انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ۲۳۔رجاءبن حیوٰۃؒ نام ونسب رجاء نام،ابونصر کنیت،نسب نامہ یہ ہے،رجاء بن حیوٰۃ بن جرول بن الاحنف ابن السحط بن امرؤ القیس بن عمرو الکندی ارونی رجاء کے داداجرول صحابی تھے۔ فضل وکمال فضل وکمال کے اعتبار سے رجاء شام کے اکابر علماء میں تھے،علامہ ابن سعد لکھتے ہیں۔ کان ثقۃ عالما فاضلا کثیر العلم (ابن سعد،ج ۷،ق۲،ص۱۶۱) علامہ نووی لکھتے ہیں ان کی جلالت اوران کی شخصی اورعلمی فضیلت پر سب کا اتفاق ہے۔ (تہذیب الاسماء:۱/۱۹۰) حدیث وہ حدیث اورفقہ دونوں میں یکساں کمال رکھتے تھے،حافظ ذہبی انہیں امام اورشیخ اہل الشام لکھتے ہیں(تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۰۲) مطرالوراق کہتے تھے کہ رجاء بن حیوٰۃ سے افضل شامی اوران سے زیادہ روایات میں افقہ شخص سے نہیں ملا۔ (تہذیب التہذیب:۳/۲۶۵) عبداللہ بن عمرؓ وبن العاص،عدی بن عمیرہ،عبادہ بن صامتؓ،عبدالرحمن بن غنم،معاویہ تو اس بن سمعان،ابودرداء،ابوسعید خدریؓ،ابوامامہ،مسوربن مخزمہ،قبیصہ بن ذویب،ابوصالح السمان اوردراد کاتب وغیرہ سے سماعِ حدیث کیا تھا اور عدی بن عدی،ابن عجلان ،ثور بن یزید ابن عون،مطرالوراق،زہری،محمد بن حجادہ اورحمید الطویل وغیرہ آپ کے زمرہ تلامذہ میں ہیں۔ (ایضاً:۲۶۵) روایت میں الفاظ کی پابندی روایت حدیث میں محتاط تھے،حدیثوں کو الفاظ کی پابندی کے ساتھ روایت کرتے تھے۔ (ابن سعد،ج۴،ق۲،ص۱۶۱) فقہ حدیث سے زیادہ فقہ میں ان کو دستگاہ تھی،مطرالوراق کہتے تھے کہ میں نے کسی شامی کو ان سے زیادہ فقیہ نہیں دیکھا(تذکرہ الحفاظ:۱/۱۰۵) ابن حبان انہیں فقہائے شام میں لکھتے ہیں (تہذیب التہذیب:۱/۲۶۶) ان کے تفقہ کی ایک سند یہ بھی ہے کہ وہ منصب قضاء پر ممتاز تھے۔ (تہذیب الاسماء:۱/۱۹۰) علماء میں رجاء کا درجہ اپنے ہمعصر علماء میں ممتاز درجہ رکھتے تھے،اس عہد کے تمام علماء ان کے کمالات علمی کے معترف تھے،مکحول جو شام کے بڑے نامور عالم تھے،ان کو اپنا شیخ اپنا آقا اورسارے اہل شام کا سردار کہتے تھے (تہذیب التہذیب:۳) ان کی موجود گی میں مکحول خود کسی مسئلہ کا جواب نہ دیتے تھے،موسیٰ بن یسار کا بیان ہے کہ ایک شخص نے مکحول سے مسجد میں کوئی مسئلہ پوچھا، انہوں نے اس سے کہا ہمارے شیخ اورہمارے سردار رجاء بن حیوٰۃ سے پوچھو (ایضاً)ابن عون کہتے تھے کہ رجاء کا مثل شام میں نہیں دیکھا،ابن سیرین کا مثل عراق میں اور قاسم کی مثل حجاز میں نہیں دیکھا۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۰۵) زہد وعبادت اس علم کے ساتھ وہ بڑے عابد وزاہد تھے،ابن حیان لکھتے ہیں کہ وہ شام کے عبادت گزار اورزاہد لوگوں میں تھے،ان کے زہد وتقویٰ کی وجہ سے مسلمہ بن عبدالملک کہتا تھا کہ کندہ کے تین آدمیوں کے طفیل میں خداپانی برساتا ہے اور دشمنوں پر مدد دیتا ہے ،ان میں ایک رجاء ہیں۔ (تہذیب التہذیب:۳/۲۶۶) امراء سے استغناء اس زہد وتقویٰ کی وجہ سے وہ امراء اورسلاطین سے ہمیشہ بے نیاز رہے اورکسی کے آستانہ پر حاضری نہیں دی، ایک مرتبہ ان سے کسی نے پوچھا کہ آپ حاکم وقت کے پاس کیوں نہیں جاتے،جواب دیا میرے لیے اس رب العلمین کی ذات کافی ہے، جس کے لیے میں نے ان کو چھوڑا ہے۔ (تہذیب الاسماء:۱/۱۹۰) ایک اہم کارنامہ ان کا سب سے اہم کارنامہ اورسب سے بڑی مذہبی خدمت یہ ہے کہ انہی نے سلیمان بن عبدالملک کو عمر بن عبدالعزیزؓ کو خلیفہ بنانے کا مشورہ دیا تھا(تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۰۵) اس لیے الداعی الی الخیر کفاعلہ کے مطابق وہ بھی اس کا رخیر میں شریک ہیں۔ وفات ۱۱۲ میں وفات پائی۔ (ایضاً) حلیہ آخر عمر میں سر اور داڑھی کے بال سپید ہوگئے تھے،سرمیں خضاب لگاتے تھے اورداڑھی کو نورانی چھوڑدیا تھا۔