انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** تیمم کی مشروعیت اللہ تعالی نے فرمایا:وَاِنْ کُنْتُمْ مَّرْضَیٰ ، أَوْعَلیٰ سَفَرٍ ، أَوْجَاءَ أَحَدٌ مِّنْکُمْ مِّنَ الْغَائِطِ أَوْلاَ مَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَاءًا فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْھِکُمْ وَأَیْدِیَکُمْ اِنَّ اللہ کَانَ عَفُوَّا غَفُوْرًا (النساء:۴۳) اور اگر تم بیمار ہو (اور پانی کے استعمال پر قادر نہ ہو)یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے فارغ ہو کر آیا ہو یا تم نے عورتوں سے ہمبستری کی ہو اور پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی سے تیمم کر لو اور چہرے اور ہاتھوں کا مسح کرو، بے شک اللہ معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے۔ حوالہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہمیں لوگوں پر تین چیزوں سے فضیلت دی گئی ہے ، ہماری صفوں کو فرشتوں کی صفوں کی طرح بنایا گیا، تمام زمین کو ہمارے لئے مسجد بنا یا گیا اور اس کی مٹی کو پانی کی عدم موجود گی میں پاکی کا ذریعہ بنایا گیا۔ فُضِّلْنَا عَلَی النَّاسِ بِثَلاَثِ ، جُعِلَتْ صُفُوْفُنَا کَصُفُوْفِ الْمَلاَئِکَۃِ، وَجُعِلَتْ لَنَا الْأَرْضُ کُلُّھَا مَسْجِدًا ، وَجُعِلَتْ تُرْبَتُھَا لَنَا طَھُوْرًا اِذَا لَمْ نَجِدِ الْمَاءَ (مسلم، كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةِ باب ۸۱۱) بند تیمم کو اس لئے مشروع کیا گیا کہ کبھی انسان پانی کے نہ ہونے یا کسی بیماری کی وجہ سے پانی کے استعمال کرنے سے عاجز ہو جاتا ہے ، تو وہ وضو یا غسل کے بدلے تیمم کرے۔حوالہ عَنِ الزُّهْرِيِّ ؛ فِي الْمَرِيضِ لاَ يَسْتَطِيعُ أَنْ يَتَوَضَّأَ ، قَالَ :يَتَيَمَّمُ.(مصنف ابن ابي شيبة فِي الْمَرِيضِ لاَ يَسْتَطِيعُ أَنْ يَتَوَضَّأَ۲۰۲/۱) بند تاکہ وہ ان عبادتوں سے محروم نہ ہو جائے جو ان کے بغیر صحیح نہیں ہوتیں جیسے نماز جو کہ اہم عبادت میں سے ہے۔ تیمم کے لغوی اور شرعی معنی تیمم کے لغوی معنی ارادہ کرنے کے ہیں، اور شرعی معنی:وہ مٹی سے حاصل ہونے والی پاکی ہے جو چہرے اور ہاتھوں کو کہنیوں سمیت پاک مٹی سے نیت کے ساتھ مسح کرنے پر مشتمل ہوتی ہے۔حوالہ التيمم لغة:القصد ومنه قوله تعالى:﴿ ولاتيمموا الخبيث منه تنفقون ﴾ [البقرة:2/267]، وشرعاً عرفه الفقهاء بعبارات متقاربة، فقال الحنفية :مسح الوجه واليدين عن صعيد مطهر(الفقه الاسلامي وادلته الفَصْلُ السَّادس:التَّيَمُّم۴۹۸/۱) بند