انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** ملک کبیر (بڑی سلطنت) دس لاکھ خادموں کے ساتھ سفر: حدیث:حضرت حسن بصریؒ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: إن أدنى أهل الجنة منزلة الذي يركب في ألف ألف من خدمة من الولدان المخلدين، على خيل من ياقوت أحمر، لهاأجنحة من ذهب ﴿ وَإذَارَأيْتَ ثمَ رأيْتَ نَعِيماً وَمُلْكاً كَبِيراً﴾ ۔ (بدورالسافرہ:۲۱۴۹، بحوالہ ابن وہب) ترجمہ:جنت والوں میں ادنی درجہ کا جنتی وہ ہے جوسرخ یاقوت کے گھوڑے پرسوار ہوگا جس کے پرسونے کے ہوں گے (اور) ہمیشہ رہنے والے دس لاکھ خدمتگار لڑکے ساتھ ہوں گے، اے مخاطب! اگرتواس جگہ کودیکھے توتجھ کوبڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھلائی دے۔ فرشتے بھی اس کے پاس اجازت لے کر داخل ہوں گے: (آیت) وَإذَارَأيْتَ ثمَ رأيْتَ نَعِيماً وَمُلْكاً كَبِيراً کے تحت حضرت ابوسلیمان (دارانیؒ) فرماتے ہیں ملک کبیریہ ہے کہ جنتی کے پاس رب العزت کا قاصد تحفے اور ھدیے لے کر آئے گا مگر اس کے پاس نہیں پہنچ سکے گا جب تک کہ اندر آنے کی اس سے اجازت نہیں لے لے گا یہ دربان سے کہے گا تم اللہ کے دوست سے اجازت لے لوکیونکہ میں اس تک (بغیراجازت) نہیں جاسکتا، تووہ دربان دوسرے دربان سے کہے گا اور اسی طرح دربان کے بعد اور دربان ہوں گے تووہ اس کوآنے کی اجازت دے گا، اس جنتی کے محل سے دارالسلام تک ایک دروازہ ایسا ہوگا جس سے وہ اپنے پروردگار کے پاس جب چاہے گا بغیر اجازت کے جاسکے گا؛ پس ملک کبیر (بڑی سلطنت) یہی ہے کہ رب العزت کا قاصد بھی اس جنتی کے پاس اس کی اجازت کے بغیر نہیں جاسکے گا؛ جب کہ جنتی اپنے رب کے پاس جب چاہے گا حاضر ہوسکے گا۔ (بدورالسافرہ:۲۱۴۸، بحوالہ بیہقی۔ البعث والنشور:۴۴۷۔ صفۃ الجنۃ ابونعیم:۱/۱۴۰) حسن وپاکیزگی کی کوئی صفت نہیں کی جاسکتی: ارشادِ خداوندی ہے رَأَيْتَ نَعِيمًا وَمُلْكًا كَبِيرًا (الإنسان:۲۰) کے متعلق حضرت ابنِ عباسؓ فرماتے ہیں کہ اس سے اللہ تعالیٰ کا مقصود یہ ہے کہ کوئی بھی اس کی تعریف کرنے والا اس کے حسن وپاکیزگی کی تعریف نہیں کرسکتا۔ (صفۃ الجنۃ ابونعیم:۱/۱۳۸) بادشاہوں کے منازل: حدیث: حضرت ابوسعیدؓ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: إن الله عز و جل أحاط حائط الجنة لبنة من ذهب ولبنة من فضة ثم شقق فيها الأنهار وغرس فيها الأشجار فلما نظرت الملائكة إلى حسنها قالت طوبى لك منازل الملوك۔ (رواہ الطبرانی وبزار مرفوعا والموقوف اصح:۴/۲۰۷۸۔ اتحاف السادہ:۱۰/۵۳۱۔ ترغیب وترہیب:۴/۵۱۳) ترجمہ:اللہ تعالیٰ نے جنت کی دیوار ایک اینٹ سونے سے اور ایک اینٹ چاندی سے کھینچی؛ پھراس میں نہریں نکالیں اور درخت گاڑے، جب فرشتوں نے جنت کے حسن کودیکھا تو کہا (اے جنت!) تجھے بادشاہوں کی منازل مبارک ہوں۔ نوٹ: مزید تفصیل جنت کے غلاموں، خدمتگاروں، حوروں وغیرہ کے ابواب میں بلکہ پوری کتاب میں ملاحظہ فرمائیں، اس کتاب میں مذکور جنت کی نعمتوں کا ایک ادنی ساحصہ بھی آج کسی بڑے سے بڑے حکمران کوحاصل نہیں ہے؛ مگرپھربھی اس کی شان وعظمت کے قصیدے پڑھے جاتے ہیں جب کوئی مسلمان جنت کی تمام اعلیٰ وافضل نعمتیں کامل طور پر حاصل کرے گا اس کی شاہی کا کیا مقام ہوگا۔ جنت بہترین بدلہ اور بڑا اجر ہے: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْقَانِتِينَ وَالْقَانِتَاتِ وَالصَّادِقِينَ وَالصَّادِقَاتِ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِرَاتِ وَالْخَاشِعِينَ وَالْخَاشِعَاتِ وَالْمُتَصَدِّقِينَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ وَالصَّائِمِينَ وَالصَّائِمَاتِ وَالْحَافِظِينَ فُرُوجَهُمْ وَالْحَافِظَاتِ وَالذَّاكِرِينَ اللَّهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا۔ (الأحزاب:۳۵) ترجمہ:بے شک اسلام کے کام کرنے والے مرد اور اسلام کے کام کرنی والی عورتیں اور ایمان لانے والے مرد اور ایمان لانے والی عورتیں (یعنی اسلام کے احکام پرعمل کرنے والے اور عمل کرنے والیاں اور ایمان کے عقائد کے مطابق عقیدہ رکھنے والے مرد اور عورتیں) اور فرمانبرداری کرنے والے مرد اور فرمانبرداری کرنے والی عورتیں (یعنی وہ نیک اعمال اپنی خوشی سے کرنے والے ہوں زبردستی سے نہیں) اور راست باز مرد اور راست باز عورتیں (یعنی نیت اور عمل میں سچے ہوں ریاکار اور منافق نہ ہوں) اور صبر کرنے والے مرد اور صبرکرنے والی عورتیں (اس میں تواضع جوتکبر کی ضد ہے وہ بھی داخل ہے اور نماز اور عبادات میں توجہ قلب اور جوارح سے بھی داخل ہے) اور خیرات کرنے والے مرد اور خیرات کرنے والی عورتیں (اس میں زکوٰۃ اور صدقات فاضلہ سب داخل ہیں) اور روزہ رکھنے والے مرد اور روزہ رکھنے والی عورتیں (اس میں روزہ فرض اور نفل سب آگیا) اور اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں اور بکثرت خدا کی یاد کرنے والے مرد اور یاد کرنے والی عورتیں (جواذکار مفروضہ کے علاوہ اذکارِ نافلہ بھی ادا کرتے ہیں) ان سب کے لیے اللہ تعالیٰ نے مغفرت اور اجرعظیم (جنت) تیار کررکھی ہے۔ (ماخوذہ ملخص از بیان القرآن، حضرت تھانویؒ:۹/۵۰) أَنَّمَاأَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ وَأَنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ۔ (الأنفال:۲۸۔ المائدۃ:۱۸۔ التغابن:۱۵) ترجمہ: (تم اس بات کوخوب جان لوکہ) تمہارے مال اور تمہاری اولاد ایک امتحان کی چیز ہے (کہ دیکھیں کون ان کی محبت کوترجیح دیتا ہے اور کون اللہ تعالیٰ کی محبت کوترجیح دیتا ہے؛ سوتم ان کی محبت کوترجیح مت دینا) اور (اگران کے منافع کی طرف نظر جائے توتم) اس بات کوبھی یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کے پاس (ان لوگوں کے لیے جواللہ کی محبت کوترجیح دیتے ہیں) بڑا بھاری اجر (وانعام موجود) ہے (جس کے سامنے یہ فانی منافع کچھ حیثیت نہیں رکھتے)۔ فائدہ:قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے بہت سے مقامات پرمختلف نیک اعمال کے بدلہ میں اجرعظیم کرنے کا وعدہ فرمایا ہے ہم ان کا ذکر یہاں اجمالی طور پرقارئین کے سامنے پیش کرتے ہیں: (۱)وہ لوگ جواللہ کے راستہ میں جہاد کرتے ہیں اور شہید ہوجاتے ہیں یانمازی بنتے ہیں ان کے لیے اجرعظیم (جنت) ہے۔ (النساء:۷۴) (۲)جولوگ ایمان لانے کے بعد تقویٰ اختیار کرتے ہیں ان کے لیے بھی اجرعظیم ہے۔ (آل عمران:۱۷۹) (۳)جوایمان لائے اور عمل صالح کئے ان کے لیے بھی مغفرت اور اجرعظیم ہے۔ (المائدۃ:۹) (۴)جولوگ رسول اکرمﷺ کے پاس اپنی آوازوں کوپست رکھتے ہیں انہیں لوگوں کے دلوں کواللہ تعالیٰ نے تقویٰ کے ساتھ امتحان لیا ہے ان کے لیے بھی مغفرت اور اجرعظیم ہے۔ (الحجرات:۳) (۵)جن لوگوں نے گناہوں سے توبہ کی اور اپنی اصلاح کی اللہ کے ساتھ مضبوطی سے منسلک رہے اپنے دین کو خالص اللہ کے لیے اختیار کیا۔ (النساء:۱۴۶) (۶)راسخ فی العلم حضرات اور وہ حضرات جوحضورﷺ پر اور آپﷺ سے سابقہ شریعتوں پر ایمان رکھتے ہیں نماز پڑھتے ہیں زکوٰۃ دیتے ہیں، اللہ تعالیٰ اور آخرت پرایمان رکھتے ہیں۔ (النساء:۱۶۲) (۷)صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے لیے۔ (الفتح:۲۹) (۸)جوتنہائی میں خدا کے خوف سے گناہ کرنے سے ڈرے۔ (یٰس:۱۱۔ الملک:۱۲) (۹)صدقہ خیرات کرنے والے کے لیے۔ (الحدید:۱۱۔۱۸) (۱۰)صابرین صالحین کے لیے۔ (ھود:۱۰،۱۱) فائدہ:ان مذکورہ اعمال میں کچھ توایسے ہیں جن کا مجموعی طور پرایک مسلمان میں پایا جانا ضروری ہے اور بعض فضیلت کے درجہ کے ہیں اگروہ نہ بھی پائیں تب بھی جنت میں داخلہ مل جائے گا؛ لیکن ایسے مذکورہ اعمال پر جنت کے اجرعظیم کا وعدہ یقینی ہے۔ دنیا کوسامانِ عیش وعشرت سمجھنے والوں کے لیے عبرت: اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: وَفَرِحُوا بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَمَاالْحَيَاةُ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا مَتَاعٌ۔ (الرعد:۲۶) ترجمہ:اور یہ (کفار) لوگ دنیاوی زندگی پر (اور اس کے عیش وعشرت پر) اتراتے ہیں اور (ان کا اترانا بالکل فضول اور غلطی ہے؛ کیونکہ) یہ دنیاوی زندگی (اور اس کی عیش وعشرت) آخرت کے مقابلہ میں بجز ایک معمولی سامان کے اور کچھ نہیں۔ اِرشادِ خداوندی ہے: وَمَاالْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّامَتَاعُ الْغُرُورِ۔ (آل عمران:۱۸۵۔ الحدید:۲۰) ترجمہ:اور نہیں زندگی دنیا کی مگر سامان دھوکے کا۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں دنیا کی حالت کوبہت معمولی اور اس کی شان کوبہت حقیر فرمایا ہے اور مزید یہ کہ یہ گھٹیا، فانی، بہت کم اور زائل ہونے والی ہے۔ حدیث شریف میں اس طرح وارد ہوا ہے آپﷺ نے ارشاد فرمایا: وَاللہِ مَاالدُّنْيَا فِي الآخِرَةِ إِلاَّكَمَايَغْمِسُ أَحَدُكُمْ أُصْبُعَهُ فِي الْيَمِّ، فَلْيَنْظُرُ بِمَا تَرْجِعُ إِلَیْہِ۔ (مسلم، کتاب الحج:۵۵۔مسنداحمد:۴/۲۲۹۔ مصنف ابن ابی شیبہ:۱۳/۲۱۸۔ ترمذی۔ نسائی۔ البدورالسافرہ:۱۶۰۶) ترجمہ:اللہ کی قسم دنیا آخرۃ کے مقابلہ میں نہیں ہے؛ مگراس طرح کہ جیسے تم میں سے کوئی شخص اپنی انگلی کودریا میں ڈبوئے پھردیکھ لے اس (ڈبونے والے) کے پاس (وہ انگلی) کتنا (پانی) لائی ہے۔ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کی نصیحت: حضرت حسن بصریؒ نے یہ آیت پڑھی قُلْ مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِيلٌ (النساء:۷۷) آپ فرمادیجئے(کہ) دنیاکی عیش وعشرت بہت معمولی سی ہے، حضرت نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس شخص پررحمت فرمائے جس نے اس آیت کے مطابق دنیا میں زندگی گذاری، دنیا ساری کی ساری اوّل سے لےکرآخر تک ایسے ہے جیسے کوئی شخص سوگیا اور اپنی نیند میں وہ دیکھا جواپنے سے پسند تھا پھرآنکھ کھل گئی۔ ایک شاعر کہتا ہے ؎ الموت فی کل حین ینشد الکفنا ونحن فی غفلۃ عمایراد بنا لاترکنن الی الدنیا وزھرتھا وان توحشت من اثوابھا الحسنا این الاحبۃ، والجیران مافعلوا؟ این الذین ھمو کانوا لھا سکنا سقاہم الموت کاسا غیرصافیۃ صیرھم تحت اطباق الثری رُہنا ترجمہ: (۱)موت نے ہروقت کفن باندھ رکھا ہے اور ہم اس سے غفلت میں ہیں، جس کا ہم سے مطالبہ کیا گیا ہے۔ (۲)دنیا اور اس کی زیب وزینت کی طرف ہرگزمیلان نہ کرنا اور اس کے خوبصورت ناز وانداز سے دور بھاگنا۔ (۳) (تمہارے) وہ دوست کہاں ہیں تمہارے پڑوسیوں کا کیا ہوا؟ وہ لوگ کہاں گئے جوان کے مکین تھے؟۔ (۴)ان کوموت نے ناپسندیدہ پیالہ (موت کا) پلادیا (اور) ان کومٹی کے پاٹوں کے نیچے رہن رکھ دیا۔ جنت کی زمین، گارا، کنکر اور عمارت: حدیث:حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: الجنة لبنة من ذهب ولبنة من فضة وترابها الزعفران وطينها المسك۔ (حاوی الارواح:۱۸۴۔ مسندبزار:۳۵۰۹۔ ترمذی:۲۵۲۶۔دارمی:۲/۳۳۳) ترجمہ:جنت کی تعمیر کی ایک اینٹ سونے کی ہے اور ایک چاندی کی اس کی مٹی زعفران کی ہے اور گاراکستوری کا ہے۔ حدیث:معراج کی طویل حدیث میں ہے کہ جناب رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: أُدْخِلْتُ الْجَنَّةَ فَإِذَا فِيهَاجَنَابِذُ اللُّؤْلُؤِ وَإِذَاتُرَابُهَا الْمِسْكُ۔ (بخاری، كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ،بَاب ذِكْرِ إِدْرِيسَ عَلَيْهِ السَّلَام وَهُوَجَدُّ أَبِي نُوحٍ وَيُقَالُ جَدُّ نُوحٍ،حدیث نمبر:۳۰۹۴، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:میں جنت میں داخل ہوا تواس میں چمکدار موتیوں کے گنبد تھے او راس کی زمین کستوری کی تھی۔ حدیث:حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہﷺ سے ابن صیاد نے جنت کی مٹی کے متعلق پوچھا توآپ نے ارشاد فرمایا: دَرْمَكَةٌ بَيْضَاءُ مِسْكٌ خَالِصٌ۔ (مسلم، كِتَاب الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ،بَاب ذِكْرِ ابْنِ صَيَّادٍ،حدیث نمبر:۵۲۱۳، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:نرم وملائم سفید روشن، خالص کستوری کی مٹی ہے۔ فائدہ:پہلی حدیث میں جنت کی مٹی کو زعفران سے اور گارے کوکستوری سے بیان کیا گیا ہے جب کہ دوسری حدیث میں جنت کی مٹی کوکستوری سے بیان کیا گیا ہے، اس کا ایک مطلب تویہ ہے کہ جنت کی مٹی بھی پاکیزہ ہے اور اس کا پانی بھی پاکیزہ ہے اس لیے ان دونوں کوباہمی ملاکر ایک نئی خوشبو پیدا کی گئی جس کوکستوری کہا گیا۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ جنت کی مٹی رنگ کے اعتبار سے زعفرانی ہوگی اور خوشبو کے اعتبار سے کستوری ہوگی اور یہ بہت ہی خوبصورت شئے ہے کہ اس کی رعنائی اور چمک دمک زعفرانی رنگ میں ہو اور خوشبو کستوری جیسی ہو۔ (حاوی الارواح:۱۷۴) جنت کی زمین ہموار ہے: حضرت عبید بن عمیرؒ فرماتے ہیں کہ جنت کی زمین ہموار ہے، اس کی نہریں زمین کوچیر کرنہیں چلتیں۔ (صفۃ الجنۃ ابونعیم:۲/۱۶۹، بسند مقطوع) جنت کی زمین پررحمت کی ہوا چلنے سے جنتی کے حسن میں بے پناہ اضافہ: حدیث:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: جنت کی زمین سفید ہے جس کے میدان کافور کی چٹانیں ہیں، جن کوریت کے ٹیلوں کی طرح کستوری نے احاطہ کررکھا ہے، اس میں جاری نہریں چلتی ہیں، اس میں جنتی جمع ہوں گے، بڑے درجہ کے بھی اور چھوٹے درجہ کے بھی اور آپس میں ایک دوسرے سے ملاقاتیں اور باہمی تعارف کرائیں گے (ان پر) اللہ تعالیٰ رحمت کی ہوا چلائیں گے تووہ رحمت ان جنتیوں کوکستوری کی خوشبو سے معطر کردے گی؛ پھرجب جنتی مرد اپنی بیوی کے پاس لوٹے گا اور وہ اپنے حسن اورپاکیزگی میں اور بڑھ چکا ہوگا توہ کہے گی جب آپ میرے پاس سے گئے تھے تومیں آپ (کے حسن) پرفریفتہ ہورہی تھی؛ لیکن اب میری آپ (کے حسن) پرفریفتگی کی حد ہوگئی۔ (صفۃ الجنۃ ابن ابی الدنیا:۲۸۔ترغیب وترہیب:۴/۵۱۴۔ حاوی الارواح:۱۸۶۔ البدورالسافرہ:۱۷۷۷) جنت کی تعمیرات: حدیث: حضرت ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ عرض کیا گیا یارسول اللہؐ! جنت کی تعمیر کس طرح کی ہے؟ توآپؐ نے ارشاد فرمایا: لَبِنَةٌ مِنْ فِضَّةٍ وَلَبِنَةٌ مِنْ ذَهَبٍ وَمِلَاطُهَا الْمِسْكُ الْأَذْفَرُ وَحَصْبَاؤُهَا اللُّؤْلُؤُ وَالْيَاقُوتُ وَتُرْبَتُهَا الزَّعْفَرَانُ۔ (ترمذی، كِتَاب صِفَةِ الْجَنَّةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،بَاب مَاجَاءَ فِي صِفَةِ الْجَنَّةِ وَنَعِيمِهَا،حدیث نمبر:۲۴۴۹، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:ایک اینٹ چاندی کی ہے اور ایک اینٹ سونے کی ہے اس کا گارا خوشبواڑانے والی کستوری کا ہے، اس کے کنکر چمکدار موتی اور یاقوت کے ہیں اور اس کی مٹی زعفران کی ہے۔ جنت کی زمین چاندی کی ہے: فائدہ:حضرت مجاہد (مشہور تابعی محدث ومفسرؒ) فرماتے ہیں کہ جنت کی زمین چاندی کی ہے۔ (صفۃ الجنۃ ابونعیم:۱/۵۲۔ ابن ابی شیبہ:۱۳/۹۵۔) اوپر کی روایات میں گذرا ہے کہ جنت کی مٹی زعفران اور کستوری کی ہوگی اور حضرت مجاہدؒ کے اس ارشاد میں ہے کہ جنت کی زمین چاندی کی ہوگی ،ان دونوں میں تطبیق یہ ہے کہ زمین توچاندی ہی کی ہوگی؛ مگراوپر کی مٹی زعفران اور کستوری کی ہوگی، واللہ اعلم۔ لوٹ پوٹ ہونے کی جگہ: ترجمہ:حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: إِنَّ فِي الْجَنَّةِ مَرَاغًا مِنْ مِسْكٍ مِثْلَ مَرَاغِ دَوَابِّكُمْ فِي الدُّنْيَا۔ (مجمع الزوائد:۱۰/۴۱۲۔ ترغیب وترہیب:۴/۵۱۴۔ طبرانی کبیر:۶/۱۹۶، بسند جید۔ کنزالعمال:۳۹۲۴۰) ترجمہ:جنت کی زمین پرلوٹ پوٹ ہونے کی جگہ (بنائی گئی) ہے، کستوری سے تمہارے جانوروں کی زمین پر لوٹ پوٹ ہونے کی طرح ہے۔