انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** عبداللہ بن سبا عبداللہ بن سبا المعروف بہ ابن السوداء شہر صنعاء کار ہنے والا ایک یہودی تھا،وہ حضرت عثمان غنیؓ کے عہد خلافت میں یہ دیکھ کر کہ مسلمانوں کو دولت خوب حاصل ہوتی ہے اوراب یہی دنیا میں سب سے بڑی فاتح قوم بن گئی ہے مدینہ میں آیا اور بظاہر مسلمانوں میں شامل ہوگیا، مدینہ میں اس کا آنا اور رہنا بہت ہی غیر معروف اورناقابل التفات تھا، اس نے مدینے میں رہ کر مسلمانوں کی اندرونی اورداخلی کمزوریوں کو خوب جانچا اور مخالف اسلام تدابیر کو خوب سوچا،انہیں ایام میں بصرہ کے اندر ایک شخص حکیم بن جبلہ رہتا تھا،اس نے یہ طرفہ اختیار کیا کہ اسلامی لشکر کے ساتھ کسی فوج میں شریک ہوجاتا تو موقع پاکر ذمیوں کو لوٹ لیتا کبھی کبھی اورلوگوں کو بھی اپنا شریک بنانا اورڈاکہ زنی اختیار کرنا، اس کی ڈاکہ زنی کی خبریں مدینہ میں حضرت عثمان غنیؓ تک پہنچیں۔ انہوں نے گورنر بصرہ کو لکھا کہ حکیم بن جبلہ کو شہر بصرہ کے اندر نظر بند رکھو اور حدود شہر سے باہر ہرگز نہ نکلنے دو اس حکم کی تعمیل میں وہ بصرہ کے اندر محصور ونظر بند رہنے لگا، عبداللہ بن سبا حکیم بن جبلہ کے حالات سُن کر مدینہ سے روانہ ہوا اور بصرہ میں پہنچ کر حکیم بن عبداللہ کے مکان پر مقیم ہوا، یہاں اس نے حکیم بن جبلہ اور اس کے ذریعہ اس کے دوستوں اور دوسرے لوگوں سے مراسم پیدا کئے اپنے آپ کو مسلمانوں کا حامی اور خیر خواہِ آل رسول ظاہر کرکے لوگوں کے دلوں میں اپنے منصوبے کے موافق فساد انگیز خیالات وعقائد پیدا کرنے لگا، کبھی کہتا کہ مجھ کو تعجب ہوتا ہے کہ مسلمان اس بات کے تو قائل ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ دنیا میں آئیں گے ؛لیکن اس بات کو نہیں مانتے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی دنیا میں ضرور آئیں گے؛چنانچہ ان لوگوں کو "إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لَرَادُّكَ إِلَى مَعَادٍ" کی غلط تفسیر سُنا سُنا کر اس عقید ے پر قائم کرنا شروع کیا کہ آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مراجعت دنیا میں ضرورہوگی،بہت سے احمق اس فریب میں آگئے،پھر اس نے ان احمقوں کو اس عقیدے پر قائم کرنا شروع کیا کہ ہر پیغمبر کا ایک خلیفہ اور وصی ہوا کرتا ہے، اورحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وصی حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہیں، جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں،اسی طرح حضرت علی کرم اللہ وجہہ خاتم الاوصیاء ہیں، پھر اس نے علانیہ کہنا شروع کیا کہ لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد حضرت علیؓ کے سوا دوسروں کو خلیفہ بناکر بڑی حق تلفی کی ہے،اب سب کو چاہئے کہ حضرت علیؓ کی مدد کریں اور موجودہ خلیفہ کو قتل یا معزول کرکے حضرت علیؓ کو خلیفہ بنادیں ،عبداللہ بن سبایہ تمام منصوبے اوراپنی تحریک کی ان تمام چیزوں کو مدینہ منورہ سے سوچ سمجھ کر بصرہ آیا تھا اوراس نے نہایت احتیاط اورقابلیت کے ساتھ بااقساط اپنی مجوزہ بد عقیدیوں کو شائع کرنا اورلوگوں کے سامنے بیان کرنا شروع کیا۔ رفتہ رفتہ اس فتنے کا حال بصرہ کے گورنر عبداللہ بن عامر کو معلوم ہوا تو انہوں نے عبداللہ بن سبا کو بلا کر پوچھا کہ تم کون ہو،کہاں سے آئے اوریہاں کیوں آئے ہو، عبداللہ بن سبا نے کہا مجھ کو اسلام سے دلچسپی ہے میں اپنے یہودی مذہب کی کمزوریوں کے خلاف ہوکر اسلام کی طرف متوجہ ہوا ہوں اوریہاں آپ کی رعایا بن کر زندگی بسر کرنا چاہتا ہوں، عبداللہ بن عامر نے کہا کہ میں نے تمہارے حالات اورتمہاری باتوں کو تحقیق کیا ہے،مجھ کو تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ تم کوئی فتنہ برپا کرنا اورمسلمانوں کو گمراہ کرکے یہودی ہونے کی حیثیت سے جمعیت اسلامی میں افتراق وانتشار پیدا کرنا چاہتے ہو،چونکہ عبداللہ بن عامر کی زبان سے پتے کی باتیں نکل گئی تھیں،لہذا اس کے بعد عبداللہ بن سبانے بصرہ میں اپنا قیام مناسب نہ سمجھا اوراپنے خاص الخاص راز دار اورشریک کار لوگوں کو وہاں چھوڑ کر اور اپنی بنائی ہوئی جماعت کے لئے مناسب تجاویز ہدایات سمجھا کر بصرہ سے چل دیا،اوردوسرے اسلامی فوجی مرکز یعنی کوفہ میں آیا، یہاں پہلے ہی سے ایک جماعت حضرت عثمان غنیؓ اوران کے عامل کی دشمن موجود تھی،عبداللہ بن سبا کو کوفہ میں آکر بصرہ سے زیادہ بہتر موقع اپنی شرارتوں کو کامیاب بنانے کا ملا،عبداللہ بن سبا کو ایک طرف تو اسلام سے مخالفت تھی دوسری طرف اس کو حضرت عثمان غنیؓ سے خاص ذاتی عداوت تھی اورحضرت عثمان غنیؓ سے کوئی انتقام یا بدلہ لینے کا خواہش مند معلوم ہوتا تھا کوفہ میں آکر بہت جلد عبداللہ بن سبا نے اپنے زہد واتقا کا سکہ لوگوں کے دلوں پر بٹھادیا،عام طور پر لوگ اس کو تعظیم وتکریم کی نگاہ سے دیکھنے اوراس کا ادب ولحاظ کرنے لگے،جب کوفہ میں عبداللہ بن سبا کے پھیلائے ہوئے خیالات کا چرچا ہوا تو یہاں کے گورنر سعید بن العاصؓ نے اُسے بلاکر ڈانٹا اور وہاں کے سمجھدار اورشریف آدمیوں نے بھی اس کو مشتبہ آدمی سمجھا؛چنانچہ عبداللہ بن سبا کوفہ سے نکل کر شام کی طرف روانہ ہوا،مگر جس طرح بصرہ میں وہ اپنی جماعت چھوڑ آیا تھا اسی طرح کوفہ میں بھی اُس نے اپنی ایک زبردست جماعت چھوڑی،جس میں مالک اشتر وغیرہ مذکورہ بالااشخاص اوران کے احباب اوراقارب زیادہ تر شامل تھے،کوفہ سے وہ شام یعنی دمشق میں پہنچا تو یہاں اس کی دال زیادہ نہ گلی اور جلد ہی اسے یہاں سے شہر بدر ہونا پڑا،عبداللہ بن سبا کی عداوت حضرت عثمان غنیؓ اوربنو امیہ سے دم بہ دم ترقی کررہی تھی، اورہر جلاوطنی کے لئے ایک نیا میدان اورنیا موقع کامیابی کا پیدا کردیتی تھی،شام سے خارج ہوکر وہ سیدھا مصر میں پہنچا،وہاں کے گورنر عبداللہ بن سعد تھے مصر میں عبداللہ بن سبا نے اپنے سابقہ تجربہ سے فائدہ اُٹھا کر زیادہ احتیاط اورزیادہ گہرے پن کے ساتھ کام شروع کیا یہاں اس نے اپنی خفیہ سو سائٹی کا مکمل نظام مرتب کیا اورمحبت اہلبیت اورحمایت علیؓ کے اظہار کوخاص الخاص ذریعہ کامیابی بنایا،مصر کے گورنر عبداللہ بن سعد کی نسبت بھی مصریوں کو اوروہاں کے مقیم عربوں کو شکایات تھیں ،عبداللہ بن سعد کو افریقہ پرنیز قیصر قسطنطنیہ کے معاملات کی وجہ سے داخلی باتوں کی طرف زیادہ متوجہ رہنے کی فرصت بھی نہ تھی۔ یہاں سے عبداللہ بن سبا نے اپنے بصرہ کوفہ کے دوستوں سے خط وکتابت جاری کی اورمقررہ نظام کے موافق مصر، کوفہ، اور بصرہ سے وہاں کے عاملوں کی شکایت میں مدینہ والوں کے پاس پیہم خطوط جانے شروع ہوئے،ساتھ ہی بصرہ والوں کے پاس کوفہ اورمصر سے خطوط پہنچے کہ یہاں کے گورنروں نے بڑے ظلم پر کمر باندھ رکھی ہے اوررعایا پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے اسی طرح بصرہ اورکوفہ سے مصر والوں کے پاس اوربصرہ ومصر و دمشق سے کوفہ والوں کے پاس خطوط پہنچنے لگے، چونکہ کسی جگہ بھی عاملوں اور گورنروں کے ہاتھ سے رعایا پر ظلم نہ ہوتا تھا، لہذا ہر جگہ کے آدمیوں نے یہ سمجھا کہ ہم سے زیادہ اور تمام صوبوں پر ظلم و تشدد اوربے انصافی روا رکھی جارہی ہے اور حضرت عثمان غنیؓ ظالمانہ طور پر اپنے عاملوں اور گورنروں کو ان کے عہدوں پر بحال رکھتے اور معزول کرنے سے انکار کرتے ہیں چونکہ ہر ایک صوبے اور ہر ایک علاقے سے مدینہ منورہ میں بھی برابر خطوط پہنچ رہے تھے، لہذا حضرت عثمان غنیؓ نے عمار بن یاسرؓ کو مصر کی جانب اور محمد بن مسلمہ کو کوفے کی جانب روانہ کیا کہ وہاں کے حالات دیکھ کر آئیں اور صحیح اطلاع دربار خلافت میں پہنچائیں، عمار بن یاسرؓ جب مصر میں پہنچے تو وہاں کے ان لوگوں نے جو عبداللہ بن سعدؓ گور نر مصر سے ناخوش تھے اوران لوگوں نے جو عبداللہ بن سبا کی جماعت سے تعلق رکھتے تھے عمار بن یاسر کو اپنا ہم نوا وہم خیال بنالیا اور ان کو مدینہ منورہ میں واپس جانے سے یہ کہہ کر روک لیا کہ حضرت عثمانؓ دیدہ ودانستہ ظلم وستم کو روا رکھتے ہیں ان کی امداد ومصاحیت سے پرہیز کرنا مناسب ہے،محمد بن مسلمہ نے کوفہ پہنچ کر حضرت عثمان غنیؓ کو اطلاع دی کہ یہاں کے عوام بھی اور شرفاء بھی علانیہ زبان درازی اورطعن و تشنیع پر زبان کھولتے اور عذر بغاوت کے علامات کا اظہار کررہے ہیں، انہیں ایام میں اشعث بن قیس، سعید بن قیس، صائب بن اقرع، مالک بن حبیب، حکیم بن سلامت ،جریر بن عبداللہ، سلمان بن ربیع وغیرہ حضرات جو صاحبِ اثر اورعزم وہمت کے وارث اور خلافت اسلامیہ کے حامی تھے کوفہ سے دوسرے مقامات کی طرف روانہ ہوچکے تھے۔ سعید بن العاصؓ نے ہر طرف شورش اورلوگوں کی زبانوں پر علانیہ شکایات کو دیکھ کر قعقاع بن عمرو کو اپنا قائم مقام بنایا اورکوفہ سے مدینہ کا عزم کیا کہ خلیفۂ وقت کو جاکر خود زبانی تمام حالات سنائیں، اوراندیشہ وخطرہ کی پوری کیفیت سمجھائیں، سعید بن العاصؓ کے روانہ ہونے کے بعد کوفہ کے لوگوں نے مالک اشتر وغیرہ کو جو حمص میں مقیم تھے لکھا کہ آج کل کوفہ بالکل خالی ہے جس طرح ممکن ہو اپنے آپ کو کوفہ میں پہنچادیں،کوفہ میں بارعب عمال خلافت کے موجود نہ رہنے کے سبب عوام کی زبانیں بالکل بے لگام ہوگئیں اورعلانیہ لوگ عثمان غنیؓ اوران کے عاملوں کو برا بھلا کہنے اورطعن و تشنیع کرنے لگے اس ہنگامے نے یہاں تک ترقی کی کہ یزید بن قیس کوفہ والوں کی ایک جمعیت ہمراہ لے کر اس ارادے سے نکلا کہ مدینہ میں پہنچ کر حضرت عثمان غنیؓ کو خلع خلافت پر مجبور کرے، قعقاع بن عمرو یہ دیکھ کر سدِّ راہ ہوئے اورایک جمعیت اپنے ہمراہ لے جاکر یزید بن قیس کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہوئے۔ یزید نے قعقاع بن عمرو کی منت وسماجت کرلی اورکہا مجھ کو سعید بن العاصؓ سے بعض شکایات ہیں اس کے سوا اورکوئی مقصد نہ تھا کہ سعید بن العاصؓ کو کوفہ کی گورنری سے معزول کرایا جائے،قعقاع بن عمرو نے یزید کو چھوڑدیا،لیکن اس کے بعد ہی مالک بن اشتراپنی جماعت کے ساتھ حمص سے کوفہ میں پہنچ گیا،ان لوگوں کے کوفے پہنچنےپر شورش پسندوں میں ایک تازہ قوت اورجوش پیدا ہوا،مالکِ اشتر نے علانیہ لوگوں پر یزید بن قیس کی جماعت میں شامل ہونے کی ترغیب دی اورخود بھی یزید بن قیس کے لشکریوں میں شامل ہوکر کوفہ سے روانہ ہوا قعقاع اس جمعیت کا مقابلہ نہ کرسکے، یہ لوگ کوفہ سے روانہ ہوکر قادسیہ کے قریب مقام جرعہ میں پہنچے۔