انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** مولانا شاہ محمد یعقوب مجددیؒ (م:۱۳ ربیع الاول ۱۳۹۰ھ /۲۰مئی ۱۹۷۰ء) ۱۔توفیق عابدوں سے چھن جاتی ہے تو ایسا گرتے ہیں کہ کوئی حد نہیں،اللہ جس کو بلندی دیتا ہے وہ خطرہ میں پھنستا چلاجاتا ہے،بلند لوگ ہی خطرہ میں رہتے ہیں کہ ذراسی غفلت ہوئی اورشیطان کا حملہ ہوا،ان کے اوپر جو فکر طاری رہتی ہے وہ بہت بڑی فکر ہے،فکر میں جب لذت ملنے لگتی ہے تو اس کا نام تفکر نہیں تیقن ہے یہ ترقی کا باعث ہے۔ (صحبتے باہل دل،ص:۲۸۸) ۲۔جب دوا اور مرض کا احساس نہ ہو تو کوئی کتنے ہی خلوص کے ساتھ عمدہ سے عمدہ نسخہ اور بنی بنائی دوائی پیش کرے لوگ قدر نہیں کرتے ہیں۔ (صحبتے بااھل دل،ص:۵۹) ۳۔آخرت اورجنت مقصود اورنتیجہ ہے اوربڑھاپا اورموت اس کا ذریعہ اورپل ہے،اس لئے مجھے تعجب ہوتا ہے جب کوئی بڑھاپے کی شکایت کرتا ہے اوربڑے درد و حسرت سے کہتا ہے کہ اب مرنا ہی باقی ہے اور موت تو آنی ہے،وہ لڑکوں اورجوانوں کو حسرت سے دیکھتا ہے کہ کبھی میں بھی ایسا تھا، اس کی مثال تو ایسے ہے کہ جیسے کوئی کسان خوشی خوشی کھیتی کرے، جب غلہ کاٹنے اورغلہ اٹھانے کا وقت آئے تو رنجیدہ اورمایوس ہو حالانکہ یہ ساری محنت ومشقت اسی دن کے لئے تھی اب اس کا افسوس کیوں؟اب تو غلہ اٹھانے اور گھر لے جانے کا وقت آیا ہے۔ (صحبتے بااھل دل،ص:۶۳) ۴۔ایسے آدمی کے لئے جو دنیا کی رفتار پر کچھ بھی مؤثر نہیں ہوسکتا اخبار بینی کا انہماک اضاعت وقت نہیں تو اورکیاہے؟ البتہ جو لوگ مؤثر ہوسکتے ہیں اورجو کسی اصلاح اور مقصد کے لئے اخبار دیکھتے ہیں ان کے لئے اخبار بینی موجب ترقی اورباعث ثواب ہوسکتی ہے۔ (صحبتے بااہل دل،ص:۶۵) ۵۔اللہ تعالیٰ جب کوئی مصیبت ڈالتا ہے تو اس سے پہلے صبر وشکر کی قوت اوریقین کی نعمت عطا فرماتا ہے ورنہ مصیبت کا تحمل مشکل ہے۔ (صحبتے بااھل دل،ص:۷۳) ۶۔دعاؤں کے جو مضامین اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کو تلقین فرمائے ان سے پہلے قبولیت کا فیصلہ فرمالیا،جس طرح کوئی حاکم جب کوئی کام کرنا چاہتا ہے تو امید وار کو خود ہی عرضی کا مضمون لکھوادیتا ہے یہ صرف ادعیۂ ماثورہ کی خصوصیت ہے بزرگوں سے جو دعائیں منقول ہیں وہ اس مرتبہ کو نہیں پہنچ سکتیں۔ (صحبتے بااھل دل،ص:۷۴) ۷۔بندگی اوراپنے کو مٹانا سب سے اونچا مقام ہے،بے نفسی،خود انکاری اوراپنے کو خاک وخس وخاشاک سمجھنے سے بڑھ کر کوئی مرتبہ اورکمال نہیں۔ (صحبتے بااھل دل،ص:۸۸) ۸۔بہت دن تک صبر کی حقیقت پر غور کرتا رہا،تفسیریں بھی دیکھیں،تشفی نہ ہوئی،پھر ذہن میں آیا کہ بڑے آرام کے لئے چھوٹی تکلیف برداشت کرنا یہی صبر کی حقیقت ہے۔ (صحبتے با اھل دل،ص:۱۰۵) ۹۔