انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** علم غیب اور اظہار غیب میں فرق عالم الغیب صرف خدا کی ذات ہے وہ اپنے غیب کا اظہار قطعی درجے میں اپنے رسولوں پر ہی کرتے ہیں، وہ اظہار غیب سے سرفراز ہوتے ہیں، یہ علم غیب نہیں اظہار غیب ہوتا ہے،عالم الغیب صرف خدا کی ذات ہے، علم غیب اسی کے پاس ہے اور وہی اپنے مقربین پر غیب ظاہر فرماتا ہے: "عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا، إِلَّامَنِ ارْتَضَى مِنْ رَسُولٍ"۔ (الجن:۲۶،۲۷) ترجمہ:جاننے والا بھید کا سو نہیں خبر دیتا اپنے بھید کی کسی کو مگر جو پسند کرلیا کسی رسول کو۔ حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ بھی لکھتے ہیں: "پس مطلع نمی کند بر غیب خاص خود ہچکس رامگر کسے راکہ پسندمے کند وآں کس رسول باشد خواہ از جنس ملک و خواہ از جنس بشر مثل حضرت محمد مصطفیٰ علیہ السلام اورا اظہار بعضے از غیوب خاصہ خود مے فرماید"۔ (تفسیر عزیزی، پارہ:۲۹، صفحہ:۱۷۳) ترجمہ:پس حق تعالی شانہ اپنے غیب خاص پر اپنے پسندیدہ بندوں کے سوا کسی کو مطلع نہیں فرماتا اور وہ پسندیدہ بندے اس کے رسول ہیں،خواہ جنس ملائک سے ہوں خواہ جنس بشرسے،جیسا کہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم تھے اللہ تعالی اپنے ان خاص بندوں پر بعض مغیباتِ خاصہ ظاہر فرماتے ہیں۔ حضرت مولانا انورشاہ صاحب کشمیریؒ فرماتے ہیں کہ یہ استثناء منقطع ہے اور "من ارتضیٰ من رسول" سے لے کر سارا جملہ مستثنیٰ ہے: "والمعنى: أن الاطِّلاعَ بهذه الصفة يَخْتَصُّ بالأنبياء عليهم السَّلام، والمرادُ منها القطع، فالاطِّلاعُ على سبيل القطع من خواص الأنبياء"۔ (باب فیض الباری شرح صحیح البخاری:۳۷۵/۷) خلاصہ یہ ہے کہ بایں طور اطلاع حضرات انبیاء علیہم السلام کا خاصہ ہے اوراس سے مراد قطع و یقین ہے؛ پس! یقینی اطلاع خواص انبیاء میں سے ہی ہوگی۔