انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** مہاجرینؓ اسلام سے پہلے مورخین اسلام اور علمائے انساب کے عرب کی تین قسمیں قراردی ہیں،بائدہ،عاربہ اورمستعربہ،بعض صرف دوپر اکتفا کرتے ہیں،عاربہ اورمستعربہ۔ عرب بائدہ عرب کے وہ قبائل ہیں جن کا زمانہ اس قدرقدیم ہے کہ تاریخوں میں ان کے تفصیلی حالات نہیں ملتے، البتہ عرب کے اشعار میں جا بجا ان کا ذکر آجاتا ہے یا الہامی کتابوں میں کہیں کہیں حالات مل جاتے ہیں، یہ قبائل عاد،ثمود، طسم جدیس وغیرہ ہیں، عرب عاربہ وہ قحطانی قبائل ہیں جویمن اوراس کے قرب وجوار میں آباد ہوئے،ان میں سے حمیر،کہلان،بنی عمرووغیرہ مشہور ہیں، ان کے حالات کثرت سے ملتے ہیں اوران کی عظیم الشان یادگاریں ابھی تک سرزمینِ عرب میں موجود ہیں۔ تیسرا طبقہ عرب مستعربہ کا ہے یہی ہماراموضوع بحث ہے کہ اسی سے سلسلہ اسمٰعیلی کی ابتدا ہوئی،جس میں مہاجرین کے اکثر خاندان داخل ہیں، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب اپنے بیٹے اسمٰعیل علیہ السلام اوراپنی بیوی ہاجرہؓ کو "وادی غیر ذی زرع" میں بسایاتووہاں اس وقت جرہمی قبائل آباد تھے، ان میں حضرت اسمٰعیل علیہ السلام نے شادی کی اوران سے جو نسل چلی وہ "عرب مستعربہ" کے نام سے موسوم ہوئی ،حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے گیارہ اولاد یں ہوئیں،جن میں ایک کانام قیدارتھا، قیدار کی نسل میں سب سے مشہور عدنان گذرا ہے،قریش کے تمام قبائل اورمہاجرین کے اکثر قبیلوں کا سلسلہ نسب عدنان ہی تک آکر منتہی ہوجاتا ہے،اس طرح یہ سلسلہ تاریخ کے تین دور وں پر منقسم ہوجاتا ہے،ایک حضرت اسمٰعیل علیہ السلام سے عدنان تک ،دوسراعدنان سے فہرتک اورتیسرا فہرسے آخر تک، مہاجرین کے حالات میں اگرچہ پہلے اوردوسرے دوروں کا تذکرہ کرنا ضروری نہیں ہے اورصرف قریش کے حالات کا لکھ دینا کافی ہے، مگر اس خیال سے کہ اس سلسلہ کی تمام کڑیاں سامنے آجائیں،پہلے دورکا اجمالی اور دوسرے دور کا کسی قدر تفصیلی اورتیسرے دورکا نہایت مفصل طورپر تذکرہ کرتے ہیں۔ دور اوّل حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی گیارہ اولادوں میں نابت اورقیدار نے نہایت جاہ وجلال اوردنیاوی اعزاز حاصل کیا، مورخین اس بارہ میں مختلف الرائے ہیں کہ عدنان آل نابت سے تھا،یا آل قیدار سے، بعض عدنان کو نابت کی اولاد بتاتے ہیں اوربعض قیدار کی،مگراکثریت اسی طرف ہے کہ عدنان کا سلسلہ نسب قیدار سے ملتا ہے،چنانچہ مورخ ابوالفداء نے اس اختلاف کو لکھ کر اسی قول کو ترجیح دی ہے(ابوالفداء:۱/ ۱۰۶)قیدار اپنے تمام بھائیوں میں زیادہ ممتاز اورنام آورتھا،اور اسی کی نسل سے مشہور قبائل اوراشخاص پیدا ہوئے،حتی کہ دنیا کے سب سے بڑے انسان یعنی آنحضرت ﷺ اسی کی نسل میں پیدا ہوئے، الہامی صحائف میں قیدار کا نام ایک صاحب سطوت شخص اوراس کی اولاد کا تذکرہ ایک جری وبہادر قوم کی حیثیت سے آیا ہے، چنانچہ یسعیاہ نبی فرماتے ہیں کہ قیدار کی ساری چشمت جاتی رہے گی اورتیراندازوں کے جو باقی رہے،قیدار کے بہادر لوگ گھٹ جائیں گے کہ خداونداسرئیل کے خدانے یوں فرمایا۔ (یسعیاہ باب ۲۱ آتہ ۱۶،۱۷) اس عظمت وشجاعت کے علاوہ تعداد کی کثرت کے اعتبار سے بھی ان کی بستیوں کی بستیاں آباد تھیں،چنانچہ یسعیاہ نبی فرماتے ہیں،"قیدار کی آباد بستیاں اپنی آواز بلند کریں گی"(یسعیاہ باب ۲۴ آیہ ۱۱) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عام بدویوں کی طرح ان کے قبائل منتشرنہ تھے، بلکہ ان کی بستیاں منظم اوران کی معاشرت اجتماعی تھی، اجتماعی زندگی کے لیے ایک نظام اورناظم کی سخت ضرورت ہے، جو لوگوں کو منتظم اورمنضبط رکھ سکے، ورنہ اجتماعی زندگی نہیں پیدا ہوسکتی،چنانچہ آل اسمٰعیل میں بھی اگرچہ باقاعدہ حکومت نہ تھی،تاہم وہ ایک سردار کے ماتحت زندگی بسر کرتے تھے اوربنواسمٰعیل کے علاوہ ان کے پڑوسی قبائل بھی اس سردار کی اطاعت ضروری سمجھتے تھے، چنانچہ بنو جرہم ہمیشہ آل اسمٰعیل کے اطاعت گذاررہے،(یعقوبی :۱/۲۵۴) آل قیدار کی زندگی اگرچہ بدویانہ تھی اوران کا تمدن سادہ تھا،تاہم بالکل بدوی نہ تھے، بلکہ تمدن کے کچھ آثار بھی ان میں پائے جاتے تھے اورتنہا بھیڑ بکریوں کی کھال اوردودھ پر ان کی زندگی کا دارومدارنہ تھا، اس سے ترقی کرکے وہ تجارت بھی کرتے تھے،چنانچہ حز قیال نبی فرماتے ہیں عرب اورقیدار کے سب امیر تجارت کی راہ میں تیرے علاقہ مند تھے،وہ برّے اور مینڈھے اوربکری لے کر تیرے ساتھ تجارت بھی کرتے تھے،(حز قیال باب ۲۷ آیۃ ۲۱)اسمعیل قبائل نے تجارت کو اس قدر فروغ دیا کہ وہ تجارتی اشیاء لے کر ملکوں ملکوں پھرتے تھے،چنانچہ وہ مشہور قافلہ جس نے حضرت یوسف علیہ السلام کو کنوئیں سے نکالاتھا،اسمعیل تھا اوربغرض تجارت مصرجارہا تھا،چنانچہ توراۃ میں ہے کہ"جب حضرت یوسف علیہ السلام نے آنکھ اٹھائی تودیکھا کہ اسمعیلیوں کا ایک قافلہ جلعادسے گرم مصالحہ اورروغن بلساں اورمراونٹوں پر لادے ہوئے ہے کہ انہیں مصر کولے جائے(پیدایش باب ۳۷ آیۃ ۲۵) اس تجارتی ترقی کا نتیجہ تمول اورتمول کا نتیجہ تمدن تھا،چنانچہ ان کی عورتیں سونے کے زیورات استعمال کرتی تھیں اوراس سے معلوم ہوتا ہے کہ تمول کے ساتھ ان میں تمدن بھی آچلاتھا،توراۃ میں ایک موقع پر ان زیورات کا ذکر آیا ہے،"جدعون نے انہیں کہا کہ میں تم سے ایک سوال کرتا ہوں اوروہ یہ ہے کہ تم میں سے ہر ایک شخص اپنے لوٹ کے کرن پھول مجھے دے کہ ان کے کرن پھول سونے کے تھے اس لیے کہ وہ اسمعیلی تھے۔ (قضاہ باب۱۸ آیۃ ۲۴) ان مذکورہ بالاشہادتوں سے معلوم ہوا کہ اسمعیل قبائل بداوت کے ابتدائی دور میں نہ تھے،بلکہ اس سے نکل کر تمدن شاہرا اختیار کرلی تھی، یعنی ان میں دنیاوی شان وشوکت کے ساتھ ساتھ تجارت بھی پھیلی ہوئی تھی،معاشرت بھی اجتماعی اورمنتظم تھی، ان کی عورتیں سونے کے زیورات استعمال کرتی تھیں۔ یہ تو بنی اسرائیل کے صحیفوں کی شہادتیں ہیں،ہماری تاریخوں میں بھی کثرت سے ان کے حالات ملتے ہیں اوران سے بھی ان کی عزت واحترام کا پتہ چلتا ہے،بنو اسمعیل کی ابتدائی تاریخ خانہ کعبہ سے وابستہ ہے، اس لیے ہم بھی خانہ کعبہ کی روشنی میں ان کے حالات تلاش کرتے ہیں ،خانہ کعبہ کی تولیت آل اسمعیل علیہ السلام میں بڑی عزت کی چیز تھی، کعبہ کا متولی ایک مذہبی پیشوا کی حیثیت رکھتا تھا، تمام قبائل اس کا احترام کرتے تھے،دوسرے لفظوں میں کعبہ کی تولیت عرب کی بادشاہی کے مرادف تھی،حضرت اسمعیل علیہ السلام کے بعد اس تولیت کا شرف قیدار کوحاصل ہوا، مگر حضرت اسمعیل کی نسل سے یہ سلسلہ دوہی پشتوں کے بعد منقطع ہوگیا،کیونکہ جب حضرت اسمعیل علیہ السلام کی اولاد میں نفوس کی کثرت ہوئی اورارضِ حرم میں اتنی گنجائش باقی نہ رہی کہ، وہ ان سب کو اپنے دامن میں سمیٹ سکے،تو وہ لوگ حرم سے نکل کر اس کے اطراف وجوانب میں پھیل گئے اورصرف چند اشخاص حرم کی پاسبانی کے لیے رہ گئے،مگر یہ سب صغیر السن تھے اور اس صغیر سنی کی وجہ سے تولیت کعبہ کے فرائض نہیں ادا کرسکتے تھے،حضرت اسمعیل علیہ السلام کے سسرالی قبیلہ جرہم میں یہ عہدہ منتقل ہوگیا اور مضماض اس پر فائز ہوا؛ چنانچہ حارث جرہمی کہتا ہے: وکناولاہ البیت من بعد نابت نطوف بذاک البیت والامرظاہر (ابوالقداء :۱/ ۱۰۵) بنو جرہم میں اس اعزاز کو دیکھ کر سمیدع بن ہوبرعمالقی کو رشک ہوا اورمضماض جرہمی سے