انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** سمندری جہاد صحیح بخاری میں حضرت ام حرام ؓ سے روایت ہے کہ ایک دن حضورﷺ میرے مکان میں آرام فرمارہے تھے ،یکایک خواب سے ہنستے ہوئے بیدار ہوئے ،میں نے آپﷺ سے ہنسنے کا سبب دریافت کیا،فرمایا کہ میں نے دیکھا کہ میری امت کے لوگ جہاز پر سوار ہوکر جہاد کرتے ہیں ، جیسے بادشاہ اپنے تختوں پر بیٹھے ہوتے ہیں،سو جو لشکر سب سے پہلے دریا کا سفر بغرض جہاد اختیار کرے گا اس پر جنت واجب ہوئی، میں نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ میں ان غازیوں میں شریک ہوں گی؟ آپ نے فرمایا تو ان میں داخل ہے ،پھر آپﷺ نےآرام فرمایا ،پھر ہنستے ہوئے خواب سے بیدار ہوئے ، میں نے ہنسنے کا سبب دریافت کیا، آپﷺ نے فرمایا کہ جو لشکر کہ اول بادشاہ قسطنطنیہ سے لڑے گا اس کے گناہ معاف ہوئے ،میں نے کہا یا رسول اللہ میں بھی ان غازیوںمیں سے ہوں گی، تو آپ ﷺ نے فرمایا تو ان میں سے نہیں تو پہلی قسم کے غازیوں میں سے ہے۔ اس پیشن گوئی میں تین باتوں کا ذکر ہے (۱)سمندر میں جہاد کرنے کا (۲)ام حرام کا شریک ہونے کا (۳)بادشاہ روم کی دارلسلطنت قسطنطنیہ پر جہاد کرنے کا ،پہلی بار حضرت عثمان کی دور خلافت میں ہوئی ،حضرت معاویہ کے اہتمام سے لشکر نے بحر شور کا سفر اختیار کیا اور مسلمان سمندری راہ سے جہاد کرتے کرنے گئے دوسرے یہ کہ ام حرام بھی اس سفر میں شریک سفر رہیں؛ بلکہ اسی سفر میں گھوڑے پر سے گر کر ان کا انتقال ہوا، یہ ام حرام حضرت عبادہ بن صامت کی زوجہ اور مشہور صحابیہ ہیں، تیسرے اسلامی لشکر نے قسطنطنیہ پر جہاد کیا اور یہ تینوں باتیں پوری ہوئیں۔