انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** استحسان لغت میں استحسان کے معنی کسی بھی شئی کے بارے میں حسن کا اعتقاد رکھنا، چاہے وہ واقع کے مطابق ہو یااس کے خلاف ہو اور شرعی نقطۂ نظر سے استحسان وہ چیز کہلاتی ہے جس کی حجتِ شرعیہ تقاضاکرتی ہے چاہے اس کا دل اس کومستحسن سمجھے یانہ سمجھے۔ استحسان کی تعریف ائمہ احناف نے استحسان کی تعریف مختلف الفاظ میں کی ہیں: ۱۔ایک قیاس سے دوسرے قیاسِ قوی کی طرف عدول کرنے کا نام استحسان ہے۔ ۲۔قیاس کو کسی قوی دلیل کے ساتھ خاص کرنے کا نام استحسان ہے۔ ۳۔اس دلیل کا نام استحسان ہے جومجتہد کے دل میں بطورِ اشکال پیدا ہوتی ہے اور الفاظ چونکہ اس دلیل کا ساتھ نہیں دیتے ؛اس لیے مجتہد اس کوظاہر کرنے پر قادر نہیں ہوتا۔ ۴۔ابوالحسن کرخیؒ فرماتے ہیں کہ استحسان کا مطلب یہی ہے کہ مجتہد ایک مسئلہ میں جوحکم لگاچکا ہے جب اسی طرح کا دوسرا مسئلہ آجائے تواس میں وہی حکم صرف اس لیے نہ لگائے کہ کوئی قوی دلیل ایسی موجود ہو جس کی وجہ سے پہلے جیسا حکم لگانا مناسب نہ ہو۔ استحسان کی حقیقت پر جتنی تعریفات احناف نے کی ہیں ان سب میں زیادہ واضح تعریف امام ابوزہرہ نے اسی کو قرار دیا ہے؛ کیونکہ یہ استحسان کے تمام انواع کو شامل ہے، خلاصہ یہ ہے کہ استحسان قوی ترین دلیل کو اختیار کرنے کا نام ہے، مالکیہ کے نزدیک بھی استحسان کی یہی تعریف ہے۔ (اصول فقہ امام لابی زہرہ:۲۰۸) استحسان دراصل استقباح کا مقابل ہے، علماء مجتہدین کے جس طبقہ وجماعت نے استحسان کو قبول فرمایا ہے ان کے پیشِ نظر اولاً یہی چیز ہوتی ہے کہ پیش آمدہ صورتِ جزئیہ میں اگر کسی ظاہرِ نص یانص سے ثابت شدہ کسی حکم کلی ہی پر نظر مرکوز رکھی جائے اور اس کے خلاف کسی معتبر دلیل کی بنیاد پر بھی عدول کرکے استثنائی حکم تجویز نہ کیا جائے توایک امرقبیح کو گوارہ کرنا پڑے گا اور ظاہر ہے کہ اس سے مقاصدِ شریعت فوت اور روحِ شریعت مجروح ہوگی اس لیے وہ ظاہر نص کے اقتضاء سے صرفِ نظر کرنے اور حکم کلی سے اس جزئی واقعہ کے استثناء کرلینے کو حسن اور بہتر سمجھتے ہوئے ایک الگ حکم خاص تجویز کرتے ہیں اور اسے استقباح کے مقابل استحسان قرار دیتے ہیں جو دراصل نصِ قرآنی: "وَأْمُرْ قَوْمَكَ يَأْخُذُوا بِأَحْسَنِهَا"۔ (الاعراف:۱۴۵) ترجمہ:اور اپنی قوم کو بھی حکم کرو کہ ان کے اچھے اچھے احکام پر عمل کریں۔ (ترجمہ تھانویؒ) کی تعمیل ہوتی ہے اور وہ "فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ"۔ (الزمر:۱۸) ترجمہ:اس کی اچھی اچھی باتوں پر چلتے ہیں ۔ (ترجمہ تھانویؒ) کے مصداق بنتے ہیں۔ استحسان کی اقسام استحسان اپنے معارض کے اعتبار سے تین قسموں پر منقسم ہوتا ہے: ۱۔استحسان السنہ:اس کا مطلب یہ ہے کہ سنت سے ایسے چیز ثابت ہوتی ہو کہ اس کی وجہ سے قیاس کا ترک کرنا ضروری ہو، مثلاً حدیث میں ہے: "إذَااخْتَلَفَ الْمُتَبَايِعَانِ وَالسِّلْعَةُ قَائِمَةٌ تَحَالَفَا وَتَرَادَّا"۔ (بدائع الصنائع، كِتَابُ الدَّعْوَى، (فَصْلٌ) وَأَمَّا حُكْمُ تَعَارُضِ الدَّعْوَتَيْنِ فِي قَدْرِ الْمِلْكِ:۱۴/۲۸۴ڈیجیٹیل لائبریری) ترجمہ:جب بائع اور مشتری میں اختلاف ہوجائے اور سامان موجود ہو تو دونوں سے قسم لی جائے اور مشتری کو ثمن اور بائع کو مبیع واپس کردی جائے۔ (الف)قیاس کا تقاضا تویہ ہے کہ یہاں بائع کو مدعی اور مشتری کو مدعا علیہ مانا جائے؛ کیونکہ بائع زیادہ ثمن کا دعویٰ کررہا ہے اورمشتری اس کا انکار کررہا ہے؛ لہٰذا بائع کو بینہ پیش کرنا چاہیے، اگر وہ بینہ پیش نہ کرے تومشتری سے قسم لیکر اس کے حق میں فیصلہ کردینا چاہیے؛ لیکن سنت میں یہ آچکا ہے کہ دونوں سے قسم لیکر بیع کوختم کردیا جائے، اس لیے قیاس کو ترک کردیا جائے گا اور سنت پر عمل کیا جائے گا۔ (ب)نیزحدیث میں ہے کہ اگرکوئی روزہ دار بھول کر کھا پی لے توبھی اس کا روزہ صحیح ہے (مشکوٰۃ شریف:۱۷۶) حالانکہ قیاس کا تقاضا ہے کہ اس کا روزہ ٹوٹ جائے؛ کیونکہ کھانے پینے سے رکنا جوروزہ کے لیے ضروری ہے نہیں پایا گیا؛ لیکن بھول کر کھاپی لینے کے باوجود روزہ کے نہ ٹوٹنے پر نص وارد ہوئی ہے، اس لیے اس جگہ قیاس کو رد کردیا جائے گا۔ (ج)نیزحدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نمازکےاندر قہقہہ لگانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے (سنن دارِقطنی:۱/۱۶۱) حالانکہ قہقہہ لگانا ناقضِ وضو نہیں ہونا چاہیے؛کیونکہ اس میں خروجِ نجاست بھی نہیں ہے کہ اسے ناقض وضو کہا جائے؛ لیکن نماز کے اندر قہقہہ لگانے سے وضو کے ٹوٹ جانے پر نص وارد ہوئی ہے؛ اس لیے یہاں بھی قیاس کو ترک کردیا جائے گا۔ ۲۔استحسان الاجماع:کسی مسئلہ میں اجماع منعقد ہوگیا ہوتوا سکی وجہ سے قیاس کو ترک کردیا جائے گا، مثلاً عقد استصناع قیاس کی رو سے جائز نہیں ہونا چاہیے؛ لیکن اس کی صحت پر ہرزمانہ میں عمل ہوچکا ہے؛ لہٰذا اس کی وجہ سے قیاس کو ترک کردیا جائے؛ اب اسے اجماع کی وجہ سےترک کرنا کہیں یاعرفِ عام کی وجہ سے؛کیونکہ ایسا کرنا اقویٰ دلیل کو اختیار کرنا ہوگا، مفہوم کے اعتبار سے استحسانِ اجماع، استحسانِ عرف کے قریب قریب ہے؛ کیونکہ دونوں کا مقصد مشقت کودور کرنا ہے۔ ۳۔استحسان الضرورۃ:کسی مسئلہ میں ایسی ضرورت پائی جائے جومجتہد کو قیاس کے ترک کرنے اور ضرورت کے مقتضیٰ کو اختیار کرنے پر مجبور کرتی ہو۔ مالکیہ ان اقسام کے علاوہ اس میں ایک اور قسم کا اضافہ کرتے ہیں اور وہ ہے "استحسان المصلحۃ" اس کا مطلب یہ ہے کہ اگرمصلحت اور قیاس میں تعارض ہوجائے تومصلحت کواختیار کیا جائے گا اور اس کی وجہ سے قیاس کو چھوڑ دیا جائے گا، مثلاً قیاس کا تقاضا ہے کہ عدالت میں عادل اور ثقہ لوگوں کی گواہی معتبر ہو؛تاکہ کذب پر صدق راجح رہے اور اس کی بنیاد پر فیصلہ کیا جائے؛ لیکن اگرکوئی قاضی ایسے شہر میں ہو جہاں عادل گواہ نہ مل سکیں توایسی صورت میں اگرقاضی انہی غیرعادل گواہوں کی گواہی قبول نہ کرے تولوگوں کے املاک اور حقوق ضائع ہوجائیں گے؛ اس لیے اس مصلحت کے پیشِ نظر اس قاضی کو انہی غیرعادل گواہوں کی گواہی قبول کرنا لازم ہے ؛تاکہ لوگوں کے حقوق اور املاک ضائع نہ ہوں؛ یہاں اس مصلحت کی وجہ سے قیاس کو ترک کردیا جائے گا اور اسی قبیل سے یہ بھی ہے کہ حوض اور کنواں جب ایک مرتبہ ناپاک ہوجائے توقیاس کی روشنی میں اسے پاک ہونا ہی نہیں چاہیے؛ کیونکہ جب حوض اور کنواں کا ناپاک پانی نکال لیا جائے تواس کی سطح اور دیوار نجس پانی کے اس سے متصل ہونے کی وجہ سے ناپاک ہی رہتا ہے، اب ان کو پاک کرنے کی خاطر جب بھی پانی ڈالا جائے گا تونجس سطح اور دیوار سے پانی ملتے ہی ناپاک ہوتا رہے گا اور ناپاک پانی سے ان دونوں کو پاک کرنا ممکن نہیں رہے گا، اس کا مطلب یہ ہوگا کہ حوض یاکنواں جب ایک بار ناپاک ہوجائے تواسے بالکل بند کردینا چاہیے؛ کیونکہ انہیں پاک کرنا ممکن ہی نہیں؛ ظاہر ہے کہ اس میں بہت بڑا حرج ہے؛ لہٰذا اس کے پیشِ نظر قیاس کو ترک کردیا گیا اور ضرورت کے پیشِ نظر فقہاء نے ناپاکی کی نوعیت کے لحاظ سے ڈول کی ایک خاص تعداد میں پانی نکالنا متعین فرمادیا؛ تاکہ بار بار پانی نکالنے سے نجاست میں خاطر خواہ کمی ہوجائے؛ اگرچہ کہ وہ پوری طرح ختم نہ ہوپائے۔ استحسان کے منکرین اور ان کے دلائل امام شافعیؒ نے سب سے پہلے استحسان کو حجت ماننے سے انکار کیا اور مستقل موضوع بناکر اس کی تردید کی؛ چنانچہ کتاب الام میں ایک مستقل عنوان "ابطال الاستحسان" کے نام سے قائم کیا، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اس عنوان کے ذیل میں یااپنی کتاب "الرسالہ" میں ابطال استحسان پر جو دلائل قائم کئے ہیں ،ان کا خلاصہ سطورِ ذیل میں پیش کردیا جائے: ان کی دونوں کتابوں کا جائز ہ لینے سے چھ دلائل سامنے آتے ہیں، جو نمبروار اس طرح ہیں: الف:شریعت کی بنیاد نص پر ہے اور شریعت نے نص پر قیاس کرنے کا انسان کو مکلف کیا ہے اور ظاہر ہے کہ استحسان نہ نص ہے نہ نص پر قیاس کرنا ہے؛ بلکہ ان سے ایک خارج شئی ہے، اب اگر اس خارجی شی کا اعتبار کیا جائے تواس کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے ایک ضروری چیز کوترک کردیا ہے؛ حالانکہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد: "أَيَحْسَبُ الْإِنْسَانُ أَنْ يُتْرَكَ سُدًى"۔ (القیامۃ:۳۶) ترجمہ:کیا انسان یہ خیال کرتا ہے کہ یوں ہی مہمل چھوڑ دیا جائے گا۔ (ترجمہ تھانویؒ) کے خلاف ہے؛ پس استحسان جونہ قیاس ہے اور نہ نص پر عمل کرنا ہے ،اس آیتِ کریمہ کے خلاف ہونے کی وجہ سے ناقابلِ قبول ہے۔ ب:بے شمار آیتوں میں اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کا حکم ہے اور خواہشات کی اتباع سے انسانوں کو روکا گیا ہےاور شریعت کا حکم ہے کہ جب کبھی آپس میں نزاع ہوجایا کرے توکتاب اللہ کی طرف رجوع کرو؛ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: "فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ"۔ (النساء:۵۹) ترجمہ:اگرکسی امر میں تم باہم اختلاف کرنے لگو تواس امر کو اللہ اور اس کے رسولﷺ کے حوالے کردیا کرو اگر تم اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔ (ترجمہ تھانویؒ) اور ظاہر ہے کہ استحسان نہ کتاب اللہ ہے او رنہ سنت رسولﷺ کہ ان کی طرف رجوع کیا جائے؛ بلکہ یہ ان دونوں سے ہٹ کر ایک تیسری چیز ہے، اس لیے جب تک قرآن وحدیث کے اندر اس کے قبول کرنے کی دلیل نہ ملے اس وقت تک اس کو قبول نہیں کریں گے اور چونکہ کوئی دلیل اس کے قبول پر نہیں ہے، اس لیے استحسان کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ ج:حضورﷺ ہمیشہ وحی کی روشنی ہی میں حکم دیا کرتے تھے ،کبھی بھی استحسان کی بناپر کوئی حکم نہیں دیا، مثلاً ایک بار آپﷺ سے سوال کیا گیا کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی سے "انت علی کظھرامی" کہہ دیا ہے اس کا کیا حکم ہے؟ توحضورﷺ نے اس کا جواب استحسان سے نہیں دیا ؛ بلکہ حضورؐ نے وحی کا انتظار کیا حتی کہ آیتِ ظہار اور کفارہ کا حکم نازل ہوا اور اس طرح کے اورکئی مسائل ہیں کہ آپؐ نے پیش آمدہ واقعات میں استحسان کی روشنی میں جواب دینے سے انکار فرمایا اور وحی کا انتظار فرمایا؛ اگرکسی کے لیے فقہی ذوق اور استحسان سے فتویٰ دینے کی گنجائش ہوتی تو اس کے زیادہ مستحق حضورﷺ تھے؛ لیکن حضورﷺ نے اس سے گریز کیا توہم پر لازم ہے کہ ہم بھی کسی نص پر اعتماد کئے بغیر استحسان پر فتویٰ دینے سے احتراز کریں، ہمارے لیے حضورﷺ کی ذات اسوہ ہے۔ د:حضورﷺ نے بعض حضرات صحابہ کرامؓ پر محض اس لیے نکیر فرمائی کہ انہوں نے حضورﷺ کے زمانے میں غائبانہ استحسان پر عمل کرلیا تھا، مثلاً ایک مرتبہ ایک مشرک نے مسلمان لشکر کو دیکھ کر کلمہ شہادت پڑھ دیا تھا؛ لیکن حضرت اسامہؓ نے سمجھا کہ اس نے محض جان بچانے کی خاطر یہ کلمہ پڑھا ہے؛ لہٰذا وہ مسلمان نہیں ہے اور اس کا قتل کرنا درست ہے، اس لیے انہوں نے اس کو قتل کردیا؛ لیکن حضورﷺ کو جب معلوم ہوا تو آپﷺ نے اس پر نکیر فرمائی (اصول فقہ لابی زہرہ:۲۱۴) اگر استحسان جائز ہوتا توحضورﷺ حضرت اسامہؓ پر نکیرنہ فرماتے؛ لہٰذا معلوم ہوا کہ استحسان جائز نہیں ہے۔ ھ:استحسان کے لیے کوئی ضابطہ اور قاعدہ نہیں ہے کہ اس پر حق وباطل کو پرکھا جائے ،اب اگرہرمفتی حاکم اور مجتہد کے لیے استحسان کی اجازت دیدی جائے تومعاملہ بہت الجھ جائے گا اور ایک ہی مسئلہ میں کئی احکام سامنے آئیں گے اور کوئی ضابطہ ہے نہیں کہ اس کی روشنی میں کسی ایک کو ترجیح دی جائے اور یہ خرابی استحسان کی اجا زت دینے سے پیدا ہوگی؛ لہٰذا وہ قابلِ ترک ہے۔ و:اگر استحسان مجتہد کے لیے جائز قرار دیا جائے تو وہ مجتہد نص پر اعتماد نہیں کرےگا او رنہ کسی مسئلہ کونص میں تلاش کرنے کی زحمت گوارہ کرے گا؛ بلکہ وہ صرف اپنی عقل پر ہی اعتماد کرکے احکام بیان کردے گا اور اس سے ہراس شخص کو مسائل بیان کرنے کی جرأت ہوجائے گی جوکتاب وسنت کا علم بھی نہ رکھتا ہو، اس لیے کہ کتاب وسنت کا علم نہ رکھنے والوں کے لیے بھی عقل کا ہونا ثابت ہے، بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ اہلِ علم کی عقل سے غیراہلِ علم کی عقل زیادہ ہوتی ہے اور یہ خرابی محض استحسان کے جائز قرار دینے کی وجہ سے لازم آرہی ہے، اس لیے استحسان حجت نہیں بن سکتی۔ (اصولِ فقہ لابی زہرہ:۲۱۵) مانعین کی دلائل پر ایک نظر اگرغور سے دیکھا جائے تومانعین کے یہ تمام دلائل اس استحسان سے متعلق نہیں ہیں، جنھیں احناف ومالکیہ قابلِ اعتبار قرار دیتے ہیں، چنانچہ شیخ ابوزہرہ امام شافعیؒ کے مذکورہ چھ دلائل ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں: "ان ھذہ الادلۃ کلھا لاترد علی الاستحسان الحنفی"۔ یہ سارے دلائل استحسان حنفی کے خلاف نہیں ہیں۔ اور واقعۃً امام شافعیؒ کے ان دلائل میں اس طرح کے الفاظ ملتے ہیں "لوکان لاحدان یفتی بذوق الفقہی، الخ.... بل یعتمد علی العقل وحدہ ، الخ.... وغیرھا" اس سے واضح ہوتا ہے کہ دراصل سیدنا امام شافعیؒ مطلقاً استحسان کو باطل اور قابلِ رد نہیں سمجھتے؛ بلکہ جس استحسان میں صرف فقہی ذوق اور محض عقلی اقتضا کے تحت قانون سازی ہو، ایسے استحسان کو باطل ومردود قرار دیتے ہیں اور ظاہر ہے کہ جن دلائل کے معتبر اور شرعی ہونے پر پوری امت متفق ہے، اس سے استناد کئے بغیر محض ذوق ووجدان اور طبعی خواہش کی بنیاد پر حکم شرعی بیان کرنے کوکوئی استحسان نہیں کہتا اور نہ یہ طریقہ استدلال کسی مجتہد کے یہاں صحیح ہے، اس طرح یہ محض ایک لفظی نزاع رہ جاتا ہے؛ چنانچہ ابوزہرہ لکھتے ہیں: "ان الاخذ بالاستحسان لاینافی الاتباع للاصول المعتبرۃ بحال من الاحوال"۔ (اصول فقہ لابی زہرہ:۲۵۰) استحسان یعنی قیاس خفی کے مقتضا کو قبول کرنا کسی بھی حالت میں شرعاً اصول معتبرہ کی اتباع کے خلاف نہیں ہے۔ اسی لیے تقریبا تمام ائمہ مجتہدین حنفیہ ہوں یامالکیہ وحنابلہ؛ بلکہ امام شافعیؒ بھی عملاً اس کے مصدر شرعی ہونے کو تسلیم کرتے ہیں، متاخرین علماء شوافع کی تحریریں اس امر کا واضح ثبوت ہیں کہ امام شافعیؒ بھی استخراج احکام میں برابر اس طرزِ استدلال سے کام لیتے رہے ہیں؛ گویا یہ حضرات اس کی تعبیر"استدلال مرسلہ" اور "معانی مرسلہ" وغیرہ سے کرتے ہیں، اس طرح مصطفیٰ زرقاء کی یہ بات قولِ فیصل ہے، یعنی استحسان واستصلاح کے بارےمیں امام شافعیؒ کا اختلاف بعض شرائط وقیود اور تسمیہ واصطلاح کا اختلاف ہے، اصل استحسان میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ حاصل یہ ہے کہ یہ بات اپنی جگہ ایک سچائی ہے کہ استحسان بھی مصادر شرعی میں سے ایک معتبر مصدر ہے، جس سے کام گوسارے ہی مجتہد نے لیا ہے، مگر علماء احناف نے اس سے بکثرت استفادہ کیا ہے اور اس کے نتیجہ میں اسلامی زندگی کے تمام شعبوں سے متعلق پوری جامعیت کے ساتھ قانونِ اسلامی کا ایک عظیم الشان اور نافع ترین ذخیرہ امت کے ہاتھ آیا۔ (فقہ اسلامی —اصول خدمات اور تقاضے:۲۳۷،۲۳۸) استحسان کے قائلین ائمہ احناف میں سے امام طحاویؒ کو چھوڑ کر تمام احناف، حنابلہ اور مالکیہ استحسان کومعتبر مانتے ہیں، اصل میں امام مالکؒ استحسان کو مصالح مرسلہ میں داخل کردیتے ہیں اور مصالح مرسلہ ان کے نزدیک حجت ہے، حاصل یہ ہے کہ ائمہ ثلاثہ اس کی حجیت کے قائل ہیں۔ (اصول فقہ لابی زہرہ:۲۰۸،۲۱۵) قائلین استحسان کے دلائل قائلینِ استحسان اس کی حجیت پر قرآن وسنت اور اجماعِ امت سے استدلال کرتے ہیں، مثلاً، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: "وَاتَّبِعُوا أَحْسَنَ مَاأُنْزِلَ إِلَيْكُمْ"۔ (الزمر:۵۵) ترجمہ:تم کو چاہیے کہ اپنے رب کے پاس سے آئے ہوئے اچھے اچھے حکموں پر چلو۔ (ترجمہ تھانویؒ) (۱)ارشادِ خداوندی ہے: "الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ"۔ (الزمر:۱۸) ترجمہ:جواس کلام الہٰی کو کان لگاکر سنتے ہیں پھراس کی اچھی اچھی باتوں پر چلتے ہیں۔ (ترجمہ تھانویؒ) پہلی آیت میں "أحْسَنَ مَااُنْزِلَ" کی اتباع کا حکم ہے اور دوسری آیت مقام مدح میں ہےاس میں ان حضرات کی تعریف کی گئی ہے جواحسن قول کی اتباع کیا کرتے ہیں ،گویانص میں خود اس بات کا حکم اورترغیب ہے کہ بعض کوچھوڑدی جائے اور بعض کی اتباع محض اس وجہ سے کی جائے کہ وہ احسن ہے اور یہی استحسان کا مطلب ہے کہ اس کے ذریعہ احسن کو اختیار کیا جاتا ہے اور غیراحسن کو ترک کردیا جاتا ہے۔ (۲)نیزآپﷺ کا ارشاد ہے: "فَمَا رَأَى الْمُسْلِمُونَ حَسَنًا فَهُوَ عِنْدَ اللَّهِ حَسَنٌ"۔ (مسنداحمدبن حنبلؒ، مسندعبداللہ بن مسعودؓ، حدیث نمبر:۳۶۰۰) ترجمہ:جسے مسلمان مستحسن سمجھیں وہ اللہ کے یہاں بھی مستحسن ہے۔ اس حدیث سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے نزدیک بھی وہ چیز مستحسن ہوجاتی ہے جومسلمانوں کے یہاں مستحسن ہو اور اگراستحسان حجت نہ ہوتی تو اس کے اللہ کے نزدیک حسن ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ (۳)استحسان کی حجیت اجماع امت سے اس طرح ثابت ہے کہ حمام میں غسل کرنے کے لیے داخل ہونا تمام فقہاء نے جائز قرار دیا ہے؛ حالانکہ اس میں نہ وقت کی تعیین ہوتی ہے اور نہ پانی کی مقدار متعین ہوتی ہے اور نہ ہی اجرت متعین کی جاتی ہے؛ اسی طرح سقہ سے پانی پینا تقریباً تمام فقہاء نے جائز قرار دیا ہے؛ حالانکہ اس میں نہ پانی کی مقدار متعین ہوتی ہے اور نہ ہی اجرت متعین کی جاتی ہے ،ظاہر ہے کہ ان کو فقہاء نے استحسان کے قبیل سے ہونے کی وجہ سے ہی جائز قرار دیا ہے، حاصل یہ ہے کہ استحسان کا قابل حجت ہونا کتاب اللہ، سنت رسول اللہﷺ اور اجماع امت سے ثابت ہے اور قیاس تواس کی تائید میں پہلے سے ہی ہے اس طرح چاروں ادلہ سے استحسان کا حجت ہونا ثابت ہے۔ (اصول مذہب امام احمد بن حنبلؒ:۵۰۵) استحسان کا وجود شارع علیہ السلام کے کلام میں بہرحال جہاں تک استحسان کے مصدرِ شرعی ہونے کی بات ہے تو تقریباً سارے ہی ائمہ مجتہدین کے نزدیک وہ عملاً مسلم ہے اور ایسا کیوں نہ ہو جب کہ ائمہ مجتہدین جس طرزِ عمل کو اور جس طرزِ استدلال کو دلیل استحسان سے تعبیر کرتے ہیں، بلاشبہ یہ طرزِ عمل خود جناب رسول اللہﷺ کا بھی تھا، اس کی چند مثالیں آپ بھی ملاحظہ فرمائیے مثلاً قہقہہ کوئی نجاست نہیں ہے؛ چنانچہ نماز کے باہرقہقہہ سے وضو نہیں ٹوٹتا؛ مگرجناب رسول اللہﷺنے نماز کے اندر قہقہہ کو ناقضِ وضو قرار دیا ہے؛ گواہوں کا نصاب دومرد ہونا نص سے ثابت ہے؛ مگرجناب رسول اللہﷺ نے حضرت خزیمہ بن ثابتؓ کو استثنائی طور پر ایک ہونے کے باوجود دوگواہ کے قائم مقام قرار دیا ہے، روزہ میں اگرکوئی قصداً روزہ توڑدے اور وہ غلام آزاد کرنے کی استطاعت رکھتا ہے اور نہ ہی دومہینے روزہ رکھنے کی اسے طاقت ہے تواس کے بارے میں حکم ہے کہ بطورِ کفارہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے؛ مگرایک شخص جب عمداً روزہ توڑکر آیا اور اس نے غلام آزاد کرنے اور روزہ رکھنے سے اپنی معذوری ظاہر کی توحضورؐ نے اپنے پاس سے ان کو برائے صدقہ کھجور عنایت فرمایا، تب انہوں نے کہا کہ یارسول اللہؐ مدینہ کے ان دوپہاڑیوں کے درمیان ہمارےگھرانے سے زیادہ اور کون محتاج ومسکین ہے، یہ سن کر حضورﷺ نے فرمایا: "اذهب وأطعمه أهلك"۔ (الذخیرۃ، الباب السادس فی سبب الکفارۃ:۲/۵۱۷، ڈیجیٹل لائبریری) ترجمہ:جاؤ اپنے اہلِ وعیال کو کھلادو۔ یہ اجازت عام اصول کے خلاف ہے؛ مگررسول اللہﷺ نے ان کو استثنائی حکم دیا ہے۔ میرا مقصد یہ نہیں ہے کہ یہ سب ازقبیلِ استحسان ہی تھا؛ کیونکہ جناب رسول اللہﷺ مستقل شارع تھے، ان کا قول وعمل توخود اپنی جگہ نص اور حجت شرعیہ ہے، زیادہ سے زیادہ اسے استحسان شارع کہا جاسکتا ہے؛ تاہم اسے ائمہ مجتہدین کی اصطلاح استحسان سے کوئی تعلق نہیں؛ بلکہ میں ان مثالوں کی روشنی میں صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ ائمہ مجتہدین کی اصطلاح میں جسے استحسان کہا جاتا ہے، اس طریق استدلال کا وجود شارع علیہ السلام سے بھی ثابت ہے۔ (فقہ امام مالکؒ:۳۸۱) حضرات صحابہ سے استحسان پر عمل کے نظائر حضرات صحابہؓ سے بھی استحسان پر عمل کرنا ثابت ہے، ذیل میں اس کی کچھ مثالیں ذکر کی جاتی ہیں، مثلاً: (۱)عورت کا انتقال ہوجائے اور اس کے ورثا یہ ہوں:شوہر ،ماں، دواخیافی بھائی اور دو سگے بھائی کہ اس صورت میں شوہر، ماں اور اخیافی بھائی تو ورثاء ہیں جواصحاب فرائض کہے جاتے ہیں، یعنی شریعت میں ان کے حصص مقرر ومتعین ہیں؛ لیکن میت کے سگے بھائی عصبات کے قبیل سے ہیں اور علم میراث کا یہ قاعدہ کلیہ ہے کہ اصحاب فرائض سے جوبچ کررہ جاتا ہے وہ عصبات کو ملتا ہے؛ لہٰذا اس صورت میں قیاس کی رو سے اخیافی بھائیوں کو توترکہ ملے گا، مگر میت کے سگے بھائیوں کو کچھ بھی نہیں مل سکے گا؛ کیونکہ شوہر کو نصف حصہ ملے گا، ماں کو چھٹا اور اخیافی بھائیوں کو ثلث ملے گا، اس کے بعد کچھ بچتا ہی نہیں کہ میت کے سگے بھائیوں کو عصبات میں سے ہونے کی وجہ سے ملے؛ پس یہ عجیب وغریب پیچیدگی واقع ہوگئی کہ میت کے سگے بھائی تومحروم ہوجائیں اور اخیافی بھائی ترکہ پالیں، بعض صحابہ نے اسی کے مطابق فتویٰ دیا ہے اور حنفی وحنبلی اجتہادات میں بھی یہی ہے؛ لیکن حضرت عمرؓ اور دوسرے صحابہؓ کے نزدیک ازروئے استحسان اس کا حکم دوسرا ہے، یہ حضرات میت کے سارے بھائیوں کو خواہ اخیافی ہوں یاسگے، سب کو ثلث میں شریک قرار دیتے ہیں؛ کیونکہ یہ سارے بھائی ایک ماں کی اولاد تو ہیں؛ اگرچہ ان کے باپ الگ الگ ہیں، حضرت عمرؓ نے استحسان کا یہ طریقہ انصاف قائم کرنے اورحرج کے دفع کرنے کی خاطر اختیار کیا ہے اور فقہ مالکی اور فقہ شافعی میں بھی اس صورتِ حال کا یہی حکم ہے۔ یہ صورتِ حال فرضی نہیں ہے؛ بلکہ روایتوں میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ فی الواقع یہی نوعیت پیش آگئی؛ چنانچہ جب واقعہ حضرت عمرؓ کے سامنے پیش ہوا تواولاً حضرت عمرؓ نے اسی رائے کا اظہار فرمایا کہ ماں کی جانب سے میت کے اخیافی بھائیوں کا حصہ ثلث ہوگا؛ کیونکہ وہ اصحابِ فرائض میں سے ہیں ،یہ سن کر میت کے سگے بھائیوں نے جوعصبات میں سے تھے اور حصہ پانے سے محروم ہوجارہے تھے، حضرت عمرؓ سے کہا کہ ہٹائیے ہمارے باپ کو اور سمجھ لیجئے کہ ہمارا باپ کوئی گدھا تھا؛ لیکن کیا یہ واقعہ نہیں کہ ہم چاروں ایک ہی ماں کی اولاد ہیں، یہ سن کر حضرت عمرؓ اپنی پہلی رائے سے رجوع فرمائے اور میت کے چاروں بھائیوں کو ثلث میں شریک قرار دینے کا فیصلہ فرمایا۔ (البحرالمحیط:۶/۸۹۔ الاحکام للآمدی:۴/۲۱۴) (۲)قرآن کی نص صریح مصارفِ زکوٰۃ میں سے ایک مصرف مولفۃ القلوب کو بھی قرار دیتی ہے یعنی نومسلموں کی تالیف قلب یاکافروں کے فسادوشر سے بچنے کے لیے انہیں بھی زکوٰۃکی رقم دی جاسکتی ہے، عہدِ صدیقی رضی اللہ عنہ میں عیینہ بن حصن اور اقرع بن حابس حسبِ دستور اپنے حصے کا مطالبہ کرنے آئے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے اس کے متعلق حکم نامہ لکھ دیا ،یہی لوگ پھرحضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ سے اس حکم نامہ کو مؤکد کرنے کے لیے گئے توحضرت عمرؓ نے اس پر دستخط نہیں کیا اور انہیں کچھ دینےسے انکار کردیا اور فرمایا: "ھذا الشی کان النبیﷺ یعطیکموہ تالیفا لکم علی الاسلام والآن قداعزاللہ الاسلام واغنی عنکم فان بقیتم علی الاسلام والابیننا وبینکم السیف"۔ ترجمہ:یہ وہ چیز تھی جوجناب رسول اللہﷺ تم کو اسلام پر جمانے کے لیے دیا کرتے تھے اب اللہ نے اسلام کو غلبہ وشوکت دیکر تمہارا محتاج نہیں رکھا، اب اگر اسلام پر ثابت قدم رہے تو فبہا؛ ورنہ تلوار ہمارے اور تمہارے درمیان فیصلہ کن ہوگی۔ اور یہی استحسان ہے۔ (فقہ اسلامی اصول خدمات اور تقاضے:۲۳۶،۲۳۷) (۳)سرقہ اور زنا کی سزا ایک حکم کلی کی شکل میں قرآن پاک میں موجود ہے، ایک مرتبہ یمن کے باشندوں نے مقام حرہ میں قیام کیا اور ان کے ساتھ رفقاء سفر میں سے ایک شادی شدہ عورت بھی تھی، وہ لوگ ا س کے ساتھ بدکاری کرتے رہے؛ پھراسے چھوڑ کر چل پڑے ،یہ عورت حضرت عمرؓ کے پاس آئی اور اپنا واقعہ سناتے ہوئے یہ کہا کہ میں مسکینہ اور محتاج تھی، ہمارے رفقاءِ سفر ہمارا خیال نہیں کرتے تھے اور میرے پاس اپنے نفس کے سواء کچھ نہیں تھا، میں اپنی عزت کوان سے مادی فائدہ حاصل کرنے کی غرض سے کھوتی رہی، حضرت عمرؓ اس کے رفقاء کو بلاکر تحقیقِ حال کیا اور جب لوگوں نے اس عورت کی محتاجی اور مسکینی کی تصدیق کردی توحضرت عمرؓ نے اسے زنا کی آئینی سزا سے بری فرمادیا۔ (چراغِ راہ:۲۷۵) (۴)حاطبِ بن ابی بلتعہؓ صحابی رسولﷺ کے ایک غلام نے قبیلۂ مزینہ کے ایک شخص کا اونٹ چراکر ذبح کردیا، معاملہ حضرت عمرؓ کی عدالت میں پہونچا اور ضابطہ کے تحت قطع ید کا فیصلہ ان کے حق میں کیا؛ لیکن فوراً اس فیصلہ سے عدول کرتے ہوئے حاطب بن ابی بلتعہؓ سے دریافت کیا کہ میرا خیال ہے کہ تم ان غلاموں کو بھوکا رکھتے ہو جس سے مجبور ہوکر یہ لوگ وہ کام کرگزرے ،جسے اللہ نے حرام کررکھا ہے، یہ فرماکر حضرت عمرؓ اونٹ کے مالک کو اس کی قیمت لینے پر راضی کرلیا، ان دونوں واقعہ میں ایک حکم کلی سے ہٹ کر حضرت عمرؓ نے ایک استثنائی فیصلہ فرمایا ہے اور یہی فیصلہ ان مخصوص احوال وظروف کے اعتبار سے حسن اور مقاصد شریعت کے عین مطابق اور جرم وسزا میں توازن واعتدال کا مقتضا تھا۔ (قرطبی:۸/۱۸۱۔ المغنی:۲/۶۶۶) استحسان کی مثالیں فقہاء کے عبارتوں میں فقہاء کی عبارتوں میں بھی استحسان کی مثالیں جابجا ملتی ہیں، اس کی چند مثالیں درجِ ذیل ہیں: ۱۔