انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ہرتکلیف سے نجات موت اور طرح طرح کی تکالیف سے نجات: اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: وَتَرَى الْجِبَالَ تَحْسَبُهَا جَامِدَةً وَهِيَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ صُنْعَ اللَّهِ الَّذِي أَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ إِنَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَفْعَلُونَo مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ خَيْرٌ مِنْهَا وَهُمْ مِنْ فَزَعٍ يَوْمَئِذٍ آمِنُونَ۔ (النمل:۸۸،۸۹) ترجمہ وتفسیر: اور تو(اس وقت) پہاڑوں کوایسی حالت میں دیکھ رہا ہے جس سے تجھ کوخیال ہوتا ہے کہ ہیہ ہمیشہ (یوں ہی رہیں گے اور کبھی اپنی جگہ سے) جنبش نہ کریں گے؛ حالانکہ (قیامت واقع ہونے کے وقت ان کی یہ حالت ہوگی کہ) وہ بادلوں کی طرح (خفیف اور اجزاء منتشرہ ہوکر فضائے آسمانی میں) اُڑے اڑے پھریں گے یہ خدا کا کام ہوگا جس نے ہرچیز کو (مناسب انداز پر) بنارکھا ہے؛ (کیونکہ ابتداء میں کسی شے میں کوئی مضبوطی نہ تھی؛ کیونکہ خود اس شے کی ذات ہی نہ تھی) یہ یقینی بات ہے کہ اللہ تعالی ٰکوتمہارے سب افعال کی پوری خبر ہے (جوجزاء وسزا کی پہلی شرط ہے اور دوسری شرائط مثل قدرت وغیرہا مستقل دلائل سے ثابت ہیں پس) جوشخص نیکی (ایمان) لائے گا سو! اُس شخص کو اس سے بہتر (اجر) ملے گا اور وہ لوگ بڑی گھبراہٹ سے اس روز امن میں رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: وَمَا أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ بِالَّتِي تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنَا زُلْفَى إِلَّا مَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَأُولَئِكَ لَهُمْ جَزَاءُ الضِّعْفِ بِمَا عَمِلُوا وَهُمْ فِي الْغُرُفَاتِ آمِنُونَ (سبأ:۳۷) ترجمہ: اور تمہارے اموال واولاد ایسی چیزیں نہیں جوتم کودرجہ میں ہمارا مقرب بنادے، ہاں! مگرجوایمان لائے اور اچھے کام کرے (یہ دونوں چیزیں البتہ قرب کا سبب ہیں) سواایسے لوگوں کے لیے ان کے (نیک) عمل کا دوگنا صلہ ہے (یعنی عمل سے زیادہ خواہ دونے سے بھی زیادہ) اور وہ (بہشت کے) بالاخانوں میں چین سے بیٹھے ہوں گے۔ (تفسیر بیان القرآن، بتغیر یسیر) اللہ تعالیٰ مزید ارشاد فرماتے ہیں: إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقَامٍ أَمِينٍo فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍo يَلْبَسُونَ مِنْ سُنْدُسٍ وَإِسْتَبْرَقٍ مُتَقَابِلِينَo كَذَلِكَ وَزَوَّجْنَاهُمْ بِحُورٍ عِينٍo يَدْعُونَ فِيهَا بِكُلِّ فَاكِهَةٍ آمِنِينَo لَايَذُوقُونَ فِيهَا الْمَوْتَ إِلَّاالْمَوْتَةَ الْأُولَى وَوَقَاهُمْ عَذَابَ الْجَحِيمِo فَضْلًا مِنْ رَبِّكَ ذَلِكَ هُوَالْفَوْزُ الْعَظِيمُ۔ (الدخان:۵۱ تا ۵۷) ترجمہ: بیشک خدا سے ڈرنے والے امن (چین) کی جگہ میں ہوں گے یعنی باغوں میں اور نہروں میں (اور) وہ لباس پہنیں گے باریک اور موٹے ریشم کا، آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے (اور یہ) بات اسی طرح ہے اور ہم ان کاگوری گوری بڑی آنکھوں والوں سے بیاہ کردیں گے (اور) وہاں اطمینان سے ہرقسم کے میوے منگاتے ہوں گے (اور) وہاں سوائے اس موت کے جودنیا میں آچکی تھی اور موت کا ذائقہ بھی نہ چکھیں گے (یعنی مریں گے نہیں) اور اللہ تعالیٰ ان کودوزخ سے بھی بچالے گا (اور) سب کچھ آپ کے رب کے فضل سے ہوگا، بڑی کامیابی یہی ہے۔ (تفسیر بیان القرآن، بتغیر یسیر) جنت میں ذرہ برابر تکلیف نہ ہوگی: اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍo ادْخُلُوهَا بِسَلَامٍ آمِنِينَo وَنَزَعْنَا مَافِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ إِخْوَانًا عَلَى سُرُرٍ مُتَقَابِلِينَo لَايَمَسُّهُمْ فِيهَا نَصَبٌ وَمَاهُمْ مِنْهَا بِمُخْرَجِينَ۔ (الحجر:۴۵ تا ۴۸) ترجمہ:بیشک خدا سے ڈرنے والے (اہلِ ایمان) باغوں اور چشموں میں (بستے) ہوں گے تم ان (جنات اور چشموں) میں سلامتی اور امن کے ساتھ داخل ہوجاؤ (یعنی اس وقت بھی ہرمکروہ سے سلامتی ہے اور آئندہ بھی کسی شرکااندیشہ نہیں) اور (دنیا میں طبعی تقاضا سے) ان کے دلوں میں جوکینہ تھا ہم وہ سب (ان کے دلوں سے جنت میں داخل ہونے سے پہلے ہی) دورکردیں گے کہ سب بھائی بھائی کی طرح (الفت ومحبت سے) رہیں گے، تختوں پرآمنے سامنے بیٹھاکریں گے وہاں ان کوذرا بھی تکلیف نہ پہنچے گی اور نہ وہ وہاں سے نکالے جائیں گے۔ (تفسیر بیان القرآن، حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ) دلوں سے کینے نکال دیئے جائیں گے: حضرت عبدالکریم بن رشید رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں جب جنتی جنت کے دروازہ تک پہنچی ںگے تووہ (آپ کے مخالفوں اور دشمنوں کو) ایسے دیکھیں گے جیسے آگ آگ کودیکھتی ہے لیکن جب وہ جنت میں داخل ہوں گے تواللہ تعالیٰ ان کے دلوں میں موجود کینوں کوختم کردیں گے اور وہ آپس میں بھائی بھائی بن جائیں گے۔ (زوائد زہد عبداللہ بن احمد، البدورالسافرہ:۲۱۱۵) آپس کی مخالفت کی صفائی کس جگہ ہوگی؟ حدیث: حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: إِذَاخَلَصَ الْمُؤْمِنُونَ مِنْ النَّارِ حُبِسُوا بِقَنْطَرَةٍ بَيْنَ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ فَيَتَقَاصُّونَ مَظَالِمَ كَانَتْ بَيْنَهُمْ فِي الدُّنْيَا حَتَّى إِذَانُقُّوا وَهُذِّبُوا أُذِنَ لَهُمْ بِدُخُولِ الْجَنَّةِ فَوَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَأَحَدُهُمْ بِمَسْكَنِهِ فِي الْجَنَّةِ أَدَلُّ بِمَنْزِلِهِ كَانَ فِي الدُّنْيَا۔ (بخاری، كِتَاب الْمَظَالِمِ وَالْغَصْبِ،بَاب قِصَاصِ الْمَظَالِمِ،حدیث نمبر:۲۲۶۰، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ: جب مؤمن حضرات دوزح سے چھٹکارا حاصل کرلیں گے توان کوجنت اور دوزخ کے درمیان روک دیا جاے گا؛ چنانچہ وہ لوگ ایک دوسرے سے اپنا اپنا بدلہ لیں گے جوان کے درمیان دنیا میں رنج اور دُکھ پہنچا تھا، حتی کہ جب وہ پاک صاف ہوجائیں گے تب ان وکجنت میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے گی، مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمد کی جان ہے ان میں سے ہرایک جنت میں اپنے اپنے ٹھاکانے اور محل سے زیادہ واقف ہے دنیا کے اپنے مکان کے اعتبار سے۔ جنتیوں اور دوزخیوں کے درمیان موت کا ذبح کردیا جائے گا حدیث: حضرت ابوسعید حدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا (جنتیوں کے جنت میں اور دوزخیوں کے دوزخ میں داخَ ہونے کے بعد) موت کواس شکل میں لایا جائے گا گویا وہ نیلے رنگ کا دنبہ ہے اس کوجنت اور دوزخ کے درمیان کھڑا کردیا جائے گا؛ پھرپکارا جائے گا، اے جنت والو! کیا تم اس کوپہچانتے ہو؟ تووہ گردن لمبی کرکے دیکھیں گے اور کہیں گے ہاں یہ موت ہے؛ پھردوزخیوں کوپکارا جائے گا، اے دوزخ والو! کیا تم اس کوپہچانتے ہو؟ تووہ بھی گردن لمبی کرکے دیکھیں گے اور کہیں گے ہاں یہ موت ہے، اس کے لیے حکم ہوگا تواس کوذبح کردیا جائے گا پھراعلان کیا جائے گا، اے جنت والو! اب تم کوہمیشہ رہنا ہے تم پرکبھی موت نہیں آئے گی اور اے دوزخوالو! تم کوبھی ہمیشہ رہنا ہے تم پربھی موت نہیں آئے گی اس کے بعد جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیتِ مبارکہ تلاوت فرمائی: وَأَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ إِذْ قُضِيَ الْأَمْرُ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ وَهُمْ لَايُؤْمِنُونَ۔ (مریم:۳۹) ترجمہ:اور ان انسانوں کواس حسرت کے دن سے ڈرائیے جب (ہمیشہ کے لیے جنت یادوزخ میں رہنے کا) فیصلہ کردیا جائیگا؛ حالانکہ یہ لوگ غفلت میں ہیں ایمان نہیں لاتے۔ (بخاری:۴۷۳۰۔ مسلم:۲۸۴۹۔ صفۃ الجنۃ الفتح الربانی ترتیب مسنداحمد:۲۴/۲۰۴،بلفظہ) فائدہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ جب جنت والوں اور دوزخ والوں کے سامنے موت کوذبح کردیا جائے گا توجنت والوں کی خوشی میں (انتہائی) اضافہ ہوجائے گا اور دوزخ والوں کا غم بھی بہت ہوجائے گا۔ (بخاری:۶۵۴۸۔ مسلم:۴۳) موت سے امان پرجنتیوں کا شکرانہ: آیت کریمہ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَذْهَبَ عَنَّا الْحَزَنَ۔ (فاطر:۳۴) ترجمہ: سب تعریفیں اس اللہ تعالیٰ کے لی ہے جس نے ہم سے غم کودور کیا۔ وہ مرنے سے محفوظ ہوجائیں گے۔ (صفۃ الجنۃ ابونعیم:۱/۱۴۵۔ وذکرہ الطبری فی تفسیرہ :۱۰/۲۲) حضرت یزیر رقاشی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: جنت والے موت سے محفوظ ہوجائیں گے ان کا عیش خوب پاکیزہ اور مزے دار ہوجائے گا، یہ بیماریوں سے محفوظ ہوجائیں گے، ہم ان کواللہ تعالیٰ کے قرب وجواب میں طویل قیام کی مبارکباد دیتے ہیں؛ پھرآپ رونے لگے حتی کہ آپ کے آنسو ان کی داڑھی پربہنے لگ گئے۔ (ابن المبارک، کتاب الزہد، حادی الارواح:۴۸۷) جنت چھوڑنے کودل ہی نہ چاہے گا: اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ كَانَتْ لَهُمْ جَنَّاتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلًاo خَالِدِينَ فِيهَا لَايَبْغُونَ عَنْهَا حِوَلًا۔ (الکہف:۱۰۷،۱۰۸) ترجمہ: بے شک جولوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کئے ان کی مہمانی کے لیے فردوس (یعنی بہشت) کے باغ ہوں گے جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے (نہ ان کوکوئی نکالے گا) اور نہ وہ وہاں سے کہیں اور جانا پسند کریں گے۔ صرف شہید ہی دنیا میں واپسی کی تمنا کرے گا: حدیث: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مَامِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ أَحَدٌ يَسُرُّهُ أَنْ يَرْجِعَ إِلَى الدُّنْيَا وَلَهُ عَشَرَةُ أَمْثَالِهَا إِلَّاالشَّهِيدَ فَإِنَّهُ يَوَدُّ أَنَّهُ يَرْجِعُ إِلَى الدُّنْيَا فَاسْتُشْهِدَ عَشْرَ مَرَّاتٍ لِمَا رَأَى مِنْ الْفَضْلِ۔ (مسنداحمد بن حنبل،بَاقِي مُسْنَدِ الْمُكْثِرِينَ، مُسْنَدُ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،حدیث نمبر:۱۴۱۱۵، شاملہ، الناشر: مؤسسة قرطبة،القاهرة) ترجمہ:کوئی جنتی ایسا نہیں جس کویہ بات اچھی لگے کہ وہ دنیا میں لوٹ جائے اور اس کودس گنا دنیا کا مالک بنادیا جائے گا؛ مگرشہید کیونکہ یہ اس کی خواہش کرے گا کہ یہ دنیا میں لوٹ جائے اور دس مرتبہ شہید کیا جائے اس وجہ سے کہ جواس نے (شہادت کے ثواب میں) فضل ومرتبہ پایا ہوگا۔