انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** مستضی بامراللہ مستضی بامراللہ بن مستنجد باللہ سنہ۵۳۶ھ میں ایک ارمنی اُم ولد (وہ کنیز جس کی اپنے آقا سے اولاد پیدا ہوئی ہو، یہ کنیز فروخت نہیں کی جاسکتی تھی، اب کنیزوں کورکھنے کا رواج نہیں رہا) کے بطن سے پیدا ہوا، اس نے تخت نشین ہوتے ہی عدل وانصاف قائم کیا، رعایا کے تمام ٹیکس معاف کردیے، اس کی تخت نشینی کے پہلے ہی سال میں مصرکے اندر عبیدیوں کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا، اوپر ذکر ہوچکا ہے کہ صلاح الدین یوسف عبیدیوں کے آخری حاکم عاضدلدین اللہ کا وزیراعظم ہوگیا تھا، صلاح الدین نے مصر کی بدامنی کورفع کرکے ہرقسم کا انتظام کیا اور پورے طور پرہرایک محکمہ کواپنے ہاتھ میں لے کرحکومت کرنے لگا، نورالدین محمود زنگی فرماں روائے شام نے سنہ۵۶۶ھ کے آخری ایام میں سلطان صلاح الدین کولکھا کہ مصر میں خلیفہ مستضی باللہ عباسی کے نام کا خطبہ جاری کو، صلاح الدین یوسف اپنے آپ کوسلطان نورالدین کا نائب سمجھتا تھا، اس نے اس حکم کی تعمیل ڈرتے ہی ڈرتے کی اور محرم سنہ۵۶۷ھ کی ابتدائی تاریخوں میں یومِ عاشورہ سے پہلے جوجمعہ آیا، اس جمعہ میں خلیفہ مستضی بامراللہ کے نام کوبہ نظر استحسان دیکھا گیا۔ ۱۰/محرم سنہ۵۶۷ھ کوعاضدلدین اللہ فوت ہوگیا اور اگلے جمعہ کے دن تمام بلاد مصر میں خلیفہ بغداد کے نام کا خطبہ پڑھا گیا، اس کی اطلاع سلطان صلاح الدین نے سلطان نورالدین کودی اور سلطان نورالدین نے خلیفہ مستضی کے پاس بغداد میں یہ خوشخبری بھیجی، جب یہ خبر بغداد میں پہنچی توخلیفہ نے خوشی کی نوبت بجوائی اور تمام بغداد میں چراغاں کیا گیا، خلیفہ نے اپنے خادمِ خاص صندل نامی کو جوخلیفہ کی سرائے کا داروغہ بھی تھا، نورالدین کے پاس بھیجا اور اس کے ہاتھ نورالدین اور صلاح الدین کے لیے خلعت روانہ کیے اور سیاہ پھریرے بھیجے، صند کے پہنچنے پرنورالدین نے بھی بڑی خوشی کا اظہار کیا اور صلاح الدین کے پاس خلیفہ کا خلعت روانہ کیا، مصر سے دولت عبیدیہ ختم ہوگئی اور دولت ایوبیہ مصر میں قائم ہوئی، نورالدین کے قبضہ میں شام، جزیرہ اور موصل کا تمام علاقہ تھا، اب خلیفہ نے اس کے پاس مصر، شام، جزیرہ، موصل، دیارِ بکر، خلاط، بلادِروم اور سوادِ عراق کی سند حکومت لکھ کربھیج دی اور اس کوان ممالک میں اپنا نائب السلطنت بناکر سیاہ وسفید کا مالک بنادیا، نورالدین کی طرف سے صلاح الدین مصر کا حاکم اور بادشاہ رہا، جس طرح صلاح الدین، نورالدین کافرماں بردار تھا؛ اسی طرح نورالدین خلیفہ بغداد کا فرمان پذیر رہا، اب خلیفہ مستضی سے تمام بادشاہ ڈرنے لگے تھے اور دور دور تک اس کے نام کا خطبہ پڑھا جانے لگا، کسی کوخلیفہ کی مخالفت کی جرأت نہ رہی، خلیفہ نے قطب الدین قائماز کوسپہ سالار افواج بنایا تھا۔ سنہ۵۷۰ھ میں قائماز نے خلیفہ کے خلاف بغداد میں سرکشی کا اظہار کیا، خلیفہ نے قصرِ خلافت میں محصور ہوکر اور چھت پرچڑھ کربلند آواز سے لوگوں کومخاطب کرکے کہا کہ قطب الدین قائماز کا مال واسباب تمہارے لیے معاف ہے، یہ سنتے ہی لوگ اس کے گھر پرٹوٹ پڑے اور ذراسی دیر میں سب کچھ لوٹ لیا، قائماز بغداد سے فرار ہوکر حلہ پرپہنچا، وہاں سے موصل کی طرف جارہا تھا کہ راستہ میں مرگیا، سنہ۵۷۳ھ خلیفہ مستضی کا وزیرعضدالدین ابوالفرح محمد بن عبداللہ حج کے ارادے سے ایک بڑے قافلہ کے ساتھ روانہ ہوا، راستے میں ایک قرمطی نے دھوکے سے اس کوقتل کردیا، اس کے بعد خلیفہ نے ابومنصور ظہیر الدین بن نصر معروف بہ ابن عطار کوقلمدان وزارت عطا کیا، ماہِ ذیقعدہ سنہ۵۷۵ھ میں خلیفہ مستضی بامراللہ ساڑھے نوبرس خلافت کرنے کے بعد فوت ہوا، وزیرظہیرالدین بن عطار نے اس کے بیٹے ابوالعباس احمد کوتخت خلافت پربٹھایا، اس نے ناصرلدین اللہ کا لقب اختیار کیا۔