انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حادثہ ٔ رجیع (صفر۴ہجری) عضل و قارہ کے قبیلوں کے کچھ لوگ مدینہ آئے اور آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کئے :ہماری قوم کے کچھ لوگ مسلمان ہوگئے ہیں ، آپﷺ چند ایسے مبلغین بھیجئے جو اُن کو دین کی باتیں سکھائیں، آپﷺ نے دس صحابہؓ ان کے ساتھ کردئیے اور ان کا سردار حضرت مرثدبن ابی مرثد غنوی کو مقرر کیا۔ (ابن ہشام نے چھ آدمی لکھے ہیں مگر بخاری کی روایت میں دس ہیں، سیرت طیّبہ ) جب یہ لوگ رجیع کے مقام پر پہنچے جوبنی ہذیل کا چشمہ تھا تو انہوں نے ہذیل کے آدمیوں کو آواز دی، وہ لوگ پہلے سے انتظار میں تھے، آوازسنتے ہی ہتھیار لے کر پہنچ گئے اور ان کو چاروں طرف سے گھیر لیا، مسلمان مبلغ ان غداروں کی غداری پر حیران رہ گئے، اور تو کچھ نہ کرسکتے تھے بے چارے ایک ٹیلہ پر چڑھ گئے اور تلواریں نکال لیں ، ہذیل کے لوگوں نے کہا ، ہم تم سے وعدہ کرتے ہیں کہ تم کو قتل نہ کریں گے ، تم نیچے اتر آؤاور اپنے آپ کو ہماری پناہ میں دے دو ، مبلغین نے جواب دیا ، ہمیں کافروں کی پناہ منظور نہیں ہے ، پھر سات مسلمان بہادری کے ساتھ دشمنوں سے لڑ کر شہید ہوئے اور تین مبلغ باقی رہ گئے،۱، عبداللہؓ بن طارق ۲، خبیبؓ بن عدی ۳، زید بن الدثنّہ، ان کو بہلا پھسلا کر بنی ہذیل نے اتار لیا اور رسیوں سے باندھ کر مکہ کی طرف روانہ ہوئے ، راستہ میں ظہران کے مقام پر عبداللہ نکل بھاگے اور بھاگتے ہوئے دشمنوں کے پتھروں سے شہید ہوگئے ( ابن ہشام) ان کی قبر ظہران میں ہے جو مکہ کی وادی ہے، بنی ہذیل کے یہ غدار، زید اور خبیب کو مکہ لائے اور فروخت کردیا ، جن لوگوں کے رشتہ دار مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہوئے تھے انھوں نے انہیں خرید لیا تاکہ ان کو شہید کرکے اپنے دل کی آگ بجھائیں ، حضرت خبیبؓ کو حارث بن عامر کے لڑکوں نے خریدا تھا ، حارث کو خود حضرت خبیبؓ نے بدر کی لڑائی میں قتل کیا تھا، حضرت خبیبؓ ایک کوٹھری میں قید موت کا انتظار کررہے تھے کہ ایک دن حارث کا نواسہ استرہ لے کر آیا، انھوں نے اسے محبت کے ساتھ اپنے زانوپر بٹھا لیا اور استرہ اس کے ہاتھ سے لے لیا، بچہ کی ماں نے دیکھا کہ بچہ خبیبؓ کے زانو پر ہے اور استرہ ان کے ہاتھ میں‘ تو کانپ اٹھی ، سمجھی کہ اب خبیبؓ اس بچہ کو زندہ نہ چھوڑیں گے ، حضرت خبیب نے جب عورت کا یہ حال دیکھا تو مسکرا کر کہا،کیا تجھے یہ خوف ہے کہ میں اپنی جان کے بدلہ اس معصوم کی جان لوں گا ؟ نہیں انشاء اللہ میں ایسا ہر گز نہ کروں گا،یہ کہہ کر بچہ کو چھوڑ دیا اور وہ ہنستا کھیلتا اپنی ماں کے پاس چلا گیا(سیرت ابن ہشام ، سیرت طیبّہ، قاضی زین العابدین سجاد میرٹھی)آخر ایک دن مقرر کیا گیا اور مکہ سے باہر ان کو قتل کے لئے لے گئے،مکہ سے باہر ایک میدان میں سولی گاڑی گئی تھی ، سولی پر چڑھنے سے پہلے حضرت خبیبؓ نے کہا " میری ایک تمنا ہے اگر تم اسے پورا کردو تو بڑا احسان ہو، لوگوں نے پوچھا کہ کیا تمنا ہے ؟ خبیبؓ بولے " مجھے اپنے مولیٰ کے دربار میں حاضر ہونے سے پہلے اس کے سامنے سر جھکانے کی اجازت دے دو ، میں دو رکعت نماز پڑھنا چاہتا ہوں " مکہ والوں نے اجازت دے دی ، حضرت خبیبؓ نے بڑے خشوع و خضوع کے ساتھ نماز پڑھی، نماز سے فارغ ہوکر کہا، اگر تم یہ گمان نہ کرتے کہ میں موت کے خوف سے نماز میں دیر لگا رہا ہوں تو ابھی کچھ وقت نماز میں صرف کرتا ، پھر وہ بہادری کے ساتھ سولی پر چڑھ گئے، حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضرت خبیبؓ بن عدی پہلے شخص ہیں جنھوں نے قتل سے پہلے نماز ادا کی ، اس کے بعد سے اہل حق میں جو بھی مجبوراََ شہید کیا جاتا ہے وہ سنتِ حبیب پر عمل کرکے دو رکعت نماز پڑھتا ہے۔ دوسرے صاحب زیدؓ بن الدثنّہ کو بھی کعبہ سے باہر لاکر مجمع عام میں پھانسی دی گئی، انھوں نے بھی اسی ذوق و شوق کے ساتھ اپنی جان اللہ کے راستہ میں قربان کر دی، تماشائیوں کے مجمع میں ابو سفیان بھی تھے جن کی حیثیت اس وقت سردار مکہ کی تھی، شہادت کے وقت انھوں نے زید ؓ سے پوچھا ،" اے زید ؓ ! تمہیں خدا کی قسم یہ تو بتاؤ ، کیا تم اس بات کو پسند کروگے کہ محمد ( ﷺ) تمہاری جگہ قتل کئے جائیں اور تم چھوڑ دئے جاؤ اور اپنے بیوی بچوں میں موج کرو" زیدؓ نے جواب دیا" اے ابو سفیان ! میں تو مدینہ میں بیٹھے ہوئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں میں کانٹا چبھا دیکھنا بھی پسند نہیں کرتا ، قتل تو بڑی بات ہے، یہ سن کر ابو سفیان بولے: محمد ﷺ کے صحابہ محمدﷺ کے ساتھ جیسی محبت کرتے ہیں میں نے ایسی محبت کسی کو کسی کے ساتھ کرتے نہیں دیکھا۔ (قاضی زین العابدین سجاد میرٹھی ، سیرت طیبّہ )