انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** تابعینؒ تعارف تابعین ایمانی قوت،دینی حمیت،مذہبی واخلاقی روح اورعلمی وعملی خدمتوں کے اعتبار سےاسلام کے خیر القرون کے بہ ترتیب تین زرین دور یا تین طبقے ہیں، صحابہؓ،تابعینؓ اورتبع تابعینؓ ان ہی تین دوروں میں مسلمان دینی اوردنیوی سعادت وفلاح کی معراجِ کمال کو پہنچے اس کے بعد جو ترقیاں ہوئیں وہ صرف ایوانِ تمدن کے نقش ونگار ہیں۔ ان تینوں طبقوں میں سے دوسرا طبقہ یعنی تابعینؓ جو اس کا موضوع ہے،اس حیثیت سے نہایت اہم ہے کہ وہ صحابہؓ کرام کی جو دین کا اصل سرچشمہ اورتبع تابعین کی جس میں تمام بڑے بڑے أئمہ پیدا ہوئے ،درمیانی کڑی ہے،اسی نے صحابہ کی علمی اوراخلاقی برکتوں کو سارے عالم میں پھیلایا۔ کلام اللہ اوراحادیث نبویﷺ دونوں ان کے فضائل پر شاہد ہیں،کلام اللہ میں ان کے فضائل وامتیازات یہ بتائے گئے ہیں اورمہاجرین وانصار کے ساتھ انہیں بھی رضوانِ الہی کی دولت سے سرفراز کیا گیا ہے۔ وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ (التوبۃ:۱۰۰) اورمہاجرین وانصار میں سے جن لوگوں نے قبولِ اسلام میں سبقت کی اورجن لوگوں نے خوشدلی کے ساتھ ان کا اتباع کیا خدا ان سے خوش اوروہ خدا سے خوش ہیں اور خدانے ان کے لیے باغ تیار کیے ہیں جن کے نیچے نہریں رواں ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس آیتِ پاک کا مصداق تابعینِ کرام ہی ہیں کہ وہی عمل میں مہاجرین وانصار کے تابع اورزمانہ کے لحاظ سے ان کے بعد تھے اوراسی لیے عرفِ عام میں ان کا لقب تابعی رکھا گیا ہے۔ احادیث میں اس سے زیادہ صریح اورواضح الفاظ میں ان کا تعارف ہے اوران کو خیر کے لقب سے سرفراز فرمایا گیا ہے۔ خیر امتی القرن الذین یلونی ثم الذین یلونہم ثم الذین یلونھم الخ (مسلم کتاب الفضائل) میری امت میں اس زمانہ کے لوگ بہتر ہیں جو مجھ سے ملا ہوا ہے(صحابہؓ)پھر وہ لوگ جو ان سے ملے ہوئے ہیں (تابعین)پھر وہ لوگ جو ان سے ملے ہوئے ہیں (تبع تابعین) دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں: خیر الناس قرنی ثم الذین یلونھم الخ (ایضاً) سب سے بہتر لوگ میرے زمانہ کے ہیں (صحابہ کرام)پھر وہ جو ان سے متصل ہیں، (تابعین)پھر وہ لوگ جوان سے متصل ہیں۔ (تبع تابعین) یہ تینوں اپنے اپنے زمانہ کے لیے باعثِ خیر وبرکت تھے،اسلام کو ان ہی کی خیر وبرکت سے روحانی اورمادی فتوحات حاصل ہوتی تھیں۔ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ يَغْزُو فِئَامٌ مِنْ النَّاسِ فَيُقَالُ لَهُمْ فِيكُمْ مَنْ رَأَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَقُولُونَ نَعَمْ فَيُفْتَحُ (مسلم،باب فضل الصحابۃ ؓ، حدیث نمبر:۴۵۹۷) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ ایک جماعت جہاد کرے گی،اس سے پوچھا جائے گا کہ تم میں کوئی ایسا شخص ہے جس نے رسول اللہ ﷺکو دیکھا ہو،وہ لوگ کہیں گے ہاں(ان کی برکت سے) ان کے لیے فتح دی جائے گی،پھر ایک جماعت جہاد کرے گی،ان سے پوچھا جائے گا کہ تم میں کوئی ہے جس نے اس شخص کو دیکھا ہو جو رسول اللہ ﷺکے ساتھ رہا تو وہ کہیں گے ہاں تو (ان کی برکت سے) فتح دی جائے گی۔ یہ مقدس جماعت علم وعمل میں صحابۂ رسول ﷺکا عکس وپرتو تھی،اس نے رسول اللہ ﷺکی تعلیمات اورصحابہ کی علمی اور اخلاقی وراثت کو مسلمانوں میں پھیلایا، عہد رسالت کے بعد اورشخصی حکومت کے اثر سے اسلامی نظام میں جو خرابیاں پیدا ہوگئی تھیں اُن کی اصلاح کی اوراگر اصلاح نہ کرسکے تو ان خرابیوں کے مقابلہ میں اسلام کے مصفا سرچشمہ کو باہر کے گردوغبار اور کدورت سے اپنی کوششوں سے محفوظ رکھا،مذہبی علوم کی حفاظت واشاعت کی ،نئے علوم کی بنیاد رکھی ،اسلامی سلطنت کے حدود کو وسیع کیا، اسلام کو پھیلایا،غرض ان تمام برکتوں کا جن کا عہد صحابہ میں آغاز ہوا تھا تکمیل تک پہنچایا اورجو پوری ہوچکی تھیں ان کی حفاظت کی۔ امام زہری،مکحول شامی،ابراہیم نخعی،قاضی شریح،عکرمہ،سالم بن عبداللہ ؓ وغیرہ نے علم کا پایہ سنبھالا،محمد بن سیرین،سعید بن مسیب،محمد بن جبیر، امام زین العابدین وغیرہم نے (خدا ان سے راضی ہو)اخلاق کا درس تازہ کیا،حسن بصری،اویس قرنی اور عامر بن عبداللہ رضوان اللہ علیہم نے عشق ومحبت کی آگ سوزاں رکھی،عمر بن عبدالعزیز نے خلافتِ راشدہ کے نمونہ کو زندہ کیا ،غرض تابعین کرام نے علم وعمل کے ہر شعبہ میں مسلمانوں کے لیے بہترین اُسوہ چھوڑا علم اوراخلاق وغیرہ کی یہ تقسیم محض اعتباری اوروصفِ غالب کی بنا پرہے، ورنہ علم واخلاق کے سارے محاسن کم و بیش ان تمام بزرگوں میں مشترک تھے۔ ان سب کا مشترک اوراہم کارنامہ دینی علوم کی، جس پر مذہب اسلام کا دارومدار ہے حفاظت واشاعت اورقرآن وحدیث سے متفرع علوم کی تاسیس ہے،اگر ان بزرگوں نے جانکاہ تکلیفیں اورمشقتیں اٹھا کر اس خزانہ کو محفوظ نہ کیا ہوتا تو اس کا بڑا حصہ برباد ہوجاتا،(اس کے حالات اصل کتاب میں آئیں گے) تبع تابعین کے دور کے تمام بڑے بڑے آئمہ جن کے فیض سے آج مذہبی علوم زندہ ہیں، سب تابعینؓ ہی کے حلقۂ درس کے فیض یافتہ تھے۔ یوں تو تابعی ہر وہ شخص ہے جس نے کسی صحابی کی صحبت اٹھائی ہو یا اُسے دیکھا ہو لیکن جس طرح ہر صحابی صحابیت کا مکمل نمونہ نہیں اور اس کی تکمیل کے لیے کچھ شرائط ہیں اسی طرح ہر تابعی بھی حقیقی تابعی نہیں،صحابہ میں ابوبکر صدیقؓ بھی تھے اورابوسفیانؓ بھی،یہی فرقِ مراتب ،خدمات اورکارناموں کے اعتبار سے تابعین میں بھی ہے، تابعین میں امام زین العابدینؓ بھی ہیں اوریزید بن معاویہ بھی لیکن شَتَان بینھما، اس لحاظ سے ان بے شمار تابعین کو اس کتاب سے محفلِ خاص ہے یہ رہ گذر عام نہیں۔ ان کے علاوہ تابعین میں بڑے بڑے فاتحین اورکشور کشا بھی ہیں جن کی تلواروں نے مشرق ومغرب کے ڈانڈے ملادیے،کچھ سلاطین وفرمانروا بھی ہیں جن کی تمدن نوازی نے اسلامی حکومت کو تمدن کا تماشاگاہ بنادیا، ان سب کی اچھی کوششیں امتِ مرحومہ کے شکر یہ کی مستحق ہیں،لیکن اس موضوع کا مقصد ان ہی برگزیدہ نفوس کے حالات پیش کرنا ہے،جنہوں نے مسلمانوں کے لیے کوئی اخلاقی یا مذہبی نمونہ چھوڑا ہے اورجن کے اخلاقی نمونوں سے اسلام کی روح زندہ اورجن کی علمی کوششوں سے اسلامی علوم وفنون کی عمارت قائم ہے،اس لیے فاتحوں اور کشور کشاؤں اور بادشاہوں اور فرمانرواؤں کو بھی اس زمرہ سے علیحدہ رکھا گیا ہے کہ ان کی تو کسی زمانہ میں کمی نہیں عبدالملک،ولید،سلیمان اورقتیبہ بن مسلم،موسیٰ بن نصیر مسلمہ،مہلب بن ابی صفرہ تو ہر زمانہ میں پیدا ہوتے ہیں،لیکن حسن بصریؓ،اویس قرنیؓ،سعید بن مسیبؓ، ابن شہاب زہریؓ اور محمد بن سیرینؓ کے پیدا ہونے کے لیے صدیاں درکار ہیں۔ ( معین الدین احمد ندوی دارالمصنفین اعظم گڈھ،۱۸،رمضان المبارک ۱۳۵۶ھ مطابق۲۴ نومبر۱۹۳۷ء)