انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت یحییٰ بن یحیی مصمودیؒ موطا کو امام مالکؒ سے روایت کرنے والوں کی تعداد بقول شاہ عبدالعزیز صاحبؒ محدث دہلوی ایک ہزار ہے لیکن مؤطا کے جو نسخے مشہور و معتبر ہیں، ان میں یحییٰ بن یحییٰ مصمودی کا روایت کردہ نسخہ بھی ہے؛بلکہ مصمودی کی روایت کو بالا تفاق معتبر ترین اور مقبول ترین قرار دیا جاتا ہے،اس کی شہرت کا اندازہ لگانے کے لیے اس بات کا ذکر کافی ہے کہ آج مؤطا کا نام ذہن میں آتے ہی اس سے مراد نسخہ مصمودی ہوتا ہے،یحییٰ اپنی گونا گوں صلاحیتوں کی بنا پر امام مالکؒ کے محبوب ترین تلامذہ میں تھے،اندلس میں مالکی مذہب کا چرچا ان ہی کی وجہ سے ہوا۔ نام ونسب یحییٰ نام اور ابو محمدکنیت تھی،پورا سلسلہ نسب یہ ہے: یحییٰ بن یحییٰ بن کثیر بن وسلاس بن شملل بن منغایا اللیثی (ابن خلکان:۳/۱۷۲) طنجہ کے ایک مشہور بربری قبیلہ مصمودی سے تعلق رکھتے تھے،بنو لیث کے غلام تھے،ان کے حق پرست پر مشرف باسلام ہوئے تھے،انہی بزرگ کی طرف منسوب ہوکر یحییٰ اللیثی کے نام سے شہرت پائی۔ (مقدمہ اوجز المسالک:۶۶) ولادت یحییٰ کے داداکثیر نے جن کی کنیت ابو عیسیٰ تھی،اندلس کو اپنا وطن ثانی بناکر قرطبہ سکونت اختیار کرلی تھی،وہیں ۱۵۲ میں یحیییٰ کی ولادت ہوئی۔ (مقدمہ اوجز المسالک :۶۶) تحصیلِ علم شیخ یحییٰ نے سب سے پہلے قرطبہ ہی میں یحییٰ بن مضر الاندلسی سے احادیث کی سماعت کی اورپھر امام مالک کے تلمیذ رشید زیاد بن عبدالرحمن اللخمی سے پوری مؤطا کا سماع کیا، اس کے بعد طلبِ علم کے جذبہ شدید نے انہیں آمادہ سفر کیا اوروہ کشاں کشاں دربار نبوی پہنچے، ابن فرحون اورحافظ ابن عبدالبر کے بیان کے مطابق اس وقت ان کی عمر صرف اٹھارہ سال کی تھی (الدیباج المذہب:۳۵۰،والانتقاء لا بن عبدالبر:۵۸) لیکن صاحب اوجز کی تحقیق ہے کہ ان کی عمر ۲۸ سال تھی،اس لیے کہ شیخ یحییٰ کی ولادت ۱۵۲ ھ میں ہوئی اور ۱۷۹ھ میں وہ سماع مؤطا کے لیے مدینہ آئے، اسی سال امام مالک کی وفات ہوئی۔ (مقدمہ اوجز:۶۶) مدینہ میں اس وقت امام مالکؒ اپنے فیض کا دریا رواں کیے ہوئے تھے،مصمودی نے ان سے مؤطا کی سماعت کی ، لیکن اسی اثناء میں امام مالکؒ اپنے آخری سفر پر روانہ ہوگئے اورکتاب الاعتکاف کے تین ابواب سماعت سے رہ گئے،اسی بنا پر یحییٰ ان ابواب کو زیاد سے روایت کرتے ہیں بعض محققین کا خیال ہے کہ یہ ابواب امام مالکؒ کی وفات کی وجہ سے نہیں ؛بلکہ کسی اورمانع کی بنا پر سماعت سے رہ گئے اور امام مالکؒ کی وفات شیخ یحییٰ کے دوسری مرتبہ مدینہ آنے کے وقت ہوئی،اس تحقیق کے مطابق ابن عبدالبر کا یہ خیال درست معلوم ہوتا ہے کہ سماع مؤطا کے وقت مصمودی کی عمر ۱۸ سال کی تھی اور اغلب ہے کہ جب مصمودی امام مالکؒ کے انتقال کے وقت ان کی خدمت میں تھے،اس وقت ان کی عمر ۲۸ سال ہی ہو۔ مصمودی نے تحصیل علم کے لیے اندلس سے دو مرتبہ مشرق کا سفر کیا،پہلی مرتبہ میں انہوں نے امام مالک کے علاوہ سفیان بن عیینہ،لیث بن سعد، عبداللہ بن وہبب،اورنافع بن نعیم القاری سے کسب فیض کیا، دوسرے علمی سفر میں انہوں نے ابن القاسم سے جو کہ امام مالک کے اعیان تلامذہ میں شمار کیے جاتے ہیں،سماعِ حدیث کی۔ (الانتقالا بن عبدالبر:۵۸) شیوخ امام مالکؒ کے علاوہ مصمودیؒ کو جن کبار ائمہ سے استفادہ کا شرف حاصل ہوا ان میں مشہور نام یہ ہیں۔ یحییٰ بن مضر، زیاد بن عبدالرحمن، لیث بن سعد، سفیان بن عیینہ،عبداللہ بن وہب ابن القاسم،قاسم بن عبداللہ العمری،انس بن عیاض تلامذہ مصمودی کے منبع فیض سے جو لوگ مستفید ہوئے ان میں بقی بن مخلد،محمد بن وضاح،محمد بن العباس،صباح بن عبدالرحمن العتیقی وغیرہ شامل ہیں۔ (تہذیب التہذیب:۱۱/۳۰۱) علمی انہماک تحصیلِ علم کے لیے جس لگن،انہماک اورذوق وشوق کی احتیاج ہوتی ہے،وہ ان میں بدرجہ اتم موجود تھا،جب امام مالک کی خدمت میں سماع مؤطا کے لیے حاضر ہوئے تو دنیا و مافیہا سے بے تعلق ہوکر انہوں نے کلی توجہ سماع حدیث پر صرف کی ؛چنانچہ بیان کی جاتا ہے کہ ایک بار اثناءدرس میں کسی نے کہا:"ہاتھی آگیا" تمام شرکاءِ درس ہاتھی دیکھنے چلے گئے،لیکن یحییٰ اپنی جگہ سے ہلے تک نہیں،امام مالک نے تعجب سے دریافت کیا کہ "اندلس میں تو ہاتھی ہوتا نہیں،پھر تم کیوں نہیں دیکھنے گئے، شیخ یحییٰ نے اس کا جو جواب دیا وہ بلاشبہ ہر عصر وعہد میں طالبان علم کے لیے دلیل راہ بنانے کے لائق ہے،فرمایا: لم ارحل لانظر الفیل وانما رحلت لاشاھدک واتعلم من علمک وھدیک میں یہاں ہاتھی دیکھنے کے لیے نہیں آیا، میں تو یہاں اتنی دور سے صرف آپ کا فیضِ صحبت اُٹھانے اورآپ کےعلم وسیرت سے کچھ حاصل کرنے آیا ہوں۔ اپنے لائق فخر شاگرد کا یہ جواب سُن کر امام مالک اتنے زیادہ خوش ہوئے کہ انہوں نے اسی وقت شیخ یحییٰ کو "عاقل اھل الاندلس" کا خطاب عطا فرمایا۔ (ابن خلکان:۳/۱۷۳ومقدمہ اوجر وغیرہ) تفقہ روایت حدیث کے ساتھ شیخ یحییٰ کو فقہ میں بھی درجہ کمال حاصل تھا،یہ تفقہ ان کی ذاتی صلاحیت اورمحنت کے ساتھ ساتھ امام مالک اور سفیان بن عیینہؒ کے فیض صحبت کا نتیجہ تھا،اندلس میں فقہ مالکی کی اشاعت میں اسد بن فراتؒ،ابن حاتمؒ، اورعبداللہ بن وہبؒ وغیرہ کے ساتھ مصمودی کا بھی بڑا حصہ ہے،حافظ ابن حجر انہیں "وکان فقیھاً حسن الرائی" لکھتے ہیں۔ (تہذیب التہذیب:۱۱/۳۰۱) افتاء مصمودی کے غیر معمولی تفقہ ہی نتیجہ تھا،کہ اہلِ اندلس ان کے فتووں پر پورا اعتماد کرتے تھے،اس فن میں ان کی مہارت مسلم تھی،محققین کا اتفاق ہے کہ یحییٰ جب مختلف ممالک سے تحصیلِ علم کرنے کے بعد اندلس واپس آئے ،تو مسند علم کی صدارت ان کے حصہ میں آئی۔ ابن خلکان نے لکھا ہے: ان یحیی عاد الی الاندلس وانتھک الیہ ریاسۃ بھا وبہ انتشرمذھب مالک فی تلک البلاد وتفقہ بہ جماعۃ لا یحصون عدوًا (ابن خلکان :۳/۱۷۲) بلاشبہ یحییٰ اس حال میں اندلس واپس آئے کہ ان کی ذات علماء ومدرسین کا مرکز و منتہی بن گئی،یحییٰ ہی کے ذریعہ اندلس میں مالکی مذہب فروغ پذیر ہوا اوران سے اتنے لوگوں نے تفقہ حاصل کیا جن کی تعداد کا شمار ممکن نہیں۔ حافظ ابن عبدالبر رقمطراز ہیں: قدم الی الاندلس بعلم کثیر فدارت فتیا الاندلس بعد عیسی بن دینار الیہ وانتھی السلطان والعامۃ الیٰ رأیہ (الانتقاء لابن عبد البر:۵۹) یحییٰ کثیر علم کے ساتھ اندلس واپس آئے پس اندلس کے منصب افتاء پر عیسیٰ بن دینار کے بعد وہی فائز تھے اور عوام و خواص سب آپ ہی کی رائے کی طرف رجوع کرتے تھے۔ حق گوئی و بیباکی فقہ وفتاویٰ میں وہ اپنی رائے کا اظہار برملا کرتے تھے اوراس میں کسی کے رعب و دبدبہ کی پرواہ نہیں کرتے تھے،یہاں تک کہ دربار شاہی بھی انہیں مرعوب نہ کرسکتا تھا،ایک بار اندلس کے حاکم عبدالرحمن بن حکم الاموی نے ماہ رمضان میں اپنی ایک محبوب لونڈی سے مجامعت کی،امیر میں چونکہ دین کا احساس باقی تھا، اس لیے اپنی اس اضطراری حرکت پر اسے شرمندگی اورکفارۂ معصیت کی فکر دامنگیر ہوئی،اس نے شہر کے تمام فقہاء کو قصِر شاہی میں طلب کرکے کفارہ کا مسئلہ دریافت کیا،یحییٰ مصمودی نے پوری بیباکی کے ساتھ فرمایا کہ امیر کو پے در پے دو مہینہ کے روزے رکھنے چاہیے،شیخ یحییٰ کی جلالتِ شان کی وجہ سے وہاں کسی فقیہ کو ان سے اختلافِ مجال نہ ہوسکی،لیکن دربار سے واپس آنے کے بعد بعض لوگوں نے عرض کیا کہ امام مالکؒ تو اس نوع کے مسائل میں خیار کے قائل ہیں،یعنی ان کے نزدیک کفارہ صوم میں روزہ دار کو اختیار ہےچاہے غلام آزاد کرے یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے یا دو ماہ کے مسلسل روزے رکھے،پھر آپ نے دوماہ کے روزوں پر ہی کیوں اصرار کیا۔ یہ سنکر شیخ یحییٰ نے کتنا حکیمانہ جواب دیا۔ لو فتحنا لہ ھذا لباب سھل علیہ ان یطأ کل یومٍ ویعتق رقبۃ فیہ ولکن حملتہ علی اصعب الامر لئلا یعود (شذرات الذہب:۲/۴۲) اگر ہم نے امیر کے لیے یہ درازہ کھول دیا تو اس کے لیے بہت آسان ہوگا کہ روز مجامعت کرلے اورکفارہ میں کوئی غلام آزاد کردے ؛لیکن میں نے اس کے لیے مشکل صورت اختیار کی تاکہ آئندہ وہ اس فعل کی جرأت نہ کرے۔ جامعیت شیخ یحییٰ مصمودی کی شخصیت مختلف علمی اخلاقی اورروحانی کمالات کا مجموعہ تھی،ان کے تبحر علمی اورجامعیت کو تمام محققین نے خراج تحسین پیش کیا ہے،ابن عماد حنبلی رقمطراز ہیں: وکان اماماً کثیر العلم کبیر القدر وافرالحرمۃ کامل العقل خیر النفس کثیر العبادۃ والعقل (شذرات الذہب:۲/۴۲) وہ کثیر العلم،عظیم المرتبت اورنہایت ہی محترم ومؤخر امام تھے،ان کی عقل کامل تھی،نفس بہت نیک اوراچھا تھا،زیادہ عبادت کرنے والے تھے۔ احمد بن خالد کا بیان ہے: لم یعط احد من اھل العلم بالاندلس منذ وخلھا الاسلام من الخطوۃ وعظم القدر وجلالۃ الذکر ما اعطیہ یحییٰ بن یحییٰ (الانتقاء لابن عبدالبر:۶۰) جب سے اندلس میں اسلام داخل ہوا یہاں کے علماء میں سے کسی کو وہ جاہ وجلال اورعظمت وبرتری حاصل نہیں ہوئی جتنی یحییٰ بن یحییٰ (مصمودی) کو حاصل ہوئی۔ ابو الولید ابن الفرضی کا قول ہے کہ یحیی مصمودی امامِ وقت اوریکتائے زمن تھے (تہذیب التہذیب:۱۱/۳۰۱) ابن لبابہ کہتے ہیں کہ "الیہ انتھت الریاسۃ فی العلم بالاندلس" (الدیباج المذہب :۳۵۱) علامہ مقری نے لکھا ہے کہ شیخ یحییٰ کی روایت کو اس قدر مستند سمجھا جاتا تھا کہ: مشرق کے علماء بھی اس سے استناد کرتے تھے۔ (نفح الطیب :۱/۲۹۰) جلالتِ شان یحییٰ مصمودی اپنے گونا گون علمی کمالات کی بنا پر جس طرح عوام میں غیر معمولی عزت واحترام سے دیکھے جاتے تھے،اسی طرح خواص میں بھی ان کی بڑی توقیر کی جاتی تھی،حکومت کی جانب سے ان کو بارہا منصب قضاء کی پیشکش کی گئی،مگر انہوں نے پوری شانِ استغناء کے ساتھ اسے نا منظور کردیا، اس کی وجہ سے ان کی عزت اورمرتبہ میں دو چند اضافہ ہوگیا، حتیٰ کہ سلطان وقت کی نگاہ میں ان کا مرتبہ اس درجہ بلند ہوگیا کہ ان کے مشورہ کے بغیر ملک کا کوئی اہم معاملہ انجام نہیں پاتا تھا،یہاں تک کہ گورنروں کے عزل ونصب میں بھی ان کی رائے کو مقدم رکھا جاتا تھا۔ ابن القوطیہ کا بیان ہے کہ یحییٰ اپنے بے لاگ عدل وانصاف کی وجہ سے اندلس کے بادشاہوں میں بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے،یہاں تک کہ جب تک وہ زندرہے،اندلس میں کوئی قاضی ان کے مشورہ کے بغیر مقرر نہیں ہوتا تھا۔ (افتتاح الاندلس:۵۸) علامہ ابن حزم اندلسی فرماتے ہیں کہ امام ابو حنیفہؒ کی فقہ کی اشاعت قاضی ابو یوسف کے چیف جسٹس ہونے کی بنا پر ہوئی،کیونکہ اس بلند عہدہ اورمخصوص علمی وقار کی وجہ سے اقصائے مشرق سے لے کر اقصائے افریقہ تک صرف وہی لوگ ذمہ دار منصبوں پر فائز کیئے جاتے تھے، جو قاضی ابو یوسف کے ہم خیال وہم رائے ہوتے تھے، اسی طرح بلا د اندلس میں مالکی فقہ کی اشاعت یحییٰ مصمودی کے ذاتی اثر ورسوخ کی وجہ سے ہوئی، سلطانِ وقت حکام کے عزل ونصب میں ان ہی کے مشورہ سے کرتا تھا؛چنانچہ وہ عہدوں پر تقرری کے لیے انہیں علماء کو ترجیح دیتے تھے،جو امام مالک کے مسلک کے پابند ہوتے تھے۔ (بحوالہ بستان المحدثین:۱۱) علامہ سیوطی نے ابن حزم کے مذکورہ بالا قول کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ بلادِ مغرب میں صرف یحییٰ مصمودی کے روایت کردہ نسخہ مؤطا کے مشہور ومقبول ہونے کا اصل سبب یہی ہے۔ (تزئین الممالک:۵۶) مسلک جیسا کہ اوپر مذکور ہوا،یحییٰ مصمودی کو امام مالکؒ سے غایت درجہ عقیدت ومحبت تھی،اسی بنا پر وہ مالکی مسلک کی شدت سے اتباع کرتے تھے اور اس سے انحراف کو گوارا نہیں کرتے تھے؛حالانکہ اس زمانہ میں کسی ایک مذہب کی پابندی کا دستور رائج نہ تھا۔ لیکن یحییٰ مصمودی مالکی مسلک کی کامل اتباع کے باوجود چار مسائل میں امام مالکؒ سے اختلاف رکھتے تھے،ان مسائل میں ان کا جداگانہ مسلک یہ تھا۔ ۱۔نماز فجر میں قنوت نہیں ہے۔ ۲۔شاہد مع الیمین اثباتِ حق کے لیے ناکافی ہے،مدعی کو اپنا حق ثابت کرنے کے لیے دو مرد گواہ یا ایک مرد اوردو عورتیں پیش کرنا لازمی ہے۔ ۳۔شوہر اوربیوی کے نزاع واختلاف کی صورت میں حکمین کو صلح کرانے کا حق نہیں، مذکورہ بالا مسائل میں وہ لیث بن سعد کے مسلک کے قائل تھے۔ (الانتقاء لابن عبدالبر:۶۰) حلیہ یحییٰ مصمودی شکل وہیئت کے اعتبار سے اپنے شیخ امام مالک سے حد درجہ مشابہت رکھتے تھے،وہی سُرخ سپید رنگ ،بالاقد،بھاری بدن،کشادہ پیشانی،بڑی آنکھیں،اونچی ناک ،گھنی اورلمبی داڑھی تھی۔ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رقمطراز ہیں: دروضع لباس ونشست وبرخاست وہئیت ظاہری نیز تتبع حضرت امام مالک می نمود (بستان المحدثین :۱۳) وضع قطع،اٹھنے بیٹھنے کے طور طریقے ظاہری شکل وصورت اوراتباع میں امام مالکؒ کی ہوبہو تصویر تھے۔ مؤرخ ابن خلکان اورابن فرحون مالکی بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں کہ: وکان قد اخذ فی نفسہ وھئیتہ ومقعدہ ھیئتہ مالک (ابن خلکان:۳/۱۷۴،الدیباج المذہب:۳۵۱) وہ اپنی شکل وصورت اورنشست وبرخاست میں امام مالک کے ہم صورت ومتبع تھے۔ تقوی وطہارت یحییٰ مصمودی علمی فضل وکمال کے ساتھ عملی اعتبار سے بھی اپنی مثال آپ تھے،نہایت متقی اور پرہیز گار تھے،ابن بشکوال کا قول ہے کہ "وکان مستجاب الدعوات" (تہذیب التہذیب:۱۱/۳۰۱) حافظ ابن عبدالبر لکھتے ہیں: وکان یاتی الجامع یوم الجمعۃ راجلا متعمما (الانتقاء لابن عبدالبر:۶۰) وہ جمعہ کے دن جامع مسجد عمامہ باندھ کر اورپیدل چل کر آتے تھے۔ وفات ۲۲ رجب ۲۳۴ ھ کو علم و فضل کا یہ خورشیدِ تاباں غروب ہوگیا ،جس نے اپنی ضیاباری سے نصف صدی سے بھی زائد عرصہ تک اندلس کو منور رکھا (ابن خلکان:۳/۱۴۴)اس وقت عمر ۸۲ سال کی تھی (العبر فی خبر من غبر:۱/۴۱۹)ان کی قبر قرطبہ کے قبرستان بنی عامر میں زیارت گاہ خلائق اور مرجع عوام ہے۔ (ابن خلکان:۳/۱۴۵) مؤطا نسخہ مصمودی کی خصوصیات شیخ یحییٰ مصمودی کا سب سے بڑا کارنامہ امام مالکؒ کی مؤطا کی روایت وحفاظت ہے،جس نے بلاشبہ انہیں تاریخ علم وفن میں حیاتِ جاوداں عطا کی ہے۔ امام مالکؒ سے یوں تو سیکڑوں لوگوں نے مؤطا کا سماع حاصل کیا ؛لیکن ان سب نے امام صاحبؒ کی مرویات کو محفوظ نہیں کیا صرف سولہ تلامذہ نے اپنی روایت کے مطابق مؤطا کو جمع کیا ہے،جن کے اسمائے گرامی درجہ ذیل ہیں: یحییٰ بن یحییٰ مصمودی، عبداللہ بن وہب، ابن القاسم، عبداللہ بن مسلم قعنبی،معین بن عیسیٰ،یحییٰ بن بکیر، سعید بن عفیر،ابو مصعب زہری، مصعب بن عبداللہ زبیری، سلیمان بن برد، ابو حذافہ اسہمی، سوید بن سعید، امام محمد بن حسن شیبانی،یحییٰ بن یحییٰ التیمی، عبداللہ بن یوسف دمشقی، محمد بن مبارک مذکورہ بالا سولہ نسخوں میں مشہور اورمتداول صرف دو نسخے ہیں، ایک مصمودی کا دوسرا امام محمد کا،لیکن ان دونوں میں بھی نسخہ مصمودی کو زیادہ شہرت اورمقبولیت نصیب ہوئی،حتیٰ کہ آج ساری دنیا میں مؤطا کا اطلاق نسخہ مصمودی ہی پر ہوتا ہے۔ اسی نسخہ کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ امام مالکؒ کے وفات کے وقت زیر سماعت تھا؛کیونکہ جیسا اوپر مذکور ہوا،یحییٰ مصمودی نے اس کا سماع امام مالکؒ سے اسی سال کیا جس سال ان کی رحلت ہوئی،اس طرح وہ مؤطا کے تمام نسخوں میں آخری قرار پاتا ہے،اورظاہر ہے،آخری سماع کو مرجح قرار دیا جائے گا۔ دوسری نمایاں خصوصیت اس کی یہ ہے کہ یہ بہت سے ایسے فرعی مسائل پر مشتمل ہے جو کہ باب میں مذکور روایات کے مطابق ہیں،ان خصوصیات کے باوجود یحییٰ مصمودی کی روایت صحاح ستہ میں نہیں پائی جاتی ہیں، اس کا سبب شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ نے یہ بتایا ہے کہ یحییٰ کی روایات میں اوہام زیادہ ہیں اس لیے وہ کتبِ ستہ میں جگہ نہ پاسکیں۔ (اوجز المسالک:۲۷) بعض محققین مؤطا امام محمدؒ کو نسخہ مصمودی پر کئی وجوہ سے فوقیت دیتے ہیں لیکن اس سلسلہ میں محدث زاہدالکوثری کی یہ رائے نہایت حقیقت پر مبنی معلوم ہوتی ہے کہ دونوں نسخے اپنی جداگانہ خصوصیات میں باہم دگر فوقیت رکھتے ہیں وہ رقمطراز ہیں: وأشهر رواياته في هذا العصر رواية محمد بن الحسن بين المشارقة ورواية يحيى الليثي بين المغاربة، فالأولى: تمتاز ببيان ماأخذ به أهل العراق من أحاديث أهل الحجاز المدونة في الموطأ ومالم يأخذوا به لأدلة أخرى ساقها محمد في موطئه وهي نافعة جدا لمن يريد المقارنة بين آراء أهل المدينة وآراء أهل العراق وبين أدلة الفريقين، والثانية: تمتاز عن نسخ الموطأ كلها باحتوائها على آراء مالك البالغة نحو ثلاثة آلاف مسألة في أبواب الفقه وهاتان الروايتان نسخهما في غاية الكثرة في خزانات العالم شرقا وغربا۔ (موطأ مالك،رواية محمد بن الحسن:۱/۱۳، شاملہ، الناشر: دارالقلم،دمشق) اس دور میں مؤطا کی مشہور ترین روایت اہل مشرق میں امام محمد بن حسن کی روایت ہے اوراہل مغرب میں یحییٰ اللیثی کی روایت ہے،پہلی روایت کا امتیاز یہ ہے کہ اس میں اہل عراق نے مؤطا میں مدونہ جن احادیث اہل حجاز کو لیا ہے اورجن کو دوسرے دلائل کی بنا پر جو امام محمد اپنی مؤطا میں لائے ہیں نہیں لیا ہے،ان کا بیان ہے اوریہ چیز ان لوگوں کے لیے نہایت مفید ہے جو اہل مدینہ اوراہل عراق کے اجتہادی مسائل اورفریقین کے دلائل کا باہم موازنہ کرنا چاہتے ہیں اور دوسری روایت مؤطا کی تمام روایتوں میں اس حیثیت سے ممتاز ہے کہ وہ تین ہزار کے قریب امام مالکؒ کے ان اجتہادی مسائل پر مشتمل ہے،جن کا تعلق فقہ کے مختلف ابواب سے ہے اوریہ دونوں روایتیں دنیا کے کتبخانوں میں شرقا وغربا نہایت کثرت سے موجود ہیں۔ تاہم آج مؤطا امام مالکؒ کے نام سے جو کتاب بالخصوص ہندوستان میں مروج ہے وہ یحییٰ مصمودی ہی کی روایت ہے اوراسی کی شرحیں زرقانی،ابن عبدالبر، سیوطیؒ اورشاہ ولی اللہ وغیر ہم نے لکھی ہیں،یہ بات بجائے خود اس کی مقبولیت اورشہرت کی روشن دلیل ہے۔