انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت ابو الیسر کعبؓ بن عمرو نام ونسب کعب نام، ابو الیسر کنیت، بنو سلمہ سے ہیں،نسب نامہ یہ ہے، کعب بن عمرو بن عبادہ بن عمرو بن سواد بن غنم بن کعب بن سلمہ بن علی بن سد بن ساردہ بن یزید بن جشم بن خزرج ،ماں کا نام نسیبہ بنت ازہر بن مریٰ تھا اور بنو سلمہ سے تھیں ۔ اسلام عقبہ ثانیہ میں بیعت کی غزوات تمام غزوات میں شریک رہے غزوۂ بدر میں نہایت جوش سے لڑے مشرکین کا علم ابو عزیز بن عمیر کے ہاتھ میں تھا، انہوں نے بڑھ کر چھین لیا، ایک مشرک مبنہ بن حجاج سہمی کو قتل کیا اورحضرت عباسؓ کو اسیر کرکے آنحضرتﷺ کے سامنے لائے،آپ ﷺ ان کے چھوٹے سے قدر اورحضرت عباسؓ کے ڈیل ڈول کو دیکھ کر نہایت متعجب ہوئے اورفرمایا کہ عباس کو گرفتار کرنے میں ان کی کسی فرشتہ نے اعانت کی، اس وقت ان کا سن کل ۲۰ سال کا تھا۔ امام بخاری نے اپنی تاریخ میں بھی ان کی شرکت بدر تسلیم کی ہے۔ معرکہ خیبر میں جب کہ صحابہ قلعوں کا محاصرہ کئے ہوئے تھے ایک رات کسی یہودی کی بکری قلعہ میں جارہی تھی، آنحضرتﷺ نے فرمایا مجھ کو اس کا گوشت کون کھلائے گا ابو الیسر نے کہا میں اور اٹھ کر نہایت تیز دوڑتے ہوئےپہنچے بہت بکریاں اندر جارہی تھیں، انہوں نے دو بکریاں پکڑ لیں اوربغل میں دبا کر لے آئے، لوگوں نے ان کو ذبح کرکے گوشت پکایا۔ (مسند:۲/۴۲۷) صفین اور دوسری لڑائیوں میں حضرت علی کے ہمرکاب تھے۔ وفات ۵۵ھ میں مدینہ میں انتقال کیا، اصحاب بدر میں یہ سب سے بعد میں فوت ہوئے، خیبر والی حدیث بیان کرکے رویا کرتے تھے اورکہتے تھے کہ مجھ سے فائدہ اٹھا لو، صحابہ میں صرف میں باقی رہ گیا ہوں ،وفات کے وقت سن ستر سے اوپر تھا بعض لوگوں نے ۱۲۰ سال لکھا ہے؛ لیکن یہ بدایۃ غلط ہے۔ اولاد ایک لڑکا یادگار چھوڑا جس کا نام عمار تھا۔ حلیہ حلیہ یہ تھا قد کوتاہ،پیٹ بڑا فضل وکمال حدیث کم اور نہایت احتیاط سے بیان کرتے تھے،ایک مرتبہ عبادہ بن ولید سے دو حدیثیں بیان کیں اور حالت یہ تھی کہ آنکھ اور کان پر انگلی رکھ کر کہتے تھے کہ ان آنکھوں نے یہ واقعہ دیکھا اوران کانوں نے آنحضرتﷺ کو بیان فرماتے سنا۔ (مسند:۳/۲۲۷) تلامذہ میں عبادہ بن ولید، موسیٰ بن طلحہ، عمر بن حکم بن رافع، حنظلہ بن قیس زرقی، صیفی مولا، ابو ایوب انصاری اورربیع بن حراش کا نام داخل ہے۔ اخلاق وعادات نہایت رحیم اور نرم دل تھے ،بنو حرام کے ایک شخص پر قرض آتا تھا اس کے مکان پر جا کر آوازدی، معلوم ہوا موجود نہیں، اتنے میں اس کا چھوٹا لڑکا باہر آیا پوچھا تمہارے باپ کہاں ہیں، بولا اماں کی چار پائی کے نیچے چھپے ہیں،انہوں نے پکارا کہ اب نکل آؤ تم جہاں پر ہو مجھے معلوم ہے وہ باہر آیا اوراپنی فقر کی داستان سنائی ابو الیسر کا دل بھر آیا اور کاغذ منگا کر تمام حروف کو مٹادیا اورکہا اگر مقدرت ہوتو ادا کرنا ورنہ میں معاف کرتا ہوں۔ (مسلم:۲/۴۵۰) غلاموں کے ساتھ برابری کا برتاؤ رکھتے تھے،ایک مرتبہ عبادہ بن ولید ان سے حدیث سننے کیلئے آئے دیکھا تو ان کے غلام کے پاس کتابوں کا ایک پشتارہ ہے خود ایک چادر اورایک معافر کی بنی ہوئی لنگی پہنے ہیں، غلام کا بھی یہی لباس ہے،عبادہؓ نے کہا ،عم محترم بہتر ہو کہ ایک جوڑا مکمل کر لیجئے یا تو آپ ان کی معافری لے لیجئے اوراپنی چادر ان کو دیدیجئے یا اپنی معافری دیدیجئے اوران سے چادر لیجئے ،حضرت ابو الیسرؓ نے ان کے سرپر ہاتھ پھیر ا اور دعا دی اور فرمایا کہ آنحضرتﷺ کا حکم یہ ہے کہ جو تم پہنو غلاموں کو پہناؤ اور جو تم کھاؤ ان کو کھلاؤ۔ (مسلم:۲/۴۵۰)