انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** خلافت اور بادشاہت امام احمد ،ترمذی اور ابوداؤد نے حضرت سفینہ سے روایت کیا ہے کہ جناب نبی کریمﷺ نے فرمایا خلافت تیس برس ہوگی اس کے بعد سخت گیر ملوکیت ہوجائے گی،یعنی عدل وانصاف کی حکومت تو خلفائے راشدین کے دور میں رہے گی اور اس کی مدت صرف تیس سال ہوگی اس کے بعد ملوکیت شروع ہوجائے گی ؛چنانچہ ایسا ہی ہوا، حضرت ابوبکر ؓدوسال، حضرت عمر ؓدس سال ،حضرت عثمانؓ بارہ سال، حضرت علیؓ کی چھ سال خلافت رہی اور تیس سال کے بعد مروانیوں کا راج ہوگیا اور خلافت راشدہ کا دور ختم ہوگیا۔ امام احمد ،بیہقی نے دلائل النبوۃ میں حضرت حذیفہؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم میں نبوت رہے گی جب تک اللہ تعالی چاہے گا پھر اس نبوت کو اٹھالےگا پھر نبوت کے بعد خلافت نبوت کے طریقہ پر ہوگی جب تک اللہ تعالی چاہے گا پھر اللہ تعالی اس خلافت کو بھی اٹھالےگا پھر بادشاہی ہوگی جبر والی جب تک اللہ تعالی چاہے گا، پھر اس جبر کی بادشاہی کو اٹھالے گا پھر ہوگی خلافت نبوت کے طریقے پر، اس کے بعد آپ نے سکوت فرمایا ،اہل علم نے فرمایا اس پیشن گوئی مراد حضرت عمر بن عبدالعزیز کی ذات گرامی ہے جیسا کے اس حدیث کے روایوں میں سے حبیب نامی نے مطلب بیان فرمایابلکہ اس حدیث کو عمر بن عبدالعزیز کی خدمت میں لکھ کر بھیج دیا اور لکھا کہ اس پیشنگوئی کے مصداق آپ ہیں ،خلافت راشدہ کے بعد چند بادشاہتوں کا ذکر ہے جو سخت گیر ہوں گی اس کے بعد پھر طریقہ خلافت پر ہوگی،اس طریقہ پر خلافت سے مراد عمر بن عبدالعزیز کی حکومت واللہ اعلم،یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس پیشن گوئی کے مصداق حضرت مہدی ہوں۔ صحیح بخاری ومسلم میں حضرت ثوبان سے روایت ہے کہ اللہ تعالی نے زمین کو سمیٹ کر اس کے مشارق ومغارب کے کونے مجھ کو دکھادیے پس جہاں تک میں نے دیکھا وہاں تک میری امت کی بادشاہت پہنچ جائےگی،چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ مسلمانوں کی حکومت دور دور تک پہنچ گئی۔ صحیح مسلم میں حضرت جابر بن سمرہؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ بادشاہ فارس کا وہ خزانہ جو سفید کو شک میں ہے ایک جماعت مسلمانوں کی اس سفید کو شک کو فتح کرلےگی۔ چنانچہ یہ پیشن گوئی حضرت عمر کے عہد خلافت میں پوری ہوئی اور حضرت سعد بن ابی وقاص کے ہاتھ پر کسری کا دارالخلافہ فتح ہوا۔ صحیح مسلم میں حضرت ابوذر سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا قریب ہے کہ تم زمین مصر کو فتح کرلو گے ، زمین مصر میں قیراط بولا جاتا ہے،جب تم مصر کو فتح کرلوتو وہاں کے لوگوں کے ساتھ نیک سلوک کرنا اس واسطے کے ان کو امان ہے اور ان سے قرابت ہے اور جب تم دیکھو کہ وہاں دو آدمی ایک اینٹ کی جگہ پر جھگڑا کرتے ہیں تو ابوذر وہاں سے نکل آنا،ابوذر کہتے ہیں کہ میں نے شرجیل بن حسنہ اور اس کے بھائی ربیعہ کو ایک اینٹ کی جگہ جھگڑا کرتے دیکھا تو میں زمین مصر سے نکل آیا ۔ مصر حضرت عمر کے زمانے میں فتح ہوا اور حضرت ابوذرؓ نے دو آدمیوں کو جھگڑتے بھی دیکھا،حضرت ابوذر کو نکل آنے کا حکم دیا شاید اہل مصر کے اس فتنہ سے ابوذر کو بچانا ہو جس کا ظہور حضرت عثمان کے عہد میں ہوا،ایک اینٹ کی جگہ پر جھگڑنا علامت ہے،خصومت،جنگ جوئی اور فتنہ انگیزی کی، بادشاہ مصر واسکندریہ جس کا نام مقوقس تھا اس نے حضورﷺ کی خدمت میں ماریہ قبطیہ حرم کے لیے بھیجی تھی، ماریہ قبطیہ سے آپ کے یہاں ابراہیم ایک صاحب زادے بھی تولد ہوئے چونکہ ماریہ قبطیہ تھیں اس لیے مصر کو امان دیدی گئی،حضرت اسماعیل کی والدہ حضرت ہاجرہ مصر کی تھیں عرب حضرت اسمعیل کی اولاد سے ہیں اور مصر کے لوگ عرب کی ننھیال ہیں، بہر حال جو پیشن گوئی فرمائی تھی وہ لفظ بہ لفظ پوری ہوئی۔ صحیح بخاری میں ہےکہ جناب رسول اللہﷺ نے حضرت عدی بن حاتم سے فرمایا اگر تیری عمر بڑی ہوگی تو دیکھے گا ایک عورت تنہا اونٹنی پر سوار ہوکر حیرہ سے چلے گی اور کعبہ پہنچ کر طواف کرے گی اور سوائے اللہ تعالی کے اس کو کسی چور اور لٹیرے کا ڈر نہ ہوگااگر تیری عمر زیادہ ہوئی تو دیکھے گا کہ مسلمانوں کے لیے کسری یعنی بادشاہ کے خزانے کھول دیے جائیں گے،اے عدی اگر تیری عمر زیادہ ہوئی تو تو دیکھے گا کہایک آدمی اپنا مٹھی بھر سونا اور چاندی خیرات کرنے کو نکلے اگ اور قبول کرنے والے کو ڈھونڈتا پھرےگامگر اس کو کوئی قبول کرنے والا نہ ملےگا اور کوئی اس سونے چانی کی خیرات کوقبول کرنے والا نہ ملے گا۔ اس پیشن گوئی میں نبی کریمﷺ نے تین باتیں فرمائیں (۱)عرب میں امن ہوجائے گایہاں تک کہ حیرہ جو کوفہ کے پاس ہے وہاں سے ایک عورت تنہا سفر کرکے مکہ کا حج کرے گی اور اس کی جان ومال کو خطرہ نہ ہوگا. (۲) ملک فارس کا فتح ہونا اور اس کے خزانوں پر قبضہ رہنا (۳)غنا کی کثرت کہ کوئی صدقہ لینے والا نہ ملے،دو باتیں تو پوری ہوگئی،تیسری کو بعض علماءکہتے ہیں کہ حضرت خلیفہ عمر بن عبدالعزیز کے زمانے میں پوری ہوگئی ،بعض علماء فرماتے ہیں کہ یہ پیشن گوئی حضرت مہدی کے زمانے میں پوری ہوگی۔ بیہقی میں روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے سراقہ بن مالک سے فرمایا ،اے سراقہ کیا حال ہوگا جب تم کو کسری بادشاہ فارس کے دونوں کنگھن تمہارے ہاتھوں میں پہنائے جائیں گے،پھر جب حضرت عمر کے عہد خلافت میں فارس فتح ہوا اور کسری کے دونوں کنگھن حاضر کیے گئے تو حضرت عمرؓ نے سراقہ کو طلب کیا اور وہ دونوں کنگھن ان کو پہنادیے گئے اور فرمایا اس اللہ تعالی کا شکر ہے جس نے دونوں کنگھن کسری سے چھینے اور سراقہ کے ہاتھوں میں پہنائے حضرت عمر نے اس پیشن گوئی کو جو حضورﷺ نے سراقہ کے حق فرمائی تھی ،پورا کرنے کی غرض سے وہ کنگھن سراقہ کو عارضی طور پر پہنادیے تھے اور انہوں نے اپنے ہاتھ اونچے کرکے تمام مسلمانوں کو دکھادیے تاکہ پیشن گوئی کا پورا ہوجانا سب کو معلوم ہوجائے۔ بخاری ومسلم نے حضرت سعد بن ابی وقاص سے روایت کیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ مکہ میں حجۃ الوداع کے موقعہ پرمیں بیمار ہوگیا حضورﷺ میری عیادت کو تشریف لائے سعد سمجھتے تھے کہ وہ اس مرض میں مرجائیں گےانہوں نے عرض کیا یارسول اللہ میری وارث ایک بیٹی ہی ہوگی میں اپنے مال کے دو حصے وصیت کرجاؤں؟آپ نے فرمایا نہیں پھر انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ میں اپنا نصف مال خیرات کے لیحے وصیت کرجاؤں ؟آپ نے پھر انکار فرمایا،انہوں نے عرض کیا اچھا ایک تہائی کی وصیت کردوں اچھا اگر یہ بھی بہت ہے اس کے بعد آپ نے فرمایا شاید تم اس مرض میں نہ مرو اور جیتے رہو یہاں تک کہ بہت سے لوگوں کو تم سے نفع پہنچے اور بہت لوگوں کو تم سے مضرت اور ضرر ہو۔ چنانچہ سعد بن ابی وقاص اس مرض سے اچھے ہوگئے اور تقریباًپچاس برس اور زندہ رہے،مسلمانوں کو ان سے عظیم نفع پہنچا اور مجوس کو ان کی ذات گرامی سے بہت ہی ضرر پہنچا اور حضرت سعد بن ابی وقاص کی حسن تدبیر سے فارس کی جنگ میں کامیابی ہوئی،رستم ماراگیا اور شہر مدہن جو مجوس کا دارلسلطنت تھا وہ فتح ہوگیا اور شیر وانیوں کی سلطنت قیامت تک کے لیےختم کردی گئی۔