انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت حفص بن غیاثؒ نام ونسب حفص نام اورکنیت ابو عمر تھی،پورانسب نامہ یہ ہے،حفص بن غیاث بن طلق بن معاویہ بن مالک بن الحارث بن ثعلبہ بن عامر بن ربیعہ بن جثم بن ومبیل بن سعد بن مالک بن النخع (طبقات ابن سعد:۶/۲۷۲)یمن کے مشہور قبیلہ مذحج کی نخع نامی ایک شاخ کوفہ میں آباد ہوگئی تھی،اسی خاندانی تعلق کی بناپر نخعی کہلاتے ہیں۔ (کتاب الانساب:۵۵۷) پیدائش اوروطن ابو عمر کی ولادت ۱۱۷ھ میں ہشام بن عبدالملک کے ایام خلافت میں ہوئی (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۷۲،وابن سعد:۶/۲۷۲)خود ان ہی کی زبانی منقول ہے کہ "ولدت سنۃ سبع عشرۃ وماۃ "(تاریخ بغداد:۸/۲۰۰)کوفہ کی اس مردم خیز سرزمین کو ان کے وطن ہونے کا فخر حاصل ہے،جس کی خاک سے علماء وفضلاء کی کئی نسلیں اٹھی تھیں۔ فضل وکمال علمی حیثیت سے ابو عمرکا مرتبہ نہایت بلند تھا،انہوں نے مشاہیرتابعین سے فیضِ صحبت حاصل کیا تھا، حدیث وفقہ میں پوری مہارت رکھنے کے ساتھ استغناء وبے نیازی ،حفظ واتقان اورسیرحشمی وفراخ دستی کا پیکر مجسم تھے یحییٰ بن سعید القطان کا قول ہے: اوثق اصحاب الاعمش حفص بن غیاث امام اعمش کے تلامذہ میں حفص بن غیاث سب سے زیادہ ثقہ تھے۔ ابن معین کا بیان ہے کان حفص بن غیاث صاحب حدیث لہ معرفۃ حفص بن غیاث محدث تھے اورانہیں اس میں پوری معرفت حاصل تھی۔ ابن القطان ہی کہتے ہیں کہ میں نے کوفہ میں ان تین کے مثل نہیں دیکھا یعنی حزام،حفص اورابن ابی زائدہ،یہ سب اصحاب حدیث تھے۔ (تاریخ بغداد:۸/۱۹۷،۱۹۸) حدیث ابو عمر حفص اکابر حفاظِ حدیث میں شمار کئے جاتے ہیں،ہزاروں روایات انہیں زبانی یاد تھیں،خطیب بغدادی رقمطراز ہیں: کان حفص کثیر الحدیث حافظاً لہ ثبتا فیہ وکان ایضاً مقدماً عند المشائخ،اللذین سمع منھم الحدیث (ایضاً:۱۹۴) حفص بن غیاث کثیر الحدیث، حافظ اورثقہ تھے،یہاں تک کہ وہ اپنے شیوخ سے بھی بلند مرتبہ تھے۔ امام اعمش کے محبوب اور ارشد تلامذہ میں تھے ؛حتیٰ کہ ان کے حلقۂ درس میں سوائے حفص اورابو معاویہ کے کسی کو سوال کرنے کی جرأت نہ ہوتی تھی۔ انہوں نے جن محدثین سے سماع حاصل کیا تھا ان میں امام اعمش کے علاوہ ہشام بن عروہ،یحییٰ بن سعید الانصاری،سفیان ثوری،عاصم الاحول،ابن جریج،اسماعیل بن ابی خالد، عبید اللہ بن عمر، مصعب بن سلیم،ابی مالک الاشجعی،جعفر الصادق ،ابو اسحاق الشیبانی،لیث بن ابی سلیم، مسعر بن کدام وغیرہ کے نام لائق ذکر ہیں۔ اسی تناسب سے ان کے تلامذہ کا دائرہ بھی کافی وسیع ہے، جن میں سے کچھ ممتاز یہ ہیں،عمر بن حفص،ابو نعیم،عفان بن مسلم، احمد بن حنبل،یحییٰ بن معین،علی بن المدینی،ابو خثیمہ،ازہیر بن حرب،حسن بن عرفہ،اسحاق بن راہویہ،یحییٰ بن معین، علی بن المدینی، ابو خثیمہ،زہیر بن حرب،حسن بن عرفہ،اسحاق بن راہویہ،یحییٰ بن یحییٰ النیساپوری،عمرو بن محمد الناقد،ان کے علاوہ کوفہ کے دوسرے تمام محدثین ان سے مستفید ہوئے۔ منصبِ قضا ان کی کتابِ زندگی کا سب سے زرین صفحہ قضاوافتاء کے سلسلہ میں ان کی خدمات ہیں،کوفہ وبغداد میں وہ سالہا سال تک اس منصب کی زینت بنے رہے،بغداد کے مشرقی ومغربی حصوں میں ہمیشہ علیحدہ علیحدہ دو قاضیوں کا تقرر ہواکرتا تھا،سب سے پہلے ۱۷۷ ھ میں خلیفہ ہارون الرشید نے انہیں شرقِ بغداد کے منصب قضا پر فائز کیا تھا،اس وقت قاضی حفص کی عمر ۶۰ سال تھی، دوسال تک وہ بہت شوکت ودبدبہ کے ساتھ بغداد کے قاضی رہے،خلیفہ ان کی بڑی عزت وتکیرم کرتا تھا اوران کے عدالتی فیصلوں کو بہت قدر ومنزلت کی نگاہ سے دیکھتا تھا، اسی اثناء میں قاضی حفص نے ایک قرضدار مجوسی سردار کے مقدمہ میں دلائل وشواہد کی بنیاد پر اس کے خلاف فیصلہ دے دیا، ۲۹ ہزار کے اس قرض کا کچھ تعلق امام جعفر سےبھی تھا؛چنانچہ اس نے خلیفہ پر دباؤ ڈالنا شروع کیا کہ وہ قاضی حفص کو معزول کردیں،لیکن ہارون الرشید اس کے لئے کسی طرح تیار نہ ہوا؛بلکہ وہ اس بے لاگ فیصلہ سے اس قدر مسرور ہوا کہ اس نے حفص بن غیاث کو تیس ہزار درہم دئے جانے کا حکم دیا۔ لیکن پھر جب ان کی معزولی کے لئے امام جعفر کا دباؤ حدسے زیادہ ہوا تو ہارون نے ان کو کوفہ کا قاضی مقرر کردیا،جہاں انہوں نے پوری شان سے ۱۳ سال تک اس منصب کی عزت بڑھائے رکھی۔ قاضی حفص نے کوفہ وبغداد کو ملاکر تقریباً ۱۵ سال تک اس فرض کو انجام دیا، اس طویل مدت میں انہوں نے کبھی بھی اس اعلیٰ عہدہ کی شان سے فروتر کوئی بات نہیں کی، جرأت ، غیر جانبداری،حق گوئی اوربے باکی سے وہ زیر بحث قضایا میں اپنی رائے اور فیصلہ صادر فرمایا کرتے تھے،اس میں نہ تو کسی صاحب اقتداء کی پرواہ کرتے اورنہ ارباب ثروت کو خاطر میں لاتے ؛بلکہ کتاب وسنت اوردلائل ونظائر کی روشنی میں جوبات قرینِ حق وانصاف معلوم ہوتی اسے بےباکانہ طور پر ظاہر کردیتے تھے۔ ہشام الرفاعی کہتے ہیں کہ ایک دفعہ حفص بن غیاث مسندِ قضا پر بیٹھے ،اپنے کام میں منہمک تھے کہ خلیفہ کا قاصد ان کی طلبی کا پروانہ لے کر حاضر ہوا،قاضی حفص نے اس سے کہا کہ مقدمات سے فارغ ہوکر آؤنگا؛کیونکہ میں عوام کا خادم ہوں ؛چنانچہ وہ اس وقت تک اپنی جگہ سے نہ اٹھے جب تک کہ تمام مقدمات کو فیصل کرکے فارغ نہ ہوگئے۔ اس منصب کی کڑی آزمائشوں سے وہ ہمہ وقت لرزاں رہا کرتے تھے، اوراکثر بلک بلک کر رویا کرتے کہ ایسا گرانبارفریضہ میرے ناتواں کاندھوں پر لاددیا گیا ہے،نہ معلوم اس سے کماحقہ،عہدہ برآہو رہا ہوں یا نہیں،انہی کا قول ہے۔ لان یدخل الرجل اصبعہ فی عینہ فیقتہ لعھا فیری بھا خیرلہ من ان یکون قاضیاً (اخبار القضاۃ:۳/۱۸۴) آدمی اپنی انگلی آنکھوں میں ڈال کر اسے نکال پھینکے یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ قضا کا کام کرے۔ لیکن یہ حقیقت مسلم ہے کہ انہوں نے عہدٔ قضا کے تمام تقاضوں کو باحسنِ وجوہ پورا کیا، دوسرے قضاۃ میں ان کی نظیر بہت کم ملتی ہے، یہی وجہ ہے کہ محققین نے ان کی اس حیثیت کو بہت نمایاں طور پر اجاگر کیا ہے،امام وکیع سے جب بھی کوئی مسئلہ دریافت کیا جاتا تو فرماتے اذھبوا الیٰ قاضیا فاسئلوہ،ولید بن ابن ابی بدر کہتے ہیں کہ جب قاضی حفص منصب قضا سے سبکدوش ہوئے تو امام وکیع نے فرمایا ذھبت القضاہ بعد حفص ،سجادہ کا بیان ہے کہ حفص پر قضات کا خاتمہ ہوگیا۔ حفظ واتقان قاضی حفص کا حافظہ بھی نہایت قوی تھا، ہزاروں حدیثیں مع اسناد ان کے نہاں خانہ دماغ میں محفوظ تھیں، جنہیں اپنے تلامذہ کے سامنے بغیر کتاب روایت کیا کرتے تھے،ابنِ معین کا بیان ہے کہ: جمیع ماحدث بہ حفص یبغداد والکوفۃ انما ھو من حفظہ لم یخرج کتاباً کتبوا عنہ ثلاث الان اور اربعۃ الاف حدیث من حفظہ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۷۲،ومیزان الاعتدال:۱/۲۶۶) بغداد اورکوفہ میں حفص نے جتنی بھی حدیثیں روایت کیں سب صرف اپنے حافظہ سے بغیر کتاب کے بیان کیں،لوگوں نے اس طرح ان سے تین یا چار ہزار حدیثیں لکھیں۔ لیکن بعض علماء کا خیال ہے کہ قاضی ہوجانےکے بعد ان کے قوتِ حافظہ میں خلل پیدا ہوگیا تھا؛چنانچہ ابو زرعہ کا قول ہے۔ ساء حفئلہ بعدما استقضی فمن کتب عنہ من کتابہ فھو صالح (خلاصہ تذہیب تہذیب الکما:۸۰) قاضی بن جانے کے بعد وہ سو حافظہ کا شکار ہوگئے تھے اس لئے جوان کی کتاب سے روایت کرلے وہ قابلِ قبول ہے۔ ثقاہت حفص بن غیاث کی عدالت وثقاہت پر اکثر علماء کا اتفاق ہے؛بلکہ ان کے مرتبہ تثبت واتقان کو بعض نے دوسرے کبار محدثین سے ارفع واعلیٰ قرار دیا ہے، ابو حاتم کا قول ہے "حفص اتقن واحفظ من ابی خالد الاحمر"ابن معین کہتے ہیں "حفص اثبت من عبد الواحد بن زیاد"اس کے علاوہ ابن خراش ،یعقوب بن شیبہ اور عجلی وغیرہ نے بھی بصراحت ان کی توثیق کی ہے، ابن حبان نے بھی کتاب الثقات میں ان کا ذکر کیاہے۔ (تہذیب التہذیب:۳/۴۱۷) آخر عمر میں کبر سنی کی بنا پر نسیان کا غلبہ ہوگیا تھا، جس کی وجہ سے کبھی روایات میں فرق ہوجاتا تھا اوربعض اوقات تدلیس کا شبہ ہوجاتا تھا،ابن سعد رقمطراز ہیں: کان ثقۃ ماموناً کثیرالحدیث الاانہ کان یدلس (طبقات ابن سعد:۶/۲۷۲) وہ ثقہ مامون اورکثیر الحدیث تھے مگر وہ تدلیس بھی کرتے تھے۔ ظاہر ہے کہ نسیان سے پہلے حفص بن غیاث کی ثقاہت مسلم تھی۔ کثرتِ احتیاط کسبِ حلال میں فرطِ احتیاط کا یہ عالم تھا کہ اپنے عہدۂ قضا کے دوران ایک مرتبہ پندرہ روز تک علالت کی بنا پر فرائض منصبی انجام نہ دے سکے؛چنانچہ صحتیاب ہونے کے بعد سودرہم یہ کہہ کر عامل کو واپس بھجوادئے کہ: ھذہ رزق خمسۃ عشرۃ یوماً لم احکم فیھا بین المسلمین لاحظ لی فیھا (تاریخ بغداد:۸/۱۹۱) یہ ان پندرہ روز کا خرچ ہے جس میں میں نے مسلمانوں کا کوئی فیصلہ نہیں کیا،اس لئے اس رقم کو لینے کا مجھے کوئی حق نہیں۔ استغناء قاضی حفص بغداد وکوفہ کے (چیف جسٹس )تھے،جو حکومت کا بلند ترین عہدہ ہے دنیا اوراس کے الوان ونعم ان کے قدموں میں ڈھیر تھے،لیکن ان کی بے نیازی اوراستغنا بھی اس مرتبہ ومقام کی نسبت سے ارفع تھی، سرکاری خزانہ سے انہیں تین سو درہم ماہانہ وظیفہ ملتا تھا، لیکن وہ اس میں سے اپنے جملہ مصارف کے لئے صرف سو درہم رکھ کر باقی مستحقین میں تقسیم کردیتے تھے۔ (اخبار القضاۃ:۳/۱۸۴) سیر چشمی اسی کے ساتھ وہ بہت ہی سیر چشم اورسخی واقع ہوئے تھے، ابھی مذکور ہواکہ اپنی تنخواہ میں سے وہ صرف سودرہم رکھتے اوران کو بڑی فراخ دستی کے ساتھ خرچ کرڈالتےتھے،ان کا دسترخوان بڑا وسیع ہوتا تھا، جس میں ان کے تلامذہ کے علاوہ بہت سے مقامی وبیرونی لوگ بھی شریک رہتے تھے،مزید برآں گاہ بگاہ پوری بستی کی دعوت بھی کرتے تھے،امام وکیع کا قول ہے "وکان سخیاً عفیفاً مسلماً" (تاریخ بغداد:۸/۱۹۴)ابو جعفر المسندی کہتے ہیں۔ کان حفص بن غیاث من اسخی العرب وکان یقول من لم یاکل من طعامی لااحد ثہ ،واذا کان یوم ضیافتہ لایبقی راس من الرواسیین حفص بن غیاث عرب کے سب سے زیادہ سخی آدمی تھے،وہ فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص میرا کھانا نہیں کھائے گا اس سے میں حدیث بیان نہیں کروں گا،جب ان کا یہاں دعوت کا دن ہوتا تو رواس کا کوئی شخص اس میں شرکت سے باقی نہیں رہتا تھا۔ اسی فراخ دستی کا نتیجہ تھا کہ وہ عمر بھر عسرت کا شکار رہے اوررحلت کے وقت نہ صرف یہ کہ ان کے پاس ایک درہم بھی نہ تھا؛بلکہ نوسو درہم کے مقروض نکلے جو ان کے پسماندگان نے ادا کیا۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۷۲) حلیہ قاضی حفص کے تفصیل حلیہ کا تو ذکر نہیں ملتا،لیکن ابوبکر بن غیاث کے اس قول سے کچھ روشنی ملتی ہے کہ جتنے نوجوان ہمارے پاس آتے ہیں ان میں حسنِ صورت کے اعتبار سے حفص بن غیاث کا کوئی ہمسر نہیں۔ (تہذیب التہذیب:۲/۴۱۷) وفات تاحیات ان کی یہ دلی تمنا رہی کہ وفات کے وقت قضاۃ کی زنجیروں سے آزادر ہوں،خداوند قدوس نے ان کی یہ آرزو پوری فرمائی اور وفات کے دو سال قبل عہدۂ قضا سےان کی علیحدگی کے سامان فراہم کردئے۔ ملازمت سے سبکدوشی کے بعد فالج کے شکار ہوگئے اور بالآخر امین کے عہدِ خلافت میں ۱۰ ذی الحجہ ۱۹۴ھ کو ان کی شمع حیات گل ہوئی (طبقات ابن سعد:۶/۲۷۲) امیر کوفہ فضل بن عباس نے نمازِ جنازہ پڑھائی۔ (تاریخ بغداد:۸/۲۰۰)