انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** پینے کی چیزیں پینے کی لذتوں کی تفصیل: اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: إِنَّ الْأَبْرَارَ لَفِي نَعِيمٍo عَلَى الْأَرَائِكِ يَنْظُرُونَo تَعْرِفُ فِي وُجُوهِهِمْ نَضْرَةَ النَّعِيمِo يُسْقَوْنَ مِنْ رَحِيقٍ مَخْتُومٍo خِتَامُهُ مِسْكٌ وَفِي ذَلِكَ فَلْيَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُونَo وَمِزَاجُهُ مِنْ تَسْنِيمٍo عَيْنًا يَشْرَبُ بِهَا الْمُقَرَّبُونَ۔ (المطففین:۲۲ تا ۲۸) ترجمہ:نیک لوگ بڑی آسائش میں ہوں گے، مسہریوں پر (بیٹھے بہشت کے عجائبات) دیکھتے ہوں گے، اے مخاطب! توان کے چہروں میں آسائش کی بشاشت پہچانے گا اور ان کوپینے کے لیے شراب خالص سربمہر جس پرمشک کی مہر لگی ہوگی ملے گی اور حرص کرنے والوں کوایسی ہی چیز کی حرص کرنا چاہئے (کہ حرص کے لائق یہی ہے؛ خواہ صرف شراب مراد لی جائے خواہ جنت کی کل نعمتیں، یعنی شوق ورغبت کی چیز یہ نعمتیں ہیں نہ کہ دنیا کی ناقص اور فانی لذتیں اور ان کے حاصل کرنے کا طریقہ نیک اعمال ہیں؛ پس ان میں کوشش کرنا چاہئے) اس شراب کی آمیزش (ملاوٹ) تسنیم کے پانی سے ہوگی (عرب عموماً شراب میں پانی ملاکرپیتے تھے تواس شراب کی آمیزش کے لیے تسنیم کا پانی ہوگا، تسنیم کی شرح یہ ہے کہ یہ) ایک ایسا چشمہ ہے جس سے مقرب لوگ پانی پئیں گے (یعنی مقرب حضرات کوتوتسنیم کا خالص پانی ملے گا اور نیک لوگوں کواس کا پانی دوسری شراب میں ملاکر ملے گا اور یہ مہرلگنا اکرام اور اعزاز کی علامت ہے) ورنہ وہاں ایسی حفاظت کی ضرورت نہیں ہوگی اور مشک کی مہر کا مطلب یہ ہے کہ جیسے قاعدہ ہے کہ لاکھ وغیرہ لگاکر اس پرمہر کرتے ہیں اور ایسی چیز کوطین ختام کہتے ہیں وہاں شراب کے برتن کے منہ پرمشک لگاکر اس پرمہر کردی جائے گی۔ (تفسیر بیان القرآن، حضرت تھانویؒ) حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ خِتَامُهُ مِسْكٌ کی تفسیر فرماتے ہیں کہ یہ چاندی کی شکل کی سفید شراب ہوگی جن کے اوپر کستوری کی مہر لگی ہوگی؛ اگردنیا والوں میں سے کوئی شخص اس میں اپنا ہاتھ ڈال کرباہر نکالے تو (پوری دنیا میں) ہرجاندار اس کی خوشبو سونگھ سکے۔ (البعث والنشور:۳۶۵۔ ابن جریر:۳۰/۱۰۷۔ درمنثور:۶/۳۲۸) حضرت عطاء رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں تسنیم ایک چشمہ کا نام ہے، جس میں شراب کی آمیزش کی جائے گی۔ (البعث والنشور:۳۶۶۔ درمنثور:۶/۳۲۸۔ حادی الارواح:۲۵۰) وَيُطَافُ عَلَيْهِمْ بِآنِيَةٍ مِنْ فِضَّةٍ وَأَكْوَابٍ كَانَتْ قَوَارِيرَاo قَوَارِيرَ مِنْ فِضَّةٍ قَدَّرُوهَا تَقْدِيرًاo وَيُسْقَوْنَ فِيهَا كَأْسًا كَانَ مِزَاجُهَا زَنْجَبِيلًاo عَيْنًا فِيهَا تُسَمَّى سَلْسَبِيلًا۔ (الدھر (الإنسان):۱۵ تا ۱۸) ترجمہ وتفسیر: اور ان کے پاس (کھانے پینے کی چیزیں پہنچانے کے لیے) چاندی کے برتن لائے جائیں گے اور آبخورے جوشیشے کے ہوں گے (اور) وہ شیشے چاندی کے ہوں گے جن کوبھرنے والوں نے مناسب انداز سے بھراہوگا (یعنی اس میں مشروب ایسے انداز سے بھرا ہوگا کہ نہ اس وقت کی خواہش میں کمی رہے اور نہ اس سے بچے کیوں کہ دونوں میں بے لطفی ہوتی ہے اور چاندی میں آرپار نظرنہیں آتا اور شیشے میں یہاں ایسی سفیدی نہیں ہوتی پس یہ ایک عجیب چیز ہوگی اور وہاں ان کو) علاوہ جام شراب مذکورہ بالا کے جس میں کافور کی آمیزش تھی اور بھی ایسا جام شراب پلایا جائے گا جس میں سونٹھ کی آمیزش ہوگی (کہ انتعاش حرارت غریزی اور مونہہ کا مزہ بدلنے کے لیے شراب میں اس کوبھی ملاتے تھے) یعنی ایسے چشمے سے (ان کوپلایا جائے گا) جس کا نام (وہاں) سلسبیل (مشہور) ہوگا (اور ان کے پاس یہ چیزیں لے لیکر ایسے لڑکے آمدورفت کریں گے جو ہمیشہ لڑکے ہی رہیں گے اور وہ اس قدر حسین ہیں کہ اے مخاطب اگرتوان کوچلتے پھرتے دیکھے تویوں سمجھے کہ موتی ہیں جوبکھر گئے ہیں، موتی سے توتشبیہ صفائی اور چمک دمک میں اور بکھرے ہوئے کا وصف ان کے چلنے پھرنے کے لحاظ سے جیسے بکھرے موتی منتشر ہوکر کوئی ادھر جارہا ہے کوئی ادھر جارہا ہے اور یہ اعلیٰ درجہ کی تشبیہ ہے اور ان مذکورہ اسباب تنعم میں انحصار نہیں بلکہ وہاں اور بھی ہرسامان اس افراط اور رفعت کے ساتھ ہوگا کہ اے مخاطب! اگرتواس جگہ کودیکھ لے توتجھ کوبڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھلائی دے)۔ (تفسیربیان القرآن حضرت تھانوی رحمہ اللہ) اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: إِنَّ الْأَبْرَارَ يَشْرَبُونَ مِنْ كَأْسٍ كَانَ مِزَاجُهَا كَافُورًاo عَيْنًا يَشْرَبُ بِهَا عِبَادُ اللَّهِ يُفَجِّرُونَهَا تَفْجِيرًا۔ (الدھر(الإنسان):۵،۶) ترجمہ: نیک لوگ پئیں گے جام شرا ب کے جس میں کافور کی ملاوٹ ہوگی یعنی ایسے چشمے سے (پئیں گے) جس سے خدا کے خاص بندے پئیں گے (اور) جس کو وہ (خاص بندے جہاں چاہیں گے) بہاکر لے جائیں گے (اور یہ) بہشتیوں کی ایک کرامت ہوگی کہ جنت کی نہریں ان کے تابع ہوں گی، جیسا کہ درمنثور میں ابن شوذب سے مروی ہے کہ جنتیوں کے ہاتھ میں سون کی چھڑیاں ہوں گی وہ چھڑیوں سے جس طرح اشارہ کردیں گے نہریں اس طرح چلنے لگیں گی (درمنثور۔ وصف الفردوس:۲۵،عن قتادۃ) اور یہ کافور دنیا کا کافور نہیں ہے؛ بلکہ جنت کا کافور ہے جوسفیدی اور خنکی اور تفریح وتقویت دل ودماغ میں اس کا مشارک ہے، شراب میں خاص کیفیات حاصل کرنے کے لیے عادت ہے بعض مناسب چیزوں کے ملانے کی پس وہاں اس گلاس میں کافور ملایا جائے گا اور وہ جام شراب ایسے چشمے سے بھرا جائے گا جس سے مقرب بندے پئیں گے توظاہر ہے کہ وہ اعلیٰ درجہ کا ہوگا۔ (بیان القرآن) چشمہ تسنیم: حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تسنیم جنت کی سب سے اعلیٰ قسم ہی شراب ہے جومقربین کوخالص پلائی جائیگی اور نیک لوگوں کوملاوٹ کے ساتھ۔ (سعید بن منصور، عبدالرزاق، ابن ابی حاتم، بیہقی عن ابن عباس، البدورالسافرہ:۱۹۳۸) شراب کی چھاگل: حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جنتیوں میں سے ہرشخص جنت کی شراب میں سے جب بھی کسی پینے کی چیز کی خواہش کریگا اس کے پاس چھاگل پیش ہوجائے گی اور اس کے ہاتھ میں آموجود ہوگی چنانچہ اس سے پئے گا پھروہ اپنی جگہ لوٹ جائے گی۔ (ابن ابی الدنیا صفۃ الجنۃ:۱۳۲) حسن میں اضافہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جنتی کے پاس جب کوئی گلاس (کسی پینے کی چیز کا) پیش کیا جائے گا اور وہ اس کونوش کریگا پھراپنی اہلیہ کی طرف متوجہ ہوگا تووہ کہے گی اب آپ میری نظر میں سترگنا زیادہ خوبصورت ہوگئے ہیں۔ (صفۃ الجنۃ ابن ابی الدنیا:۱۳۸) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حورعین میں سے بھی جب کوئی عورت ایک گلاس نوش کرے گی اور اس کا خاوند اس کی طرف دیکھے گا تووہ خاوند کی نظر میں بطورِ حسن کے ستردرجہ بڑھ جائے گی۔ برتن کے اندر کی چیز باہر سے نظر آئے گی: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگرتم دنیا کی چاندی سے کچھ لیکر اس کواتنا باریک کرو کہ اس کومکھی کے پرکی طرح کردو تب بھی اس کے پیچھے سے تمھیں پانی نظر نہیں آئے گا؛ لیکن جنت کے شیشے چاندی کی طرح سفید ہوں گے اور شیشہ کی طرح صاف ہوں گے۔ (صفۃ الجنۃ ابن ابی الدنیا:۱۳۹۔ تفسیر ابن جریر:۳۰/۱۳) جام کی چھینا جھپٹی: اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: يَتَنَازَعُونَ فِيهَا كَأْسًا لَالَغْوٌ فِيهَا وَلَاتَأْثِيمٌ۔ (الطور:۲۳) ترجمہ: وہاں (جنت میں) آپس میں (بطورِ خوش طبعی کے) جام شراب میں چھینا جھپٹی بھی کریں گے کہ اس (شراب) میں نہ بک بک لگے گی (کیونکہ نشہ نہ ہوگا) اور نہ اور کوئی بے ہودہ بات (عقل وسنجیدگی کے خلاف) ہوگی۔ لذت شراب کی انتہاء: حدیث: جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: وَلَوَلَاأَنَّ اللہَ تَعَالیٰ قَضٰی عَلَی أَہْلِ الْجَنَّۃِ أَنَّہُمْ یَتَنَازَعُوْنَ الکَاسَ بَیْنَہُمْ مَارَفَعُوْہُ عَنْ أَفْوَاہِہِمْ لِذَاذَۃ۔ (وصف الفردوس:۷۱) ترجمہ:اگراللہ تعالیٰ جنتیوں کے لیے یہ فیصلہ نہ فرماتے کہ وہ آپس میں جام کی چھینا جھپٹی کریں گے تووہ لذت کی وجہ سے اس جام کوکبھی اپنے مونہوں سے جدا نہ کرتے۔ شرابِ طہور: حدیث: ارشادِ خداوندی ہے: وَسَقَاهُمْ رَبُّهُمْ شَرَابًا طَهُورًا (الدھر(الإنسان):۲۱) ترجمہ: اوران کا رب ان کوپاکیزہ شراب پینے کودے گا، ابن عبدالحکم رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت مبارکہ کے متعلق سوال کیا گیا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: إِنَّ آخر شَرَاب يَشْربهُ أَهْل الْجَنَّةِ عَلىَ أَثَر طَعَامِهمْ وَشَرَابہُمْ مَاءٌ يُقَالُ لَهُ الطهور إِذَاشَرِبُوْا مِنْهُ هَضَمَ طَعَامَهُمْ وَشَرَابَہُمْ حَتَّی یَشْتَھْوُا الطَّعَامَ وَالشَّرَاب فَہَذَا دَابِہِمْ أَبَدًا۔ (وصف الفردوس:۷۲) ترجمہ: جنتی اپنے کھانے پینے کے بعد جوسب سے آخری شراب پئیں گے وہ ایسا پانی ہوگا جس کوطہور کہا جاتا ہوگا، جب جنتی اس سے پئیں گے توان کا کھانا پانی سب ہضم ہوجائے گا؛ حتی کہ وہ پھرکھانے کی خواہش کرنے لگیں گے اور ان کا ہمیشہ یہی طریقہ رہے گا۔ دنیا میں پیاسے کوپانی پلانے پرقیامت میں رحیق مختوم ملے گی: حدیث: حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: أَيُّمَا مُؤْمِنٍ سَقَى مُؤْمِنًا شَرْبَةً عَلَى ظَمَإٍ سَقَاهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ الرَّحِيقِ الْمَخْتُومِ۔ (مسنداحمد بن حنبل، مُسْنَدُ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ،حدیث نمبر:۱۱۱۱۶، شاملہ، الناشر: مؤسسة قرطبة،القاهرة) ترجمہ:جومؤمن کسی مؤمن کوپیاس کی حالت میں ایک گھونٹ پانی کا پلائے گا، اللہ تعالیٰ اس کوقیامت کے دن رحیق مختوم سے پلائیں گے۔ جنت کی شراب سے کون محروم ہوگا؟ حدیث: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مَنْ شَرِبَ الْخَمْرَ فِي الدُّنْيَا ثُمَّ لَمْ يَتُبْ مِنْهَا حُرِمَهَا فِي الْآخِرَةِ۔ (بخاری،كِتَاب الْأَشْرِبَةِ، بَاب قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ،حدیث نمبر:۵۱۴۷، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:جس شخص نے دنیا میں شراب پی اور اس سے توبہ نہ کی تواس کے لیے آخرت میں شراب حرام ہوگی (یعنی اس کوجنت میں شراب طہور سے محروم رکھا جائیگا)۔ حظیرۃ القدس کی شراب کا مستحق: حدیث: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مَنْ تَرَكَ الْخَمْرَ وَهُوَيَقْدِرُ عَلَيْهِ إلَّاسَقَيْتُهُ إِیَّاہَا مِنْ حَظِيرَةِ الْقُدْسِ، وَمَنْ تَرَكَ الْحَرِِيْرَ وَهُوَ يَقْدِرُ عَلَيْهِ إلَّاكَسَوْته إيَّاهَا مِنْ حَظِيرَةِ الْقُدْسِ۔ (مسندبزار بسند حسن، البدورالسافرہ:۱۹۴۶) ترجمہ:جوشخص شراب پینے کی قدرت رکھنے کے باوجود شراب کونہ پئے گا میں اس کوحظیرۃ القدس (اپنے مخصوص ومقرب مقام) سے (پاکیزہ) شراب پلاؤنگا اور جوریشم پہننے کی قدرت رکھنے کے باوجود ریشم نہ پہنے گا میں اس کوحظیرۃ القدس کی (خاص) شراب پلاؤنگا۔