انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** صلح نامہ جب عبداللہ بن عامر امیر معاویہؓ کا مہری ودستخطی کاغذ لے کر آئے اورتمام پیش کردہ شرائط کا تذکرہ کیا تو حضرت امام حسنؓ نے کہا کہ میں اس شرط کو ہرگز پسند نہیں کرتا کہ حضرت امیر معاویہؓ کے بعد میں خلیفہ بنایا جاؤں ؛کیونکہ اگر مجھ کو خلافت کی خواہش ہوتی تو میں اسی وقت کیوں اس کے چھوڑنے پر آمادہ ہوجاتا، اس کے بعد اپنے کاتب کو بُلایا اورصلح نامہ لکھنے کا حکم دیا جو اس طرح لکھا گیا: ’’یہ صلح نامہ حسنؓ بن علیؓ بن ابی طالب اورمعاویہؓ بن ابی سفیان کے درمیان لکھا جاتا ہے،دونوں مندرجہ ذیل باتوں پر متفق اوررضا مندہیں: امرِ خلافت معاویہؓ بن ابی سفیان کو سپرد کیا گیا،معاویہؓ کے بعد مسلمان مصلحتِ وقت کے مطابق جس کو چاہیں گے خلیفہ بنائیں گے، معاویہؓ کے ہاتھ اور زبان سے سب اہلِ اسلام محفوظ ومامون رہیں گے اور معاویہؓ سب کے ساتھ نیک سلوک کریں گے،حضرت علیؓ کے متعلقین اور ان کے طرفداروں سے امیر معاویہؓ کوئی تعرض نہ کریں گے، حسنؓ بن علیؓ اورحسینؓ بن علیؓ اوراُن کے متعلقین کو امیر معاویہؓ کوئی ضرر نہ پہنچائیں گے اور یہ دونوں بھائی اوراُن کے متعلقین جس شہر اور جس آبادی میں چاہیں گے سکونت اخیتار کریں گے،امیر معاویہؓ اوراُن کے عاملوں یا گماشتوں کو یہ حق نہ ہوگا کہ وہ اُن کو اپنا محکوم سمجھ کر اپنے کسی ذاتی حکم کی تعمیل کے لئےمجبور کریں،صوبہ اہواز کا خراج حسنؓ بن علیؓ کو امیر معاویہؓ پہنچاتے رہیں گے،کوفہ کے بیت المال میں جس قدر روپیہ اب موجود ہے وہ سب امام حسنؓ بن علیؓ کی ملکیت سمجھا جائے گا، وہ اپنے اختیار سے اُس پر جس طرح چاہیں گے تصرف کریں گے، امیر معاویہؓ بنی ہاشم کو انعام وعطیہ میں دوسروں پر مقدم رکھیں گے۔‘‘ اس عہد نامہ پر عبداللہ بن الحارث بن نوفل اور عمر بن ابی سلمہ وغیرہ کئی اکابر کے دستخط بطور گواہ اورضامن کے ہوئے، جب یہ صلح نامہ مرتب ہوکر امیر معاویہؓ کے پاس مقام انبار میں پہنچا تو وہ بہت خوش ہوئے،وہاں سے محاصرہ اُٹھا کر اور قیس بن سعدؓ کو آزاد چھوڑ کر کوفہ کی طرف روانہ ہوئئے،قیس بن سعدؓ بھی اُسی روز شام کو معہ اپنے ہمراہیوں کے کوفہ میں پہنچ گئے،امیر معاویہ نے فوراً ان کی شرط کو منظور کرلیا اس کے بعد انہوں نے اور اُن کے ہمراہیوں نے بھی آکر بیعت کرلی۔ حضرت امام حسینؓ نے بھی بیعت سے انکار کیا،حضرت امیر معاویہؓ کی طرف سے اصرار ہوا تو حضرت امام حسنؓ نے معاویہؓ سے کہا کہ آپ حسینؓ سے اصرار نہ کریں، آپ کی بیعت کرنے کے مقابلہ میں ا ُن کو اپنا فخر عزیزتر ہے، یہ سن کر امیر معاویہؓ خاموش ہوگئے،لیکن بعد میں پھر امام حسینؓ نے بھی ا میر معاویہؓ سے بیعت کرلی،اس سفر میں امیر معاویہؓ کے ہمراہ عمرو بن العاصؓ بھی موجود تھے،انہوں نے امیر معاویہؓ سے کہا کہ اب امام حسنؓ سےفرمائش کیجئے کہ وہ مجمع عام کے روبرو ایک خطبہ بیان فرمائیں،امیر معاویہؓ نے اس رائے کو پسند کیا اوراُن کی درخواست کے موافق حضرت امام حسن ؓ نے خطبہ ارشاد فرمایا کہ: ’’مسلمانو: میں فتنے کو بہت مکروہ رکھتا ہوں، اپنے جدِّ ا کی امت میں سے فساد اورفتنے کو دور کرنے اور مسلمانوں کی جان و مال کو محفوظ رکھنے کے لئے میں نے حضرت امیر معاویہؓ سے صلح کی اور اُن کو امیر اورخلیفہ تسلیم کیا، اگر امارت اورخلافت اُن کا حق تھا تو اُن کو پہنچ گیا اوراگریہ میرا حق تھا تو میں نے ان کو بخش دیا۔‘‘