انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** متون حدیث میں شرحی جملے محدثین حدیث کی کتابوں میں حدیث روایت کرکے کبھی شرحی جملے بھی ساتھ کہہ جاتے ہیں، مثلاً حضورﷺ نے ارشاد فرمایا تھا: "وَإِذَاقَرَأَ فَأَنْصِتُوا"۔ (سنن ابوداؤد، كِتَاب الصَّلَاةِ،بَاب الْإِمَامِ يُصَلِّي مِنْ قُعُودٍ،حدیث نمبر:۵۱۱، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:اور جب امام قرآن شریف پڑھے توتم (مقتدی) چپ ہوجاؤ۔ اس پر ابوالنضر کے بھانجے ابوبکر نے کچھ بات کی، غالباً اس طرح اشارہ ہوگا کہ اس میں سلیمان تیمی ایک راوی ہے توامام مسلمؒ (۲۶۱ھ) نے اسے کہا کہ کیا سلیمان تیمی سے بھی زیادہ کوئی یاد رکھنے والا ہوگا؟ صحیح مسلم میں ہے: "فَقَالَ مُسْلِمٌ تُرِيدُ أَحْفَظَ مِنْ سُلَيْمَانَ فَقَالَ لَهُ أَبُوبَكْرٍ فَحَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ فَقَالَ هُوَصَحِيحٌ يَعْنِي وَإِذَاقَرَأَ فَأَنْصِتُوا فَقَالَ هُوَعِنْدِي صَحِيحٌ فَقَالَ لِمَ لَمْ تَضَعْهُ هَاهُنَا قَالَ لَيْسَ كُلُّ شَيْءٍ عِنْدِي صَحِيحٍ وَضَعْتُهُ هَاهُنَا إِنَّمَاوَضَعْتُ هَاهُنَا مَاأَجْمَعُوا عَلَيْهِ"۔ (مسلم:۱/۱۷۴، حدیث نمبر:۶۱۲، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:مسلم نے کہا: تم سلیمان سے زیادہ یاد رکھنے والا چاہتے ہو؛ ابوبکر نے پوچھا توابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کیسی ہے؟ (ابوہریرہؓ کی حدیث جس میں "وَإِذَاقَرَأَ فَأَنْصِتُوا" مروی ہے، مسلم میں نہیں اور کتابوں میں موجود ہے، مسلم کی یہ روایت حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے مروی ہے) (امام) مسلم نے کہا وہ بھی صحیح ہے؛ اس پر ابوبکر نے کہا کہ آپ نے اسے اس موقع پر کیوں روایت نہیں کیا، آپ نے کہا ہروہ چیز جومیرے ہاتھ صحیح ہو میں نے اس میں نہیں لکھی میں نے اس میں صرف وہی کچھ لکھا ہے جس پر سب کا اتفاق ہو۔ دیکھئے یہ متن کے ساتھ شرحی جملے چلے آرہے ہیں..... جامع ترمذی کودیکھئے اس میں بھی جگہ جگہ شرحی جملے ملتے ہیں؛ بلکہ جامع ترمذی متن کی کتاب ہونے کے باوجود شرح حدیث کا ایک بڑا علمی ذخیرہ ہے، ایک مثال لیجئے، امام ترمذی ایک جگہ لکھتے ہیں: "وَأَمَّاأَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ فَقَالَ مَعْنَى قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَاصَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ إِذَاكَانَ وَحْدَهُ وَاحْتَجَّ بِحَدِيثِ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ حَيْثُ قَالَ مَنْ صَلَّى رَكْعَةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَلَمْ يُصَلِّ إِلَّاأَنْ يَكُونَ وَرَاءَ الْإِمَامِ قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ فَهَذَا رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَأَوَّلَ قَوْلَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَاصَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ أَنَّ هَذَا إِذَاكَانَ وَحْدَهُ"۔ (ترمذی، كِتَاب الصَّلَاةِ،بَاب مَاجَاءَ فِي تَرْكِ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ إِذَاجَهَرَ الْإِمَامُ بِالْقِرَاءَةِ،حدیث نمبر:۲۸۷، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں آنحضرتﷺ کے ارشاد "لَاصَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ" (جس نے سورہ فاتحہ نہیں پڑھی اس کی کوئی نماز نہیں ہوتی) کا معنی یہ ہے کہ جب وہ اکیلا ہو (جماعت والی نماز یہاں مراد نہیں) اور امام احمدؒ نے اس سلسلہ میں حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے استدلال کیا ہے، آپ نے فرمایا جس نے ایک رکعت پڑھی اور اس میں "ام القرآن" نہ پڑھی اس کی نماز نہ ہوئی؛ مگرجب کہ وہ امام کے پیچھے ہو (یعنی اس وقت اس کی نماز خود فاتحہ پڑھے بغیر بھی ہوجاتی ہے) امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ یہ شخص (حضرت جابرؓ) اصحابِ رسول میں سے ہے، آپ اس حدیث "لَاصَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ" کا یہی معنی سمجھ رہے ہیں کہ یہ حدیث اکیلے سے متعلق ہے (نماز باجماعت کے لیئے نہیں)۔ امام ابوداؤد (۲۷۵ھ) نے بھی سنن میں مشہور محدث سفیان بن عیینہ (۱۹۸ھ) کا یہ شرحی جملہ نقل کیا ہے کہ حدیث "لَاصَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ" اسی شخص کے بارے میں ہے، جواکیلا نماز پڑھے (سنن ابی داؤد:۱/۱۱۹) یہ حدیث جماعت سے نماز پڑھنے والے کے بارے میں نہیں ہے۔ محدثین کے ہاں یہ شرحی جملے عام ملتے ہیں، امام ابوداؤد جگہ جگہ "قَالَ أَبُوْدَاؤد" کہہ کر متونِ احادیث پرتشریحی نوٹ لکھے جاتے ہیں، علمائے حدیث نے قال ابوداؤد کے ان جملوں پر مستقل کتابیں لکھی اور مستقل بحثیں کی ہیں، اس وقت ہمیں اس سے بحث نہیں کہ کون ساتشریحی نوٹ اور کون ساشرحی جملہ صحیح ہے اور کس جملے سے ہم رائے کا اختلاف رکھتے ہیں، اس وقت صرف یہ بتانا ہے کہ طلبہ کوشرح احادیث کی ضرورت ابتداء سے ہی رہی ہے؛ حتی کہ متن کی کتابوں (کتب متون) میں بھی جگہ جگہ احادیث کے ساتھ شرحی جملے ملتے ہیں..... امام زہریؒ (۱۲۴ھ) تومتن حدیث روایت کرتے ہوئے یہ شرحی جملے کہہ جاتے تھے اور بعض علمائے حدیث انہیں متن حدیث میں سے سمجھ لیتے، محدثین کے ہاں اسے ادراج بھی کہتے ہیں، امام زہریؒ کے ہاں یہ عام ملتا ہے۔