انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** رسول ملکی کے بعد رسول بشری کی ثقاہت یہ تورسول ملکی کا حال تھا، اب رسولِ بشری کا حل سن لیجئے، بعثت سے پہلے چالیس سال تک وہ تمہارے اور تم ان کے ساتھ رہے، اتنی طویل مدت تک تم نے اس کے تمام کھلے چھپے احوال کا تجزیہ کیا؛ کبھی ایک مرتبہ اس میں جھوٹ، فریب یادیوانہ پن کی بات نہ دیکھی ہمیشہ اس کے صدق وامانت اور عقل ودانائی کے معترف رہے، اب بلاوجہ اُسے جھوٹا یادیوانہ کیونکر کہہ سکتے ہو، کیا یہ وہی تمہارا رفیق نہیں ہے جس کی رتی رتی احوال کا تم پہلے سے تجربہ رکھتے ہو؟ اب اس کودیوانہ کہنا بجزدیوانگی کے کچھ نہیں، مشرقی کنارہ کے پاس آپ نے (جبرئیل کو)اس کی اصل صورت میں صاف صاف دیکھا، اس لیئے یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ شاید دیکھنے یاپہچاننے میں کچھ اشتباہ والتباس ہوگیا ہوگا، جب جھوٹ، دیوانگی تخیل وتوہم اور کہانت وغیرہ کے سب احتمالات مرفوع ہوئے توبجز صدق وحق کے اور کیا باقی رہا؛ پھراب اس روشن اور صاف راستہ کوچھوڑ کرکدھر بہکے جارہے ہو۔ (تفسیرعثمانی:۷۶۲) قرآن کریم کی ان آیات میں نقل وروایت اور اس کے اعتماد وثقاہت کے جملہ اصول ملتے ہیں، قرآن کریم نے جس انداز میں انہیں بیان کیا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ سب اُصول فطرت ہیں جن سے کسی بات کی نقل وروایت میں اعتماد پیدا ہوتا ہے، بات کے لائق اعتماد ہونے کے تمام عقلی تقاضے ان قرآنی آیات میں لپٹے ہوئے ہیں؛ تاہم یہ صحیح ہے کہ اصولی درجے میں عدالت اور ضبط ہی وہ صفات ہیں جن کی تفصیلات آگے اُصول روایت بن کر پھیلیں اور مختلف پیرایوں میں راویوں اور ان کے باہمی تعلق سے آگے چلتی رہیں۔