انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** زکوٰۃ کی ادائیگی کب صحیح ہوتی ہے؟ warning: preg_match() [function.preg-match]: Compilation failed: regular expression is too large at offset 34224 in E:\wamp\www\Anwar-e-Islam\ast-anwar\includes\path.inc on line 251. مسئلہ: زکوٰۃکی ادائیگی اسی وقت صحیح ہوتی ہے جب کہ فقیر کو مال دیتے وقت زکوٰۃ کی نیت کرے یا اس وکیل کو مال دیتے وقت زکوٰۃ کی نیت کرے جو اس مال کو مستحقین زکوٰۃ کے درمیان تقسیم کرتا ہو، یا کل مال سے زکوٰۃ کو الگ کرتے وقت زکوٰۃ کی نیت کرے، اور اگر مال فقیر کو بغیر نیت کے دے دے پھر اس میں زکوٰۃ کی نیت کرے تو اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ وہ مال غیر کے پاس موجود ہو۔حوالہ عن عُمَرَ بْن الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى الْمِنْبَرِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ (بخاري بَاب بَدْءُ الْوَحْيِ ۱) بند مسئلہ: زکوٰۃ کی ادائیگی کے صحیح ہونے کیلئے فقیر کو یہ معلوم ہونا شرط نہیں کہ جس مال کو اس نے لیا ہے وہ مال زکوۃ ہے، یہی وجہ ہے کہ اگر فقیر کو مال دے دے اور اس سے یوں کہے کہ اس نے اسے ہبہ کے طور پر دیا ہے اوراس میں زکوۃ کی نیت کرلے تو زکوٰۃ کی ادائیگی صحیح ہو جائے گی۔حوالہ وَإِنْ تُخْفُوهَا وَتُؤْتُوهَا الْفُقَرَاءَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَيُكَفِّرُ عَنْكُمْ مِنْ سَيِّئَاتِكُم (البقرة:۲۷۱) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ سَبْعَةٌ يُظِلُّهُمْ اللَّهُ تَعَالَى فِي ظِلِّهِ يَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلُّهُ … وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ بِصَدَقَةٍ فَأَخْفَاهَا حَتَّى لَا تَعْلَمَ شِمَالُهُ مَا تُنْفِقُ يَمِينُهُ (بخاري بَاب الصَّدَقَةِ بِالْيَمِينِ ۱۳۳۴) عن عُمَرَ بْن الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى الْمِنْبَرِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ (بخاري بَاب بَدْءُ الْوَحْيِ ۱) بند مسئلہ:جو شخص اپنے تمام مال کو صدقہ کردے اور اس میں زکوٰۃ کی نیت نہ کرے تو اس سے زکوٰۃ ساقط ہو جائے گی۔حوالہ لِأَنَّ الْوَاجِبَ جُزْءٌ مِنْهُ فَكَانَ مُتَعَيِّنًا فِيهِ فَلَا حَاجَةَ إلَى التَّعْيِينِ (الهداية:۹۵/۱) بند مسئلہ: اگر کچھ مال سال پورا ہونے کے بعد ضائع ہو جائے تو اسی حساب سے زکوٰۃ (کی اتنی مقدار) ساقط ہو جائے گی، اس طور پر کہ کسی کے پاس ایک ہزار درہم ہو تو اس میں پچیس درہم واجب ہوں گے، لیکن اگر سال مکمل ہونے کے بعد دوسودرہم ضائع ہو جائیں توزکوٰۃ میں سے پانچ درہم ساقط ہو جائیں گے۔حوالہ لِأَنَّ الْوَاجِبَ شَائِعٌ فِي الْكُلِّ فَصَارَ كَهَلَاكِ الْبَعْضِ فَسَقَطَ زَكَاتُهُ (الهداية مع فتح القدير كِتَابُ الزَّكَاةِ ۴۹۹/۳) بند مسئلہ: اگر کسی شخص کا فقیر کے پاس قرض ہو اور وہ زکوٰۃ کی نیت سے اس کے ذمہ کو بری کردے تو زکوٰۃ کی ادائیگی صحیح نہ ہوگی، اس لئے کہ مالک بنانا نہیں پایا گیا اور بغیر مالک بنائے زکوٰۃ کی ادائیگی صحیح نہیں ہوتی۔حوالہ إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا الاية (التوبة:۶۰) بند