انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** طرزِ معاشرت غربت وافلاس ابتدائے اسلام میں صحابیات رضی اللہ عنھن نہایت فقروفاقہ اور غربت وافلاس کے ساتھ زندگی بسر کرتی تھیں جس کا اثر ان کے لباس، مکان، اثاث البیت اور سامانِ آرائش غرض ہرچیز سے ظاہو ہوتا تھا۔ لباس صحابیات رضی اللہ عنھن کوکپڑوں کی نہایت تکلیف تھی، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا جگرگوشۂ رسول کی چادر اس قدر چھوٹی تھی کہ ایک بار انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ادب وحیا سے جسم کے ہرحصہ کوچھپانا چاہا؛ لیکن ناکامیاب ہوئی، سرڈھکتی تھیں توپاؤں کھل جاتے تھے، پاؤں ڈھکتی تھیں توسرکھل جاتا تھا۔ (ابوداؤد،كِتَاب اللِّبَاسِ، بَاب فِي الْعَبْدِ يَنْظُرُ إِلَى شَعْرِ مَوْلَاتِهِ) بعض صحابیات رضی اللہ عنھن کوتوچادر بھی میسر نہ تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابیات رضی اللہ عنھن کوعیدگاہ میں جانے کی اجازت دی توایک صحابیہ نے کہا کہ اگرکسی عورت کے پاس چادر نہ ہوتووہ کیا کرے؟ ارشاد ہوا کہ اس کودوسری عورت اپنی چادر اڑھالے۔ (سنن ابن ماجہ، كِتَاب إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةِ فِيهَا،بَاب مَاجَاءَ فِي خُرُوجِ النِّسَاءِ فِي الْعِيدَيْنِ) شادی بیاہ میں دلہن کے لیے غریب سے غریب آدمی بھی اچھا جوڑا بنواتا ہے؛ لیکن صحابیات رضی اللہ عنھن کومعمولی جوڑا بھی میسر نہ تھا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ میرے پاس گاڑھے کی ایک کرتی تھی، شادی بیاہ میں جب کوئی عورت سنواری جاتی تھی تووہ مجھ سے اس کومستعار منگوالیتی تھی۔ (بخاری،كِتَاب الْهِبَةِ وَفَضْلِهَا وَالتَّحْرِيضِ عَلَيْهَا، بَاب الِاسْتِعَارَةِ لِلْعَرُوسِ عِنْدَ الْبِنَاءِ) مکان غربت وافلاس کی وجہ سے صحابیات کے مکان نہایت مختصر، پست اور کم حیثیت ہوتے تھے، گھروں میں جائے ضرورت تک نہ تھی۔ (بخاری، بَاب حَدِيثِ الْإِفْكِ وَالْأَفَكِ بِمَنْزِلَةِ النِّجْسِ وَالنَّجَسِ يُقَالُ ﴿ إِفْكُهُمْ﴾ ) اس لیے راتوں کوصحرا میں جانا پڑتا تھا دروازوں پرپردے نہ تھے (ابوداؤد، كِتَاب الْأَدَبِ،بَاب الِاسْتِئْذَانِ فِي الْعَوْرَاتِ الثَّلَاثِ) راتوں کوجلانے کے لیے چراغ تک میسر نہ تھا۔ (صحیح بخاری) اثاث البیت(گھرکاسامان) صحابیات رضی اللہ عنھن کے گھروں میں نہایت مختصر سامان ہوتے تھے؛ یہاں تک کہ میاں بی بی دونوں کے لیے صرف ایک بچھونا ہوتا تھا (ابوداؤد، كِتَاب الطَّهَارَةِ،بَاب فِي الرَّجُلِ يُصِيبُ مِنْهَا مَادُونَ الْجِمَاعِ) اور وہ بھی کھجور کی پتوں سے بنایا جاتا تھا۔ زیورات صحابیات رضی اللہ عنھن نہاتی معمولی اور سادہ زیور استعمال کرتی تھیں احادیث کی کتابوں کے تتبع واستقراء سے بازوبند، کڑے، بالی، ہار، انگوٹھی اور چھلے کا پتہ چلتا ہے، لونگ کا ہار بھی پہنتی تھیں جن کوعربی میں سخاب کہتے ہیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ایک ہار جوسفر میں گم ہوگیا تھا وہ مہرۂ یمانی کا تھا۔ (ابوداؤد، كِتَاب الطَّهَارَةِ،بَاب التَّيَمُّمِ) سامانِ آرائش صحابیات رضی اللہ عنھن سرمہ اور مہندی کا استعمال بھی کرتی تھیں، زچہ خانہ سے نکلتی تھیں تومنہ پرورس (ایک قسم کی سرخ گھانس کا نام ہے) کا غازہ ملتی تھیں کہ چہرہ سے داغ دھبے مٹ جائیں (ابوداؤد، كِتَاب الطَّهَارَةِ،بَاب مَاجَاءَ فِي وَقْتِ النُّفَسَاءِ) خوشبو میں زعفران عطر اور سک کا استعمال کرتی تھیں، سک ایک قسم کی خوشبو ہے جوماتھے پرلگائی جاتی ہے۔ اپنا کام خود کرنا صحابیات خانہ داری کے کاموں کوخود اپنے ہاتھ سے انجام دیتی تھیں اور اس میں سخت سے سخت تکلیفیں برداشت کرتی تھیں، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب ترین صاحبزادی تھیں؛ لیکن چکی پیستے پیسے ہاتھوں میں چھالے پڑگئے تھے، مشکیزے میں پانی لاتے لاتے سینہ داغدار ہوگیا تھا، جھاڑو دیتے دیتے کپڑے چیکٹ ہوگئے تھے۔ (ابوداؤد، كِتَاب الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَيْءِ،بَاب فِي بَيَانِ مَوَاضِعِ قَسْمِ الْخُمُسِ وَسَهْمِ ذِي الْقُرْبَى) ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہا باری باری گھر کا کام خود کرتی تھیں، ایک دن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی باری تھی، جَوپیسے اور اس کی روٹی پکائی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار شروع کیا، آپ کےآنے میں دیر ہوگئی توسوگئیں، آپ آئے توجگایا (اداب المفرد، باب لایوذی جارہ) حضرت اسماء رضی اللہ عنہا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی تھیں اور اُن کی شادی حضرت زبیر رضی اللہ عنہ سے ہوئی تھی وہ اس قدر مفلس تھے کہ ایک گھوڑے کے سوا گھر میں کچھ نہ تھا، حضرت اسماء رضی اللہ عنہا خود باغوں میں جاجاکر گھوڑے کے لیے گھانس لاتی تھیں، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سائیسی کے لیے ایک غلام بھیجا توانہوں نے اس خدمت سے نجات پائی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کوایک قطعہ زمین بطورِ جاگیرکے دیا تھا، جومدینہ سے تین فرسخ دور تھا، حضرت اسماء رضی اللہ عنہاروزوہاں جاتیں اور وہاں سے کھجور کی گٹھلیاں اپنے سرپرلاتیں اور ان کوکوٹ کران کی پانی کھینچنے والی اونٹنی کوکھلاتیں، گھر کے معمولی کاروبار ان کے علاوہ تھے خود پانی لاتیں، مشک پھٹ جاتی تواس کوسیتیں، آٹا گوندھتیں، روٹی پکاتیں (مسلم، كِتَاب الْآدَابِ،بَاب جَوَازِ إِرْدَافِ الْمَرْأَةِ الْأَجْنَبِيَّةِ إِذَا أَعْيَتْ فِي الطَّرِيقِ) گھر کے کام دھندے کے علاوہ صحابیات رضی اللہ عنھن بعض صنعتی کام بھی کرتی تھیں، حضرت سودہ رضی اللہ عنہا طائف کی ادھوڑی بناتی تھیں، جس کی وجہ سے ان کی مالی حالت تمام ازواجِ مطہرات سے بہتر تھی (اسدالغابہ، تذکرہ فلیسہ رضی اللہ عنہا) بعض صحابیہ رضی اللہ عنھن کپڑے بنتی تھیں۔ (بخاری،کتاب البیوع، باب النساء) پردہ عہد نبوت میں اگرچہ اس زمانہ کا ساسخت پردہ رائج نہ تھا؛ تاہم عورتیں بالکل بے پردہ اور آزاد بھی نہ تھیں، محفہ میں سفرکرتی تھیں (ابوداؤد،كِتَاب الْمَنَاسِكِ، بَاب فِي الصَّبِيِّ يَحُجُّ) نقاب پوش رہتی تھیں (ابوداؤد، كِتَاب الْمَنَاسِكِ، بَاب مَا يَلْبَسُ الْمُحْرِمُ) اور غیرمحرم سے پردہ کرتی تھیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حجۃ الوداع کے زمانہ میں جب لوگ ہمارے سامنے سے گذرتے تھے توہم چہرے پرچادر ڈال لیتے تھے، لوگ گذر جاتے تھے توپھرمنہ کھول دیتے تھے۔ (ابوداؤد، كِتَاب الْمَنَاسِكِ، بَاب فِي الْمُحْرِمَةِ تُغَطِّي وَجْهَهَا) ایک بار حضرت افلح بن ابی القیس رضی اللہ عنہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ملاقات کوآئے وہ پردہ میں چھپ گئیں، بولے تم مجھ سے پردہ کرتی ہو میں توتمہارا چچا ہوں، بولیں کیونکر؟ بولے میرے بھائی کی بی بی نے تم کودودھ پلایا ہے، بولیں مرد نے تودودھ نہیں پلایا۔(اس کے بعد حضرت عائشہؓ نےحضور اکرمﷺ سے یہ واقعہ بیان کیا تو اللہ کے نبیﷺ نے ارشاد فرمایا وہ تمہارےچچا ہیں وہ تمہارے پاس آسکتے ہیں) (ابوداؤد،كِتَاب النِّكَاحِ،بَاب فِي لَبَنِ الْفَحْلِ) ایک صحابیہ رضی اللہ عنہا کا بیٹا شہید ہوا، وہ نقاب پہن کرآپ کی خدمت میں حاضر ہوئیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے ان کودیکھ کرکہا، بیٹے کی شہادت کا حال پوچھنے آئی ہو اور نقاب پوش ہوکر؟ بولیں میں نے اپنے بیٹے کوکھودیا ہے، شرم وحیا کوتونہیں کھویا۔ (ابوداؤد، كِتَاب الْجِهَادِبَاب فَضْلِ قِتَالِ الرُّومِ عَلَى غَيْرِهِمْ مِنْ الْأُمَمِ) ہمارے زمانہ میں پردہ ایک رسمی چیز ہے، مثلاً ایک عورت کسی محرم سے رسماً پردہ کرتی ہے تواس سے لازمی طور پرہمیشہ پردہ کرےگی؛ لیکن دوچار بار کسی نامحرم کے سامنے آنے کا اتفاق ہوگیا تو پھراس کے لیے پردہ کے تمام قیود ٹوٹ جائیں گے؛ لیکن صحابیات رسمی پردے کی پابند نہ تھیں، ان کا پردہ بالکل شرعی تھا؛ اگرشریعت اجازت دیتی تھی تووہ کسی کے سامنے آتی تھیں اور جب شرعی مواقع پیدا ہوجاتے تھے تواس سے پردہ کرنے لگتی تھیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا مذہب ہے کہ غلاموں سے پردہ ضروری نہیں، اس لیے وہ حضرت ابوعبداللہ سالم رضی اللہ عنہ کے سامنے جونہایت دین دار غلام تھے آتی تھیں اور اُن سے بے تکلف باتیں کرتی تھیں، ایک دن وہ آئے اور کہا کہ خدا نے آج مجھے آزاد کردیا؛ چونکہ اب وہ غلام باقی نہیں رہے، اس لیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پردہ گروادیا اور عمربھرپھر ان کے سامنے نہ ہوئیں۔ (نسائی، كِتَاب الطَّهَارَةِ،بَاب مَسْحِ الْمَرْأَةِ رَأْسَهَا)