انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت زید بن اسلم ؒ آپ کا نام زید بن اسلم قرشی ہے کنیت ابواسامہ ہے آپ نے حضرت ابن عمرؓ، ابوھریرہ رضی اللہ عنہ، جابر رضی اللہ عنہ، عائشہ رضی اللہ عنہ اوردیگر صحابہ سے روایتیں نقل کی ہیں،آپ حضرت عمر کے آزاد کردہ غلام تھے، کبار تابعین میں آپ کا شمار ہے، آپ بیک وقت فقیہ بھی ہیں اور مفسر بھی، فقہ اورتفسیر میں آپ کو کمال حاصل تھا،آپ صحاحِ ستہ کے راوی ہیں ،آپ تفسیر بالرائے کے جواز کے قائل تھے اوراس میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے تھے اور یہی بہت سے صحابہ وتابعین کا بھی مسلک ہے (التفسیر والمفسرون:۸۳) حمادبن زید عبید اللہ بن عمر سے بیان کرتے ہیں: ہم زید سے روایت کرنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے بس اتنا ہے کہ وہ قرآن کی اپنی رائے سے تفسیر کرتے ہیں۔ (تہذیب التہذیب:۳۴۲۳) ممکن ہے کہ عبیداللہ بن عمر کا رجحان تفسیر بالرائے سے احتیاط کا ہو جیسا کہ بعض صحابہ وتابعین تفسیر بالرائے سے احتیاط کرتے تھے۔ یعقوب بن ابی شیبہ کہتے ہے زید ثقہ قابل اعتبار ہیں، فقہاء اوراہل علم میں سے ہیں، تفسیر قرآن کے عالم ہیں، آپ کی ایک کتاب ہے جس میں قرآن کریم کی تفسیر ہے۔ (تہذیب الکمال:۱۷۱۰) علماء مدینہ میں آپ سے استفادہ کرنے والوں میں سب سے مشہور آپ کے فرزند عبدالرحمن بن زید اورامام مالک ہیں،آپ کی وفات ۱۳۶ھ میں ہوئی۔ (التفسیر والمفسرون:۸۳) تفسیری اقوال (۱)زید بن اسلمؒ اللہ تعالی کے اس فرمان "مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِي اسْتَوْقَدَ نَارًا"(البقرہ:۱۷) (ترجمہ: ان کا حال اس شخص کی حالت کے مشابہ ہے جس نے کہیں آگ جلائی ہو پھر جب روشن کردیا ہو اس آگ نے اس شخص کے گرد اطراف کی سب جگہوں کو ایسی حالت میں سلب کرلیا ہو اللہ تعالی نے ان کی روشنی کو اورچھوڑدیا ہو ان کو اندھیروں میں کہ کچھ دیکھتے بھالتے نہ ہوں) کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ منافقین کا حال ہے کہ وہ لوگ ایمان لائے ؛حتی کہ ایمان ان کے دلوں میں روشن ہوگیا جیسا کہ آگ ان کے گرد روشن ہوگئی ، جنہوں نے اسے سلگایا تھا پھر ان لوگوں نے کفر کیا تو اللہ تعالی نے ان کے نور کو زائل فرمادیا تو وہ روشنی ان سے چھن گئی جیسے اُس آگ کی روشنی چلی گئی تو ان کو تاریکیوں میں چھوڑدیا کہ وہ دیکھ نہیں سکتے۔ (تفسیر ابن کثیر:۷۶۱) (۲)اللہ تعالی کے اس ارشاد "كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَكُنْتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْيَاكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ" (البقرۃ:۲۸) (ترجمہ:سو کیسے تم اللہ تعالی کی ناشکری کرتے ہو سو تم محض بے جان تھے تم کو اس نے جاندار کیا پھر تم کو موت دیں گے پھرزندہ کریں گے توپھر انہیں کے پاس لے جائے جاؤ گے)کی تفسیر کرتے ہوئے زید بن اسلمؒ فرماتے ہیں، اللہ تعالی نے بنی آدم کو آدمؑ کی پشت سے پیدا فرمایا،پھر ان سے عہدومیثاق لیا پھر ان کو موت دی پھر ان کو ماؤں کے رحموں میں پیدا فرمایاپھر ان کو موت دی پھر ان کو قیامت کے دن زندہ فرمائے گا، اوریہ ایسے ہی ہے جیسے اللہ تعالی کا یہ ارشاد: "قَالُوا رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَأَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ"۔ (غافر:۱۱) ان لوگوں نے کہا اے ہمارے رب آپ نے ہم کو دو مرتبہ موت دی اوردو مرتبہ زندہ فرمایا۔ (تفسیر ابن کثیر:۹۳۱) (۳)اللہ تعالی کے اس ارشاد"وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً وَآتَتْ كُلَّ وَاحِدَةٍ مِنْهُنَّ سِكِّينًا"(یوسف:۳۱)کی تفسیر کرتے ہوئے زید بن اسلمؒ فرماتے ہیں جب وہ عورتیں کھانے سے فارغ ہوگئی اوران کے دل خوش ہوگئے تو ان کے سامنے (میوہ اورپھلوں کے لیے) دسترخوان لگوایاگیا اوران میں سے ہر ایک کے ہاتھ میں زلیخا نے چھری تھمادی پھرکہا کیا تم یوسف کو دیکھنے کی خواہش رکھتی ہو، ان عورتوں نے کہا: ہاں ضرور تو زلیخا نے یوسف علیہ السلام کو بلوایا اورانکو حکم دیا کہ وہ ان کے سامنے نکلیں جب عورتوں نے یوسف علیہ السلام کے جمال کو دیکھا تو بدحواسی کے عالم میں وہ میوؤں کے بجائے اپنے ہاتھوں کوکاٹنے لگیں پھر زلیخا نے یوسف کو واپس جانے کا حکم دیا وہ واپس چلے گئے اس سے زلیخایہ چاہتی تھی کہ وہ عورتیں یوسف کے آنے جانے کا مشاہدہ کریں پھر جب ان عورتوں نے تکلیف محسوس کی تو اپنے آپ کو ملامت کرنے لگیں، اس وقت زلیخانے کہا تم تو صرف ایک ہی نظر میں یہ حرکت کر بیٹھی اب بتاؤ میرے اوپر ملامت کیے جانے کا کیا جواز باقی رہا؟ حضرت زید فرماتے ہیں یہ اقدام وہ سب اس لیے کر بیٹھیں کہ ان عورتوں نے نہ ان جیسا حسن وجمال والا انسان کبھی دیکھا اورنہ ہی ان کے حسن وجمال سے قریب کسی کو دیکھا۔