انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** اوکتائی خان چنگیز خاں کی وفات کے بعد اُس کا بڑا بیٹا اوکتائی خان مغلوں کا شہنشاہ تسلیم کیا گیا اوراُس کے بھائی اپنے علاقوں اورملکوں پر جو چنگیزخاں نے مقرر ونامزد کئے تھے،قابض ومتصرف ہوگئے،دوبرس کے بعد اوکتائی قاآن نے اپنے تمام بھائیوں کو طلب کیا اورایک بہت بڑی ضیافت اورجشن کے سامان مرتب کئے،جب سب لوگ آچکے تو اپنے بھائیوں سے مخاطب ہوکر کہا کہ میں قاآنی یعنی شہنشاہ کے عہدے سے دست بردار ہوتا ہوں،آپ جس کو مناسب سمجھیں اپنا شہنشاہ بنالیں مگر چغتائی خان اوردوسرے بھائیوں اورسرداروں نے باصرار اُس کو تخت پر بٹھایا اور مغلوں کی رسم کے موافق سب نے آفتاب کی پرستش کی،اس کے بعد جو جی خان کا بیٹا باتوخان اورپوتاکیوک خان اورتولی خان کا بیٹا منکوخان مامور کئے گئے کہ روس وچرکس وبلغاریہ کی طرف فوج کشی کریں؛چنانچہ ان شہزادوں نے ۶۳۳ھ میں سات برس کی کوشش کے بعد ان تمام ملکوں کو مفتوح ومنقاد کرلیا، ارغون خان سپہ سالار کو خراسان کی حکومت وسرداری پر مامور کیا گیا اورحکم ہوا کہ خراسان کے ان شہروں کو جو مغلوں کی تاخت وتاراج سے ویران ہوگئے ہیں ازسر نو آباد کیا جائے۔ اوکتائی خان ابن چنگیز خاں بہت سنجیدہ مزاج اورنیک طینت شخص تھا اُس نے ملکوں کی آبادی اوررفاہِ رعایا کی طرف خصوصی توجہ مبذول کی،اوکتائی خان کو مسلمانوں سے خاص طور پر محبت وانسیت تھی وہ مسلمانوں کو قابلِ تکریم سمجھتا اوراُن کو ہر قسم کی راحت پہنچانا چاہتا تھا،مغلوں کے دستور کے موافق غوطہ مارکر نہانا گناہ کبیرہ تھا،ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ اوکتائی خان اورچغتائی خان دونوں ہمراہ جارہے تھے،انہوں نے دیکھا کہ ایک مسلمان دریا میں نہا رہا ہے چغتائی خان نے فوراً اُس کے قتل کا حکم دیا، اوکتاکککئی خاں نے کہا کہ اس کو گرفتار کرلو اورمجمعِ عام میں اُس کو قتل کیا جائے،اوکتائی خان نے چغتائی خان سے جُدا ہوکر تنہائی میں اُس مسلمان قیدی سے کہا کہ تو یہ کہہ دینا کہ میرے پاس اشرفیوں کی ایک تھیلی تھی اور مجھ کو ڈاکوؤں کے اندیشہ سے اُس کو چھپانے کی ضرورت تھی،لہذا میں دریا میں اُس کے چھپانے کے لئے داخل ہوا تھا،جب اُس مسلمان کو مجمع عام میں سیاست کے لئے حاضر کیا گیا تو اُس نے اپنی بے گناہی کے ثبوت میں وہی بات کہی جو اوکتائی خان نے اُس کو سمجھادی تھی،یہ سُن کر دریا میں اُس مقام پر اشرفیوں کی تھیلی کی تلاش کرنے کے لئے آدمی بھیجے گئے، اوکتائی خان نے پہلے ہی وہاں تھیلی ڈال دی تھی،وہ برآمد ہوئی اورمسلمان کی بیان کی تصدیق ہوگئی؛چنانچہ اُس کو وہ اشرفیوں کی تھیلی اورچند اور تھیلیاں بطور انعام دے کر اوکتائی خان نے رہا کردیا،اسی طرح جہاں تک اُس کو موقع ملتا تھا، وہ مسلمانوں کو نفع پہنچاتا تھا،مگر دوسرے مغول مسلمانوں کے دشمن اوراُن کو نقصان پہنچانے کے شائق تھے۔ ایک مرتبہ ایک شخص اوکتائی خان کے پاس آیا اور کہا کہ میں نے رات خواب میں قآن اعظم چنگیز خان کو دیکھا ہے اُس نے مجھ سے فرمایا ہے کہ میرے بیٹے اوکتائی خان سے جاکر میرا یہ پیغام کہو کہ میری خوشی اورخواہش یہ ہے کہ دنیا سے مسلمانوں کا نام و نشان مٹادیاجائے اوران کے قتل کرنے میں ہرگز تامّل روا نہ رکھا جائے،اوکتائی خان نے کہا کہ تو مغلی زبان جانتا ہے اُس نے کہا کہ نہیں میں صرف فارسی میں گفتگوکرسکتا ہوں اور فارسی ہی سمجھ سکتا ہو اوکتائی خان نے کہا کہ چنگیز خاں سوائے مغلی زبان کے اورکوئی زبان نہیں جانتا تھا اور فارسی قطعاً نہیں بول سکتا تھا، تونے اُس کے کلام کو کس طرح سمجھا؟ یہ کہہ کر حکم دیا کہ اس کو قتل کردیا جائے،یہ جھوٹا آدمی ہے اورچنگیز خاں پر بہتان باندھتا ہے؛چنانچہ فوراً اس کو قتل کردیا گیا۔ اوکتائی خان کی نسبت عام طور پر لوگوں کا خیال ہے کہ وہ اگرچہ علانیہ مسلمان نہ ہوا تھا لیکن پوشیدہ طور پر وہاسلام کو سچا مذہب یقین کرکے مسلمان ہوچکا تھا،اس کا دارالسلطنت قراقورم تھا اورتمام دنیا کی لوٹ کا مال قراقورم میں جمع ہوکر زر وجواہر سے خزانہ معمور تھا اوکتائی خان کی سخاوت اس قدر بڑھی ہوئی تھی کہ خراسان اورشام تک لوگ اُس کی سخاوت کا شہرہ سُن کر قرا قورم میں چلے آتے تھے اورمالا مال ہوکر واپس جاتے تھے،باپ نے جس طرح ظلم وخونریزی کے ذریعہ دولت جمع کی تھی،بیٹے نے اُسی طرح محبت وشفقت اورخدا ترسی کی راہ سے اس کو لوگوں میں تقسیم کیا، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مغلوں کی زیادتی اورخشونت سے لوگ ابتداًء وحشت زدہ اور متنفر تھے تو اوکتائی خان کی سخاوت اورداد ودہش کے سبب اُس سے محبت کرنے لگے،مغلوں کی سلطنت کا بانی اگر چنگیز خاں تھا تو اُس کی بنیادوں کو پائدار واستوار بنانے والو اوکتائی خان تھا۔