انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** جنت کی عورتوں اور حوروں کا حسن حور کی چمک دمک: حدیث: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: غَدْوَةٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ تَعَالَی أَوْروحۃ مِنْ الدُّنْيَا وَمَافِيهَا ولقاب قوس احدکم فِی الْجَنَّۃِ خَیْر مِنَ الدُّنْیَا وَمَافِیْہَا وَلَوْ أَنَّ امْرَأَۃ مِنَ نِسَاءِ أَھَلِ الْجَنَّۃِ اطلعت الی الارْضِ لَاضائت مَابَیْنِہَا، ولملات مَابَیْنہا رِیْحا وَلِنَصِیْفہا علٰی رَاسِہَا، یعنی الْخِمِار، خَیْر مِنَ الدُّنْیَا وَمَافِیْہَا۔ (مسنداحمد:۳/۱۴۷۔ بخاری:۱۱/۴۱۸) ترجمہ:صبح کی ایک گھڑی یاشام کی ایک گھڑی اللہ کے راستہ میں گزار دینا دنیا ومافیہا سے بہتر ہے اور جنت میں تمہاری ایک کمان کا فاصلہ دنیا ومافیہا سے زیادہ قیمتی ہے؛ اگرجنت کی عورتوں میں سے کوئی عورت زمین کی طرف جھانک لے توتمام زمین کوروشن کردے اور روئے زمین کومعطر کردے اور اس کے سرکادوپٹہ دنیا ومافیہا سے زیادہ قیمتی ہے۔ عورت کے رخسار میں جنتی کواپنی شکل نظر آئے گی: حدیث: حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادِ خداوندی كَأَنَّهُنَّ الْيَاقُوتُ وَالْمَرْجَانُ (الرحمن:۵۸) گویا کہ وہ خواتین یاقوت اور مرجان ہیں کی تفسیر میں ارشاد فرمایا: يَنْظُرُ إِلَى وَجْهِهِ فِیْ خدھا اصفیٰ مِنْ الْمَرآۃ، وَلَان أَدْنَی لُؤلُؤ عَلَیْہَا لتضئی مَابَیْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ، وَانَّہُ یَکُوْنُ عَلَیْہَا سَبْعُوْنَ ثَوْبًا فَیَنْفذہَا بصرہ، حَتَّی یَری سَاقہا مِنْ وَرَاء ذَلِکَ۔ (مسنداحمد:۳/۷۵۔ صحیح ابن حبان:۹/۴۴۵، الاحسان) ترجمہ:جنتی اپنے چہرے کواس (حور اور عورت) کے رخسار میں آئینہ سے بھی زیادہ صاف شفاف دیکھے گا اور اس (کے لباس) کا ادنی موتی (اتنا خوبصورت ہے کہ وہ) مشرق ومغرب کے درمیانی حصہ کوروشن کرسکتا ہے، اس عورت پرستر پوشاکیں ہوں گی مگرپھربھی ان پوشاکوں سے نگاہ گذر جائے گی؛ حتی کہ وہ ان کے پیچھے سے اس کی پنڈلی کو بھی دیکھ سکے گا۔ نزاکت حسن کی ایک مثال: حدیث حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مِنْ نِسَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، لَيُرَى بَيَاضُ سَاقِهَا مِنْ وَرَاءِ سَبْعِينَ حُلَّةً حَتَّى يُرَى مُخُّهَا وَذَلِكَ أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَقُولُ: (كَأَنَّهُنَّ الْيَاقُوتُ وَالْمَرْجَانُ) فَأَمَّا الْيَاقُوتُ، فَإِنَّهُ حَجَرٌ لَوْأَدْخَلْتَ فِيهِ سِلْكًا، ثُمَّ اسْتَصْفَيْتَهُ لَرَأَيْتَهُ مِنْ وَرَائِهِ۔ (کتاب العظمۃ:۵۸۶۔ زہدہناد:۱۱) ترجمہ:جنت کی عورتوں میں سے ہرعورت کی پنڈلی کی گوری رنگت سترپوشاکوں کے پیچھے سے بھی دکھائی دے گی حتی کہ اس کا خاوند اس کی پنڈلی کے گودے کوبھی دیکھتا ہوگا اور وہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے (ان کی صفت میں) فرمایا ہے: كَأَنَّهُنَّ الْيَاقُوتُ وَالْمَرْجَانُ (الرحمن:۵۸) گویا کہ وہ خواتین یاقوت اور مرجان ہیں یاقوت ایک ایسا پتھر ہے اگرتواس میں کوئی دھاگا ڈالے پھراس کودیکھنا چاہے تواس کوباہر سے دیکھ سکتا ہے ۔ تشبیہ کس سے دوں تیرے رخسار صاف کو خورشید زرد رنگ قمر داغ داغ ہے حوریں ہیں یاچھپے ہوئے موتی: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہرمسلمان کے لیے ایک سب سے اعلیٰ درجہ کی بیوی ہوگی اور ہراعلیٰ درجہ کی بیوی کے لیے ایک خیمہ ہوگا اور ہرخیمہ کے چاردروازے ہوں گے، جنتی کے سامنے روزانہ ایسا تحفہ، تعظیم، ہدیہ پیش کیا جائے گا جواس سے پہلے حاصل نہ ہوا ہوگا نہ تووہ غمگین ہونے والی ہوں گی، نہ ناپسندیدہ بوآئیگی، نہ مونہہ کی بدبوآئے گی اور نہ ہی وہ تکبراور بڑائی جتلانے والی ہوں گی، حورعین ہوں گی؛ گویا کہ محفوظ رکھے ہوئے موتی ہیں۔ (صفۃ الجنۃ ابن ابی الدنیا:۳۱۳۔ البدورالسافرہ:۲۰۲۰) حور کے لعاب سے سات سمندر شہد سے زیادہ میٹھے بن جائیں: حدیث: حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لوان حوراء بزقت فی بحر، لعذب ذلک البحر من عذوبۃ ریقہا۔ (البدورالسافرہ:۲۰۲۲۔ ترغیب وترہیب:۴/۵۳۵) ترجمہ: اگرکوئی حور (کڑوے) سمندر میں تھوک دے تواس کے لعاب کی مٹھاس سے وہ سمندر شیریں ہوجائے۔ فائدہ: ابن ابی الدنیا کی روایت میں ہے کہ اگرکوئی جنت کی عورت سات سمندر میں لعاب ڈالدے تووہ سب سمندر شہد سے زیادہ میٹھے ہوجائیں۔ (صفۃ الجنۃ ابن ابی الدنیا:۲۹۳۔ البدورالسافرہ:۲۰۲۶) جنتی خواتین کے حسن کی جامع حدیث: حدیث: حضرت ام سلمہ ام المؤمنین رضی اللہ تعالی عنہ: وَعَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ: يَارَسُولَ اللَّهِ، أَخْبِرْنِي عَنْ قَوْلِ اللَّهِ عَزَّوَجَلَّ: حُورٌ عِينٌ قَالَ: بِيضٌ ضِخَامٌ، شَفْرُ الْعُیُوْنُ الْحَوْرَاءِ بِمَنْزِلَةِ جَنَاحِ النَّسْرِ، قُلْتُ: يَارَسُولَ اللَّهِ، فَأَخْبِرْنِي عَنْ قَوْلِ اللَّهِ عَزَّوَجَلَّ: كَأَنَّهُنَّ الْيَاقُوتُ وَالْمَرْجَانُ قَالَ: صَفَاؤُهُنَّ كَصَفَاءِ الدُّرِّ الَّذِي فِي الْأَصْدَافِ وَالَّذِي لَاتَمَسُّهُ الْأَيْدِي، قُلْتُ: فَأَخْبِرْنِي عَنْ قَوْلِهِ: فِيهِنَّ خَيْرَاتٌ حِسَانٌ قَالَ: خَيْرَاتُ الْأَخْلَاقِ، حِسَانُ الْوُجُوهِ، قَالَ: قُلْتُ: يَارَسُولَ اللَّهِ، فَأَخْبِرْنِي عَنْ قَوْلِهِ تَعَالَى: كَأَنَّهُنَّ بَيْضٌ مَكْنُونٌ قَالَ: رِقَّتُهُنَّ كَرِقَّةِ الْجِلْدِ الَّذِي فِي دَاخِلِ الْبَيْضَةِ مِمَّا يَلِي الْقِشْرَ، قُلْتُ: يَارَسُولَ اللَّهِ، فَأَخْبِرْنِي عَنْ قَوْلِهِ: عُرُبًا أَتْرَابًا قَالَ: هُنَّ اللَّاتِي قُبِضْنَ فِي دَارِالدُّنْيَا عَجَائِزَ، رُمْصًا، شُمْطًا، خَلَقَهُنَّ اللَّهُ بَعْدَ الْكِبَرِ فَجَعَلَهُنَّ عَذَارَى، قَالَ: عُرُبًا: مُعَشَّقَاتٍ، مُحَبَّبَاتٍ، أَتْرَابًا: عَلَى مِيلَادٍ وَاحِدٍ، قُلْتُ: يَارَسُولَ اللَّهِ، أَنِسَاءُ الدُّنْيَا أَفْضَلُ أَمِ الْحُورُ الْعِينُ؟ قَالَ: نِسَاءُ الدُّنْيَا أَفْضَلُ مِنَ الْحُورِ الْعِينِ كَفَضْلِ الظِّهَارَةِ عَلَى الْبِطَانَةِ قُلْتُ: يَارَسُولَ اللَّهِ، وَبِمَ ذَاكَ؟ قَالَ: بِصَلَاتِهِنَّ، وَصِيَامِهِنَّ لِلَّهِ عَزَّوَجَلَّ أَلْبَسَ اللَّهُ عَزَّوَجَلَّ وُجُوهَهُنَّ النُّورَ،وَأَجْسَادَهُنَّ الْحَرِيرَ، بِيضُ الْأَلْوَانِ ، خُضْرُ الثِّيَابِ، صُفْرُ الْحُلِيِّ، مَجَامِرُهُنَّ الدُّرُّ، وَأَمْشَاطُهُنَّ الذَّهَبُ، يَقُلْنَ: أَلَانَحْنُ الْخَالِدَاتُ فَلَانَمُوتُ أَبَدًا، أَلَاوَنَحْنُ النَّاعِمَاتُ فَلَانَبْأَسُ أَبَدًا، أَلَاوَنَحْنُ الْمُقِيمَاتُ فَلَانَظْعَنُ أَبَدًا، أَلَاوَنَحْنُ الرَّاضِيَاتُ فَلَانَسْخَطُ أَبَدًا، طُوبَى لِمَنْ كُنَّا لَهُ وَكَانَ لَنَا؛ قُلْتُ: الْمَرْأَةُ مِنَّا تَتَزَوَّجُ الزَّوْجَيْنِ وَالثَّلَاثَةَ وَالْأَرْبَعَةَ فِي الدُّنْيَا، ثُمَّ تَمُوتُ فَتَدْخُلُ الْجَنَّةَ وَيَدْخُلُونَ مَعَهَا، مَنْ يَكُونُ زَوْجَهَا مِنْهُمْ؟ قَالَ: يَاأُمَّ سَلَمَةَ، (إِنَّهَا) تُخَيَّرُ فَتَخْتَارُ أَحْسَنَهُمْ خُلُقًا، قَالَ: فَتَقُولُ: أَيْ رَبِّ، إِنَّ هَذَا كَانَ أَحْسَنَهُمْ مَعِي خُلُقًا فِي دَارِ الدُّنْيَا فَزَوِّجْنِيهِ، يَاأُمَّ سَلَمَةَ ذَهَبَ حُسْنُ الْخُلُقِ بِخَيْرِ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ۔ (البدورالسافرہ:۲۰۱۳۔ طبرانی:۲۳/۳۶۷) ترجمہ: ام المؤمنین حضرت ام سلمۃ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اللہ تعالیٰ کے ارشاد وَحُورٌ عِينٌ کے متعلق مجھے کچھ وضاحت فرمائیں؟ آپ نے فرمایا گوری گوری، بھرے ہوئے جسم والی، گلِ لالہ کے رنگ کی آنکھوں والی، اپنے حسن کی لطافت اور رقت جلد سے نظر کوحیران کردینے والی گدھ کے پرکی طرح (لمبے بالوں والی) آنکھوں کی خوبصورت پلکوں والی کوحور عین کہتے ہیں، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا آپ مجھے كَأَنَّهُنَّ الْيَاقُوتُ وَالْمَرْجَانُ کی تفسیر بیان فرمائیں؟ آپ نے ارشاد فرمایا: یہ رنگت میں اس موتی کی طرح صاف شفاف ہوں گی جوسیپیوں میں ہوتا ہے اور جس کوہاتھوں نے نہیں چھوا ہوتا ہے، میں نے عرض کیا آپ مجھے اللہ تعالیٰ کے ارشاد كَأَنَّهُنَّ بَيْضٌ مَكْنُونٌ کی تفسیر بیان فرمائیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ان کی رقت اور لطافت انڈے کے اندر کے چھلکے کی طرح ہوگی جوباہر والے (موٹے) چھلکے کے ساتھ ہوتا ہے، میں نے عرض کیا یارسول اللہ! آپ مجھے اللہ تعالیٰ کے ارشاد عُرُبًا أَتْرَابًا کے متعلق بیان فرمائیں توآپ نے ارشاد فرمایا: یہ وہ عورتیں ہوں گی دنیا میں جن کی آنکھوں میں بوڑھاپے کی وجہ سےکیچڑ بھرا رہتا تھا اور سرکے بال سفید ہوگئے، اللہ تعالیٰ ان کوبوڑھاپے کے بعد دوبارہ تخلیق فرمائیں گے اور ان کوکنواریاں کردیں گے، ارشاد فرمایا کہ عُرُبًا کا معنی ہے کہ وہ (اپنے خاوندوں سے) عشق اور محبت کرنے والیاں ہوں گی أَتْرَابًا ایک ہی عمر پر ہوں گی، میں نے عرض کیا: کیا دنیا کی عورتیں افضل ہوں گی یاحورعین؟ ارشاد فرمایا دنیا کی عورتیں حورعین سے افضل ہوں گی جیسے ظاہر کا ریشم استر سے افضل ہوتا ہے، میں نے عرض کیا یارسول اللہ یہ کیوں (افضل ہوں گی)؟ ارشاد فرمایا: ان کے اللہ کے لیے نماز پڑھنے اور روزہ رکھنے کی وجہ سے، اللہ تعالیٰ ان کے چہروں کونور کالباس پہنائیں گے، ان کے جسم حیران کردینے والے ہوں گے، گورے رنگ والی ہوں گی، سبزلباس والی ہوں گی، پیلے زیور والی ہوں گی، ان کی (خوشبو کی) انگیٹھیاں موتی کی ہوں گی، ان کی کنگھیاں سونے کی ہوں گی، یہ ترانہ کہیں گی ؎ أَلَانَحْنُ الْخَالِدَاتُ فَلَانَمُوتُ أَبَدًا أَلَاوَنَحْنُ النَّاعِمَاتُ فَلَانَبْأَسُ أَبَدًا أَلَاوَنَحْنُ الْمُقِيمَاتُ فَلَانَظْعَنُ أَبَدًا أَلَاوَنَحْنُ الرَّاضِيَاتُ فَلَانَسْخَطُ أَبَدًا طُوبَى لِمَنْ كُنَّا لَهُ وَكَانَ لَنَا سن لو! ہم ہمیشہ رہنے والی ہیں کبھی نہیں مریں گے، ہم نعمتوں میں پلنے والی ہیں کبھی خستہ حال نہ ہوں گی، سن لو! ہم جنت ہی میں رہیں گی کبھی نکالی نہ جائیں گی، سن لو! ہم (اپنے خاوندوں پر) راضی رہنے والی ہیں کبھی ناراض نہ ہوں گی، سعادت ہے اس شحص کے لیے جس کے لیے ہم ہیں اور وہ ہمارے لیے ہے۔ میں نے عرض کیا کیا رسول اللہ! ایک عورت (کے بعد دیگرے) دوخاوندوں سے یاتین سے یاچار سے دنیا میں شادی کرتی ہے اور مرجاتی ہے؛ پھروہ جنت میں داخل ہوتی ہیں اور اس کے (دنیا کے) خاوند بھی اس کے ساتھ جنت میں داخل ہوتے ہیں ان میں سے اس عورت کا خاوند کون بنے گا؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ اس کواختیار دیا جائے گا اور وہ ان خاوندوں میں سے زیادہ اچھے اخلاق والے کومنتخب کرے گی اور عرض کرے گی: اے رب! یہ شخص باقی خاوندوں سے زیادہ دنیا میں اچھے اخلاق والا تھا، آپ اس سے میری شادی کردیں؛ پھرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ام سلمہ رضی اللہ عنہا! حسن اخلاق دنیا اور آخرت دونوں کی خیر کوساتھ لیے ہوئے ہے۔ ساری دنیا روشن اور معطر ہوجائے: حدیث:حضرت سعید بن عامر بن حدیم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا: لَوْأَنَّ امْرَأَةً مِنْ نِسَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةِ أَشْرَفَتْ لَمَلأَتِ الأَرْضَ رِيحِ الْمِسْك وَلأَذْهَبَتْ ضَوْءَ الشَّمْسِ۔ (مسندبزار:۳۵۲۸۔ مجمع الزوائد:۱۰/۴۱۸) ترجمہ:اگرجنت کی خواتین میں سے کوئی خاتون جھانک لے توتمام روئے زمین کوکستوری کی خوشبو سے معطر کردے اور سورج کی روشنی کوماند کردے۔ جنتی خاتون کا تاج: حدیث: حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: وَلَوْاطَّلَعَتْ امْرَأَةٌ مِنْ نِسَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةِ إِلَى الْأَرْضِ لَمَلَأَتْ مَابَيْنَهُمَا رِيحًا وَلَطَابَ مَابَيْنَهُمَا وَلَنَصِيفُهَا عَلَى رَأْسِهَا خَيْرٌ مِنْ الدُّنْيَا وَمَافِيهَا۔ (مسنداحمدبن حنبل، بَاقِي مُسْنَدِ الْمُكْثِرِينَ،مُسْنَدُ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،حدیث نمبر:۱۲۴۵۹، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:اگرجنت کی عورتوں میں سے کوئی سی عورت زمین کی طرف جھانک لے توآسمان وزمین کے درمیانی حصہ کوخوشبو سے معطر کردے اور ان کے درمیانی حصہ کوروشن کردے او راس کے سرکا تاج دنیا ومافیہا سے زیادہ قیمتی ہے۔ بالوں کی لمبائی: حضرت ابن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حورعین میں سے ہرعورت کے بال گدھ کے پروں سے بہت زیادہ طویل ہیں۔ (صفۃ الجنۃ ابن ابی الدنیا:۳۰۰۔ درمنثور:۶/۳۳) فائدہ:حور کے بالوں کوگدھ کے بالوں سے اس صورت میں تشبیہ دی گئی کہ جس طرح سے اس کے بال اس کے جسم سے زیاد طویل ہوتے ہیں اسی طرح سے جنتی حور کے بال اس کے جسم سے زیادہ طویل ہوں گے، تفصیل آگے آرہی ہے۔ حور کے حسن کے کرشمے: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اگرکوئی حور اپنی ہتھیلی کوآسمان اور زمین کے درمیان ظاہر کردے توتمام مخلوقات اس کے حسن کی دیوانی ہوجائیں اور اگر وہ اپنے دوپٹہ کوظاہر کردے تواس کے حسن کے سامنے سورج دئے کی طرح بے نور نظر آئے اور اگروہ اپنے چہرہ کوکھول دے تواس کے حسن اس سے آسمان وزمین کا درمیان حصہ جگمگا اٹھے۔ (صفۃ الجنۃ ابن ابی الدنیا، البدورالسافرہ:۲۰۲۵) ہاتھ کی خوبصورتی: حضرت کعب احبار رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اگرکوئی حور اپنے ہاتھ کواس کی خوبصورتی اور انگوٹھیوں سمیت آسمان سے ظاہر کرے تواس کی وجہ سے ساری زمین روشن ہوجائے جس طرح سے سورج دنیا والوں کوروشنی پہنچاتا ہے؛ پھرفرمایا یہ تواس کاہاتھ ہے اس کے چہرہ کا حسن، رنگ، جمال اور اس کا تاج یاقوت، لؤلؤ اور زبرجد سمیت کیسا حسین ہوگا۔ (صفۃ الجنۃ ابن ابی الدنیا:۳۰۱) حورو کے دوپٹہ کی قدروقیمت: حدیث:حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لَغَدْوَةٌ فِى سَبِيلِ اللَّهِ أَوْ رَوْحَةٌ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَافِيهَا وَلَقَابُ قَوْسِ أَحَدِكُمْ أَوْمَوْضِعُ قُیدِهِ یَعْنِیْ سَوْطَہ مِنَ الْجَنَّةِ خَيْرٌ مِنْ الدُّنْيَا وَمَافِيهَا وَلَوْاطَّلَعَتْ امْرَأَةً مِنْ نِسَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةِ إِلَى الْأَرْضِ لَمَلَأَتْ مَابَيْنَهُمَا رِيحًا وَلَأَضَاءَتْ مَابَيْنَهُمَا وَلَنَصِيفُهَا عَلَى رَأْسِهَا خَيْرٌ مِنْ الدُّنْيَا وَمَافِيهَا۔ (ترمذی،حدیث نمبر:۱۵۷۵، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:اللہ کے راستہ میں صبح کی یاشام کی ایک گھڑی گذارنا دنیا ومافیہا سے زیادہ بہتر ہے، تمہاری کمان کے درمیان حصہ یاکوڑے کے برابر جنت کا حصہ دنیا ومافیہا سے زیادہ قیمتی ہے؛ اگرجنت کی کوئی عورت زمین کی طرف جھانک لے توآسمان وزمین کے درمیانی حصہ کوخوشبو سے معطر کردے اور آسمان وزمین کے درمیانی حصہ کومنور کردے، اس کے سرکادوپٹہ دنیا اور دنیا کے تمام خزانوں سے زیادہ قیمتی ہے۔ حور کی مسکراہٹ: حدیث:حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سَطَع نُورٌ فِي الجَنَّةِ فَرَفَعُوْا رُؤُوْسَهُمْ فَإِذَا هُوَ مِنْ ثَغْرِِ حُوْرَاءٍِ ضُحِکَت فِيْ وَجْهِ زَوْجُهَا۔ (حلیۃ الاولیاء:۶/۳۷۴۔ صفۃ الجنۃ ابونعیم:۳۸۱۔ حادی الارواح:۳۰۳) ترجمہ:جنت میں ایک نور چمکا جب لوگوں نے اپنے سروں کواٹھاکر دیکھا تووہ ایک حور کی مسکراہٹ تھی جس نے اپنے اپنے خاوند کے چہرہ کودیکھ کرمسکراہٹ ظاہر کی تھی۔ آئینہ کی طرح جنتی مرد اور عورت کے بدن ایک دوسرے کے بدن میں نظر آئیں گے: حضرت عکرمہ رحمۃ اللہ علہیہ فرماتے ہیں جنتی مرد اپنے چہرے کو اپنی بیوی کے چہرہ میں دیکھے گا اور اس کی بیوی اپنے چہرہ کومرد کی کلائی میں دیکھے گی، مرد اپنے چہرہ کوبیوی کے سینے میں دیکھے گا اور وہ اپنے چہرہ کواس کے سینے میں دیکھے گی، یہ اپنے چہرہ کواس کی کلائی میں دیکھے گا اور وہ اپنے چہرہ کواس کی کلائی میں دیکھے گی وہ چہرہ کواس کی پنڈلی میں دیکھے گا اور وہ اپنے چہرہ کواس کی پنڈلی میں دیکھے گی، یہ بیوی ایسی پوشاک پہنے گی جوہرگھڑی میں ستررنگوں میں تبدیل ہوگی۔ (صفۃ الجنۃ ابن ابی الدنیا:۲۸۳۔ زوائد ابن المبارک:۲۵۲) حور کی جوتی: ابوعمران سندی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ میں مصر کی فلاں جامع مسجد میں تھا میرے دل میں نکاح کا خیال آیا اور میرا پکاارادہ ہوگیا، اس وقت قبلہ کی جانب سے ایک نور ظاہر ہوا ویسا میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا اور اس میں سے ایک ہاتھ نکلا اس میں سرخ یاقوت کی ایک جوتی تھی اور اس کا تسمہ سبززمرد کا تھا اور اس پرموتی بھی جڑے ہوئے تھے ایک ہاتف نے آواز دی کہ یہ اس کی (یعنی تمہاری حور کی) جوتی ہے وہ خود کیسی ہوگی، اس وقت سے میرے دل سے عورت کی خواہش جاتی رہی۔ (روض الریاحین) حور کی خوشبو: حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں حورعین میں سے ہرحور کی خوشبو پچاس سال کے سفر سے محسوس ہوگی۔ (مصنف ابن ابی شیبہ:۱۳/۱۰۶۔ درمنثور:۶/۳۴) ہرگھڑی حسن میں سترگنا اضافہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جنتی آدمی کے پاس ایک گلاس پیش کیا جائے گا جب کہ وہ اپنی بیوی کے پاس بیٹھا ہوگا جب وہ اس کوپی کربیوی کی طرف متوجہ ہوگا تویہ کہے گا تومیری نگاہ میں اپنے حسن میں سترگنا بڑھ چکی ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ:۱۳/۱۰۸۔ درمنثور:۶/۱۵۵) فائدہ:حسن کا اضافہ جنت میں ہرگھڑی ہوتا رہے گا مرد کے حسن میں بھی۔ یاقوت ومرجان جیسا بلوری جسم: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جنت کی عوتوں میں سے ایک عورت ریشم کے سترلباس بیک وقت پہنے گی پھربھی اس کی پنڈلی کی سفیدی، اس کا حسن اور اس کا گودا ان سب کے اندر سے نظر آرہا ہوگا اور یہ اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے كَأَنَّهُنَّ الْيَاقُوتُ وَالْمَرْجَانُ (الرحمن:۵۸) گویا کہ وہ حوریں یاقوت اور مرجان ہیں یاقوت ایک ایسا پتھر ہے کہ اگرتوکوئی دھاگہ لیکر اس سوراخ سے کھینچے تو اس دھاگے کوتواس پتھر کے اندر سے دیکھ سکتا ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ:۱۳/۱۰۷) جب تک کہ نہ دیکھا تھا حسن یار کا عالم میں معتقد فتنہ محشر نہ ہوا تھا ہمیشہ حسن میں اضافہ ہوتا رہے گا: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے اس ذات کی قسم جس نے قرآن پاک کوحضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم پرنازل فرمایا ہے جنت میں رہنے والے (مردوعورت حور وغلمان کے) حسن وجمال میں اس طرح سے اضافہ ہوتا رہے گا جس طرح سے ان کا دنیا میں (آخر عمر میں) بدصورتی اور بوڑھاپے میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ (ابن ابی شیبہ:۱۳/۱۱۴۔ حلیۃ ابونعیم:۴/۲۸۷) آخرت کی اور دنیا کی عورت کا مقابلہ حسن: مالک بن دینار رحمۃ اللہ علیہ ایک روز بصرہ کی گلیوں میں پھررہے تھے کہ ایک کنیز کونہایت جاہ وجلال اور حشم وخدم کے ساتھ جاتے دیکھا آپ نے اسے آواز دے کرپوچھا کہ کیا تیرا مالک تجھے بیچتا ہے؟ اس نے کہا: شیخ کیا کہتے ہو؟ ذرا پھرکہو! مالک نے کہا: تیرامالک تجھے بیچتا ہے یانہیں؟ اس نے کہا: بالفرض اگرفروخت بھی کرے توکیا تجھ جیسا مفلس خریدلے گا کہا ہاں! توکیا چیز ہے میں تجھ سے بھی اچھی خرید سکتا ہوں وہ سن کرہنس پڑی اور خادموں کوحکم دیا کہ اس شخص کوہمارے ساتھ گھر تک لے آؤ، خادم لے آیا اپنے مالک کے پاس گئی اور اسے سارا قصہ بیان کیا وہ سن کربے اختیار ہنسا کہ ایسے درویش کوہم بھی دیکھیں یہ کہہ کرمالک بن دینار کواپنے پاس بلایا دیکھتے ہی اس کے قلب پرایسا رعب چھاگیا کہ پوچھنے لگا آپ کیا چاہتے ہیں؟ کہا یہ کنیز میرے ہاتھ بیچ دو، اس نے کہا آپ اس کی قیمت دے سکتے ہیں؟ فرمایا: اس کی قیمت ہی کیا ہے؟ میرے نزدیک تواس کی قیمت کھجور کی دوسڑی گٹھلیاں ہیں، یہ سن کرسب ہنس پڑے اور پوچھنے لگے کہ یہ قیمت آپ نے کیوں کرتجویز فرمائی؟ کہا اس میں بہت سے عیب ہیں، عیب دار شے کی قیمت ایسی ہی ہوا کرتی ہے، جب اس نے عیبوں کی تفصیل پوچھی توشیخ بولے سنو! جب یہ عطر نہیں لگاتی تواس میں بدبو آنے لگتی ہے، جومنہ صاف نہ کرے تومنہ گندا ہوجاتا ہے، بوآنے لگتی ہے اور جوکنگھی چوٹی نہ کرے اور تیل نہ ڈالے توجوئیں پڑجاتی ہیں اور بال پرا گندہ اور غبار آلود ہوجاتے ہیں اور جب اس کی عمر زیادہ ہوگئی توبوڑھی ہوکر کسی کام کی بھی نہ رہے گی، حیض اسے آتا ہے، پیشاب، پاخانہ یہ کرتی ہے، طرح طرح کی نجاستوں سے یہ آلودہ ہے، ہرقسم کی کدورتیں اور رنج وغم اسے پیش آتے رہتے ہیں، یہ توظاہری عیب ہیں۔ اب باطنی سنو! خودغرض اتنی ہے کہ تم سے اگرمحبت ہے توغرض کے ساتھ ہے یہ وفا کرنے والی نہیں اور اس کی دوستی سچی دوستی نہیں، تمہارے بعد تمہارے جانشین سے ایسے ہی مل جائے گی جیسا کہ اب تم سے ملی ہوئی ہے، اس لیے اس کا اعتبار نہیں اور میرے پاس اس سے کم قیمت کی ایک کنیز ہے جس کے لیے میری ایک کوڑی بھی صرف نہیں ہوئی اور وہ سب باتوں میں اس سے فائق ہے، کافور، زعفران، مشک اور جوہر نور سے اس کی پیدائش ہے؛ اگرکسی کھاری پانی میں اس کاآب دہن گرادیا جائے تووہ شیریں اور خوش ذائقہ ہوجائے اور جوکسی مردے کواپنا کلام سنادے تووہ بھی بول اٹھے اور جواس کی ایک کلائی سورج کے سامنے ظاہر ہوجائے توسورج شرمندہ ہوجائے اور جوتاریکی میں ظاہر ہوتواجالا ہوجائے اور اگروہ پوشاک وزیور سے آراستہ ہوکر دنیا میں آجائے توتمام جہاں معطر ومزین ہوجائے، مشک اور زعفران کے باغوں اور یاقوت ومرجان کی شاخوں میں اس نے پرورش پائی ہے اور طرح طرح کے آرام میں رہی ہے اور تسنیم کے پانی سے غذا دی گئی ہے اپنے عہد کی پوری ہے دوستی کونباہنے والی ہے، اب تم بتاؤ کہ ان میں سے کونسی خریدنے کے لائق ہے؟ کہا کہ جس کی آپ نے مدح وثنا کی ہے؛ یہی خریدنے اور طلب کرنے کے مستحق ہے۔ شیخ نے فرمایا: اس کی قیمت ہروقت ہرشخص کے پاس موجود ہے اس میں کچھ بھی خرچ نہیں ہوتا؛ پوچھا کہ جناب فرمائے اس کی قیمت کیا ہے؟ شیخ نے فرمایا کہ اس کی قیمت یہ ہے کہ رات بھر میں ایک گھڑی کے لیے تمام کاموں سے فارغ ہوجاؤ اور نہایت اخلاص کے ساتھ دورکعت پڑھو اور اس کی قیمت یہ ہے کہ جب تمہارے سامنے کھانا چنا جائے تواس وقت کسی بھوکے کوخالص اللہ کی رضا کے لیے دے دیا کرو اور اس کی قیمت یہ ہے کہ راہ میں اگرکوئی نجاست یااینٹ ڈھیلا پڑا ہو اسے اٹھاکرراستہ سے پرے پھینک دیا کرو اور اس کی قیمت یہ ہے کہ اپنی عمرکوتنگ دستی اور فقروفاقہ اور بقدرِ ضرورت سامان پراکتفا کرنے میں گزاردو اور اس مکار دنیا سے اپنی فکر کوبالکل الگ کردو اور حرص سے برکنار ہوکر قناعت کی دولت اپنالو؛ پھراس کا ثمرہ یہ ہوگا کہ کل تم بالکل چین سے ہوجاؤ گے اور جنت میں جوآرام وراحت کا مخزن ہے عیش اڑاؤ گے۔ اس شخص نے سن کرکہا: اے کنیز! سنتی ہے؟ شیخ کیا فرماتے ہیں؟ سچ ہے یاجھوٹ؟ کنیز نے کہا: سچ کہتے ہیں اور خیرخواہی کی بات ارشاد فرماتے ہیں ، کہا اگریہی بات ہے تومیں نے تجھے اللہ کے واسطے آزاد کیا اور فلاں فلاں جائیداد تجھے دی اور غلاموں سے کہا: کہ تم کوبھی آزاد کیا اور فلاں فلاں زمین تمہارے نام کردی او ریہ گھر اور تمام مال اللہ کی راہ میں صدقہ کیا؛ پھردروازہ پرسے ایک بہت موٹے کپڑے کوکھینچ لیا اور تمام پوشاک فاخرہ اتار کراسے پہن لیا، اس کنیز نے یہ حال دیکھ کرکہا تمہارے بعد میرا کون ہے؟ اس نے بھی اپنا لباس سب پھینک دیا اور ایک موٹا کپڑا پہن لیا اور وہ بھی اس کےسا تھ ہوگئی، مالک بن دینار رحمۃ اللہ علیہ نے یہ حال دیکھ کران کے لیے دعائے خیر فرمائی اور خیرباد کہہ کررخصت ہوئے اور ادھر یہ دونوں اللہ کی عبادت میں مصروف ہوگئے اور عبادت میں ہی جان دیدی، رحمہ اللہ علیہما۔ (روض الریاحین) اذان کی آواز پرحور کا سنگھار: حدیث: حضرت یزید بن ابی مریم سلونی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کُلَّمَا نَادَى الْمُنَادِي فُتِحَتْ أَبوابُ السَّمَاءِ، وَاسْتُجِيبَ الدُّعَاءُ وَتَزَیَّنَ الْحُوْر الْعَیْن۔ (البدورالسافرہ:۲۰۵۶، بحوالہ سنن سعید بن منصور) ترجمہ:جب مؤذن اذان دیتا ہے توآسمان کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں اور دعاء کوقبول کیا جاتا ہے اور حور بناؤ سنگھار کرتی ہے۔ فائدہ: مطلب یہ ہے کہ اذان چونکہ نماز کے لیے دی جاتی ہے اور لوگ اس کوسن کرنماز ادا کرنے آتے ہیں اس لیے ان کے اعمال کے آسمان پرچڑھنے کے لیے آسمان کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں اور چونکہ اذان کے بعد دعا کی قبولیت کا وقت ہوتا ہے اس لیے دعا مانگنے والے کی دعا بھی اس وقت قبول ہوتی ہے اور کسی بھی نیک عمل کی قبولیت پران بیاہی حوروں کوجوابھی کسی مسلمان کے لیے مخصوص نہیں ہوئی ہوتیں زیب وزینت کرتی ہیں کہ شاید اس وقت اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے کسی نیک بندے کے ساتھ اس نیک عمل کوقبول کرنے کی وجہ سے منسوب کردیں اور جوحوریں پہلے سے مسلمانوں کے لیے مخصوص ہوچکی ہیں وہ اپنے خاوند کے نیک اعمال کرنے کی خوشی میں یانیک عمل کرنے کی وجہ سے درجہ میں ترقی ہونے سے بطورِ خوشی کے یااپنے جنتی شوہر کومزید نیک اعمال کی ترغیب دلانے کے لیے اذان کے وقت ہارسنگھار کرتی ہیں، واللہ اعلم۔ دنیا کی عورتیں حوروں سے افضل ہوں گی: حضرت حبان بن ابی جبلہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ دنیا کی عورتیں جب جنت میں داخل ہوں گی توان کودنیا میں نیک اعمال کرنے کی وجہ سے حوروں پرفضیلت عطاء فرمائی جائے گی (درجہ میں بھی اور حسن میں بھی)۔ (زہد ہناد:۲۳) دنیا کی عورت حور سے سترہزار گنا افضل ہوگی: فائدہ:علامہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ بات جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعاً روایت کی گئی ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا: أَفْضَلُ مِنْ الْحُورِ الْعِينِ۔ (تذکرۃ القرطبی:۲/۴۷۷) ترجمہ:دنیاوی عورتیں حورعین سے سترہزار گنا افضل ہوں گی۔ دنیا کی عورت کے حسن کا نظارہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کا دوست ایک تخت پرجلوہ افروز ہوگا اس تخت کی بلندی پانچ سوسال کے سفر کے برابر ہوگی جیسا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں وَفَرَشَ مَرْفُوْعَۃ اور تخت ہوں گے بلند، فرمایا کہ یہ تخت یاقوت احمر کا ہوگا، اس کے زمرد اخضر کے دوپرہوں گے اور تخت پرستربچھونے ہوں گے ان سب کا ڈھانچہ نور کا ہوگا اور ظاہر کا حصہ باریک ریشم کا ہوگا اور استرموٹے ریشم کا ہوگا؛ اگراوپر کے حصہ کونیچے کی طرف لٹکایا جائے توچالیس سال کی مقدار تک بھی نہ پہنچے، اس تخت پرایک حجلہ عروسی ہوگا جولؤلؤ موتی سے بنا ہوگا اس پرنور کے سترپردے ہوں گے اس کے متعلق اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: هُمْ وَأَزْوَاجُهُمْ فِي ظِلَالٍ عَلَى الْأَرَائِكِ مُتَّكِئُونَ (یٰس:۵۶) ترجمہ: جنتی حضرات اور ان کی بیویاں سایوں میں حجلات عروسی میں ٹیک لگائے بیٹھے ہوں گے یہاں سایوں سے مراد درختوں کے سائے نہیں، یہ جنتی اسی طرح سے اپنی بیوی سے بغلگیر ہوگا کہ نہ بیوی اس سے سیر ہورہی ہوگی اور نہ مرد اس سے سیرہورہا ہوگا یہ بغلگیری کا عرصہ چالیس سال تک ہوگا، اچانک یہ اپنا سراٹھائے گا تودیکھے گا کہ ایک اور بیوی اس کوجھانک لےگی اور اس کوپکار کرکہے گی: اے دوست خدا! کیا ہمارا آپ میں کوئی حصہ نہیں ہے؟ جنتی کہے گا اے میری محبوبہ تم کون ہو؟ وہ کہے گی میں ان بیویوں سے ہوں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے: وَلَدَیْنَا مَزِیْد ہمارے پاس اور بھی ہیں؛ چنانچہ اس کا وہ تخت یاسونے کی دوپروں والی کرسی اڑکراسی بیوی کے پاس پہنچ جائے گی، جب یہ جنتی اپنی اس بیوی کودیکھے گا تووہ اس پہلی بیوی سے نور کے ایک لاکھ حصے زیادہ حسین ہوگی، یہ اس سے بھی چالیس سال تک بغلگیررہے گا نہ یہ اس سے اکتاتی ہوگی اور نہ وہ اس سے اکتاتا ہوگا جب یہ اس سے سراٹھاکر دیکھے گا تواس کے محل میں ایک نورلشکارا مارے گا تویہ حیران اور ششدر رہ جائے گا اور کہے گا سبحان اللہ کیا کسی شان والے فرشتے نے جھانک کردیکھا ہے یاہمارے پروردگار نے اپنی زیارت کرائی ہے؟ فرشتہ اس کوجواب دے گا جب کہ یہ جنتی نور کی ایک کرسی پربیٹھا ہوگا اس کے اور فرشتہ کے درمیان سترسال کا فاصلہ ہوگا یہ فرشتہ باقی دربان فرشتوں کے پاس ہوگا، نہ توکسی فرشتہ نے تیری زیارت کی ہے اور نہ ہی تجھے تیرے پروردگار عزوجل نے جھانک کردیکھا ہے وہ پوچھے گا پھریہ نور کس کا تھا؟ فرشتہ کہے گا تیری دنیا کی بیوی کا یہ بھی جنت میں آپ کے ساتھ ہے؛ اسی نے آپ کی طرف جھانک کردیکھا ہے اور آپ کے بغل گیرہونے پرمسکرائی ہے یہ جوآپ نے اپنے گھر میں دیکھا ہے اس کے اگلے دانتوں کاچمکتا ہوا نور ہے۔ چنانچہ یہ جنتی اس طرف اپنا سراٹھاکر دیکھے گا تووہ کہے گی: اے ولی اللہ! کیا ہمارا آپ میں کوئی نصیب نہیں؟ تووہ پوچھے گا اے میری دوست! آپ کون ہیں؟ وہ کہے گی: اے ولی اللہ! میں ان بیویوں میں سے ہوں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: فَلَاتَعْلَمُ نَفْسٌ مَاأُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ۔ (السجدۃ:۱۷) ترجمہ: کوئی جی نہیں جانتا کہ ان جنتیوں کے لیے کیا کیا آنکھوں کی راحتیں چھپا کررکھی ہوئی ہے۔ فرمایا کہ چنانچہ اس کا وہ تخت اڑکراس کے پاس پہنچ جائے گا جب یہ اس سے ملاقات کریگا تویہ اس آخری بیوی سے نور کے اعتبار سے ایک لاکھ گنا بڑھی ہوئی ہوگی؛ کیونکہ اس عورت نے (دنیا میں) روزے بھی رکھے تھے نمازیں بھی پڑھی تھیں اور اللہ عزوجل کی عبادت بھی کی تھی، یہ جنت میں داخل ہوگی توجنت کی تمام عورتوں سے افضل ہوگی؛ کیونکہ وہ تومحض پیدا ہی ہوئی ہوں گی (اور اس نے دنیا میں عبادت کی ہوگی) یہ جنتی اس سے چالیس سال تک بغل گیر ہوگا نہ تووہ اس سے تھکے گی اور نہ وہ اس سے سیر ہوگا، جب یہ جنتی کے سامنے کھڑی ہوگی تواس نے یاقوت کی پازیب پہن رکھے ہوں گے، جب اس سے قربت کی جائے گی تواس کی پازیبوں سے جنت کے ہرپرندے کی حسین آوازیں سنی جائیں گی جووہ اس کی ہتھیلی کومس کرے گا تووہ ہڈی کے گودے سے زیادہ نرم ہوگی اور اس کی ہتھیلی سے جنت کے عطر کی خوشبو سونگھے گا، اس پرنور کی سترپوشاکیں ہوں گی اگران میں سے کسی ایک اوڑھنی کو پھیلادیا جائے تومشرق ومغرب کے درمیانی حصہ کوروشن کردے، ان کونور سے پیدا کیا گیا ہے پوشاکوں پرکچھ سونے کے کنگن ہوں گے، کچھ چاندی کے کنگن ہونگے اور کچھ لؤلؤ کے کنگن ہوں گے، یہ پوشاکیں مکڑی کے جال سے زیادہ باریک ہوں گی اور اٹھانے میں تصویر سے زیادہ ہلکی پھلکی ہوں گی، ان پوشاکوں کی نفاست اتنا زیادہ ہوگی کہ اس بیوی کی پنڈلی کا گودا بھی نظر آتا ہوگا اور اس کی رقت ہڈی، گوشت اور جلد کے پیچھے سے چمکتی ہوگی، پوشاکوں کی دائیں آستین پرنور سے یہ لکھا ہوگا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي صَدَقَنَا وَعْدَهُ (الزمر:۷۴) سب تعریفیں اس اللہ کی ہیں جس نے ہم سے اپنا وعدہ سچا کردکھایا اور بائیں آستین پرنور سے لکھا ہوگا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَذْهَبَ عَنَّا الْحَزَنَ (فاطر:۳۴) سب تعریفیں اس اللہ کی ہیں جس نے ہم سے غم کودور کیا اس کے جگرپرنور سے لکھا ہوگا حبيبي أنالك لاأريد بك بدل (اے میرے دوست! میں آپ کی ہوں میں آپ کی جگہ کسی اور کونہیں چاہتی) اس عورت کا سینہ مرد کا آئینہ ہوگا، یہ عورت یاقوت کی طرح صاف شفاف