انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت حذیفہ بن الیمانؓ نام ونسب حذیفہ نام، ابو عبداللہ کنیت، صاحب السر لقب،قبیلۂ عطفان کے خاندان عبس سے ہیں،نسب نامہ یہ ہے،حذیفہ بن حسیل بن جابر بن عمرو بن ربیعہ بن فرودہ بن حارث بن مازن بن قطیعہ بن عبس بن بغبیض بن ریث بن غطفان العبسی،والدہ کا نام رباب بنت کعب بن عدی بن عبدالاشہل تھا۔ حضرت حذیفہؓ کے والد اپنی قوم کے کسی شخص کو قتل کرکے مدینہ گئے تھے اور یہیں سکونت اختیار کرلی تھی، عبد الاشہل کے خاندان سے حلف کا تعلق ہوا، پھر بعد میں باہم قرابت بھی کرلی، کہتے ہیں کہ اوس وخزرج کا تعلق چونکہ یمن سے تھا اس لئے ان کی قوم نے ان کا نام یمان رکھ دیا (اصابہ:۱/۲۳۲)عبدالاشہل میں جو نکاح کیا تھا، اس سے حسب ذیل اولاد پیدا ہوئی،حذیفہ ،سعد، صفوان،مدیح دلیلےٰ (ایضاً:۸/۲۳۴) یہ لوگ اولاد یمان کے نام سے مشہور ہوئی ۔ اسلام والدین نے اسلام کے زمانہ پایا، اورمشرف باسلام ہوئے،بھائی بہنوں میں صرف حذیفہ اورصفوان کو یہ سعادت حاصل ہوئی، اس وقت آنحضرتﷺ مکہ میں اقامت گزین تھے،حضرت حذیفہؓ ہجرت کرکے مکہ پہنچے اورآنحضرت ﷺ سے ہجرت اورنصرت کے متعلق رائے طلب کی تو آپ نے ہجرت کے بجائے نصرت کو ان کے لئے تجویز فرمایا۔ (اسدالغابہ:۱/۳۹۱) غزوات اگرچہ غزوۂ بدر میں شریک نہ ہوسکے تاہم اپنے باپ کے ساتھ غزوہ کے ارادہ سے نکلتے تھے،لیکن راستہ میں کفار قریش نے روکا محمدﷺ کے پاس جانے کی اجازت نہیں بولے، کہ محمد کے پاس نہیں ؛بلکہ مدینہ جاتے ہیں ،چنانچہ ان لوگوں نے اس شرط پر چھوڑا کہ لڑائی میں محمدﷺ کی طرف سے شریک نہ ہوں، انہوں نے خدمت اقدس میں پہونچ کر ساری داستان سنائی ارشاد ہوا کہ اپنے عہد پر قائم رہو اور مکان واپس جاؤ،باقی فتح و نصرت تو وہ خدا کے ہاتھ ہے ہم اسی سے طلب بھی کریں گے۔ (مسلم:۲/۸۹) غزوۂ احد میں شریک ہوئے،والد بھی موجود تھے اور ثابت بن وقش کے ساتھ عورتوں کی حفاظت پر متعین تھے (اصابہ:۲/۱۳) جب مشرکین نے شکست کھا کر راہ فرار اختیار کی تو کسی شیطان نے آواز دی،دیکھنا مسلمان پہونچ گئے، چنانچہ مشرکین کا ایک دستہ پلٹ پڑا، جس سے مسلمانوں کی ایک جماعت سے مڈ بھیڑ ہوگئی ،حضرت حذیفہؓ کے والد درمیان میں تھے یہ دیکھ کر کہ ان کی خیر نہیں حضرت حذیفہؓ نے آوازدی خدا کے بندو! یہ میرے باپ ہیں،لیکن تقارخانہ میں طوطی کی آواز کون سن سکتا تھا، ایک مسلمان نے نادانستہ قتل کردیا، حضرت حذیفہؓ کو معلوم ہوا، تو انتہائی حلم وعفو سے کام لے کر کہا یغفر اللہ لکم خدا تم لوگوں کی مغفرت کرے(مسلم:۲/۸۹) آنحضرتﷺ کو خبر ہوئی تو اپنی جیب خاص سے حضرت حذیفہؓ کو دیت عطا کی اوراس فعل کو بہ نظر استحسان دیکھا۔ (اصابہ:۲/۱۲) غزوۂ خندق میں نمایاں حصہ لیا، قریش مکہ جس سروسامان سے اٹھے تھے اس کا یہ اثر تھا کہ مدینہ منورہ کی بنیادیں ہل گئیں،مدینہ کے چاروں طرف کوسوں تک آدمیوں کا ٹڈی دل پھیلا ہوا تھا، آنحضرتﷺ نے جناب باری میں دعا کی اور مدینہ کی حفاظت کے لئے خندق کھدوائی،ایک رات عجیب واقعہ پیش آیا جو مسلمانوں کے حق میں تائید غیبی سے کم نہ تھا قریش کا لشکر جنگل میں خیمہ زن تھا کہ یکایک نہایت تیز و تند ہوا چلی جس سے خیموں کی طنا میں اکھڑ گئیں، ہانڈیاں الٹ گئیں اور سردی نہایت تیزی سے چمک اٹھی ابو سفیان نے کہا اب خیر نہیں یہاں سے فوار کوچ کرنا چاہیے،(طبقات،قسم۱،جلد۲،صفحہ:۵۰) آنحضرتﷺ کو ان لوگوں کی بڑی فکر تھی ارشاد ہوا کوئی جاکر مشرکین کی خبر لائے تو اس کو قیامت میں اپنی معیت کی بشارت سناتا ہوں، سردی اور