انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت مسلمہ بنؓ مخلد مسلم نام، ابو سعید اور ابو معن کنیت، قبیلۂ خزرج سے ہیں سلسلۂ نسب یہ ہے،مسلمہ بن مخلد بن الصامت بن نیار بن لوذان بن عبدود بن زید بن ثعلبہ بن الخزرج بن ساعد بن کعب بن الخزرج الاکبر ۱ھ میں مدینہ میں پیدا ہوئے، آنحضرتﷺ کی وفات کے وقت دس سال کے تھے صغر سنی کی وجہ سے کسی غزوہ میں شریک نہ ہوسکے حضرت عمرؓ کے عہد میں جب مصر پر فوج کشی ہوئی اور عمرو بن العاصؓ کو فتح میں دیر لگی تو مدینہ سے چار ہزار آدمی بطور کمک روانہ کئے گئے،ان پر چار شخص افسر تھے جو فن سپہ گری میں تمام عرب میں انتخاب تھے ،یعنی زبیر بن العوامؓ،مقداد بن اسودؓ کندی،عبادہ بن صامتؓ مسلمہ بنؓ مخلد، حضرت عمرؓ نے عمروبن العاصؓ کو خطہ لکھا کہ ان افسروں میں ہر شخص ایک ہزار آدمیوں کے برابر ہے،اس بنا کر فوج ۴ ہزار نہیں بلکہ ۸ ہزار ہے۔ (کنز العمال:۳/۱۵۱) مصر فتح ہوا تو مسلمہؓ نے وہیں اقامت اختیار کی ،پھر مدینہ آئے اور صفین میں امیر معاویہؓ کی طرف سے شریک ہوئے، یہ عجیب بات ہے کہ انصار کا ہر فرد حضرت علیؓ کے ساتھ تھا؛ لیکن یہ بزرگ اور نعمان بن بشیر امیر معاویہؓ کے طرفدار تھے۔ (یعقوبی:۲/۲۱۹) جنگ صفین کے بعد جس میں جنگ کا نتیجہ امیر معاویہؓ کے خاطر خواہ نکلا تھا، ۳۸ ھ میں محمد بن ابی بکرؓ قتل ہوئے ،کہتے ہیں کہ اس میں مسلمہ کا بھی حصہ تھا اور عجب نہیں کہ یہ صحیح ہو، محمد بن ابی بکرؓ جب حاکم ہوکر مصر گئے تو قیس نے ان کو سمجھا دیا تھا کہ مسلمہ ،معاویہ بن خدیج وغیرہ کے ساتھ عفو و درگذر کا برتاؤ کرنا، لیکن انہوں نے اس کے بالکل خلاف کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مصر میں ایک شورش نمودار ہوئی جو محمد بن ابی بکرؓ کے قتل پر منتج ہوئی۔ محمد بن ابی بکرؓ کے قتل کے بعد امیر معاویہؓ نے عمرو بن العاصؓ کو مصر کا والی بنایا ان کے بعد اور لوگ بھی ان کی طرف سے والی ہوکر آئے جن میں سب سے آخیر والی اور سب سے پہلے نائب السلطنت مسلمہ بن مخلد تھے۔ امارت مصر وافریقہ حضرت مسلمہؓ، امیر معاویہؓ کے پاس شام میں تھے کہ امیر معاویہؓ نے عقبہ بن عامر جہنی کے بجائے ان کو مصر کا حاکم مقرر کیا اور تاکید کی کہ عقبہ سے امارت مخفی رکھی جائے ،دوسری طرف عقبہ کے نام فرمان بھیجا کہ آپ امیر البحر ہیں،جزیرہ روڈس پرحملہ کیجئے؛چنانچہ مسلمہؓ مصر پہنچے اور عقبہ کے ساتھ اسکندریہ روانہ ہوئے ادھر عقبہ کے جہاز نے جزیرۂ روڈس پر حملہ کے لئے لنگر اٹھایا اور ادھر مسلمہؓ تختِ امارت پر متمکن ہوگئے، عقبہ کو خبر ہوئی تو بڑا افسوس کیا(یہ تمام واقعات کتاب ولاۃ مصر الکندی ،صفحہ۳۸،۳۹،۴۰ سے ماخوذ ہیں) یہ ۲۰ ربیع الاول ۴۷ھ کا واقعہ ہے بعض لوگوں نے ۵۰ھ لکھا ہے ؛لیکن یہ صحیح نہیں۔ مصر اور افریقہ اب تک دو جدگانہ صوبے تھے اوران پر دو والی حکومت کرتے تھے ،حضرت مسلمہؓ نے نظام حکومت از سر نو ترتیب دیا، سائب بن ہشام بن کنانہ عامری کو پولیس کا افسر اعلی بنایا وہ ۴۹ ھ تک اس منصب پر فائز رہے اس کے بعد عابس بن سعد مراوی کو کہ ان سے زیادہ انتظامی قابلیت رکھتے تھے اس عہدہ پر مامور کیا۔ معاویہ بن خدیج کو مغرب کی سرحد پر غزوہ کے (استیعاب:۱/۲۸۷) لئے مامور کیا اور بری وبحری لڑائیوں کے لئے بعض مقامات پر لشکر بھیجے۔ حضرت مسلمہؓ نے اپنے فرائض منصبی نہایت بیدار مغزی، ہوشیاری اور مستعدی سے انجام دیئے ایک بحری لڑائی کے لئے آدمی کثرت سے بھرتی کئے تو فوج میں عام ناراضگی پھیل گئی،اس موقع پر حضرت مسلمہؓ نے فوجی جوش کم کرنے کے لئے ایک خطبہ دیا جوبجنسہ درج ذیل ہے: يا أهل مصر ما نقمتم مني والله لقد زدت مددكم وعددكم وقوتكم على عدوكم اعلموا أني خير ممن بعدي والآخر فالآخر شر.وفي لفظ: والذي نفسي بيده لا يأتينكم زمان إلا الآخر فالآخر شر فمن استطاع منكم أن يتخذ نفقاً في الأرض فليفعل (اصابۃ فی معرفۃ الصحابۃ،باب ذکر من اسمہ مسلمۃ مفتوح الاول:۳/۹۳) لوگو!تم کو مجھ سے ناخوش نہ ہونا چاہیے میں نے تمہاری تعداد اورکمک میں اضافہ کرکے دشمنوں کے مقابلہ میں تم کو مضبوط بنایا ہے، خدا کی قسم !(مجھ کو غنیمت سمجھو) آئندہ زمانہ میں سخت وجابر عمال آئیں گے اس وقت کے لئے البتہ تم کو زمین میں کوئی سوراخ تلاش کرلینا چاہیے۔ ۵۳ھ میں رومی لشکر برنس پر چڑھ آیا، تو حضرت مسلمہؓ نے فوج بھیج کر اس کا سخت مقابلہ کیااگرچہ اس میں مسلمان کثرت سے کام آئے تاہم فیصلہ مسلمانوں کے موافق ہوا، اس میں جو مسلمان شہید ہوئے، ان میں سے بعض کے نام یہ ہیں دروان (عمروؓ بن عاص کے غلام)عائد بن ثعلبہ بلوی، ابورقیہ عمرو بن قیس لخمی وغیرہ غالباً اسی سنہ میں حضرت مسلمہؓ نے عابس بن سعیدؓ کو پولیس کے محکمہ سے ہٹا کر امیر البحر بنایا اور انہی کی ماتحتی میں اسطاذنہ (غالباً قسطنطنیہ کی تصحیف ہے کیونکہ اس قدر ثابت ہے کہ مسلمہؓ کے عہد میں مصر سے قسطنطنیہ پر ایک حملہ ہوا تھا) پر لشکر کشی کے لئے ایک مہم بھیجی مہم سے وپس ہونے تک سائب بن ہشام عابس کے بجائے پولیس کے افسر رہے ،۵۷ھ میں جب وہ روم سے واپس آئے تو اپنے سابق منصب پر بحال ہوگئے۔ ۶۰ ھ میں حضرت مسلمہؓ کسی ضرورت سے اسکندریہ گئے تو فسطاط میں عابس بن سعیدؓ کو اپنا جانشین بنایا۔ اسی سنہ میں رجب کے مہینہ میں امیر معاویہؓ نے انتقال کیا اور یزید ان کا جانشین ہوا، مسلمہؓ اسکندریہ میں تھے یزید کی خلافت کی خبر ملی تو عابس کو خط لکھا کہ رعایا سے یزید کی بیعت لے لو، چنانچہ تمام لشکر نے بیعت کی ؛لیکن عبداللہ بن عمرو بن العاص منکرتھے، عابس نے آگ منگواکر دھمکی دی کہ انکار کروگے تو اس میں جھونک دونگا، حضرت عبداللہ نے یہ دیکھ کر جبراً قہراً بیعت کی۔ کچھ دنوں کے بعد حضرت مسلمہؓ اسکندریہ سے واپس آئے،اب عابس کو پولیس کے محکمہ کے ساتھ قضا کا محکمہ بھی تفویض کیا ،یہ اوائل ۶۱ ھ کا واقعہ ہے۔ محکمۂ مذہبی کا انتظام مسلمہؓ نے محکمۂ مذہبی کے افسر اعلیٰ ہونے کی حیثیت سے بہت سی مذہبی خدمات بھی انجام دیں ۵۳ھ میں جامع مسجد کی توسیع کی اور حضرت عمروبنؓ عاص نے جو جامع مسجد تعمیر کی تھی اس کو منہدم کیا۔ مسجدوں میں روشنی کے منارے بنوائے اورخولان اور نجیب وغیرہ کے ذمہ روشنی کا جو انتظام تھا، اس کو موقوف کردیا،مسجدوں میں یہ حکم بھیجا کہ رات کے وقت سب جگہ ایک اذان ہو،فجر کے وقت یہ انتظام کیاکہ پہلے جامع مسجد میں کئی مؤذن اذان پکاریں جب وہاں اذان ختم ہو تو فسطاط کی ہر ہر مسجد میں اذان کہی جائے، چونکہ یہ طریقہ نہایت پسندیدہ مستحسن اور اسلام کی شان و شوکت کو دو بالا کرتا تھا، نہایت مقبول ہوا اور مسودہ کے زمانہ تک متواتر رائج رہا، ان لوگوں کے زمانہ میں کسی وجہ سے یہ رسم موقوف ہوگئی اور پھر افسوس کہ کبھی زندہ نہ ہوسکی۔ وفات ۲۵ رجب ۶۲ھ میں حضرت مسلمہؓ نے انتقال فرمایا، ۶۲ سال کاسن تھا، ۱۵برس چار ماہ حکومت کی، وفات کے وقت کاروبار حکومت عابس بن سعید کے سپرد کیا۔ اولاد کوئی صلبی یاد گار نہیں چھوڑی فضل وکمال حضرت مسلمہؓ حافظ قرآن تھے اور وہ ایسا صحیح یاد تھا کہ لوگ تعجب کرتے تھے ،حضرت مجاہدؓ تفسیر و قرأت کے امام ہیں اوراپنے زمانہ میں اس فن میں بے نظیر تسلیم کئے جاتے تھے ان کا بیان ہے کہ میں دنیا میں اپنے کو قرآن کا سب سے بڑا حافظ سمجھتا تھا ؛لیکن مسلمہؓ کے پیچھے ایک روز نماز فجر پڑھی تو یہ خیال غلط ثابت ہوا انہوں نے سورۂ بقرہ پڑھی تھی اتنی بڑی سورت میں کہیں واؤ اور الف کی بھی غلطی نہیں کی۔ حدیث میں بھی مرجعیت عامہ حاصل تھی اورخود صحابہؓ حدیث سننے کے لئےان کے پاس مصر جاتے تھے ،حضرت ابو ایوب انصاریؓ صرف ایک حدیث سننے کے لئے مصر گئے تھے،عقبہ بن عامر جہنی بھی اسی غرض سے گئے تھے اور حدیث سنی تھی۔ (مسند:۴/۱۰۴) تلامذہؓ خاص اور راویان حدیث میں حسب ذیل حضرات ہیں، اسلم ابو عمران ،شیبان بن امیہ، عبدالرحمان بن شمامہ،علی بن رباح، مجمع بن کعب، مجاہد بن جبر، ہشام بن ابی رقیہ