ہوگی،حسن میں مرجان ہوگی، سفیدی میں محفوظ رکھے ہوئے انڈے کی طرح ہوگی اپنے خاوند کی عاشق ہوگی، پچیس سال کی عمرمیں ہوگی، کشادہ دانتوں والی اگرمسکرائے گی تواس کے اگلے دانتوں کا نور چمک اُٹھے گا؛ اگرمخلوقات اس کی گفتگو سن لیں تواس پرسب نیک وبد دیوانے ہوجائیں، جب یہ جنتی کے سامنے کھڑی ہوگی تواس کی پنڈلی کا نور اور حسن اس کے قدموں سے لاکھ گنا زیادہ ہوگا اور اس کی ران کانور (اور حسن) اس کی پنڈلی سے ایک لاکھ گنا زیادہ ہوگا، سرین کا حسن اور نور اس کی رانوں سے ایک لاکھ گنا زیادہ ہوگا اور اس کے پیٹ کا حسن اور نور اس کے سرینوں سے ایک لاکھ گنا زیادہ ہوگا اور اس کے سینے کا حسن اور نور اس کے پیٹ سے ایک لاکھ گنا زیادہ ہوگا، اس کے چہرہ کا حسن اور نور اس کے سینے سے ایک لاکھ گنا زیادہ ہوگا؛ اگریہ دنیا کے سمندروں میں اپنا لعاب ڈالدیں تویہ سب شیریں ہوجائیں؛ اگریہ گھر کی چھت سے دنیا کی طرف جھانک کردیکھ لے تواس کا نور اور حسن سورج اور چاندی کے نور کوماند کردے۔ اس پریاقوت احمر کا ایک تاج ہوگا جس پردُرّومرجان کا جڑاؤ ہوگا ، اس کے دائیں طرف اس کے بالوں کی ایک لاکھ زلفیں ہوں گی، یہ زلفیں بعض تونور کی ہوں گی، بعض یاقوت کی، بعض لؤلؤ کی اور بعض زبرجد کی اور بعض مرجان کی اور بعض جواہر کی، ان کوزمرد اخضر اور احمر کے تاج پہنائے گئے ہوں گے، رنگارنگ کے موتی ہوں گے جن سے ہرطرح کی خوشبوئیں پھوٹتی ہوں گی، جنت کی ہرخوشبو اس کے بالوں کے نیچے ہوگی، ہرایک زلف کے دروجواہر چالیس سال کی مسافت سے چمکتے ہوئے نظر آئیں گے، بائیں طرف بھی ایسا ہی ہوگا اس کی پچھلی طرف ایک لاکھ مینڈھیاں اس کے بالوں کی ہوں گی، یہ زلفیں اور مینڈھیاں اس کے بالوں کی ہوں گی، یہ زلفیں اور مینڈھیاں اس کے سینہ پرپڑتی ہوں گی پھراس کی سرین پرپڑتی ہوں گی پھر اس کے قدموں تک لٹکی ہوں گی حتی کہ وہ ان کوکستوری پرگھسیٹتی ہوگی (جس کواس نے اٹھارکھا ہوگا) اور اس کی بائیں طرف بھی ایسا ہی ہوگا؛ پھراس کی پشت کی طرف بھی ایک لاکھ نوکرانیاں ہوں گی ہرایک نوکرانی نے اس کے بالوں کی ایک لٹ اٹھارکھی ہوگی، اس بیوی کے آگے ایک لاکھ نوکرانیاں چلتی ہوں گی اور ان کے پاس موتیوں کی انگیٹھیاں ہوں گی جن میں آگ کے بغیر بخور جلتے ہوں گی ان کی خوشبو جنت میں سوسال کی مسافت تک پہنچتی ہوگی، اس کے گرد سدارہنے والے لڑکے ہوں گے ان پرکبھی موت نہ آئے گی گویا کہ وہ موتی ہوں گے جواپنی کثرت کی وجہ سے بکھر گئے ہوں گے، یہ بیوی اللہ کے دوست کے سامنے کھڑی ہوکر اس کی حیرت اور سرورکامزہ لے رہی ہوگی اور اس سے مسرور ہوکر اس پرفدا ہورہی ہوگی؛ پھراس سے کہے گی اے خدا کے دوست! آپ رشک وسرور میں اور ملاحظہ فرمائیے؛ پھروہ اس کے سامنے ایک ہزار طرح کی چال کے ساتھ چل کردکھائے گی ہرایک چال میں نور کی سترپوشاکیں نمودار ہوتی رہیں گی، اس کے بالوں کوسلجھانے والی اس کے ساتھ ہوگی، جب وہ چلے گی تونازونخرہ سے چلے گی بل کھاکر چلے گی، شرم کودرمیان سے اٹھاکر چلے گی رقص کرتے ہوئے چلے گی اس پرخوبصورت ہوکر خوشی اور مستی دکھاے گی اور مسکرائے گی، جب وہ کسی طرف مائل ہوگی تواس کی کنیزیں اس کے بالوں کے ساتھ ہی گھوم جائیں گی اور اس کی مینڈھیاں بھی ساتھ ہی گھوم جائیں گی اور دونوں طرف کی نوکرانیاں بھی اس کے ساتھ ہی گھوم جائیں گی، جب وہ گھومے گی تواس کی سب کنیزیں بھی اس کے ساتھ ہی گھوم جائیں گی جب وہ اپنا رُخ سامنے کرے گی تووہ بھی رُخ سامنے کرلیں گی۔ اللہ تعالیٰ جل شانہ نے اس کوایسی شکل میں (جنت میں جانے کے لیے دوسری بار) اس طرح سے پیدا کیا ہوگا کہ اگروہ اپنا رخِ زیبا سامنے کرے تووہ بھی سامنے رہے اور اگرپشت پھیرے توبھی اس کا چہرہ سامنے رہے نہ تواس کا چہرہ اس کے خاوند سے ہٹے گا اور نہ اس سے غائب ہوگا، جنتی اس کی ہرشے دیکھے گا، جب وہ ایک لاکھ انداز کے چلنے کے بعد بیٹھے کی تواس کے سرین تخت سے باہر نکل رہے ہوں گے اور اس کی زلفیں اور مینڈھیاں لٹک رہی ہوں گی، ان پرکیف مناظر حسن کو دیکھ کرولی اللہ ایسا بے چین اور بے قرار ہوگا کہ اگراللہ تعالیٰ نے موت نہ آنے کا فیصلہ نہ کیا ہوتا تویہ خوشی کے مارے مرجاتا؛ اگراللہ تعالیٰ نے اس کوطاقت برداشت نہ دی ہوتی تویہ اس طرف اس خوف سے دیکھ بھی نہ سکتا کہ اس کی بینائی نہ کھوجائے، یہ اپنے خاوند سے کہے گی: اے ولی اللہ! خوب عیش کرو جنت میں موت کا کہیں نام ونشان بھی نہیں ہے۔ (امام ابن الجوزی:۱۹۴ تا ۱۹۶) بڑھتا جاتا ہے وہاں شوق خود آرائی کا حوصلہ پست ہے یاں ضبط وشکیبائی کا