اتنے نرم اور موٹے ہوں کہ ٹکاؤ نہ پیدا ہو؛ جیسا کہ اسپنچ کے موٹے گدّوں میں ہوتا ہے تواس پرسجدہ درست نہ ہوگا اور پیشانی وناک ٹک جاتی ہو اور کسی قدر سختی ایسی محسوس ہوتی ہو جوپیشانی اور ناک کے ٹکاؤ کی وجہ سے عام طور پرمحسوس ہوتی ہے تواس پرسجدہ درست ہوگا۔ (جدید فقہی مسائل:۱/۱۳۲) نس بندی کئے ہوئے شخص کی امامت نس بندی کرلینے کے بعد بھی آدمی مرد ہی باقی رہتا ہے؛ عورت یامخنث کے حکم میں نہیں ہوجاتا؛ اس لیے امامت کے مسئلہ میں بھی اس کے احکام مردوں کے ہیں، اس کی امامت درست اور جائز ہے؛ اگراس کی نس بندی جبراً کی گئی ہے تواس کا کوئی قصور بھی نہیں اور اگراس نے ازخود برضاورغبت کی ہوتوموجب فسق ہے، توبہ اور ندامت کے بعد کراہت ختم ہوجائیگی، جب تک تائب نہ ہو؛ چونکہ نس بندی ناجائز اور خلق اللہ میں تبدیلی ہے، اس لیے فاسق ہونے کے باعث اس کی امامت مکروہ ہوگی۔ (جدید فقہی مسائل:۱/۱۳۷) نماز میں گھڑی دیکھنا نماز دراصل اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی ومخاطبت کا وقت ہے، اس وقت کسی اور طرف توجہ کرنا بالکل اسی طرح ہے کہ ایک شخص کوآپ اپنی طرف متوجہ کریں اور پھرآپ کسی اور کام میں مشغول اور اس کی طرف سے بے توجہ ہوجائیں؛ اس لیے نماز جیسی عبادت کا صحیح تقاضہ تویہ ہے کہ اس وقت آدمی اپنے آپ کوکلیۃً خدا کی طرف یکسو کرلے اور قصداً وقت وغیرہ نہ دیکھے؛ لیکن اگرکوئی شخص وقت دیکھ ہی لے اور سمجھ لے؛ البتہ زبان سے اس کا تلفظ نہ کرے تونماز فاسد نہ ہوگی۔ (جدید فقہی مسائل:۱/۱۳۸) تصویر والے کپڑوں میں نماز اس زمانے میں تصویر لگے ہوئے کپڑے بھی تیار ہونے لگے ہیں، ان کپڑوں کا استعمال تومکروہ ہے ہی، نمازوں میں اِن کا استعمال کچھ زیادہ ہی ناپسندیدہ ہے۔ (ملخص جدید فقہی مسائل:۱/۱۳۹) امام مسجد کا کرکٹ کھیلنا اور اُس سے دلچسپی رکھنا کیسا ہے؟ موجودہ زمانے میں کرکٹ ایک ایسا کھیل بن گیا ہے کہ عموماً اس میں خلافِ شرع امور پائے جاتے ہیں نمازوں کا قضاء کردینا اس پرہارجیت اور قمار کھیلنا فجار، فساق اور غافل قسم کے لوگوں کا اسے اختیار کرنا، غفلت کی حد یہ ہوچکی ہے کہ دن تودن اب توراتوں میں بھی اس میں انہماک رہتا ہے، کرکٹ کے میچ کے وقت نوجوان لڑکیوں اور عورتوں کا میدان میں جمع ہونا اور نہ معلوم کون کون سی اخلاقی اور شرعی خرابیاں اس میں آچکی ہیں اور تجربہ ہے کہ جس قدر اس کا شوق اور انہماک بڑھتا ہے غفلت میں اسی قدر اضافہ ہوتا رہتا ہے، رات دن بس اسی کی فکر سوار رہتی ہے؛ حتی کہ مسجد میں آنے کے بعد وضو کرتے ہو، وضو سے فارغ ہوکر اور بہت سے شوقین توجماعت خانے میں بھی اسی کے چرچے میں مشغول رہتے ہیں، حد یہ ہے کہ اگرکسی موقع پررمضان المبارک میں تراویح کے وقت میچ کی کومینٹری آرہی ہوتو اس کے بہت سے شوقین تواس پرتراویح قربان کردیتے ہیں اور جوشوقین مسجد میں آتے ہیں ان کی توجہ اور دھیان بس اسی طرف، ترویحوں میں تسبیح پڑھنے کے بجائے یہ فکر سوار رہتی ہے کہ میچ کا حال معلوم ہوجائے، ہارجیت پرپٹاخے پھوڑے جاتے ہیں، جس میں غیرقوم سے مشابہت کے ساتھ ساتھ اضاعتِ مال بھی ہے اور بسااوقات یہ حرکت قومی فساد کا سبب بھی بن جاتی ہے اور مسلمانوں کا جانی ومالی نقصان بھی ہوتا ہے، ان تمام حالات کودیکھتے ہوئے ایسے کھیل کواب کس طرح جائز کہا جاسکتا ہے؟ لہٰذا ایسا شخص جوامامت کے عظیم منصب پرفائز ہو اس کواس قسم کے بدنام اور بیکار لغو کھیل میں مشغول ہونا اس سے دلچسپی رکھنا کومینٹری سننا قطعاً اس کے شایانِ شان نہیں، غافلوں کے ساتھ تشبیہ بھی لازم آتی ہے اور لوگوں کی نظروں میں امام کا وقار بھی کم ہوجاتا ہے؛ اگرورزش اور بدن کی تقویت مقصود ہوتودوسرے جائز طریقے اختیار کئے جائیں؛ اگرکوئی شخص کرکٹ میں اس قدر منہمک رہتا ہو کہ نماز قضاء ہوجائے اور جماعت فوت ہوتی ہوتوپھر ایسا کھیل بالکل بالکل ناجائز اور موجب فسق ہوگا اور ایسے شخص کوامام بنانا مکروہِ تحریمی ہوگا۔ (فتاویٰ رحیمیہ:۴/۱۹۵)