انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** کفار مکہ کا جوش انتقام مکہ میں اس شکست کے بعد مقتولوں کے ورثاء نے بلند آواز سے نوحہ وزاری نہیں کی،کیونکہ اس خبر سے مسلمان خوش ہوتے،صفوان بن امیہ نے جس کا باپ امیہ اوربھائی علی دونوں بدر میں مارے گئے تھے،عمیر بن وہب کو خفیہ طور پر آمادہ کیا کہ مدینہ میں جاکر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کرے،عمیر بن وہب زہر میں بجھی ہوئی تلوار لے کر مکہ سے چل کر مدینہ میں پہنچے تو حضرت عمرؓ کو شبہ گزرا،وہ عمیر کی تلوار کا قبضہ پکڑ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عمرؓ تم عمیر کو چھوڑدو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریب بلاکر پوچھا کہ کیوں آئے ہو،عمیر نے جواب دیا کہ میرا بیٹا قیدیوں میں شامل ہے،اسے رہا کرانے آیا ہوں کہ آپ مجھ پر رحم کریں اور میرے بیٹے کو آزاد کریں،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم کو صفوان نے میرے قتل کے لئے آمادہ کرکے بھیجا ہے،سچی بات کیوں نہیں کہتے، پھر آپ نے صفوان اور عمیر کے مشورہ کرنے کی تمام کیفیت سُنادی،عمیر نے کہا: مسلمان ہوتا اور اقرار کرتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خدائے تعالیٰ کے بھیجے ہوئے سچے رسول ہیں؛کیونکہ اس بات کی خبر سوائے صفوان اورمیرے کسی تیسرے شخص کو ہرگز نہ تھی۔ جنگ بدر میں خدائے تعالیٰ نے فرشتوں کے ذریعہ مسلمانوں کی مدد کی،فرشتوں کے شریک جنگ ہونے کا حال خود کفار نے مکہ میں جاکر بیان کیا،بعض مشرکینِ مدینہ جو لڑائی کا تماشا دیکھنے چلے گئے تھے یا اتفاقاً لڑائی کے روز بدر میں موجود اورقریب کی پہاڑی پر بیٹھے ہوئے تماشا دیکھ رہے تھے ان کا بیان ہے کہ ہم نے لڑائی کے وقت اپنے سروں کے اوپر سے ایک بادل کے ٹکڑے کو گذرتے ہوئے اورمقام جنگ کی طرف جاتے ہوئے دیکھا،اس بادل کے ٹکڑے میں سے جبکہ وہ بالکل ہمارے قریب سے گزررہا تھا گھوڑے کے ہنہنانے کی آواز سُنائی دی اور کسی کو یہ کہتے ہوئے سُنا کہ جلد آگے بڑھو،راوی کہتا ہے کہ اس آواز کے سننے سے ہم پر اس قدر خوف طاری ہوا کہ میرے چچا زاد بھائی کا خوف کے مارے دم نکل گیا۔ جنگِ بدر سے فارغ ہوکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ۲۲ رمضان المبارک کو مدینہ میں واپس تشریف لائے،اسی رمضان کی آخری تاریخوں میں صدقہ فطر واجب ہوا،عیدین کی نمازیں اورقربانی بھی اسی سال مقرر ہوئی،اسی سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دوسری صاحبزادی ام کلثوم کا نکاح حضرت عثمان بن عفانؓ سے کیا اور وہ ذی النورین کہلائے،اسی سال جنگ بدر کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چھوٹی صاحبزادی حضرت فاطمۃ الزہراؓ کا نکاح حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے کیا۔ کفارِ مکہ کے دلوں میں انتقام کی آگ خوب تیزی سے شعلہ زن تھی،جنگ بدر کے دو مہینے بعد ابو سفیان دو سو سوار لے کر مکہ سے بارادۂ جنگ روانہ ہوا، جب مدینہ کے قریب یہ لشکر پہنچا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی خبر ہوگئی،آپ مسلمانوں کو ہمراہ لے کر مقابلے کے لئے نکلے،ابو سفیان کھجوروں کے باغ کو جلا کر جاچکا تھا اوراس نے دوشخصوں کو جو اپنی کاشت کاری کے کاموں میں وہاں مصروف تھے قتل کردیا تھا،ان دونوں میں ایک تو حضرت سعید بن عمروؓ انصاری تھے اوردوسرا ان کا حلیف تھا،مسلمانوں کے آنے کی خبر سُنتے ہی لشکرِ کفار بھاگ پڑا اورتابِ مقاومت نہ لاسکا،بھاگتے ہوئے کفارِ مکہ اپنے ستووں کے تھیلے ہلکےکرنے کے لئے راستے میں پھینکتے گئے،مسلمانوں نے مقام کدر تک تعاقب کیا اورجا بجا ستوؤں کے تھیلے پڑے ہوئے پائے،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں واپس تشریف لے آئے اوراس واقعہ کا نام غزوۂ سویق مشہور ہوا،سویق عربی زبان میں ستو کو کہتے ہیں، غزوہ سویق ۲ ہجری کے ماہ ذی الحجہ کی ابتداء میں ہوا تھا،آخری ماہ ذی الحجہ تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں رہے، اورکوئی قابلِ تذکرہ واقعہ نہیں ہوا