پھر ہوا کی شدت کوئی شخص حامی نہ بھرتا تھا، آپ نے ۳ مرتبہ یہی جملہ دہرایا لیکن کسی طرف سے جواب میں کوئی صدانہ اٹھی،چوتھی بار آپ نے حذیفہؓ کا نام لیا کہ تم جاکر خبر لاؤ چونکہ نام لے کر پکارا تھا، اس لئے تعمیل ارشاد میں اب کیا چارہ تھا اپنی جگہ سے اٹھ کر خدمتِ اقدس میں آئے ارشاد ہوا دیکھو "مشرکین کو میری طرف سے خوف نہ دلانا" یعنی موقع پاکر کسی پر حملہ نہ کردینا، حضرت حذیفہؓ بہت تیز چلے مشرکین کے پڑاؤ پر پہنچے تو دیکھا کہ ابو سفیان پیٹھ سینک رہا ہے چاہا کہ تیرو کمان سے اس کا خاتمہ کردیں لیکن پھر آنحضرتﷺ کا قول یاد آیا اور اپنے ارادے سے باز آگئے،واپس ہوئے تو دیکھا آنحضرتﷺ اب تک نماز میں مصروف ہیں نماز سے فارغ ہوئے تو خبر سنی اس کے بعد آپ نے حضرت حذیفہؓ کو کمبل اڑھایا اور وہ یہیں شب باش ہوئے صبح ہوئی تو فرمایا :"قم یا نومان" (مسلم:۲/۳۹۱) اے سونے والے اب اٹھ خندق کے بعد دیگر غزوات اورواقعات میں بھی شرکت کی۔ عام حالات عہدِ نبوت کے بعد عراق کی سکونت اختیار کی اور کوفہ نصیبین اورمدائن میں اقامت گزین ہوئے انصیین میں کہ اجزیرہ کا ایک شہر تھا شادی بھی کی۔ (اسد الغابہ:۱/۳۹۱) عراق کے اضلاع فتح ہونے پر حضرت عمرؓ نے وہاں بندوبست کا ارادہ کیا تو دو مہتمم مقرر کئے علاقہ فرات کے حضرت عثمان بن حنیفؓ اور نواحِ وجلہ کے حضرت حذیفہؓ افسر مقرر ہوئے (کتاب الخراج:۲۱) نواحِ دجلہ کی رعایا نہایت بے ایمان اورشریر تھی اس نے اپنے مہتم بندوبست حضرت حذیفہؓ کو اس کام میں کوئی مدد نہ دی بلکہ الٹے مسخرہ بن گیا۔ باایں ہمہ حضرت حذیفہؓ نے بندوبست کیا اور تشخیص ایسی معقول کی کہ حکومت کی آمدنی بڑھ گئی چنانچہ جب حضرت عمرؓ سے مدینہ میں ملاقات ہوئی اورانہوں نے کہا کہ "شاید زمین پر زیادہ بوجھ ڈالا گیا ہے" تو حضرت حذیفہؓ نے جواب دیا "لقد ترکت فضلا (ایضاً:۲۱)میں نے بہت زیادہ چھوڑ دیا ہے۔ (طبری:۵/۲۶۳۲) ۱۸ھ میں نہاوند پر فوج کشی کی تیاریاں ہوئیں اس وقت حضرت حذیفہؓ کوفہ میں مقیم تھے،حضرت عمرؓ کا خط ملا کہ کوفہ کی فوج کولے کر نکلو اور نعمان بن مقرن کے لشکر سے مل جاؤ، حضرت نعمانؓ نے نہاوند کے قریب پڑاؤ ڈالا اورفوج کی رتیب قائم کی حذیفہؓ کو میمنہ سپرد کیا لڑائی شروع ہوئی اورسخت کشت وخون کے بعد مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی اسی میں حضرت نعمانؓ نے شہادت حاصل کی،حضرت عمرؓ نے سائب بن اقرع سے فرمایا تھا کہ نعمانؓ قتل ہوں تو حذیفہؓ امیر ہوں گے (اخباء الطوال:۱۳۶) نعمانؓ نے بھی وفات سے قبل ان کی امارت کی وصیت کی تھی ؛چنانچہ ان کی شہادت کے بعد جب لوگوں کو امیر کی تلاش ہوئی تو معقل نے حذیفہؓ کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ تمہارے امیر یہ ہیں اور امید ہے کہ خدا ان کی آنکھیں فتح وظفر کے ذریعہ سے ٹھنڈی کرےگا، تمام لشکر نے حضرت حذیفہؓ سے امارت پر بیعت کی اوروہ فوج لے کر نہاوند کی طرف بڑھے۔ (طبری:۵/۲۶۰۴،۲۶۰۵) نہاوند میں ایک آتش کدہ تھا اس کا موبد خدمت میں حاضر ہوا اوردرخواست کی کہ مجھے امان ملے تو ایک متاع بے بہا کا پتہ دوں ،حضرت حذیفہؓ نے امان دی اوراس نے کسریٰ کے نہایت پیش بہا جواہرات لاکر پیش کئے، حضرت حذیفہؓ نے مالِ غنیمت تقسیم کرکے پانچواں حصہ مع جواہرات کے حضرت عمرؓ کی خدمت میں بھیج دیا، حضرت عمرؓ جواہرات دیکھ کر غصہ ہوئے اورابن ملیکہ سے فرمایا فوراً واپس لے جاؤ اور حذیفہؓ سے کہو کہ ان کو بیچ کر فوج میں تقسیم کردیں، حضرت حذیفہؓ اُس وقت ماہ (نہاوند) میں مقیم تھے،انہوں نے ۴ کروڑ درہم پر جواہرات فروخت کئے ۔ (طبری:۵/۲۶۲۷،۳۰) اس موقع پر حضرت حذیفہؓ نے اہل شہر کے نام جو فرمان جاری کیا وہ بتمامہ درج کیا جاتا ہے۔ هذا ما أعطى حذيفة بن اليمان أهل ماه دينار أعطاهم الأمان على أنفسهم وأموالهم وأراضيهم لا يغيرون على ملة ولا يحال بينهم وبين شرائعهم ولهم المنعة ما أدوا الجزية في كل سنة إلى من وليهم من المسلمين على كل حالم في ماله ونفسه على قدر طاقته وما أرشدوا ابن السبيل وأصلحوا الطرق وقروا جنود المسلمين من مر بهم فأوى إليهم يوما وليلة ونصحوا فإن غشوا وبدلوا فذمتنا منهم بريئة (تاریخ الطبری،باب ذکر الخبر عما کان فی ھذہ السنۃ:۲/۵۳۰) حذیفہ بن یمان نے اہل ماہ کو ان کے جان و مال اور جائداد کے متعلق امان دی کہ ان کے مذہب سے بالکل تعرض نہ ہوگا اورنہ مذہب بدلنے پر مجبور کئے جائیں گے اوران میں ہر بالغ شخص جب تک سالانہ جزیہ ادا کرے گا، مسافروں کو راستہ بتائے گا راستوں کو درست رکھے گا،اسلامی لشکر کی جو یہاں ٹھہرے گا ایک شبانہ روز ضیافت کرے گا اورسلطنت کا خیر خواہ رہے گا ان صورتوں میں ان کی جان و مال اورزمین محفوظ رہے گی اوراگر انہوں نے اس عہد میں خیانت کی اوران کی روش میں تغیر واقع ہوا تو پھر مسلمان بری الذمہ ہیں۔ یہ عہدنامہ محرم ۱۹ھ میں لکھا گیا اوراس پر قعقاع نعیم بن مقرن سوید بن مقرن کی گواہی ثبت کی گئی،(طبری:۵/۲۶۳۳) آج مہذب ممالک میں اپنے دشمنوں کے ساتھ جو عہد نامے کئے جاتے ہیں ان کا اس عہد نامہ سے مقابلہ کرو، کیا اس عفوو ترحم اور اس درگذر وحلم درواداری کے باوجود بھی مسلمان متعصب ظالم جابر اور سخت گیر کے القاب کے سزا وار ہوسکتے ہیں۔ نہاوند فتح کرنے کے بعد حضرت حذیفہؓ اپنے سابق عہدہ یعنی بندوبست کی افسری پر واپس آگئے۔ (طبری:۵/۲۶۳۸) ۲۲ھ میں حسب روایت بلاذری حملہ آذر بائیجان میں فوج کا علم ملا چنانچہ نہاوند سے چل کر اردبیل پہونچے جو آذر بائیجان کا دارالسلطنت تھا یہاں کے رائیس نے ماجرد ان میمند سراۃ،سبز، میانج وغیرہ سے ایک لشکر فراہم کرکے مقابلہ کیا اور شکست کھائی،پھر ۸ لاکھ درہم سالانہ پر صلح ہوئی، حضرت حذیفہؓ وہاں سے موقان اورجیلانی کی طرف بڑھے اور فتح حاصل کی اسی اثناء میں دربارِ خلافت سے ان کی معزولی کا فرمان پہونچا اورعتبہ بن فرقد ان کی جگہ پر مقرر ہوئے۔ (یہ تفصیل بلاذری میں ہے،طبری میں حملہ آذر بائیجان اور۸ لاکھ درہم پر صلح کرنے کا ایک موقع پر ضمناً ذکر آیا ہے،طبری:۵/۲۸۰۶) اس کے بعد غالباً مدائن کے والی بنائے گئے،حضرت عمرؓ کا قاعدہ تھا کہ عاملوں کے فرمان تقری میں اپنے احکام اور ان کے فرائض درج کرتے تھے ،لیکن حضرت حذیفہؓ کے نام جو فرمان تھا اس میں صرف یہ لکھا کہ تم لوگ ان کی اطاعت کرنا اورجو طلب کریں دے دینا، حضرت حذیفہؓ مدائن پہونچے تو معززین شہر نے استقبال کیا اورجب فرمانِ امارت پڑھا تو ہر طرف سے صدا بلند ہوئی کہ جو مانگنا ہو مانگئے ہم لوگ ہر طرح حاضر ہیں،حضرت حذیفہؓ نے کہا آنحضرتﷺ اورخلفائے راشدین کے قدم بقدم چلتے تھے فرمایا کہ مجھے صرف اپنے پیٹ کا کھانا اور گدھے کے چارہ کی ضرورت ہے ،جب تک یہاں رہوں گا تم سے اسی کا طلب گارہوں ،کچھ زمانہ کے بعد حضرت عمرؓ نے دارالخلافت میں طلب فرمایا اورخود راستہ میں کسی مقام پر چھپ رہے زمانہ کے بعد حضرت عمرؓ نے دارلخلافت میں طلب فرمایا اورخود راستہ میں کسی مقام پر چھپ رہے ،حذیفہؓ اپنی اس قدیم شان سے نکلے تو حضرت عمرؓ سامنے آکر لپٹ گئے اور فرمایا تم میرے بھائی ہو اورمیں تمہارا بھائی ہوں (اسد الغابہ:۱/۳۹۲) اس کے بعد اسی عہدہ پر قائم رکھا۔ حضرت عثمانؓ کے عہد خلافت میں حضرت علیؓ کے ابتدائے زمانہ خلافت تک اسی منصب پر فائز رہے (اصابہ:۱/۳۳۲) ۳۰ ھ عہد حضرت عثمانؓ میں،سعید بن عاص کے ہمراہ کوفہ سے غزوۂ خراسان کے لئے نکلے، طمیسہ نام ایک بندرگاہ پر لڑائی ہوئی، یہاں سعید بن عاص نے صلوٰۃ الخوف پڑھائی تو ان سے پوچھا کہ اس کا طریقہ کیا ہے (مسند:۵/۳۸۵،وطبری:۵۳۸۳۶،۳۷)فتح حاصل کرکے رے کی مہم پر روانہ ہوئے ،پھر وہاں سے سلمان بن ربیعہ اورحبیب بن مسلمہ کے ہمراہ آرمینیہ کا رخ کیا اس وقت وہ کوفہ کی تمام فوج کے افسر اعلیٰ تھے ۔ (ایضاً:۲۸۹۲) ۳۱ھ میں خاقان خزر سے ایک عظیم جنگ پیش آئی جس میں سلمان اور ۴ ہزار مسلمانوں نے شہادت حاصل کی،حضرت حذیفہؓ سلمان کے بجائے لشکر کے امیر ہوئے (یعقوبی:۲/۱۹۴) لیکن پھر دوسری مہم میں چلے گئے اور مغیرہؓ بن شعبہ کا ان کی جگہ پر تقرر ہوا۔ حضرت حذیفہؓ نے باب پر تین (طبری:۲۸۹۴) مرتبہ حملہ کیا، تیسرا حملہ ۳۴ھ میں ہوا تھا (ایضاً:۲۹۳۶) یہ حضرت عثمانؓ کا اخیر عہدِ خلافت تھا،غزوہ ختم کر کے مدائن آئے اور زمام حکومت ہاتھ میں لی۔ وفات یہاں پونچ کر حضرت عثمانؓ کی شہادت کا واقعہ (طبقات:۶/۸) سنا اوراس کے ۴۰ روز کے بعد خود بھی وفات پائی، یہ ۳۶ھ کا واقعہ ہے۔ وفات سے پہلے ان کی عجیب کیفیت تھی،نہایت سراسیمہ خوف زدہ اورشدید گریہ وبکا میں مصروف تھے لوگوں نے رونے کا سبب پوچھا تو بولے کہ دنیا چھوڑنے کا غم نہیں موت مجھکو محبوب ہے لیکن اس لئے رو رہا ہوں کہ معلوم نہیں کہ وہاں کیا پیش آئے گا اور میرا حشر کیا ہوگا جس وقت انہوں نے آخری سانس لی تو فرمایا خدایا اپنی ملاقات میرے لئے مبارک کرنا کیونکہ تو جانتا ہے کہ تجھے میں نہایت محبوب رکھتا ہوں۔ (اسد الغابہ:۱/۲۹۲) جنازہ کے ساتھ کثیر مجمع تھا،ایک شخص نے اشارہ کرکے کہا کہ میں نے ان سے سنا تھا کہ آنحضرتﷺ نے جو کچھ فرمایا ہے کہ اس کے بیان کرنے میں ہم کو کوئی مضائقہ نہیں اور اگر تم لوگ آمادۂ قتال ہو تو میں اپنے گھر بیٹھ رہونگا، اس پر بھی کوئی وہاں پہونچے گا تو کہوں گا کہ آ اور میرے اور اپنے گناہ اپنے سر لے۔ (مسند:۵/۳۸۹) وفات کے وقت اپنے دو بیٹوں کو وصیت کی کہ علیؓ سے بیعت کرنا چنانچہ ان دونوں نے حضرت علیؓ سے بیعت کی اور صفین میں قتل ہوئے (استیعاب:۱/۱۰۵)حضرت حذیفہؓ نے خود بھی حضرت علیؓ سے بیعت کی تھی۔ اولاد حسب ذیل اولاد چھوڑی، ابو عبیدہؓ، بلالؓ، صفوان سعید، صاحبِ طبقات کے زمانہ میں ان کی اولاد مدائن میں موجود تھی (طبقات :۶/)بیویاں غالباً دو تھیں۔ حلیہ صورت سے حجازی معلوم ہوتے تھے،حلیہ یہ تھا ،قد متوسط، بدن اکہرا، آگے کے دانت خوبصورت (مسند :۵/۴۰۰،۴۰۳)نظر اس قدر تیز تھی کہ صبح کے اندھیرے میں تیر کا نشانہ دیکھ لیتے تھے۔ فضل وکمال حضرت حذیفہؓ علمائے کبار میں تھے فقہ وحدیث کے علاوہ اسلام پر قیامت تک جو انقلابات ہونے والے ہیں ان کے بہت بڑے عالم تھے ،منافقین اسلام کے متعلق جو واقفیت تھی اس کے لحاظ سے وہ آنحضرتﷺ کے محرم راز تسلیم کئے جاتے تھے۔ ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے پاس بیٹھے تھے اور لوگ بھی تھے دجال کا ذکر آیا تو فرمایا کہ میں اس کے متعلق ان سے زیادہ معلومات رکھتا ہوں۔ (مسلم:۲/۵۱۴) آنحضرتﷺ نے ایک دن ایک خطبہ میں قیامت تک کے تمام واقعات صحابہؓ کے سامنے بیان فرمائے تھے حضرت حذیفہؓ کو وہ خطبہ یاد تھا، بعض باتیں فراموش ہوگئی تھیں لیکن جب کوئی واقعہ پیش آتا تو یاد آجاتی تھیں،بعینہ اس طرح کہ آدمی کس شخص کو ایک مرتبہ دیکھتا ہے اور پھر اس کو بھول جاتا ہے لیکن پھر جب کبھی سامنا ہوتا ہے تو اس کی پہلی صورت آنکھوں میں پھر جاتی ہے۔ (مسلم:۵/۴۹) ان کا خود بیان ہے کہ آنحضرتﷺ نے انہیں تمام واقعات کی خبر دے دی تھی صرف ایک بات باقی رہ گئی تھی،اوروہ یہ کہ مدینہ والوں کے مدینہ سے نکلنے کا سبب کیا ہوگا۔ (مسلم:۵/۴۹) صحابہؓ عام طور پر آنحضرتﷺ سے فضائل اعمال نماز روزہ اوراسی قسم کی باتیں دریافت کرتے تھے لیکن حضرت حذیفہؓ یہ نہیں پوچھتے تھے ان کا قول ہے کہ کنت اسالہ عن الشربخافۃ ان یدرکنی (بخاری:۲/۱۰۴۹) میں آنحضرتﷺ سے برائیاں پوچھتا تھا کہ ان میں مبتلا نہ ہوجاؤں۔ صحابہؓ میں ان کا لقب "محرم راز نبوت" تھا حضرت ابو درداء کہتے تھے۔ الیس فیکم صاحب السر کیا تم میں اسرء کا سب سے بڑا عالم موجود نہیں ایک مرتبہ حضرت عمرؓ کے پاس بہت سے صحابہؓ جمع تھے، حضرت عمرؓ نے فرمایا ،فتنہ کے متعلق کسی کو کچھ معلوم ہے،حضرت حذیفہؓ نے کہا ،مال ودولت ،اہل و عیال اورہمسایہ کے متعلق آدمی سے جو کچھ سرزد ہوتا ہے،اس کا نماز، صدقہ،امر بالمعروف اورنہی عن المنکر سے کفارہ ہوجاتا ہے حضرت عمرؓ نے کہا پوچھنے کا یہ مقصد نہیں، وہ فتنے بتاؤ جو سمندر کی طرح جوش ماریں گے، حذیفہؓ نے جواب دیا کہ "آپ کے اور ان کے درمیان ایک دروازہ حائل ہے اس لئے آپ کو تردد کی ضرورت نہیں فرمایا دروازہ کھولا جائے گا یا توڑا جائیگا ؟فرمایا تو پھر کبھی بند نہ ہوگا کہا جی ہاں۔ حضرت حذیفہؓ نے جب ایک مجلس میں یہ حدیث میں یہ حدیث بیان کی تو وہاں شقیق بھی تھے انہوں نے کہا کہ کیا عمرؓ کو دروازہ کی خبر تھی؟ فرمایا ہاں جس طرح تم یہ جانتے ہو کہ دن کے بعد رات ہوتی ہے لوگوں نے پوچھا تو دروازہ سے کیا مراد ہے؟ فرمایا خود عمرؓ۔ (بخاری:۳/۱۰۵۱) حضرت حذیفہؓ سے اس قسم کی بہت سی روایتیں ثابت ہیں اور اس قسم کے اسرار ان کو بہت معلوم تھے جو زیادہ تر اسلام کی سیاست سے تعلق رکھتے تھے،صحابہؓ میں حضرت حذیفہؓ کے علاوہ اوربھی ماہرین اسرار تھے جن کا وجود ہم کو حضرت حذیفہؓ ہی کے ذریعہ سے معلوم ہوا ہے صحیح مسلم میں ان سے روایت ہے کہ میں اس وقت سے قیامت تک کے تمام فتنوں کو جانتا ہون لیکن اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ میرے سوا اورکسی کو ان باتوں کی خبر نہ تھی،آنحضرتﷺ نے ہم کو ایک مجلس میں ایک دن یہ باتیں بتلائی تھیں اورچھوٹے بڑے تمام واقعات کی خبر دی تھی چنانچہ ان میں سے میرے سوا اب کوئی باقی نہیں حضرت حذیفہؓ اپنے علم سے وقتا فوقتا کام لیتے اور مسلمانوں کو ان کے مستقبل کی نسبت مطلع کرتے رہتے تھے،ایک مرتبہ عامر بن حنظلہ کے گھر میں خطبہ دیا تو فرمایا۔ إِنَّ هَذَا الْحَيَّ مِنْ مُضَرَ لَا تَدَعُ لِلَّهِ فِي الْأَرْضِ عَبْدًا صَالِحًا إِلَّا فَتَنَتْهُ وَأَهْلَكَتْهُ حَتَّى يُدْرِكَهَا اللَّهُ بِجُنُودٍ مِنْ عِبَادِهِ فَيُذِلَّهَا حَتَّى لَا تَمْنَعَ ذَنَبَ تَلْعَةٍ (مسند احمد،باب حدیث حذیفۃ بن الیمان عن النبی،حدیث نمبر:۲۲۲۲۷) قریش ایک زمانہ میں دنیا کے کسی نیک بندہ کونہ چھوڑیں گے اوراس کو فتنہ سے آلودہ کرکے ہلاک کریں گے اس وقت خداان کو اپنے بندوں کی ایک فوج سے بالکل پامال کردے گا۔ لوگوں نے کہا آپ کیا کہتے ہیں آپ خود بھی تو قریشی ہیں فرمایا اس کو کیا کروں میں نے آنحضرتﷺ سے اسی طرح سنا ہے۔ (مسند:۵/۳۹۰،۳۹۵،۴۰۴) ایک مرتبہ فرمایا کہ آنحضرتﷺ نے ہم سے دو باتیں بیان کی تھیں جن میں ایک کو میں دیکھ چکا دوسری کا انتظار ہے اس کے بعد خود کہتے ہیں کہ مجھ پر ایک وقت تھا کہ جس امیر سے بیعت کرتا اس کی نسبت مجھ کو کچھ تردد نہ ہوتا تھا، اگر وہ مسلمان ہوتا تو اسلام کے ذریعہ اورنصرانی ہوتا تو مسلمان عمال کے ذریعہ سے ہم پر حکومت کرتا تےھا، لیکن اب میں بیعت میں تامل کرتا ہوں میری نگاہ میں اس کے اہل صرف چند اشخاص ہیں میں انہی کے ہاتھ پر بیعت کرسکوں گا۔ (بخاری:۲/۱۰۴۹،۱۰۵۰) حضرت حذیفہؓ نے اسلام کے مستقبل کی نسبت ایک پیشینگوئی فرمائی ہے جو آج ہماری حالت پر بالکل صادق آتی ہے اور وہ یہ ہے۔ لا تقوم الساعۃ حتی یسود کل قبیلتھا افقوھا (استیعاب:۱/۱۰۶) قیامت اس وقت آئے گی جب قبیلوں کے سردار منافق ہوجائیں گے۔ حضرت حذیفہؓ سے بہت سی حدیثیں مروی ہیں جن کو صاحب خلاصہ نے سو سے اوپر شمار کیا ہے یہ ذخیرہ حضرت حذیفہؓ نے آنحضرتﷺ اورحضرت عمرؓ سے فراہم کیا تھا۔ ان کے راویان حدیث میں متعدد صحابہ ہیں جن کے نام نامی یہ ہیں،جابرؓ،جندب بن عبداللہ بجلی، عبداللہ بن یزید خطمیؓ، ابوالفطیلؓ ،تابعین میں کثیر جماعت ہے ،بعض کے نام یہ ہیں قیس بن ابی حازم ابو وائل ،زید بن وہب، ربعی بن خراش ،زربن حبیش،ابوظبیان حصین بن جندب، صلہ بن زفر، ابو ادریس خولانی ، عبداللہ بن عکیم، اسود بن یزید نخعی، عبد الرحمن بن یزید،عبدالرحمن بن ابی لیلی حمام بن الحارث ،یزید بن شریک الیتمی۔ مہماتِ سلطنت کی وجہ سے اگرچہ بہت کم فرصت رہتی تھی تاہم جب کبھی فرصت ملتی تو حدیث کا درس دیتے تھے کوفہ کی مسجد میں حلقہ قائم ہوتا اورحضرت حذیفہؓ حدیث بیان فرماتے۔ (مسند:۵/۴۰۳) شاگردان کا نہایت ادب کرتے تھے اوران سے ڈرتے تھے بشکری ایک مرتبہ مسجد میں آئے تو دیکھا کہ تمام مجمع خاموش اورایک شخص کی طرف ہمہ تن متوجہ ہے ان کے الفاظ یہ ہیں۔ کانما قطعت رؤسھم (مسند:۵/۳۸۶) گویا مجمع کے سرکاٹ لئے گئے ہیں۔ شاگردوں کے خوف کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ جب انہوں نے حضرت عمرؓ سے متعلق فتنہ والی حدیث بیان کی تو باوجود اس کے کہ پوری حدیث رموز واشارات کا مجموعہ تھی کسی کو پوچھنے کی ہمت نہ پڑی چنانچہ انہوں نے مسروق کی جو عبداللہ بن مسعودؓ کے ارشد تلامذہ میں تھے (بخاری:۲/۱۰۵۱) اس کے پوچھنے پر آمادہ کیا اورنہوں نےپوچھا۔ ایک مرتبہ حضرت حذیفہؓ معراج کی حدیث بیان کررہے تھے کہ زر بن جیش آئے حضرت حذیفہؓ نے کہا کہ آنحضرتﷺ بیت المقدس میں داخل نہیں ہوئے زربولے آنحضرتﷺ اندر گئے تھے اور نماز پڑھی تھی،فرمایا گنجے تیرا کیا نام ہے میں تجھے پہچانتا ہوں لیکن نام نہیں جانتا انہوں نے نام بتایا تو فرمایا کہ تمہیں یہ کیونکر معلوم ہوا کہ آنحضرتﷺ نے نماز پڑھی تھی کہا قرآن سے فرمایا آیت پیش کرو، انہوں نے وہ آیت پڑھی جس میں معراج کا تذکرہ ،سبحن الذی اسری بعیدہ (وہ پاک ذات ہے جو اپنے بندہ کو شب کے وقت لے گیا) حضرت حذیفہؓ نے کہا اس میں نماز کا کہا تذکرہ ہے زر نے لاجواب ہوکر اپنی غلطی کا اعتراف کیا۔ (مسند:۵/۳۸۷) روایت حدیث میں سخت محتاط تھے، عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں۔ وانا ان سالناہ لمہ یحدثنا (مسند:۵/۳۹۷) ہم ان سے حدیث کی خواہش کرتے تو نہ بیان کرتے اسی وجہ سے لوگ موقع کے منتظر رہتے تھے،جب کوئی واقعہ پیش آتا اور وہ حدیث بیان کرتے تو تمام مجمع کو نہایت اہتمام سے خاموش کیا جاتا تھا،دہقان کے واقعہ میں جب حدیث بیان کی تو لوگوں نے کہا :اسکتوا اسکتوو (ایضاً:۳۹۷) تم ہی بیان کرو اخلاق وعادات زہد کا یہ عالم تھا کہ مدائن کے زمانۂ امارت میں بھی طرز معاشرت میں کوئی تعیر نہ پیدا ہوا ،عجم کی آب و ہوا میں رہنے اور منصب امارت پر فائز ہونے کے باوجود کوئی سازوسامان نہیں رکھتے تھے،سواری کے لئے ہمیشہ گدھا استعمال کرتے تھے ،استغنا کا یہ عالم تھا کہ قوت لایموت سے زیادہ اپنے پاس کچھ نہیں رکھتے تھے،ایک مرتبہ حضرت عمرؓ نے کچھ مال بھیجا تو سب اٹھا کر تقسیم کردیا۔ (اسد الغابہ:۱/۳۹۲) اس استغنا کے ساتھ عبادت اورذکر الہی میں جو انہماک تھا اس کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ ایک مرتبہ آنحضرتﷺ کے ساتھ تمام رات نماز پڑہتے رہ گئے اور اف تک نہ کی صبح کے وقت جب حضرت بلالؓ نے اذان پکاری تو اس وقت تک ان بزرگوں کی صرف دورکعتیں ہوئی تھیں۔ (مسند:۵/۴) امر بالمعروف کا یہ حال تھا کہ حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ نے کہ نہایت جلیل القدر صحابی تھے یت احتیاط کی بناء پر شیشی میں پیشاب کرنا شروع کیا کہ چھینٹ نہ پڑنے پائے ان کو معلوم ہوا تو کہا کہ یہ شدت ٹھیک نہیں،آنحضرتﷺ نے ایک مرتبہ ایک گھوڑے پر کھڑے ہوکر پیشاب کیا تھا میں آپ کے ساتھ تھا ہٹنا چاہا تو ارشاد کہ قریب رہو چنانچہ بالکل پشت کے قریب ہی کھڑا رہا۔ (ایضا:۵/۳۸۲) ایک مرتبہ کچھ لوگ بیٹھے باتیں کررہے تھے ،حذیفہؓ آئے اور فرمایا کہ یہ باتیں آنحضرتﷺ کے زمانہ میں نفاق میں شمار کی جاتی تھیں۔ (ایضاً:۳۸۴) ایک شخص مسجد میں نہایت عجلت سے نماز پڑھ رہا تھا حضرت حذیفہؓ آئے تو فرمایا تم کتنے زمانہ سے اس طرح نماز پڑہتے ہو؟ بولا ۴۰ برس سے فرمایا تمہاری ۴۰ سال کی نماز بالکل رائیگاں گئی اوراگر اس طرح نماز پڑہتے ہوئے تم مرگئے تو دین محمدی پر نہ مروگے اس کے بعد اس کو نماز کا طریقہ بتلایا اورکہا چھوٹی رکعت پڑھو، لیکن رکوع وسجود میں اعتدال کا خیال رکھو۔ (مسند:۳۸۴) حضرت عثمانؓ کے ایام محاصرہ میں ربیع زیارت کے لئے مدائن آئے تو پوچھا کہ عثمانؓ پر خروج کن لوگوں نے کیا ہے ربیع نے نام گنائے تو فرمایا کہ میں نے آنحضرتﷺ سے سنا ہے کہ جس نے جماعت کو چھوڑا اور امارت کو ذلیل کیا وہ خدا کے نزدیک بالکل بے وقعت ہے۔ (مسند:۳۸۷) ایک شخص مجلس کے وسط میں بیٹھا تو فرمایا آنحضرتﷺ نے ایسے شخص پر لعنت کی ہے ۔ (مسند:۴۹۸) عرب میں وفات کی خبر نہایت اہتمام سے مشتہر کی جاتی تھی،آنحضرتﷺ نے اس کی ممانعت فرمائی ہے حضرت حذیفہؓ اس پر اس شدت سے عامل تھے، کہ جب کوئی مرتا تو اس کی خبر تک نہ کراتے کہ شائد اس میں بھی وہ صورت پیدا ہوجائے۔ (مسند:۴۷۶) راست بازی خاص شعار تھی ان کے ایک شاگرد ربعی حدیث روایت کرتے تو کہتے۔ حدثنی من لم یکذبنی مجھ سے اس نے حدیث بیان کی جو مجھ سے جھوٹ نہ بولتا تھا لوگ سمجھ جاتے کہ حذیفہؓ مراد ہیں۔ (مسند:۳۸۵،۴۰۱) ایک شخص حضرت عثمانؓ کو ان کی باتیں پہنچاتا تھا سامنے سے نکلا تو لوگوں نے کہا کہ یہ امراء کے پاس تمام خبریں لیجاتا ہے فرمایا ایسا شخص لعنت میں نہیں جاسکتا۔ (مسند:۳۸۹) ایک مرتبہ لوگوں نے کہا کہ آنحضرتﷺ کے کسی ایسے صحابی کو بتلائیے جو آپ سے رفتار وگفتار ومذہب غرض ہر چیز میں مشابہ ہو ،فرمایا ایسے شخص ابن مسعودؓ ہیں ،لیکن جب تک گھر کے باہر رہتے ہیں باقی گھر میں کیا کرتے ہیں اس کی مجھ کو اطلاع نہیں۔ (مسند:۲۸۹،۳۹۴) عفو ودرگذر جس پیمانہ پر موجود تھا وہ بجائے خود ایک معجزہ ہے ان کے والد کو مسلمانون نے غلطی سے قتل کردیا انہوں نے غصہ کرنے اوران سے انتقام لینے کے بجائے ان کے لئے مغفرت کی دعا کی عروہ بن زبیرؓ کا بیان ہے کہ عفو ودرگذر کی صفت حضرت حذیفہؓ میں اخیر وقت تک موجود تھی۔ (بخاری:۲/۵۸۱) اطاعت رسول اللہﷺ کا حال غزوۂ خندق کے سلسلہ میں آپ پڑھ چکے ہیں کہ صحابہؓ میں ایک شخص بھی مشرکین کے لشکر میں جانے کی ہمت نہ کرتا تھا لیکن حضرت حذیفہؓ گئے اورآنحضرتﷺ سے جنت کی بشارت حاصل کی۔ ایک مرتبہ راستہ میں آنحضرتﷺ سے ملاقات ہوئی اورآپ ان کی طرف بڑھے تو بولے میں جنبی ہوں ،فرمایا مومن نجس نہیں ہوسکتا۔ (مسند:۳۸۴) آنحضرتﷺ کے ساتھ کھانا کھانے کی سعادت حاصل ہوتی تو پہلے خود نہ شروع کرتے بلکہ آنحضرتﷺ ابتدا فرماتے تھے۔ (ایضاً:۳۸۳) رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں تقرب وخصوصیت کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ آنحضرتﷺ نے ان کے سینہ سے ٹیک لگائی ،(ایضاً:۳۹۱) ایک مرتبہ ازار کی حد بتائی تو ان کی پنڈلی دست مقدس سے پکڑی(ایضاً:۳۸۲) غزوہ خندق کی رات کو مشرکین کی خبر لائے تو اپنا کمبل اڑھایا، اوراپنی سواری پر بٹھایا (ایضاً:۳۹۳)ایک رات اپنے حجرہ میں رکھا ان کا بیان ہے کہ آنحضرتﷺ نماز کے لئے اٹھے تو لحاف کا ایک کنارہ خود اوڑھے تھے اوردوسرا حضرت عائشہؓ پر پڑا تھا اور وہ نسوانی مجبوری کی وجہ سے نماز کو نہ اٹھ سکیں۔ (ایضاً:۴۰۰) آنحضرتﷺ کی خدمت میں آتے تو بسا اوقات ظہر،عصر ،مغرب، عشا کی نماز میں آپ کے ساتھ پڑہتے اوراتنے عرصہ تک شرف صحبت سے مشرف رہتے۔ (ایضاً:۳۹۲) آنحضرتﷺ کی خدمت کرتے اورطہارت کے لئے پانی دیتے تھے (مسند :۳۹۱،وترمذی:۶۲۵) ایک روز ان کی والدہ نے کہا کہ تم آنحضرتﷺ کی خدمت میں کب سے نہیں گئے اُنہوں نے مدت بیان کی تو بہت خفا ہوئیں اورسخت سست کہا بولے اچھا چھوڑئیے جاتا ہوں اور مغرب کی نماز آنحضرتﷺ کے ساتھ پڑہتا ہوں اوراپنے اورآپ کے لئے استغفار کراتا ہوں ؛چنانچہ خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اورنماز پڑھ کر آپ کےپیچھے ہولئے آپ نے مڑ کر دیکھا تو یہ نظر آئے پوچھا کون حذیفہ!فرمایا :غفراللہ لک ولامک خدا تجھے اور تیری ماں دونوں کو بخشے تمام لوگوں سے اچھی طرح ملتے لیکن بیوی سے سخت گفتگو کرتے اس کا احساس ہوا تو آنحضرتﷺ سے عرض کی ارشاد ہوا کہ تم استغفار کیا کرو۔ (مسند:۵/۳۹۴) غصہ کم آتا تھالیکن جب احکام شرع پامال ہوتے دیکھتے تو ان کے غیظ وغضب کی کوئی انتہا نہ رہتی تھی،مدائن میں کسی جگہ پانی مانگا ، ایک رئیس نے چاندی کے برتن میں لاکر پیش کیا، تو انہوں نے جھنجھلا کر پیالہ اس پر کھینچ مارا اورفرمایا کیا میں نے تم کو تنبیہ نہیں کردی تھی کہ رسول اللہ ﷺ نے سونے چاندی کے برتنوں کے استعمال کی ممانعت کی ہے۔ (مسند:۳۹۶) بعض وکینہ دیر تک قائم نہ رکھتے جن لوگوں سے شکر رنجی ہوجاتی تھی ان سے جلد صاف ہوجاتے تھے اصحاب عقبہ میں سے ایک صاحب سے کسی معاملہ میں بگاڑ ہوگیا تھا اوربول چال ترک ہوگئی تھیں لیکن حضرت حذیفہؓ نے خود ہی چھیڑ کر گفتگو کی اور بالآخر ان کو بھی اپنا طرز عمل بدلنا پڑا۔ (مسند:۵/۳۹۰) استغنا کے واقعات اوپر مذکور ہوچکے ہیں طبعا بڑے فیاض اورسیر چشم تھے کوئی کھانے کے وقت پہونچ جاتا تو ا س کو اپنے ساتھ شریک کرلیتے ۔ (مسند:۳۹۶) مذکورۂ بالامحاسن ومکارم کی بناء پر حضرت عمرؓ ان کا بڑا احترام کرتے تھے جس جنازہ پروہ نماز پڑہتے خود بھی پڑہتے اورجس پر وہ نماز نہ پڑہتے حضرت عمرؓ بھی نہ پڑہتے تھے۔ (اسد الغابہ:۱/۳۹۱) ایک مرتبہ حضرت عمرؓ نے صحابہؓ سے فرمایا کہ اپنی اپنی تمنا میں پیش کیجئے سب نے کہا کہ زر وجواہر سے بھرا ہوا ایک گھر ملتا اوراس کو خدا کی راہ میں خرچ کردیتے حضرت عمرؓ نے کہا میری تمنا تو یہ ہے کہ مجھ کو ابو عبیدہؓ، معاذ بنؓ یمان جیسے لوگ ملیں اور ان کو سلطنت کے عہدے تفویض کروں۔ (اسدالغابہ:۳۹۲)