آمادہ جنگ ہوگیا،مگر شکست کھائی اورجرہم میں کئی پشتوں تک یہ منصب قائم رہا، مگر انہوں نے اپنی حکمت کے زعم میں ظلم و ستم اورفسق وفجور کا ایک ہنگامہ برپا کردیا اور سب سے زیادہ نفرت انگیز اورقابل مذمت حرکت یہ کی کہ حرمتِ کعبہ کا بھی خیال نہ رکھا اورحجاج پر زیادتیاں کرنے لگے،حرم کا چڑھاواکھاجاتے،لوگوں کو طرح طرح سے ستاتے ،غرضیکہ ہر طرح خلق اللہ کو پریشان کرنا شروع کردیا، آل اسمعیل ان کی نارواحرکتوں کو دیکھتے تھے،مگراول تو عزیز داری کے پاس سے کچھ نہیں بولتے تھے،دوسرے حرم میں کشت وخون کو ناپسند کرتےتھے کہ ان کے اخراج میں خونریزی کا ہونا یقینی تھا، آخر کار حرم کی توہین اورخلق اللہ کے مصائب کو دیکھ کر بنوبکر اورعیشاں نے سختی سے اس کا تدارک کیا؛ یہاں تک کہ جنگ کی نوبت آئی اور ایک خونریز جنگ کے بعد بنو جرہم کو یمن کی طرف بھگا کر حرم کو ہمیشہ کے لیے ان کی نجاستوں سے پاک کردیا،یہ شکست خوردہ تو تھے ہی، انہوں نے چلتے چلتے حجر اسود کو اکھاڑ کر اس کو حرم کے دیگر تبرکات کے ساتھ چاہِ زمزم میں پھینک کر کوئیں کو پاٹ دیا۔ (سیرۃ بن ہشام : ۶۴،۶۵) اس تاریخ سے حرم کی تولیت اورمکہ کی سیادت پھر آل اسمعیل میں لوٹ آئی اورچند پشتوں کے بعد عدنان تک پہنچی، ابھی عدنان کا دورتھا کہ بخت نصر کا ملک عرب پر زبردست حملہ ہوا، جس سے عربوں کی قوتیں ٹوٹ گئیں، سارا عرب ویران ہوگیا اورتمام ملک میں خاک اڑنے لگی عدنان اسی حملہ میں مارا گیا،مگر اس کے لڑکے معدکوار میابنی نے بچالیا،جس سے آئندہ نسل پھیلی۔ (ابن خلدون:۲/۲۳۹،۲۹۹) دور دوم پہلے دور میں حضرت اسمعیل علیہ السلام سے لے کر عدنان تک کے مختصر حالات لکھے گئے ہیں،دوسرے دور میں عدنان سے فہرتک کسی قدر تفصیل ہوگی،کیوں کہ مہاجرین کا سلسلہ نسب اسی تک منتہی ہوتا ہے،عدنان کا سلسلہ نسب باتفاق نسابین حضرت اسمعیل تک پہونچتا ہے،لیکن درمیانی پشتوں کی بعدکےادوار میں ان کے ناموں میں اختلاف ہے، اس اختلاف کی وجہ تو یہ ہے کہ وہ عبری سے عربی میں منتقل ہوئے ہیں اورجب ایک زبان کے نام دوسری زبان میں جاتے ہیں تو لامحالہ کچھ لب و لہجہ کے اختلاف اورکچھ حروف کے تغیرات سے ان کی اصل صورت باقی نہیں رہتی،اس لیے یہ اختلاف قابل توجہ نہیں ہے،البتہ درمیانی کڑیوں کی تعداد کا اختلاف ضرور قابل لحاظ ہے،بعض عدنان سے حضرت اسمعیل تک صرف آٹھ دس پشتیں بتاتے ہیں اوربعضوں کے نزدیک ان کی تعداد چالیس تک پہونچ جاتی ہے اوریہی آخری قول صحیح ہے،کیونکہ اگر صرف نو دس پشتیں مانی جائیں، تو عدنان اورحضر اسمعیل علیہ السلام کے درمیان زمانہ بہت کم رہ جاتا ہے،جو تاریخی مسلمات کے بالکل منافی ہے،چنانچہ علامہ سیلی روضۃ الانف میں لکھتے ہیں کہ "عادۃ" محال ہے کہ عدنان اورحضرت اسمعیل علیہ السلام کے درمیان چاریاسات پشتین یا دس یا بیس پشتیں ہوں،کیونکہ ان دونوں کے درمیان اس سے بہت زیادہ زمانہ ہے۔ (روض الانف: ۸/ اسطبوعہ مصر) توقیاس عقلی ہے،اس کے علاوہ بہت سے علماء عرب میں ایسے تھے جن کو چالیسوں پشتیں بزرباں یاد تھیں،چنانچہ علامہ طبری لکھتے ہیں کہ "مجھ سے بعض عرب نسابوں نے کہا کہ وہ بہت سے ایسے علمائے عرب کو جانتے ہیں جن کو معدبن عدنان سے حضرت اسمعیل علیہ السلام تک پشتیں نام بنام حفظ تھیں اوروہ اس پر اشعار عرب سے استدلال کرتے تھے اوران انسابوں نے علماء کے محفوظ ناموں کا اہل کتاب کے بتائے ہوئے ناموں سے مقابلہ کیا تو تعداد بالکل صحیح نکلی،البتہ لہجہ وزبان کے تغیر سے ناموں میں اختلاف ہوگیا تھا۔ (طبری :۱۱۱۸) اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ عربوں کے نزدیک چونکہ عدنان کا حضرت اسمعیل کی اولاد سے ہونا یقینی تھا، اس لیے انہوں نے صرف مشہورلوگوں کے نام یاد رکھے اورپورا سلسلہ محفوظ نہیں رکھا، لیکن بہرحال تاریخی شہادت اورعقلی قیاس کا فیصلہ یہی ہے کہ عدنان اورحضرت اسمعیل کے درمیان چالیس پشتیں تھیں۔ قبائل عدنان عدنان کی اولاد اس کثرت سے پھیلی کہ اس کا استقصاء اس دیباچہ میں مشکل ہے اورہمارے موضوع سخن کے لیے زیادہ کارآمد بھی نہیں ہے، اس لیے ہم ان کے مشہور قبائل اوران میں سے بھی خاص کر ان ہی کا تذکرہ کریں گے، جس سے ہماری کتاب کو کچھ تعلق ہوگا، اس سے قبائل عدنان کا اجمالی خاکہ ذہن میں آجائے گا اورآئندہ جہاں قبائل یا اشخاص کے نام آئیں گے وہاں اس کے سمجھنے میں دقت نہ ہوگی۔ عدنان کے دولڑکے تھے، عک اورمعد،مگر آئندہ نسل صرف معد کے لڑکے نزارسے پھیلی،اس سے پانچ مشہور قبیلے نکلے،جن کو تاریخ عرب میں بہت اہمیت حاصل ہوئی،انمار،ایاد،ربیعہ،قضاعہ اورمضر، ان میں سے انمار اورایاد بہت کم پھیلے ،البتہ ربیعہ ،قضاعہ اورمضر نے کثرتِ تعداد دنیاوی اعزاز اورتاریخی اہمیت وغیرہ کے لحاظ سے بہت شہرت حاصل کی۔ ربیعہ بن نزار کے متعدد اولادیں جن سے بڑے بڑے قبائل نکلے اورنہایت دنیاوی اعزاز حاصل کیا اورحکومتیں قائم کیں،ان کے مشہور قبائل وبطون یہ ہیں،بنوجدیلہ،نہب بن انصے (خاندان حضرت صہیب ؓ) بنوآئل ،بکربن وائل ،بنو عجل ،بنو عبدقیس، بنو تغلب وغیرہ ،پھر ان سے بھی بہت سے بطون شاخ درشاخ ہوکر نکلے ہیں۔ قضاعہ کو عام مورخین اگرچہ قحطانی النسل خیال کرتے ہیں، مگر ازروے تحقیق وہ عدنانی ہیں، بنو قضاعہ نے بھی دنیاوی حکومت اورقبائل کی کثرت کے اعتبار سے بہت شان وشوکت حاصل کی،حانی بن قضاعہ کے تین لڑکے تھے، عمرو، عمران اوراسلم، ان تینوں سے تمام بطون وشعوب پھیلے۔ بنوعمرو کے مشہور بطون عبدان،بلی (حضرت کعب بن عجرہ،خدیج بن سلامہ،سہل بن رافع اوبردہ رضوان اللہ علیہم کا خاندان) بہرا(حضرت مقداد بن اسود کا خاندان) بنو اسلم کے مشہور بطون ہذیم، جہنیہ اور نہد ہیں۔ بنو عمران کے مشہور قبائل بنو سلیم ،بنو صحعم، بنوجرم،بنواسد،بنوتمر،بنوکلب وغیرہ ہیں پھر ان میں بھی شاخ درشاخ ہوکر سیکڑوں بطون نکلے۔ مضر بن نزار بطون وقبائل کی وسعت اورتاریخی اہمیت میں قضاعہ اورربیعہ سے زیادہ ممتاز ہے، مضر کے دولڑکے تھے،الیاس اورقیس عیلان ان ہی دونوں کی نسل سے تمام مضری قبائل کا سلسلہ پھیلا۔ بطون خندف بن الیاس بن مضر الیاس کے تین لڑکے تھے،مدرکہ،طانجہ، قمعہ،یہ تینوں قبیلہ قضاء کی ایک عورت خندف قضاعیہ کے بطن سے تھے، اس لیے یہ اسی کی طرف منسوب ہوئے اور ان کے تمام بطون خندف کہلائے۔ قمعہ کے مشہور قبائل بنوخزاعہ اوربنوافصے ہیں، بنو خزاعہ سے بنو مصطلق، بنو کعب(حضرت عمران بن حصین ؓ کا خاندان) بنو عدی(ام المومنین حضرت جویریہ ؓ کا خاندان ) بنو جہنیہ وغیرہ نکلے ہیں ،بنوافصے سے بنو مالک اوربنواسلم(حضرت سلمہ بن اکوع ؓ کا خاندان) پیدا ہوئے ،یہ قبائل مرظہراں اوراس کے قرب وجوار میں آباد ہوئے۔ طانجہ کے مشہور بطون وقبائل ضیۃ ،رباب، تمیم اور مزنیہ(بحیر وکعب مداح رسول اکرم ﷺومعقل ابن بسار ؓ کا خاندان )ہیں چھوٹے بطون میں صوفہ اورمحارب وغیرہ کا شمار ہے،پھر تمیم کی شاخیں،بنو حارث،بنو اسید( حضرت ہند بن زرارہ صحابی ؓ اورحنظلہ بن ربیع ؓ کاتب نبوی کاخاندان) بنو مالک اور بنو سعد وغیرہ ہیں، یہ سب عراق اورنجد میں آباد تھے۔ مدرکہ کے مشہور قبائل مذیل،قارہ، اسد اورکنانہ ہیں، پھر نبو اسد سے بنو غنم(ام المومنین حضرت زینب ؓ کا عکاشہ بن محصن کا خاندان) بنو ثعلبہ وغیرہ نکلے یہ بھی اضلاع نجد میں آباد تھے،کنانہ سے بنوعبد،مناۃ،بنومالک اوربنونضر تھے، بنو عبدمناۃ سے بنوبکر، بنو مرہ، بنوحارث اور بنو عامر تھے، بنو بکر سے بنو لیث( ابوواقد اورقیس بن شداخ کا خاندان) بنو سعد( عبدہ بن سعد کا خاندان ) بنو جزع وغیرہ پیدا ہوئے۔ بطون قیس عیلان بنوخندف کی طرح بنو قیس سے بھی بطون وشعوب کا وسیع سلسلہ پھیلا،قیس عیلان کے تین لڑکے تھے،عمرو،کعب اورخفصہ،ان تینوں سے الگ سلسلے چلے۔ بنوعمروکے بطون بنو فہم ،بنو عدوان وغیرہ ہیں ان دونوں کی اولاد یں طائف اورنجد میں بستی تھیں۔ بنو سعد کے مشہور قبائل غنی،باہلہ،غطفان،مرہ، پھر غطفان کے بنو عبس، بنوذبیان ،بنواشجع،(خاندان حضرت معقل بن سنان) پھر بنو عبس سے بنو حارث (خاندانِ حذیفہ بن یمان ؓ) اورذبیان سے بنو ثعلبہ ،بنومرہ(خاندان حضرت سمرہ بن جندب ؓ) بنوحفصہ بن قیس کے دو بڑے بطن بنو سلیم اوربنو ہوازن مستقل صدہا بطون کا منبع تھے، بنومازن(خاندان عتبہ بن غزوان) بھی بنو خفصہ کا ایک بطن تھا، مگر اس کی مستقل ہستی نہ تھی ؛بلکہ سلیم اورہوازن کے تحت میں تھا۔ بنو سلیم کے بطون بنوذکو ان،بنوعبس(خاندان حضرت عباس بن مرداس ؓ) بنو ثعلبہ، بنو بھر خاندان حضرت حجاج بن علاطہ ؓ، بنو زغبہ،بنوعوف،بنوسلیم،ان میں سے کچھ نجد کے بالائی حصہ میں آباد تھے،کچھ خیبر کے اطراف میں اس کے علاوہ افریقہ میں ان کی بڑی تعداد تھی۔ بنو ہوازن کے مشہور قبائل بنومعاویہ ،بنو منبہ،بنو سعد (آنحضرت ﷺ کا رضاعی تعلق اس خاندان سے تھا) پھر بنو منبہ سے بنو ثقیف، بنو جہم ،بنو سعدوغیرہ ہیں، یہ سب کے سب طائف میں آباد تھے اور بنو معاویہ سے بنو نضر، بنو جشم،بنو سلول، بنومرہ،بنو عامر وغیرہ تھے، ان میں بھی شاخ درشاخ ہوکر صدہا بطون نکلے۔ قبائل کی تقسیم میں بعض خانوادوں کی کسی قدر تفصیل کردی گئی ہے اور بعض میں صرف مورث اعلیٰ کی طرف تمام شاخوں کو منسوب کردیا گیا ہے اورشاخ درشاخ کی تفصیل نہیں کی گئی ہے اور نہ درمیانی واسطوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ عدنان کی حکومتیں بنی عدنان نجد،حجاز اورتہامہ میں آباد تھے اور ابتداءً سب بدویانہ زندگی بسر کرتے تھے،جہاں شاداب مرغزاراورپانی کے چشمے ملتے ،وہیں خیمہ زن ہوجاتے،اونٹ اوربکریوں کے گلے ان کا ذریعہ ٔمعاش تھے، ایک عرصہ تک اسی حالت میں رہے،مگر عدنان کی چوتھی پشت کے بعد اس کی اولاد میں اس قدر کثرت ہوئی کہ قدیم اقامت گاہیں ان کے لیے کافی نہ ہوسکیں،چنانچہ عدنان کی پانچوں شاخیں اپنے اپنے مستقر سے نکل کر تمام اطراف میں پھیل گئیں، ان میں سے ربیعہ ،قضاعہ اورمضر نے بڑا دنیاوی اعزاز حاصل کیا، متعدد بڑی بڑی حکومتیں اورچھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم کیں، جو صدیوں تک بڑی شان وشوکت سے چلتی رہیں؛ چنانچہ بنو قضاعہ کی حکومتیں حجاز سے لے کر شام اورعراق تک پھیلی ہوئی تھیں۔(ابن خلدون:۲/۲۴۹) اور ان کے حکمران قبائل میں تنوخ اورسلیم نے بڑاجاہ وجلال حاصل کیا اور دونوں یکے بعد دیگرے شام کے تخت حکومت پر بیٹھے،(ایضاً ) شام کی سلطنت کے علاوہ تبوک اور دومتہ الجندل میں بھی ان کی ریاستیں تھیں،(ایضاً) بنوقضاء کی طرح اگرچہ ربیعہ کی کوئی باقاعدہ سلطنت نہ تھی،تاہم ان کی سیادت اوران کا اقتدار تمام قبائل میں مسلم تھا ،چنانچہ یہ اظہار سیادت اورتفوق کے لیے اپنا ایک شعار مخصوص کرلیتے تھے،جو تمام قبائل کے لیے واجب التسلیم ہوتا تھا اورکوئی قبیلہ اس کی مخالفت کی جرأت نہیں کرسکتا تھا، حتی کہ اس کی ادنی مخالفت ہی، اعلان جنگ تصور کی جاتی تھی(ابن ایثر:۱/۳۸۴) آل مضر میں کرد تغلب کی ریاستیں حجاز میں تھیں اور بنو عامر کی حکومت عراق میں تھی،(ابن خلدون :۲/۳۰۰) ان کے علاوہ نجد میں کندہ نے بڑی شاندار حکومت قائم کی ،اگرچہ علمائے انساب کندہ کو حمیر کی شاخ بتاتے ہیں،اگر قیاسات وقرائن کی رو سے نسبا وہ عدنانی ہیں، اس کی بڑی دلیل یہ ہے کہ مشہور شاعر امراء لقیس کندہ کا آخری شہزادہ فصیح عدنانی زبان شاعری کرتا تھا اوراس کے کلام میں حمیری زبان کی جھلک تک نہ تھی، اس لسانی استدلال کے علاوہ وہ خود عدنانی ہونے کا مدعی تھا، چنانچہ اپنے باپ کے مرثیہ میں کہتا ہے۔ (ارض القران:۲/۱۰۸) حمیر معد حسبا ونا ئلا وجرھم تدعلمو شمائلا دوسرے موقعہ پر اپنی مدح میں کہتا ہے۔ وانا الذی عرفت معد فضلہ اس کے برخلاف حمیر کا بھی متعدد اشعار میں ذکر کیا ہے، مگر کہیں ہم نسبی کا دعویٰ نہیں کیا۔ عدنان کی تجارت اگرچہ قریش کے علاوہ تمام عدنانی بدویا نہ زندگی بسر کرتے تھے، تاہم عام عربوں کی طرح ان کا مخصوص پیشہ تجارت تھا، مقامی خریدوفروخت کے علاوہ ملکوں ملکوں پھر کر بھی بیوپار کرتے تھے،چنانچہ بخت نصر کے مشہور حملہ کے وقت جس میں عدنان کام آیا،عدنانی کاروانِ تجارت اس کے حدودِ سلطنت میں موجود تھے اوربخت نصر نے پہلے ان ہی کو گرفتار کرایا تھا۔ (ابن خلدون:۲/۲۳۷) آل عدنان کا مذہب دنیا کے سب سے بڑے موحد خلیل بت شکن نے دنیا کے سامنے ایک ایسا دین حنیف پیش کیا تھا،جو شرک وبدعات کی آمیزش سے یکسر پاک تھا اورخانہ کعبہ کی بنیاد توحید خالص پر رکھی تھی، تاکہ آستانوں پر جھکنے والی گردنیں صرف ایک خدائے قدوس کی عتبہ توحید پر ناصیہ سائی کریں۔ "وَإِذْ بَوَّأْنَا لِإِبْرَاهِيمَ مَكَانَ الْبَيْتِ أَنْ لَا تُشْرِكْ بِي شَيْئًا وَطَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْقَائِمِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ،وَأَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَى كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ" (الحج:۲۶،۲۷) اورجب ہم نے خانہ کعبہ کے مقام میں ابراہیم کو ٹھکانا دیا،توکہا کہ میراشریک نہ ٹہرانا اورمیرے اس گھر کو طواف کرنے والوں،نماز میں کھڑے ہو نےوالوں،رکوع کرنے والوں اورسجدہ کرنے والوں کے لیے پاک وصاف کرنا اور لوگوں میں حج کا اعلان کردے،وہ تیرے پاس پیادہ اور سفر سے دبلی ہوجانے والی سواریوں پر دور دراز راستہ سے آئیں گے۔ (حج:۴) مگر چند ہی پشتوں کے بعد میں ابرہیم کے شفاف آئینہ میں شرک وبدعات کا زنگ لگ گیا، اور اس نسل میں عمروبن لحی ایک شخص پیدا ہوا جس نے مکہ میں بت پرستی رائج کی اورخانہ کعبہ میں متعدد بت لاکر نصب کیے(ابن خلدون :۲/۲۳۷) چونکہ خانہ کعبہ تمام عرب کا مذہبی مرکز تھا اورتمام اکنافِ عرب کے لوگ یہاں موسم حج میں جمع ہوتے تھے اور عمر وبن لحی نے بت بھی اس قلب توحید میں نصب کیے تھے، اس لیے بہت جلد آل عدنان نے بت پرستی قبول کرلی اورچند ہی دنوں میں یہ وبا تمام عرب میں پھیل گئی،اس کی تفصیل آیندہ قریش کے حالات میں آئے گی،بت پرستی کے علاوہ عدنانیوں میں یہودیت ،نصرانیت اورمجوسیت کااثر بھی جابجا موجود تھا،چنانچہ قضاعہ اورربیعہ میں نصرانیات کااثر غالب تھا ،بنی کنانہ میں یہودیت کے اثرات موجود تھے،تمیم میں مجوسیت کی جھلک پائی جاتی تھی،تمیم اورکنانہ دونوں میں کچھ لوگ ستارہ پرستی کی طرف مائل تھے،(طبقات الامم اندلسی:۴۳) کچھ لوگ عقلی بلندپردازی کی آخری حدالحادتک پرواز کرچکے تھے ان ہی کے متعلق قرآن میں آیا ہے: وَقَالُوْا مَا ہِىَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا نَمُوْتُ وَنَحْیَا وَمَا یُہْلِکُنَآ اِلَّا الدَّہْرُ (جاثیہ:۳) اوریہ لوگ کہتے ہیں کہ جو کچھ ہے،بس یہی ہماری دنیاوی زندگی ہے اورہم مرتے ہیں اورجیتے ہیں اورہم کو صرف زمانہ ہی مارتا ہے۔ اگرچہ تمام مذکورہ مذاہب کااثرآل عدنان میں پایا جاتا تھا،مگرخال خال اوران کا عام مذہب بگڑا ہوادین ابراہیمی تھا۔ ایام عدنان آل عدنان میں صدہا خونریز جنگیں ہوئیں اورادنی ادنی سی باتوں پر صدیوں تک لڑائی کا سلسلہ جاری رہا، اگراسلام نے آکر ان میں اخوت اورمساوات کی بنیاد نہ رکھی ہوتی،توعجب نہیں کہ یہ قوم صفحہ ہستی سے نابود ہوتی،یہ لڑائیاں ایام عرب کے نام سے مشہور ہیں اوردوقسم کی ہیں،ایک وہ لڑائیاں ہیں،جو آل عدنان اوردوسری نسل سے ہوئیں اوردوسری خود عدنان کی خانہ جنگیاں ہیں۔ آل عدنان کی لڑائیاں دوسری نسل والوں کے ساتھ عدنانیوں میں خانہ جنگیوں کے علاوہ دوسری متعدد جنگیں بھی ہوئیں، جن میں یوم بیضاء،یوم خزار،یوم صفقہ،یایوم مشقر، یوم کلاب ثانی، یوم ذی قار، زیادہ مشہور ہیں،یوم بیضاء بنومذحج یمنی اوربنو معد عدنانی کے درمیان ہوئی تھی جس میں یمن والوں نےبہت سخت ہزیمت اٹھائی تھی،جنگ خزار بھی بنو معد عدنانی اور یمنیوں کے درمیان ہوئی، اس میں بھی عدنانی غالب رہے،جنگ صفقہ یا مشقر فارس اورتمیم عدنانی میں ہوئی، اس میں اہل فارس نے تمیم کے بہت آدمی دھوکے سے قتل کرڈالے ،جنگ کلاب ثانی بنو مذحج اورتمیم کے درمیان ہوئی،اس میں تمیم غالب رہے، یوم ذی قارعرب اورعجم کی عظیم الشان جنگ تھی، اس میں عجمیوں نے بہت بری طرح شکست کھائی، اس جنگ کے متعلق عربوں میں یہ مثل مشہور ہے کہ ھذا اول یوم انتصرت العرب علی العجم ،یعنی پہلادن تھا جس میں عرب عجم پر غالب ہوئے۔ (ابن اثیرایام عرب) ایامِ بکروتغلب ایام عرب میں بکر وتغلب کی لڑائیاں بہت شہرت رکھتی ہیں، اس کی ابتداء ایک معمولی واقعہ سےہوئی اورچالیس سال تک اس کا سلسلہ برابر قائم رہا، یہ لڑائیاں حرب بسوس کے نام سے بھی مشہور ہیں، اس میں پانچ لڑائیاں بہت زیادہ شہرت رکھتی ہیں یوم غیزہ،یوم واردات،یوم حنو، یوم قصیبات،یوم قضہ پہلی میں طرفین برابر رہے، دوسری میں تغلب پر بنو بکر غالب رہے، تیسری میں بکر تغلب پر فتحیات ہوئے، چوتھی میں بکرنے بڑی زبردست ہزیمت اٹھائی، اس کے علاوہ جنگ نقیع جنگ فیصل متعدد چھوٹی چھوٹی لڑائیاں ہوئیں۔ (ابن اثیر:۲۸۴ تا ۲۹۷) یوم عبس ذوبیاں عبس ذوبیاں کی لڑائیاں داحس وغبراء کے نام سے مشہور ہیں، داحس وغبراء دوگھوڑے تھے،ان ہی کا مقابلہ بنائے فساہوا اوراس سلسلہ میں متعدد لڑائیاں ہوئیں ،جن میں یوم عراعر،یوم ہباہ، یوم بوار، یوم جراجر،یوم غرق،وغیرہ زیادہ مشہور ہیں۔ (تفصیل کیلئے دیکھو ابن اثیر:۲۴۰ تا ۴۳۴) ایام ربیعہ ومضر بنو تمیم مضری اوربنوبکر ربیعی میں بہت لڑائیاں ہوئیں، مشہور لڑائیوں کے نام یہ ہیں، یوم نباج،یوم دثبتل ،یوم ذی طلوع، یوم جدود،یوم آباد،یوم غیط،یوم شقیقہ،ان لڑائیوں میں بنو بکر تمیم پر غالب رہے،یوم فلج، یوم وقیط،یوم زورین، یوم نعف قستادہ، یوم مبائض،یوم شیطین،ان میں بنو بکر نے شکست کھائی اوربنو تمیم فتحیاب ہوئے، ان لڑائیوں کے علاوہ متعدد چھوٹی چھوٹی لڑائیاں ،یوم ذی قار،یوم ساہوق، یوم اہباد ،یوم تصیعہ وغیرہ ہوئیں۔ (ایام عرب ابن اثیر، جلدا) ایام بنوعامر بنو عامرقیس عیلاں کی شاخ ہوازن کا بہت مشہور قبیلہ تھا اورقبائل عرب میں ممتاز درجہ رکھتا تھا، مضری قبائل سے اس کی متعدد لڑائیاں ہوئیں، جن میں مشہور لڑائیوں کے نام یہ ہیں ،یوم شعب جبلہ،یوم ذی نجب،یوم نسار،یوم جفار، یوم مروت،یوم رقم،یوم شعب جبلہ اورذی نجب، بنو عامر اوربنو تمیم میں ہوئی ،پہلی میں عامر غالب رہے، دوسری میں تمیم(ابن ایثر:۴۳۵)یوم نسار اورجفار کا معرکہ بھی ان ہی دونوں میں ہوا، اس میں بنو عامر اگر چہ ثابت قدم رہے تاہم ان کا بہت نقصان ہوا،(ابن ایثر: ۴۶۲) یوم مروت معمولی جھڑپ تھی،جنگ رقم بنوعامر اورغطفان میں ہوئی اور غطفان غالب رہے۔ (ابن ایثر:۴۸۲) دیگر ایام مشہورہ یوم اباغ منذربن ماء السماء تغلبی اورحارث غسانی کے درمیان ہوئی، (ابن اثیر :۱/۳۹۸)یوم کلاب اول ایام عرب میں بہت مشہور ہے،یہ باہم حارث کندی کی اولاد میں ہوئی، جس میں معد کے بھی متعدد قبائل شریک تھے ( ابن اثیر : ۳۰۶) یوم رحرحان، اس جنگ میں بنو تمیم،بنو عامر،بنو عبس اوربنو ہوازن وغیرہ سب شریک تھے،(ابن اثیر :۴۰۹) یوم ادارۃ الاول بنو منذرین امرء القیس اوربنو بکربن وائل میں ہوئی۔ (ابن اثیر :۴۰۸) دورسوم،قریش مہاجرین کی اصل تاریخ فہروقریش سے شروع ہوتی ہے،کیونکہ ان کی بڑی تعداد اسی کی نسل سے تھی، اس خاندان کا بانی فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ ہے"قریش" فہر کے مورث اعلیٰ نضر کا خطاب تھا، مگر چونکہ اس کی نسل میں صرف فہرہی سے سلسلہ پھیلا، اس لیے یہ خطاب بھی فہر کی طرف منتقل ہوگیا، اوربنو فہر سب کے سب قریش کہلانے لگے، بنو نضرتجارت پیشہ تھا اور"تقرش" تجارت کے معنوں میں آتا ہے،اس لیے بنو نضر کا نام قریش پڑگیا،اس کے علاوہ قریش ایک بڑی قسم کی مچھلی ہے جو تمام دریائی جانوروں کو کھاجاتی ہے،لہذا قوت وغلبہ کے لیے اپنے کوقریش کہنے لگے۔ (ابن خلدون :۲/۳۲۴،دردصالانف :۱/۷۰) قبائل قریش اوران کے مشاہیر قریش کے عام حالات معلوم کرنے کے قبل ان کے قبائل کی تقسیم سمجھ لینی چاہئے قریش ایک خاندان کا نام نہیں ہے ؛بلکہ چھوٹے چھوٹے دس خانوادوں پر مشتمل ہے،جو سب کے سب فہر کی نسل سے نکلے،فہر کے تین لڑکے تھے، محارب،جارث،غالب،محارب اورحارث کی نسل زیادہ نہ پھیلی،تاہم بعض اکابر صحابہ ؓ اورنامورانِ اسلام اس سے تعلق رکھتے تھے،چنانچہ ضحاک بن قیس ،ضراربن خطاب کرزبن جابر وغیرہ بنومحارب تھے۔ عشرہ مبشرہ میں ابو عبیدہ بن جراح ؓ، ان کے علاوہ عقبہ بن نافع، قاتح افریقہ بانی شہر قیردان اورعبدالملک بن قطبی والی اندلس وغیرہ بنوحارث سے تھے۔ البتہ غالب کی اولاد بہت پھل پھولی، قریش کے دسوں خانوادے اس کی نسل سے تھے، بنو ہاشم،بنوامیہ،بنونوفل، بنو عبدار، بنواسد، بنو تیم،بنو مخزوم، بنوعدی،بنو جمع،بنو سلیم۔ مشاہیرقریش بنوامیہ خاندانِ سلاطین بنوامیہ دمشق واندلس،ابوسفیان ؓ، امیر معاویہ ؓ، حضرت عثمان ؓ، ام المومنین ام حبیبہ ؓ۔ بنوعدی:خاندان حضرت عمر بن خطاب ؓ،سعید بن زید ؓ، جو عشرہ مبشرہ میں سے ایک تھے۔ بنو تیم: خاندان حضرت ابوبکر صدیق ،حضرت طلحہ، عمروبن عبداللہ بن جدعان وغیرہم۔ بنی عبددار:حضرت عثمان بن طلحہ ؓ ،مصعب بن عمیر ؓ بنی اسد:زبیر بن عوام ؓ، ورقہ بن نوفل، ام المومنین حضرت خدیجہ ؓ وغیرہ۔ بنو مخزوم: خالد بن ولید ؓ، عیاش بن ربیعہ، ابوجہل،ابوسلمہ، ام المومنین ام سلمہ ؓ۔ بنو حمج: صفون بن امیہ، ابومحذورہ، موذن نبی ﷺ ،عثمان بن مظعون ؓ۔ بنو سہم: عمروبن العاص ؓ فاتح مصر۔ بنو ہاشم: خاندان رسالت ،عباس ؓ، حمزہ ؓ، مطلب ،حضرت علی ؓ وغیرہ۔ قریش کے ان چند مشہور خانوادوں کےعلاوہ کچھ اورچھوٹے گھرانے تھے،جن کو ان ہی کی شاخ سمجھنا چاہیے۔ بنوزہرہ :خاندان حضرت امیہ وعبدالرحمن بن عوف ؓ، وسعد بن وقاص ؓ ،بنوعبدالعزی خاندان ابوالعاص دامادِرسول اکرم ﷺ۔ بنو جب خاندان عبداللہ بن عامر والی عراق،بنو امیہ اصغر۔ قریش کے مذکورہ خانوادے طرز زندگی کے اعتبار سے دوقسم کے تھے، قریش الظواہر اورقریش البطائح،قریش ظواہر،قریش کے وہ قبائل کہلاتے تھے،جا عام بدویوں کی طرح خانہ بدوش زندگی بسرکرتے تھے۔ قریش البطائح وہ کہلاتے تھے جو مکہ میں آباد تھے اورمتمدن زندگی بسر کرتے تھے تفصیل یہ ہے: بطائح ظواھر بنومحارب بنو تمیم الادرم بنوخزیمہ بن لوی بنو سعد بنو حارث بنو قصی بن کلاب بنو کعب بن لوی