انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** تیمم کے فروعی مسائل جو شخص نماز جنازہ یا سجدہ تلاوت کے لئے تیمم کرے ، اس کے لئے اس تیمم سے جتنی چاہے نمازیں پڑھنا صحیح ہے۔ حوالہ (عن أبِی ذر أن رسول اللہ ﷺ قال إن الصعيد الطيب طهور المسلم، وإن لم يجد الماء عشر سنين فإذا وجد الماء فليمسه بشرته فإن ذلك خير ترمذی، باب ماجاء فی التیمم للجنب اذالم یجدالماء، حدیث نمبر:۱۱۵، وقال ہذا حدیث حسن صحیح) بند اور جو شخص مسجد میں داخل ہونے کے لئے تیمم کرے، اس کے لئے اس تیمم سے نماز پڑھنا جائز نہیں ، جو شخص زیارت قبور یا میت کو دفن کرنے کے لئے تیمم کرے، اس کے لئے بھی اس تیمم سے نماز پڑھنا جائز نہیں۔ حوالہ عن عُمَرَ بْن الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى الْمِنْبَرِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْيَا يُصِيبُهَا أَوْ إِلَى امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ (بخاري بدْءِ الْوحْيِ: ۱) اس روایت سے معلوم ہوا کہ اعمال کی صحت ونقص کا مدار نتیوں پر ہے اب چونکہ مذکورہ صورتوں میں متیمم عبادتِ مقصودہ کی نیت نہیں کیا تھا اس لیے اس تیمم سے عبادتِ مقصودہ یعنی نماز ادا نہیں کرسکتا۔ فإن تيمم نصراني يريد به الإسلام ثم أسلم لم يكن متيمما عند أبي حنيفة و محمد رحمهما الله وقال أبو يوسف رحمه الله : هو متيمم لأنه نوى قربة مقصودة بخلاف التيمم لدخول المسجد ومس المصحف لأنه ليس بقربة مقصودة (الهداية باب التيمم: ۲۷/۱) بند جسے امید ہو کہ وقت نکلنے سے پہلے پانی پالے گا، اس کے لیے تیمم کو مؤخر کرنا مستحب ہے۔ حوالہ عَنْ عَطَاءٍ ، قَالَ :إذَا كُنْتَ فِي الْحَضَرِ وَحَضَرَتِ الصَّلاَةُ وَلَيْسَ عِنْدكَ مَاءٌ فَانْتَظِرَ الْمَاءَ ، فَإِنْ خَشِيتَ فَوْتَ الصَّلاَةِ فَتَيَمَّمْ وَصَلِّ.( مصنف ابن ابي شيبة مَنْ قَالَ لاَ يَتَيَمَّمُ مَا رَجَا أَنْ يَقْدِرَ عَلَى الْمَاءِ ۱۶۰/۱) بند جس سے کسی نے پانی کا وعدہ کر رکھا ہو، اس پر تیمم کو مؤخر کرنا ضروری ہے، جس کے ساتھ تھوڑا سا پانی ہو اور اسے آٹا گوندھنے کی ضرورت ہو تو پانی سے آٹا گوندھ لے اور نماز کے لئے تیمم کرلے۔، جس کے ساتھ تھوڑا سا پانی ہو اور اسے سالن پکانے کی ضرورت ہو تو پانی سے وضو کرے اور سالن نہ پکائے۔ حوالہ عَنْ عَلِىٍّ قَالَ :إِذَا أَجْنَبَ الرَّجُلُ فِى أَرْضِ فَلاَةٍ وَمَعَهُ مَاءٌ يَسِيرٌ فَلْيُؤْثِرْ نَفْسَهُ بِالْمَاءِ وَلْيَتَيَمَّمْ بِالصَّعِيدِ.