جو چیز مفت مل جاتی ہے اس کی قدر نہیں ہوتی، بڑے بڑے معارف اورحقائق بے محنت ومشقت مل جائیں تو ان کی وقعت ہی نہیں رہتی اورمحنت کرکے یہی پانی جو بہا پھرتا ہے حاصل ہوتو اس کی بھی قدر اورحفاظت ہوتی ہے۔ (صحبتے بااھل دل،ص:۱۴۲) ۱۰۔قرآن مجید مشیخت اور بزرگی کی نفی کرتا ہے وہ سب کو بندہ اورخدا کا محتاج ثابت کرتا ہے،وہ صاف اعلان کرتا ہے: "يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلَى اللَّهِ وَاللَّهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ" (الفاطر:۱۵) "اے لوگو!تم محتاج ہو اللہ تعالیٰ کی طرف اوراللہ وہی بے نیاز ستودہ صفات ہے" (صحبتے بااھل دل،ص:۱۴۷) ۱۱۔استعدادہرشخص کے اندرموجود ہے صرف اس کو ترقی دینے کی ضرورت ہے۔ (صحبتے بااھل دل،ص:۱۵۰) ۱۲۔دعا کی قبولیت کے لئے بزرگی شرط نہیں دل شکستگی شرط ہے۔ (صحبتے بااھل دل،ص:۱۵۲) ۱۳۔ایک چیز سمجھنے کی ہے وہ یہ کہ جہاں آپ بیٹھے ہیں اس کو سمجھ لیں کہ اس کا کیا حق اورکیا آداب ہیں؟ پھر کسی نصیحت اور وعظ کی ضرورت نہیں،صرف مکان اورزمان کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ (صحبتے باہل دل،ص:۱۵۵) ۱۴۔مجھے بحث ومناظرہ کا یہی طریقہ پسند ہے کہ بغیر دل آزاری اورضد ونفسانیت کو ابھارنے والی باتوں سے پرہیز کرتے ہوئے اپنی بات سمجھانے اور دل نشین کرنے کی کوشش کی جائے۔ (صحبتے بااہل دل،ص:۱۶۹) ۱۵۔مقصد تخلیق کو بھلاکر ایسی تعلیم میں منہمک ہوجانا جوموت کے بعد کام آنے والی نہیں، لوگ بڑی عقل مندی اورترقی سمجھتے ہیں، اس تعلیم میں کوئی حرج نہیں،ضرورت کے لحاظ سے اس کو اختیار کیا جاسکتا ہے،مگر اس کو کمال اورترقی سمجھنا بے جاہے۔ (صحبتے بااھل دل،ص:۱۷۰) ۱۶۔ایک مرتبہ ابوالحسن علی ندویؒ نے عرض کیا کہ کئی سال سے طبیعت تقریروں سے اچاٹ ہے،تقریر کے نام سے بخار سا چڑھتا ہے،پہلے یہ کیفیت نہ تھی، اس پر فرمایا: "لوگوں میں طلب واستقبال ہوتا ہے تو طبیعت میں انشراح پیدا ہوتا ہے اورمضامین کی آمد ہوتی ہے ورنہ انقباض پیدا ہوتا ہے،دراصل حاضرین ومخاطبین ہی کا عکس متکلم پر پڑتا ہے"۔ (صحبتے بااھل دل،ص:۱۸۰) ۱۷۔ارادوں کو قابو میں رکھ کر محل پر استعمال کرنا انسانیت ہے،ارادوں کے تابع تو جانور ہوتا ہے،جواپنے جذبات کو قابو میں نہ رکھ سکے۔ (صحبتے بااھل دل،ص:۱۸۷) ۱۸۔لوگوں کو اگر کسی شرعی امر کے لئے کہا جائے تو بہت دبی زبان سے کہتے ہیں کہ سنت ہے یعنی کوئی ضروری اوراہم چیز نہیں،میں کہتا ہوں کہ یہ فعل سنت تو ہے مگر یہ لہجہ کفر ہے،زور سے عظمت کے ساتھ کیوں نہیں کہتے کہ سنت ہی جوہرایمان اوراللہ کے رسول ﷺ کی محبت اورعظمت ہے۔ (صحبتے بااھل دل،ص:۱۸۸) ۱۹۔دنیا نے اپنی ترقی پر اکتفا نہیں کیا دین والوں نے اپنی حالتوں پر کیوں اکتفا کرلیا،بات یہ ہے کہ جس طرح دنیا کی عظمت اوروفاداری ان کے خیال میں ہے اس طرح دین کی عظمت ہمارے خیال میں نہیں ہے،اگر میں بتادوں کہ فلاں جگہ خزانہ ہے تو آپ اس کے لئے کیا کچھ نہ کریں گے۔ (صحبتے بااھل دل،ص:۱۹۵) ۲۰۔نرمی جتنا عمدہ کام دیتی ہے سختی نہیں دیتی ہے،بے وقت کی تیزی اور گرمی بنے بنائے کھیل بگاڑدیتی ہے۔ (صحبتے بااھل دل،ص:۲۰۳) ۲۱۔خدمت میں جو لطف ہے وہ مخدومیت میں نہیں،میری کسی نے خدمت کی تو معلوم ہوا کہ کھانا توکھارہا ہوں مگر پھیکا اورجب میں نے کسی کی خدمت کی تو معلوم ہوا کہ میں نے نہایت لذیذ اورچٹ پٹی چیز کھائی۔ (صحبتے بااھل دل،ص:۲۰۵) ۲۲۔جہالت اپنا کام کرنا نہیں چھوڑتی،انسانی فطرت اپنا کام کرتی رہتی ہے،دریاپریل باندھا جاتا ہے،پائے زمین میں گلائے جاتے ہیں،پل پہاڑ کی طرح کھڑا رہتا ہے،مگر دریا نہیں مانتا،اس کے پایوں سے ٹکراتا رہتا ہے ان کو ہلاکر گرادینا چاہتا ہے،اس میں کامیاب تو نہیں ہوتا مگر اپنا کام نہیں چھوڑتا۔ (صحبتے بااھل دل،ص:۲۵۹) ۲۳۔اس دنیا میں جو کچھ ہورہا ہے سب محبت کا کھیل ہے اور اس کا ظہور ہے،اگر ایک مکان بن رہا ہے تو یہ بھی محبت کا کرشمہ ہے،اگر ایک ٹوٹ رہا ہے تو یہ بھی محبت کا کرشمہ ہے،اگر ایک دوسرے کا گلا کاٹ رہا ہے تو یہ بھی ملک وسلطنت کی محبت کرارہی ہے،اگر چوری اورجرائم ہیں تو یہ بھی مال اور نفس کی محبت کی کارستانی ہے،معلوم ہوا کہ محبت ایک ایسا جوہر ہے جو انسان کو کہیں سے کہیں پہنچا دیتا ہے،فردکو فرد سے ملانے والی، افراد کو مجموعہ کی شکل میں لانے والی،ایثار وقربانی پر آمادہ کرنے والی، شہادت کا شوق دلانے والی محبت ہی ہے۔ (صحبتے بااھل دل، ص:۲۹۸) ۲۴۔آج ہمارے نوجوان نوشہ کیسی کیسی آرائش کرکے آتے ہیں تاکہ خوبصورت معلوم ہوں،خوبصورت تو حضرت بلالؓ تھے،کالا رنگ ،موٹے موٹے ہونٹ،لیکن یہ درجہ کہ ان کے جوتے کی چاپ جنت میں سنی گئی،خوبصورت بننا ہو تو حضرت بلالؓ کی زندگی اختیار کرو: دعویٰ ہو جس کو حسن کا محفل میں تیری آئے تو (صحبتے بااھل دل، ص:۳۰۲) ۲۵۔میرا تو یہ حال ہے کہ میرے قدم تو موت پر پڑرہے ہیں اورمیرا رخ اب ادھر ہی ہے،مجھے اب کوئی آرزو اور تمنا نہیں بس ایک ہی تمنا ہے: اسی تمنا میں عمر گزری کہ یار ہم سے تو آملے گا نہ ہم نے جانا کہ وصل کیا ہے نہ ہم سمجھے وصال کیا ہے (صحبتے بااھل دل،ص:۳۴۹) (۱)پہلی ضرورت اخلاق و معاملات کو درست کرنے اور نفس کی اصلاح اور اس کو مغلوب کرنے کی ہے ، جب تک نفس کا تسلط دور نہ ہوگا نہ اطاعت کا جذبہ پیدا ہوگا نہ ایثارو قربانی کا مادّہ، جب ہم اپنے نفس پر اللہ کی حکومت اور اس کے حدود جاری نہیں کرسکتے تو دوسروں پر کیا جاری کرسکیں گے ۔ (۲)خدا کے خوف اور تقویٰ کی زندگی اختیار کرنے سے اللہ تعالیٰ وہ زندگی عطا فرماتا ہے جس میں امن و سکون اور قرار ہوگا اور دائمی ہوگا ۔