ازروئے قیاس پھاڑ کھانے والے پرندوں کا جھوٹا ناپاک ہونا چاہیے؛ کیونکہ پھاڑ کھانے والے چوپایوں کا جھوٹا ناپاک ہے توجس طرح درندے چوپایوں کا جھوٹا ناپاک ہے اسی طرح پھاڑ کھانے والے پرندوں کا جھوٹا بھی ناپاک ہونا چاہیے؛ مگراستحساناً ایسے پرندوں کا جھوٹا پاک مگر مکروہ قرار دیا گیا ہے؛ کیونکہ درندے نجس العین نہیں ہیں ان میں نجاست محض گوشت کے حرام ہونے کی وجہ سے ہے؛ لہٰذا پانی کی نجاست کا حکم بھی اسی جگہ لگایا جائے گا جہاں پانی سے (ان کے گوشت سے پیدا شدہ) لعاب اور رطوبت کا امتزاج پایا جائے اور پھاڑ کھانے والے پرندوں میں یہ امتزاج نہیں پایا جاتا ہے، اس لیے کہ وہ اپنی چونچ سے پانی لیکر حلق میں ڈالتے ہیں اور ان کی چونچ ایک پاک ہڈی ہے ان کے پانی میں پڑنے سے پانی ناپاک نہیں ہوتا ہے؛ البتہ کراہت اس معنی کرباقی رہے گی کہ عموماً ایسے جانوروں کی چونچ میں خارجی نجاست لگی رہتی ہے ،اس مسئلہ میں قیاس کی دلیل اگرچہ ظاہر نظر میں بہت مضبوط ہے؛ لیکن وہ استحسان کو ترجیح حاصل ہے۔ ۲۔سواری پر چلتے ہوئے نمازِ جنازہ کے متعلق اگرقیاس پر نظر رکھی جائے تومعلوم ہوگا کہ نمازِ جنازہ سواری پر جائز ہونی چاہیے ؛اس لیے کہ وہ اصل نماز نہیں؛ بلکہ دعا ہے اور دعا ہرحالت میں جائز ہے، اس کے لیے سواری یاپیدل کو کوئی قید نہیں ہے، اس کے برخلاف استحسان کا تقاضا یہ ہے کہ سواری کی حالت میں نمازِ جنازہ نہ ہو؛ اس لیے کہ نمازِ جنازہ میں تکبیر تحریمہ وغیرہ پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے اس کی حیثیت نماز کی سی ہے؛ لہٰذا اس پر فرض نماز کے احکامات جاری کرنے چاہئیں اور بلاعذر سواری پر نماز جنازہ پڑھنے کی اجازت نہ ہونی چاہیے، اس مسئلہ میں بھی استحسان قیاس کے مقابلہ میں قوی ہے؛ لہٰذا استحسان ہی کو ترجیح دی گئی ہے۔ ۳۔اگرکسی شخص پر زکوٰۃ واجب تھی پھر اس نے زکوٰۃ کی نیت کئے بغیر سارا مال صدقہ کردیا تویہاں قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ زکوٰۃ ادا نہ سمجھی جائے اور اس پر ادائیگی کا فرض بدستور باقی رہے؛ کیونکہ صدقہ نفل اور فرض دونوں طرح سے کیا جاتا ہے، ان میں امتیاز کے لیے فرض کی نیت متعین طور پر کرنا ضروری ہے جویہاں نہیں پایا گیا، جب کہ استحسان کا تقاضا یہ ہے کہ سارا مال صدقہ کردینے کی وجہ سے اس سے زکوٰۃ کی ادائیگی کا حکم ساقط ہوجائے ؛اس لیے کہ تعین کی ضرورت وہاں پڑتی ہے جہاں کوئی چیز متعین کئے بغیر متعین نہ ہوسکے؛ یہاں ایسا نہیں ہے؛ بلکہ کل مال کا ایک حصہ ہی یہاں واجب تھا جویقینی طور پر صدقہ کردیا گیا، اب کچھ بچا ہی نہیں کہ اسے متعین کیا جاسکے ؛اس لیے بلاتعین کے بھی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی۔ (اقضیہ عمر بن خطاب لعبد العزیز الہلودی:۱۱۰) ۴۔استحسان ہی کے قبیل سے قرض کا مسئلہ ہے کہ اسے ربا میں داخل ہونے کی وجہ سے ناجائز ہونا چاہیے؛ کیونکہ قرض میں ایک وقت معینہ پر روپیہ کا روپیہ سے تبادلہ ہوتا ہےاور مستقرض اس کے ذریعہ فائدہ اٹھاتا ہے اور یہ بھی تو ربا ہے؛ لیکن استحسان کی وجہ سے اسے مباح قرار دیا گیا ہے اس لیے کہ قرض دینے میں باہمی رواداری اورہمدردی کا اظہار ہوتا ہے ؛ اس لیے یہاں پر بھی قیاس کو ترک کرکے استحسان پر عمل کیا گیا ہے۔ ۵۔اسی طرح قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ لوگوں کے موضع ستر کو نہیں دیکھنا چاہیے؛ خواہ علاج ہی کی ضرورت کیوں نہ ہو؛ کیونکہ یہ شریعت کا عام قاعدہ ہے کہ موضع ستر کا دیکھنا اور چھوناحرام ہے؛ لیکن علاج کی غرض سے اس کو استحساناً جائز قرار دیا گیا ہے۔ (فقہ اسلامی اصول خدمات اور تقاضے:۲۲۸، ۲۲۹) خلاصہ یہ ہے کہ استحسان ادلۂ اربعہ سے بالکلیہ الگ کوئی خاص دلیل نہیں ہے؛ بلکہ انہی میں سے بعض کوبعض پر ترجیح اور بعض کوبعض سے مستثنیٰ اور دلائل میں باہمی تطبیق اور سبھوں کے مناسب محامل کوتجویز کرتے ہوئے حکم مرجوح وقبیح سے بچ کر حکم راجح واحسن کو اختیار کرنے کی کوشش کرنے کا نام استحسان ہے؛ اس طرح استحسان کا ثمرہ دراصل اتباع حسن اور اجتناب عن القبح نکلتا ہے، جس کے مستحسن ہونے؛ بلکہ مامور بہ ہونے سے انکار کرنا مشکل ہے۔ (اصولِ فقہ لابی زہرہ:۲۱۳)