(السنن الكبري للبيهقي باب الْجُنُبِ أَوِ الْمُحْدِثِ يَجِدُ مَاءً لِغُسْلِهِ ۱۱۴۸) پہلی صورت میں آٹا گوندھنے کے لیے پانی استعمال نہ کیا جائے تواس کا اپنی حاجتِ ضروریہ کا پورا کرنا مشکل تھا؛ اس لیے وہاں ضرورۃ آٹے کے لیے پانی استعمال کرنے کی اجازت دی گئی، دوسری صورت میں روٹی کے ساتھ سالن ہونا اپنی جان بچانے کے لیے ضروری نہیں صرف روٹی سے بھی اس کی حاجت پوری ہوسکتی ہے؛ بہرحال جیسی ضرورت ہے ویسا حکم لگایا گیا ہے۔ الضرورة فيقدر بقدر الضرورة (اصول الشاشي: ۲۰/۱) بند اگر وہ ایسی جگہ میں ہو ، جہاں لوگ پانی کے سلسلے میں بخل نہیں کرتے تو اپنے اس دوست سے جس کے پاس پانی ہے پانی مانگنا ضروری ہے، ہاں ! اگر ایسی جگہ ہو جہاں لوگ پانی کے سلسلے میں بخل کرتے ہوں ، تو اس کے لئے دوسروں سے پانی مانگنا ضروری نہیں ۔ حوالہ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ وَذَكَرَ الصَّدَقَةَ وَالتَّعَفُّفَ وَالْمَسْأَلَةَ الْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنْ الْيَدِ السُّفْلَى فَالْيَدُ الْعُلْيَا هِيَ الْمُنْفِقَةُ وَالسُّفْلَى هِيَ السَّائِلَةُ (بخاري بَاب لَا صَدَقَةَ إِلَّا عَنْ ظَهْرِ غِنًى: ۱۳۳۹) العار في ذل السؤال(كشف الخفاء ومزيل الإلباس لإسماعيل بن محمد العجلوني الجراحي (المتوفى :1162هـ) ۱۲۴/۱) جب کوئی چیز مانگنے پرنہ دی جائے توسائل کے لیئے بڑی ذلت کی چیز ہوتی ہے، اس ذلت سے بچنے ہی کے لیے سوال مطلقاً ناپسندیدہ بتلایا گیا، جیسا کہ مذکورہ حدیث سے سمجھ میں آتا ہے اور بخیل لوگ کسی بھی چیز کے دینے میں عام طور پربخل کرتے ہیں تواس وقت کی ذلت سے بچنے کے لیے پانی کا مانگنا ضروری قرار نہیں دیا گیا اور جہاں ذلت کا خوف نہ ہو وہاں ضروری قرار دیا گیا؛ جیسا کہ اس عبارت سے سمجھ میں آتا ہے۔ قَالَ رَحِمَهُ اللَّهُ ( وَيَطْلُبُهُ مِنْ رَفِيقِهِ فَإِنْ مَنَعَهُ تَيَمَّمَ ) أَيْ يَطْلُبُ الْمَاءَ مِنْ رَفِيقِهِ لِأَنَّهُ مَبْذُولٌ فَكَانَ الْغَالِبُ الْإِعْطَاءَ (تبيين الحقائق بَابُ التَّيَمُّمِ : ۲۰۴/۱) بند اگر معذور کے حکم میں نہ ہو تو وقت پر تیمم کو مقدم کرنا جائز ہے۔ حوالہ عن عبد الله بن دارة أن عثمان كان قد سلس بوله فداواه ثم أرسله فكان يتوضأ لكل صلاة(كنز العمال طهارة المعذور ۶۲۲/۹) اس لیے کہ معذور ہوتووقت ختم ہونے یاوقت آنے کی وجہ سے اس کا وضو ختم ہوجاتا ہے اسی وجہ سے وقت آنے پرنماز کے لیے معذورین وضو کیا کرتے تھے؛ جیسا کہ مذکورہ اثرسے واضح ہوتا ہے۔ بند دونوں ہاتھوں اور دونوں پیروں کا کٹا ہواشخص جب کہ اس کے چہرے پر زخم ہو توبغیرپاکی کے نماز پڑھے۔اگراکثر عضو یا آدھا عضو زخمی ہو تو تیمم کرے، اگر اکثر عضو صحیح ہو تو وضو کرے اور زخم پر مسح کرے۔ حوالہ لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا(البقرة:۲۸۶) للأكثر حكم الكل(هامش موطا محمد باب ما يكره من الضحايا ۵۸۷/۲) بند