انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** عام الحزن یعنی نبوت کا دسواں سال جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شعبِ ابی طالب سے نکلے ہیں تو نبوت کا دسواں سال شروع ہوچکا تھا،قیاس یہ چاہتا تھا کہ اب یہ مسلمانوں کے ساتھ قریش کی طرف سے رعایت اورنرمی کا برتاؤ ہوگا، مگر نہیں،مسلمانوں کی محنتیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مصائب اوربھی زیادہ بڑھ گئے اورجلد ہی ایسے حالات پیش آئے کہ اس سال کا نام ہی عام الحزن یعنی غموں کا سال مسلمانوں میں مشہور ہوا،رجب کے مہینے میں ابو طالب جن کی عمر اسی سال سے اوپر تھی بیمار ہوکر فوت ہوئے،ابوطالب کے فوت ہوتے ہی کفارِ مکہ یعنی دشمنانِ دین کی ہمتیں بڑھ گئیں،ابو طالب ہی ایک بااثر اوربنی ہاشم کے ایسے سردار تھے جن کا سب لحاظ کرتے اور ڈرتے تھے ان کےمرتے ہی بنی ہاشم کا رعب واثر جو مکہ میں قائم تھا،باقی نہ رہا، قریش نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ستانے اورنقصان پہنچانے کے لئے میدان خالی پاکر آزادانہ اوربے باکانہ مظالم کا سلسلہ جاری کردیا۔ اسی سال حضرت ابوبکرصدیقؓ نے بھی مظالم قریش سے تنگ آکر ہجرت کا ارادہ کیااورمکہ سے نکلے،راستہ میں چار منزل کے فاصلہ پر برک النعماد کے پاس قبیلہ قارہ کے سردار ابن الدغنہ سے اُن کی ملاقات ہوئی،ابن الدغنہ نے پوچھا کہاں جاتے ہو؟ حضرت ابوبکرؓ نے جواب دیا کہ مجھے میری قوم نے اس قدر ستایا ہے کہ میں نے اب ارادہ کیا ہے کہ مکہ سے نکل کر کسی دوسری جگہ جاکر رہوں اوراپنے رب کی عبادت کروں،ابن الدغنہ نے کہا کہ آپ تو ایسے شخص ہیں نہ آپ کو خود مکہ سے نکلنا چاہئیے نہ آپ کی قوم کو یہ گوارا ہونا چاہئے کہ آپ مکہ سے نکلیں ،میں آپ کو پناہ میں لیتا ہوں، آپ واپس چلئے اورمکہ ہی میں اپنے رب کی عبادت کیجئے؛چنانچہ حضرت ابوبکرصدیقؓ مکہ میں واپس آئے،ابن الدغنہ نے رؤساء قریش کو جمع کرکے بہت شرمندہ کیا اورکہا کہ تم ایسی نیک صفات والے شخص کو نکالتے ہو جس کا وجود کسی قوم کے لئے موجب فخر ہوسکتا ہے،حضرت ابوبکرؓ نے اپنے مکان کے آنگن میں ایک چھوٹا سا چبوترہ بطور مسجد بنالیا وہیں قرآن شریف پڑھا کرتے اورعبادتِ الہی میں مصروف رہتے تھے،اُن کی قرآن خوانی کی آواز کا اثر محلہ کی عورتوں اوربچوں پر بہت ہوتا تھا،قریش کو یہ بھی گوارانہ ہوا اورابن الدغنہ نے منع کیا تو حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ میں تمہاری پناہ سے نکلتا اوراپنے خدا تعالیٰ کی پناہ کو کافی سمجھتا ہوں مگر قرآن خوانی کو ترک نہیں کرسکتا۔ ابو طالب کی وفات کے قریباً دو ماہ بعد رمضان ۱۰ نبوی میں حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ کا بھی انتقال ہوگیا،حضرت خدیجہؓ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑی محبت تھی، وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام مصائب و تکلیف میں رفیق تھیں سب سے پہلے وہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائی تھیں، انہوں نے ہمیشہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمت بندھائی اور مصیبتوں میں آپ کو تسلی دی تھی،ابو طالب اورخدیجہؓ دونوں ایسے رفیق وہمدرد تھے کہ ان کی وفات نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت ہی غمگین بنادیااور ساتھ ہی قریش کی ایذاء رسانیوں میں اضافہ ہونے لگا،ایک دفعہ آپ راستہ میں جارہے تھے کہ کسی شریر نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر بہت سی کیچڑ اٹھا کر ڈال دی،سروریش کے تمام بال آلودہ اور جسم مبارک کے کپڑے ناصاف ہوگئے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی حالت میں اپنے گھر کے اندر تشریف لائے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت فاطمۃ الزہراؓ پانی لے کر اٹھیں ،وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر دھلاتی جاتی تھیں اور زار وقطار رورہی تھیں،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،بیٹی روومت،خدا تعالیٰ تمہارے باپ کی خود حفاظت کرے گا۔ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ میں گئے،وہاں بہت سے مشرک بیٹھے ہوئے تھے،ابو جہل نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر تمسخرانہ انداز میں کہا، عبدمناف والو،دیکھو تمہارا نبی آگیا،عتبہ بن ربیعہ نے کہا ہمیں کیا انکار ہے ،کوئی نبی بن بیٹھے،کوئی فرشتہ بن جائے،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عتبہ کی طرف مخاطب ہوکر کہا کہ تونے کبھی بھی خدا ورسول کی حمایت نہ کی اوراپنی ضد پر اڑا رہا،پھر ابو جہل سے کہا کہ تیرے لئے وہ وقت قریب آرہا ہے کہ تو ہنسے گا کم اور روئے گا زیادہ، پھر تمام مشرکین سے کہا کہ وہ وقت قریب آرہا ہے کہ تم جس دین کا انکار کررہے ہو اُسی میں داخل ہوجاؤ گے۔