انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** مختار کا دعویٔ نبوت اورکرسی علی رضی اللہ عنہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ جب کوفہ میں تشریف رکھتے تھے توآپ کی ایک کرسی تھی؛ اسی پربیٹھ کراکثر حکم واحکام جاری کیا کرتے تھے، ان کا ایک بھانجا جعدہ بن اُمِ ھانی بنتِ ابی طالب کا بیٹا تھا کوفہ میں رہا کرتا تھا، وہ کرسی اسی کے قبضہ میں تھی، مختار نے کوفہ میں اپنا سکہ بٹھاکر اس کرسی کے حاصل کرنے کی کوشش کی، جعدہ نے کہا اچھا مجھ کوایک ہفتہ مہلت دیجئے کہ میں اس کوتلاش کرکے آپ کی خدمت میں پیش کروں، مختار نے کہا کہ میں تین دن سے زیادہ کی مہلت ہرگز نہ دوں گا؛ اگراس عرصہ میں تم نے کرسی نہ پہنچائی توسختی وتشدد کا برتاؤ شروع کیا جائے گا۔ جعدہ کے محلہ میں ایک روغن فروش رہتا تھا اس کے پاس بھی اسی قسم کی ایک کرسی تھی، جعدہ نے وہ کرسی اس سے خریدی اور پوشیدہ طور پراپنے گھر لے گیا، اس کوخوب صاف کیا اور بڑے تکلف واحتیاط کے ساتھ غلافوں میں لپیٹ کرمختار کے پاس لے گیا، مختار نے کرسی لے کرجعدہ کوخوب انعام واکرام سے نوازا، کرسی کوبوسہ دیا اس کوسامنے رکھ کردورکعت نماز پڑھی؛ پھراپنے مریدوں کوجمع کرکے کہا کہ جس طرح خدائے تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے لیے تابوتِ سکینہ کوموجب، نصرت وبرکت بنایا تھا؛ اسی طرح شیعانِ علی کے لیئے اس کرسی کونشانی قرار دیا ہے، اب ہم کوہرجگہ فتح ونصرت حاصل ہوگی، اس کے مردین نے اس کرسی پرآنکھیں ملیں، بوسے دیئے اور اس کے آگے سرجھکائے؛ پھرمختار نے حکم دیا کہ ایک تابوت بنایا جائے؛ چنانچہ نہایت خوبصورت تابوت تیار ہوا، اس کے اندر وہ کرسی رکھی گئی، چاندی کا ایک قفل اس تابوت میں لگایا گیا اور اس تابوت کی حفاظت کے لئیے آدمی متعین کیے گئے، جامع مسجد کوفہ میں وہ تابوت رکھا گیا اور اس تابوت کی حفاظت کےلیے آدمی متعین کیے گئے، جامع مسجد کوفہ میں وہ تابوت رکھا گیا؛ ہرشخص نماز پڑھنے کے بعد اس تابوت کوبوسہ دیتا تھا، مختار نے کوفہ کی حکومت کرنے سے پہلے ہی اپنے مکروہ تزویر کے جال کوپھیلانا اور اپنی غیرمعمولی روحانی طاقتوں کا لوگوں کومعتقد بنانا شروع کردیا تھا، حکومتِ کوفہ حاصل ہونے کے بعد اس کی چالاکی وہوشیاری کواور بھی زیادہ کامیابی کے مواقع میسر ہونے لگے اور رفتہ رفتہ وہ نبوت کے دعوؤں تک پہنچنے لگا۔ جس زمانے میں مختار نے کوفہ پرقبضہ کیا اور عبداللہ بن زبیر کومذکورہ خط لکھا؛ اسی کے قریب زمانہ میں چند روز کے بعد عبدالملک بن مروان نے عبدالملک بن حرث بن ابی الحکم بن ابی العاص کوایک لشکر دے کروادی القریٰ کی طرف روانہ کیا، یہ گویا عبدالملک بن مروان کی طرف سے عبداللہ بن زبیر پرپہلی چڑھائی تھی، اس چڑھائی کا حال سن کرمختار نے دوسرا حط حضرت عبداللہ بن زبیر کولکھا کہ اگرآپ چاہیں تومیں آپ کی مدد کے لیئے کوفہ سے فوج روانہ کراؤں؛ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے لکھا کہ اگرتم میرے فرماں بردار ومطیع ہونے کی حیثیت سے فوج روانہ کرتے ہو توفوراً ایک فوج وادی القریٰ کی طرف بھیج دو، مختار نے شرجیل بن دوس ہمدانی کوتین ہزار کی جمعیت سے یہ حکم دے کرروانہ کیا کہ تم سیدھے اوّل مدینہ میں جاکر قیام کرو؛ پھروہاں سے مجھ کوحالات لکھ کربھیجو، اس کے بعد جوحکم میں بھیجوں اس کی تعمیل کرو، مدّعا اس سے مختار کا یہ تھا کہ میں اس بہانے سے مدینہ میں فوج بھیج کرمحمد بن حنفیہ کی خوشنودی اس طرح سے حاصل کرسکونگا کہ عبداللہ بن زبیر کوبھی کوئی اعتراض نہ ہوگا اور میرا اثر شیعانِ علی میں ترقی کرسکے گا۔ عبداللہ بن زبیر مختار کی چالاکیوں کوسمجھتے تھے؛ انھوں نے مذکورہ جواب مختار کے پاس بھیج کرفوراً عباس بن سہل بن سعد کودوہزار آدمیوں کے ساتھ متعین کیا کہ اگرکوفہ سے مختار کوئی لشکر بھیجے تواٰسل یہ معلوم کروکہ وہ محکوم ہوکرآیا ہے یاخود مختار ہے؛ اگرمحکوم ہے تواس سے کام لو اور اگروہ محکوم ہوکر نہیں آیا تواس کوواپس کردو، واپس ہونے سے انکار کرے تواس کا مقابلہ کرو، مقام اقیم میں عباس وشرجیل کی ملاقات ہوئی، عباس نے کہا تم لوگ مقامِ وادی القریٰ کی طرف ہمارے ساتھ دشمن کے مقابلہ کوچلو، شرجیل نے کہا ہم کوتوسیدھے مدینے جانے کا حکم ہے، وہاں ہم دوسرے حکم کا انتظار کریں گے، تب کہیں جاسکیں گے، عباس نے اوّل ان کوفیوں کوکھانے پینے کا سامان دے کرتواضع کی؛ پھرتعمیلِ حکم سے انکار کرنے کی پاداش میں حملہ کرکے اپنے دوہزار آدمیوں سے ان تین ہزار کومجبور کردیا اور سترآدمی قتل کرکے کوفہ کی طرف زبردستی لوٹادیا، مختار نے اس سے بھی فائدہ اُٹھایا اور محمد بن حنفیہ کوخط لکھ کرعبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی شکایت کی کہ انھوں نے میری فوج کوآپ تک نہ پہنچنے دیا جوآپ کی حفاظت کے لیئے میں نے روانہ کی تھی، اب مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ اپنے ایک معتمدِ خاص کوبھیج دیجئے؛ تاکہ میں اس کے ساتھ ایک زبردست فوج روانہ کردوں گا اور لوگوں کوبھی آپ کے فرستادے کی زیارت سے اطمینان حاصل ہو، محمد بن حنفیہ نے مصلحتاً جواب میں لکھا کہ میں تمہاری حق پسندی سے واقف ہوں، تم مجھ کوگوشۂ عافیت میں بیٹھا رہنے دو اور مخلوقِ خدا کی خوں ریزی سے پرہیز کرو، میں اگرحکومت وامارت کا خواہاں ہوتا توتم سے زیادہ لوگوں کواپنے گرد جمع کرسکتا تھا؛ لیکن میں نے اپنے تمام دوستوں اور ہواخواہوں کومعطل کررکھا ہے، خدائے تعالیٰ خود ہی جوچاہے گا فیصلہ کرے گا۔