انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** یوسف بن الاحمر اس کے بعد ہی یوسف بن الاحمر غرناطہ پر آکر قابض ومتصرف ہوگیا،غرناطہ میں تخت نشینی کی رسم ادا کرکے بادشاہ قسطلہ کو اقرار فرماں برداری کا عریضہ بھیجا اورمحمد ہشتم کی گرفتاری کے لئے مالقہ کی جانب فوج روانہ کرنے کی تیاری کرنے لگا، ابھی مالقہ کی جانب فوج روانہ نہ کرسکا تھا کہ چھ مہینے کی بادشاہت کے بعد یوسف بن الاحمر فوت ہوگیا۔ اس کے بعد محمد ہشتم اُس کے مرنے کی خبر سُنتے ہی مالقہ سے غرناطہ میں آکر تیسری مرتبہ تخت نشین ہوا امیر عبدالحق کو اپنا وزیر اورامیر عبدالبر کو اپنا سپہ سالار بنایا،عیسائیوں کی ہمت پست ہوگئی اور غرناطہ کی اسلامی سلطنت کا رعب پھر قائم ہوگیا، اس شکست سے عیسائیوں کی ہمت پست ہوگئی اور غرناطہ کی اسلامی سلطنت کا رعب پھرقائم ہوگیا، افسوس کہ اس کامیابی کے بعد جبکہ مسلمانوں کو اپنی طاقت بڑھانے اوراپنی حالت سدھارنے کا موقع حاصل تھا،اس نے اپنے چچا کے خلاف غرناطہ کی رعایا کو بغاوت پر آمادہ کیا،جب اس کو یقین ہوگیا کہ غرناطہ میں لوگ میری طرف داری کریں گے تو فوراً غرناطہ میں آکر اورباغیوں کا سردار بن کر قصر الحمراء پر قابض ہوگیا اورمحمد ہشتم کو تیسری مرتبہ تخت سے اُتار کر قید کردیا،امیر عبدالبر سپہ سالار نے غرناطہ بھاگ کر ہواخواہوں کو جمع کیا اورسلطان محمد ہشتم کی رہائی کی تدبیریں کرنے لگا،اس نے سوچا کہ اگر میں سلطان محمد ہشتم کی رہائی کے مطالبہ کا اعلان کرونگا تو ممکن ہے کہ ابنِ عثمان جو غرناطہ میں تخت نشین ہوچکا ہے،محمد ہشتم کو قتل کردے، لہذا اس نے محمد ہشتم کے دوسرے بھتیجے،ابن اسمعیل کو اپنا شریک کار بنانے اورسلطنت کا دعویٰ کرنے کی ترغیب دی ابن اسمعیل فوراً رضامند ہوگیا اوربادشاہ قسطلہ سے خط وکتابت کرنے اوراجازت لینے کے بعد عبدالبر سے آملا، عیسائیوں نے اس موقع کو غنیمت سمجھا ، ایک طرف ابن اسمعیل نے اوردوسری طرف شاہ قسطلہ نے سلطان ابن عثمان کی حدو د پر فوج کشی شروع کی، یہ سلسلہ عرصۂ دراز تک جاری رہا،۸۵۲ میں شاہ ارغون اورشاہ اربونیہ (دونوں عیسائی تھے) نے شاہ قسطلہ کے خلاف فوج کشی شروع کی،اس طرح شاہ قسطلہ اپنی مصیبت میں گرفتار ہوا اور مسلمانوں کی طرف سے فوجیں ہٹالیں ،اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ابن اسمعیل بھی اپنے حریف شاہ قسطلہ کے خانہ جنگی سے فارغ ہونے تک خاموش رہاسلطان ابن عثمان کو جب یہ معلوم ہوا کہ شاہِ ارغون اور شاہ اربونیہ سلطنت قسطلہ کے خلاف متحد ہوگئے ہیں تو اُس نے اپنے سفیر ان دونوں عیسائی بادشاہوں کے پاس بھیج کر ان سے دوستانہ تعلقات پیدا کئے اور وعدہ کیا کہ جب تم قسطلہ پر حملہ آور ہوگے تو میں بھی تمہارے مقصد کی کامیابی کے لئے ادھر سے حملہ آور ہوں گا؛چنانچہ ۵۵۴ھ میں سلطان ابن عثمان نے قسطلہ کی سلطنت پر حملہ کیا اورصوبہ مرسیہ کو تاخت وتارج کرتا اورقسطلہ کی فوجوں کو دور تک بھگاتا ہوا بہت سے مالِ غنیمت کے ساتھ غرناطہ واپس آیا،اگلے سال سلطان ابن عثمان نے صوبہ اندلوسیہ پر حملہ کیا اور مرسیہ کی طرح اس صوبہ کو بھی خوب تباہ و برباد کرتا رہا،اگر سلطان ابن عثمان چاہتا تو قرطبہ پر قبضہ کرسکتا تھا،مگر اس نے قرطبہ کی طرف التفات نہ کیا ۸۵۸ھ تک اربونیہ وارغون کی مخالفت سلطنت قسطلہ سے جاری رہی اورابن عثمان بھی ان دونوں اول الذکر عیسائی سلطنتوں کی امداد کرتا رہا،شاہ قسطلہ کی صلح ہوگئی تو اُس نے ابن اسمعیل کو جوان ایام میں سرحدِ قسطلہ پر خاموش ومنتظر تھا،فوج دے کر ۸۵۹ھ میں ابن عثمان پر حملہ آور کرایا،ابن اسمعیل کو چونکہ اکثر مسلمان اُمراء کی ہمدردی حاصل تھی اس لئے اُس کے مقابلے میں ابن عثمان کو شکست ہوئی،وہ مع چند ہمراہیوں کے بھاگ کر پہاڑوں میں پناہ گزیں ہوا ارابن اسمعیل غرناطہ میں آکر تخت نشین ہوا۔