انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** اسرائیلیات کی ابتداء جب قرآن مجید نازل ہونےلگا اوراس میں حضرات انبیاء کرام کے واقعات اوران کی قوموں کے احوال بیان کیے جانے لگے تو اہل کتاب یہود ونصاری اپنی عبرانی زبان میں موجود کتابوں سے جو تحریف شدہ تھے اس سے واقعات عربی میں حضرات صحابہ کرام ؓسے بیان کرتے تھے جب اس واقعہ کی اطلاع نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم ان اہل کتاب کے بیان کردہ واقعات کی نہ ہی تصدیق کرو اورنہ تکذیب ؛بلکہ کہو کہ جو کچھ اللہ تعالی نے نازل کیا ہےہمارا اس پر ایمان ہے؛چنانچہ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ: "كَانَ أَهْلُ الْكِتَابِ يَقْرَءُونَ التَّوْرَاةَ بِالْعِبْرَانِيَّةِ وَيُفَسِّرُونَهَا بِالْعَرَبِيَّةِ لِأَهْلِ الْإِسْلَامِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِﷺ لَا تُصَدِّقُوا أَهْلَ الْكِتَابِ وَلَا تُكَذِّبُوهُمْ وَقُولُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا"۔ (بخاری، بَاب:قُولُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا،حدیث نمبر:۴۱۲۵) اہل کتاب تورات عبرانی زبان میں پڑھتے تھے اور اہل اسلام کے لیے اس کی تفسیر عربی زبان میں کرتے تھے،رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: اہل کتاب کی نہ تصدیق کرو اور نہ تکذیب کرو اور کہو کہ ہم اللہ پر اور جو اس نے نازل کیا ہے اس پر ایمان لاتے ہیں۔ علامہ ابن حجر عسقلانی ؒ (المتوفی:۸۵۳ ھ) حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد فرمانا کہ نہ تم ان کی تصدیق کرو نہ تکذیب یہ اس وجہ سے ہے کہ جن باتوں کی وہ خبر دے رہے ہیں وہ سچ اورجھوٹ دونوں کا احتمال رکھتی ہیں،اگر فی الواقع وہ سچ ہوں اور تم ان کی تکذیب کردویا اگر وہ جھوٹ ہوں اور تم اس کی تصدیق کردو تو دونوں اعتبار سے حرج اور تنگی میں پڑجانے کا اندیشہ ہے اس لیے ان کی بیان کردہ باتوں کو سن کر نہ تصدیق کی جائے نہ تکذیب؛ تاکہ فتنہ میں نہ پڑو۔ (فتح الباری،حدیث نمبر:۴۱۲۵،شاملہ)