انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** وفات صدیقی شام کے ملک نے یرموک کی لڑائی نے قیصر ہرقل کو بدحواس بنادیا تھا جب یرموک کے بھاگے ہوئے سپاہی حمص میں ہرقل کے پاس جہاں وہ نتیجہ جنگ کا انتظار کررہا تھا پہنچے تو وہ اپنے کئی لاکھ آہن پوش لشکر کا مٹھی بھر مسلمانوں کے ہاتھ سے تہس نہس ہونا سن کر ششدر رہ گیا اور فوراً حمص سے روانہ ہوکر کسی دوسرے مقام کی طرف چل دیا جاتے ہوئے یہ حکم دےگیا کہ دمشق اور حمص کو اچھی طرح قلعہ بند اور مضبوط کرلیا جائے ،مسلمان یرموک سے بڑھ کر دمشق کا محاصرہ کرچکے تھے، شام کے ملک پر گویا مسلمان قابض ومتصرف ہوہی چکے تھے یا ہونے والے تھے ،ہرقل کی کمر یرموک میں ٹوٹ چکی تھی اور اب بجائے اس کہ کے رومی عرب کی طرف نظر اٹھاکر دیکھتے ان کی نگاہوں میں خود اپنی موت وہلاکت پھرنے لگی تھی اسی طرح عراق کا زرخیز ووسیع حصہ مسلمانوں کے قبضہ وتصرف میں آچکا تھا ،اسلامی حکومت ملک عرب میں مستقل وپائدار ہوکر ایران اورروم کی سرحدوں کو پیچھے ہٹانے اور خود وسیع ہونے میں مصروف ہوچکی تھی۔ شروع ماہ جمادی الثانی ۱۳ھ میں حضرت ابوبکر صدیقؓ بعارضہ تپ مبتلا ہوئے ،پندرہ روز برابر شدت کا بخار رہا ،جب آپ کو یقین ہوا کہ وقت آخر آپہنچا ہے تو آپ نے سب سے پہلے حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کو بلاکر خلافت کے متعلق مشورہ کیا، حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ سے آپ نے فرمایا کہ عمر کی بابت تمہارا کیا خیال ہے،انہوں نے کہا کہ عمرؓ کے مزاج میں سخت گیری زیادہ ہے،آپ نے فرمایا کہ عمرؓ کی سختی کا سبب صرف یہ ہے کہ میں نرم طبیعت رکھتا تھا، میں نے خود اندازہ کرلیا ہے کہ جس معاملہ میں میں نرمی اختیار کرتا تھا اُس میں عمرؓ کی رائے سختی کی جانب مائل نظر آتی تھی؛ لیکن جن معاملات میں میں نے سختی سے کام لیا ہے،اُن میں عمرؓ ہمیشہ نرمی کا پہلو اختیار کرتے تھے، میرا خیال ہے کہ خلافت اُن کو ضرور نرم دل اور معتدل بنادے گی،اس کے بعد آپ نے حضرت عثمان غنیؓ کو بُلا کر یہی سوال کیا انہوں نے جواب دیا کہ عمرؓ کا باطن اُن کے ظاہر سے اچھا ہے اورہم میں سے کوئی اُن کے مرتبہ کو نہیں پہنچ سکتا، پھر آپ نے علی کرم اللہ وجہہ کو بلا کر یہی سوال کیا،انہوں نے بھی وہی جواب دیا جو حضرت عثمان ؓ غنی دے چکے تھے، اُس کے بعد حضرت طلحہؓ تشریف لے آئے،آپ نے اُن کے سامنے بھی فرمایا میرا ارادہ ہے کہ اپنے بعد عمر فاروق ؓ کو مسلمانوں کا خلیفہ مقرر کرجاؤں،حضرت طلحہؓ نے کہا کہ آپ خدائے تعالیٰ کو کیا جواب دیں گے کہ آپ نے رعیت کے ساتھ کیسا معاملہ کیا ،یہ سُن کر آپ نے فرمایا کہ مجھ کوا ٹھا کربٹھا دو،چنانچہ آپ کو بٹھایا گیا،آپ نے فرمایا کہ میں خدا تعالیٰ کو جواب دوں گا کہ میں نے تیری مخلوق پر تیری مخلوق کے بہترین شخص کو خلیفہ مقرر کیا ہے،یہ سُن کر حضرت طلحہؓ خاموش ہورہے، پھر آپ نے حضرت عثمانؓ غنی کو بُلا کر وصیت نامہ لکھنے کا حکم دیا،شدت علالت کی وجہ سے حضرت ابوبکر صدیقؓ رُ ک رُک کر بولتے جاتے اورحضرت عثمانؓ غنی لکھتے جاتے،اس وصیت کا مضمون یہ تھا: "یہ وہ عہد ہے جو ابوبکر خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس وقت کیا ہے جب کہ اُس کا آخری وقت دنیا میں اور اول وقت آخرت کا ہے،ایسی حالت میں کافر بھی ایمان لے آتا اورفاجر بھی یقین لے آتا ہے،میں نے تم لوگوں پر عمر بن الخطاب کو مقر ر کیا ہے اور میں نے تم لوگوں کی بھلائی اوربہتری میں کوتاہی نہیں کی ،پس اگر عمرؓ نے عدل وصبر سے کام لے لیا تو یہ میری اُس کے ساتھ واقفیت تھی اوراگر بُرائی کی تو مجھ کو غیب کا علم نہیں ہے اورمیں نے تو بہتری وبھلائی کا قصد کیا ہے اورہر شخص کو اپنے نتائج اعمال سے سابقہ پڑتا ہے" وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ (جنہوں نے ظلم کیا ہے،عنقریب دیکھ لیں گے کہ کس پہلو پر پھیرے جاتے ہیں)