انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** کتب حدیث کا تعارف صحیفۂ حضرت ہمام بن منبّہ رحمۃ اللہ علیہ(۱۱۰ھ) حدیث کی قدیم کتاب جو اس وقت ہماری رسائی میں ہے "صحیفۂ ہمام بن منبہ" ہے، ہمام بن منبہؒ حافظ الامت سیدنا حضرت ابوہریرہؓ کے شاگرد تھے، صحیفۂ ہمام بن منبہ (۱۱۰ھ) میں ۱۳۸ حدیثیں حضرت ابوہریرہؓ کی روایت سے لکھی ہیں، یہ نہ سمجھا جائے کہ حضرت ہمامؒ کو کل ۱۳۸/احادیث ہی یاد تھیں، نہیں آپ نے اور اساتذہ سے بہت سی روایات سنیں، ان دوسرے اساتذہ سے سنی روایات اس میں شامل نہیں، نہ حضرت ابوہریرہؓ سے سنی کل روایات کا اس میں احاطہ ہے، حضرت ہمامؒ نے جب یہ صحیفہ مرتب کیاتو ان دنوں فنِ تدوین اپنی بالکل ابتدائی منزل میں تھا، یہ مجموعہ محض یادداشت کے طور پر لکھا گیا تھا، صحیفہ ابن ہمامؒ، ڈاکٹرحمیداللہ صاحب کے تحقیقی کام کے ساتھ حیدرآباد دکن سے ۱۹۵۵ء میں شائع ہوا، مولانا حبیب اللہ صاحب حیدرآبادی نے اس کا اردو میں ترجمہ کیا ہے جو شائع ہوچکا ہے، تیرہ صدیوں تک یہ کتاب مخطوطات میں ہی رہی، اس سے بہت پہلے مسندامام احمد مصر میں چھپ چکی تھی، اس میں مرویاتِ ابی ہریرہؓ ایک مستقل مسند ہے، مسندامام احمد کی جلد دوم میں صحیفہ ہمام بن منبہؒ کی کل احادیث میں ابی ہریرہؓ میں موجود ہیں، اس سے پتہ چلتا ہے کہ قدماء نے حدیث کس احتیاط سے جمع کی کہ تیرہ صدیوں بعد آنے والا مجموعہ صدیوں بعد شائع ہونے والی کتابوں سے ہو بہو اور حرف بحرف مطابق نکلا، اس وقت متن حدیث کی قدیم ترین کتاب جسے ہم دیکھ سکتے ہیں یہی ہے۔ حدیث کی دس پہلی کتابیں پہلے ان دس کتابوں سے تعارف کیجئے جو صحاحِ ستہ کے وجود میں آنے سے پہلے لکھی جاچکی تھیں اور علماء متقدمین ومتأخرین ان کے حوالوں سے بحث کرتے آئے ہیں اور ان کی اصلیت Authenticity کسی دور میں مخدوش نہیں سمجھی گئی۔ (۱)مسندامام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ (۱۵۰ھ) امام اعظم ابوحنیفہؒ کا موضو ع زیادہ ترفقہ تھا، حدیث نہیں تاہم آپ ضمناً احادیث بھی روایت کرتے جاتے تھے، جنھیں آپ کے شاگرد آپ سے روایت کردیتے تھے، مختلف علماء نے آپ سے روایت شدہ احادیث کو جمع کیا ہے، علامہ خوارزمی (۶۶۵ھ) نے ان کے پندرہ جمع شدہ مجموعے مسانید ابی حنیفہؒ کے نام سے مرتب کیا ہے، ان مجموعوں کو امام صاحب سے براہِ راست نقل کرنے والے امام ابویوسفؒ، امام محمدؒ، امام صاحبؒ کے صاحبزادے حمادؒ اور امام حسن بن زیادؒ ہیں، ان میں سب سے بہتر مجموعہ محدث جلیل موسیٰ بن زکریا حنفی کا ہے، اسے ہی مسند ابی حنیفہ کہا جاتا ہے، یہ کتاب مصر، ہندوستان اور پاکستان میں بارہا چھپ چکی ہے۔ محدث کبیر ملاعلی قاریؒ نے سندالانام فی شرح الامام کے نام سے اس کی شرح لکھی جو سنہ۱۸۸۹ء میں مطبع محمدی لاہور نے شائع کی تھی، یہ کتاب مولانا محمدحسن سنبھلی کے حاشیہ کے ساتھ اصح المطابع لکھنؤ سے سنہ ۱۳۰۹ھ میں شائع ہوئی۔ (۲)مؤطا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ(۱۷۹ھ) مؤطا لفظ توطیہ سے ہے، توطیہ کے معنی روندنے، تیار کرنے اور آسان کرنے کے ہیں، امام مالکؒ نے اسے مرتب کرکے سترفقہاء کے سامنے پیش کیا، سب نے اس سے اتفاق کیا؛ اسی وجہ سے اس اتفاق شدہ مجموعہ کو مؤطا کہا گیا ہے، امام مالکؒ نے اسے فقہاء کے سامنے کیوں پیش کیا؟ محدثین کے سامنے کیوں نہیں؟ ملحوظ رہے کہ ان دنوں فقہاء ہی حدیث کے اصل امین سمجھے جاتے تھے اور یہی لوگ مراداتِ حدیث کو زیادہ جاننے والے مانے جاتے تھے۔ امام مالکؒ کا موضوع چونکہ زیادہ ترفقہ تھا؛ اس لیے آپ نے اس میں سند کے اتصال کے بجائے تعامل امت کو زیادہ اہمیت دی ہے، آپ اس میں اقوال صحابہؓ اور تابعین بھی لے آئے ہیں، آپ کے ہاں سنت وہی ہے جس پر امت میں تسلسل سے عمل ہوتا آیا ہے، حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "مَزَجَہُ بِأَقْوَالِ الصَّحَابَۃِ وَفَتَاوَی التَّابِعِیْنَ وَمَنْ بَعْدَھُمْ"۔ (مقدمۃ الفتح:۱/۴) آپ نے صحابہ کے اقوال اور تابعین اور ان کے بعد کے لوگوں کے فتاوے اس میں شامل کئے ہیں۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اسے فقہ کی کتاب شمار کرتے ہیں، جہاں تک اس کے اسانید کا تعلق ہے اس کے بارے میں لکھتے ہیں: "فَلَيْسَ فِيْهِ مُرْسَلٌ وَلَامُنْقَطَعٌ إِلَّاقَدْ اِتَّصَلَ السَّنَدُ بِهِ مِنْ طُرْقٍ أُخْرَىٰ"۔ (حجۃ اللہ البالغۃ، باب طبقات کتب الحدیث:۱/۲۸۱) اس میں کوئی مرسل اور منقطع روایت ایسی نہیں جو دوسرے طرق سے متصل نہ ہوچکی ہو۔ مؤطا امام مالکؒ میں ۸۲۲/روایات مرفوع ہیں، جو حضورﷺ تک پہونچتی ہیں، ان میں سے بھی ۲۴۴/مرسل ہیں جوتابعینؒ کی روایت سے حضورﷺ تک پہونچتی ہیں، انہیں محدثین کی اصطلاح میں مرسل کہتے ہیں، اس دور میں مرسل احادیث لائق قبول سمجھی جاتی تھیں، جب تک جھوٹ اور فتنوں کا دور شروع نہیں ہوا، امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ جیسے اکابر مرسل روایات کو بلاتردد قبول کرتے رہے۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے مؤطا کے سولہ نسخے آگے چلے، جن میں صحیح ترین نسخہ امام یحییٰ بن یحییٰ مصمودی الاندلسی کا ہے، مؤطا مالک ان دنوں اسے ہی کہتے ہیں، بڑے بڑے متبحر علماء نے اس کی شروح اور حواشی لکھے ہیں، ان کا کچھ ذکر آپ کو شروح حدیث کے ذیل میں ملے گا، حضرت امام شافعیؒ نے لکھا ہے: "مَاعَلَى ظَہْرَالْأَرْضِ بَعْدَ كِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى أَصَحُّ مِنْ كِتَابِ مَالِكٍ"۔ (المؤطا، روایۃ محمد بن الحسن، اصح کتب الحدیث:۱/۲۵) روئے زمین پر کوئی کتاب قرآن کریم کے بعد مؤطا سے زیادہ صحیح نہیں۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب صحیح بخاری اور صحیح مسلم وجود میں نہیں آئی تھیں اور صحت سند کے لحاظ سے مؤطا مالک اپنی مثال آپ تھی، اس کی کوئی روایت جرح راوی کی وجہ سے ضعیف نہیں، امام مالکؒ سے ایک ہزار کے قریب علماء نے مؤطا لکھی (۳)کتاب الآثار امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ(۱۸۲ھ) گوآپ حدیث کے امام تھے؛ مگر آپ کا موضوع بھی فقہ تھا، آپ نے احادیث بھی بہت روایت کی ہیں، زیادہ روایات امام ابوحنیفہؒ سے لیتے ہیں، کتاب الاثار فقہی طرز پرآپ کی روایات کا ایک مجموعہ ہے، امام یحییٰ بن معینؒ (۲۳۳ھ) لکھتے ہیں: "كَانَ أَبُوْيُوْسُفَ الْقَاضِيْ يَمِيْلُ إِلَى أَصْحَابِ الْحَدِيْثِ وَكُتِبَتْ عَنْهٗ "۔ (تاریخ ابن معین، روایۃ الدوری، فیہ تسمیۃ التابعین ومن بعدھم من الشامیین، روایت نمبر:۵۳۵۳، صفحہ نمبر:۴/۴۷۴) امام ابویوسفؒ محدثین کی طرف زیادہ مائل تھے اور آپ کی روایات لکھی جاتی تھیں۔ امام ابویوسفؒ کی اس کتاب کو مطبع احیاء المعارف النعمانیہ نے ۱۳۵۵ھ میں شائع کیا ہے۔ (۴)کتاب الآثار امام محمد رحمۃ اللہ علیہ(۱۸۹ھ) مصر اور ہندوستان میں بارہا چھپ چکی ہے، اس کی متعدد شرحیں بھی لکھی گئیں، جن میں سے بہترین شرح مفتی دارالعلوم دیوبند "مہدی حسن صاحب" کی ہے، جوتین جلدوں میں ہے، کتاب الآثار امام محمد کا عربی متن پہلے مطبع اسلامیہ نے سنہ۱۳۲۹ھ شائع کیا ہے۔ (۵)مؤطا امام محمد رحمۃ اللہ علیہ(۱۸۹ھ) امام محمدؒ نے امام ابوحنیفہؒ کی وفات کے بعد حضرت امام مالکؒ سے مؤطا سنی اور پھر آپ نے خود ایک مؤطا ترتیب دی، جس میں زیادہ روایات امام مالکؒ سے لی ہیں، مؤطا امام محمدؒ بھی درسی کتاب ہے، ہندوستان، پاکستان، ترکی اور افغانستان کے مدارس ِحدیث میں پڑھائی جاتی ہے، اس کا اردو ترجمہ بھی ہوچکا ہے، اس میں مرویات آپ کی ہیں؛ مگرتبویب آپ کے شاگردوں میں سے کسی نے کی ہے "ھٰکَذَا سَمِعْتُ مِنْ بَعْضِ الثِّقَاتِ"۔ (۶)مسندامام شافعی رحمۃ اللہ علیہ(۲۰۴ھ) آپ کا زیادہ ترموضوع فقہ تھا؛ مگرآپ اس کے ضمن میں احادیث بھی روایت کرتے تھے، آپ کے دور میں فتنے بہت ابھر آئے تھے اور جھوٹ عام ہوچکا تھا، اس لیے آپ نے راویوں کی جانچ پڑتال پر بہت زور دیا اور تعامل امت کی نسبت صحت سند کو اپنا مآخذ بنایا، آپ نے یہ مسند خود ترتیب نہیں دی، اس کے مرتب ابوالعباس محمد بن یعقوب الاصم (۲۴۶ھ) ہیں، یہ مسند امام شافعیؒ سے امام مزنی رحمہ اللہ نے اور امام مزنی رحمہ اللہ سے امام طحاویؒ (۳۲۱ھ) نے بھی روایت کی ہے، اس کی بھی کئی شروح لکھی گئیں جن میں مجدالدین ابن اثیرالجزریؒ (۶۰۶ھ) اور امام سیوطیؒ کی شرحیں زیادہ معروف ہیں۔ (۷)المصنف لعبدالرزاق بن ہمام رحمۃ اللہ علیہ(۲۱۱ھ) عبدالرزاقؒ امام ابوحنیفہؒ کے شاگرد تھے، المصنف گیارہ جلدوں میں بیروت سے شائع ہوئی ہے، حاشیہ پر تحقیقی کام دیوبند کے مشہور محدث مولانا حبیب الرحمن اعظمیؒ نے کیا ہے، پہلے دور کی کتابوں کی طرح اس میں صحابہؓ اور تابعینؒ کے فتاوے بھی بہت ہیں اورمؤلف متصل ومرسل ہرطرح کی روایات لے آئے ہیں، ان دنوں محدثین تعاملِ امت پرگہری نظر رکھتے تھے۔ (۸)مسندابی داؤد الطیالسی رحمۃ اللہ علیہ(۲۲۴ھ) دائرۃ المعارف العثمانیہ حیدرآباد دکن نے سنہ۱۳۳۲ھ میں اسے شائع کیا ہے، مسند کی ترتیب پر ہے، صحابہؓ کی مرویات علیحدہ علیحدہ ہیں، اب ابواب فقہ کی ترتیب سے چھپ گئی ہے، اس میں بعض ایسی احادیث ہیں جو اور کتابوں میں نہیں ملتیں، اس پہلو سے یہ کتاب بہت اہمیت کی حامل ہے۔ (۹)المصنف لابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ(۲۳۵ھ) پورا نام الکتاب المصنف فی الاحادیث والآثار ہے، مؤلف امام حافظ ابوبکر عبداللہ بن محمد بن ابراہیم بن عثمان ابوشیبہ ہیں، مولانا عبدالخالق افغانی رئیس مجلس علمی بدائرۃ المعارف العثمانیہ کے تحقیقی کام کے ساتھ تیسری جلد تک چھپ چکی ہے، تیسری جلد کتاب الجنائز پر مکمل ہوئی اور سنہ۱۳۳۸ھ میں چھپی؛ پھریہ سلسلہ رک گیا، اب نئے سرے سے حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمی ؒکے تحقیقی حاشیہ کے ساتھ کاملاً چھپ رہی ہے، اس کا اہتمام فضیلۃ الشیخ حضرت مولانا عبدالحفیظ صاحب خلیفہ مجاز حضرت الشیخ مولانامحمدزکریا محدث سہارنپوری کررہے ہیں، بحمدللہ یہ کتاب منظرعام پرآچکی ہے،اور شیخ عوامہ کی تحقیق نے مزید چار چاند لگادیا ہے۔ (۱۰)مسندامام احمد بن حنبل الشیبانی رحمۃ اللہ علیہ مسندامام احمد کی موجودہ ترتیب آپ کے صاحبزادے عبداللہ کی ہے، قاضی شوکانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "امام احمدؒ نے جس روایت پر سکوت اختیار کیا ہے اور اس پر جرح نہیں کی وہ لائق احتجاج ہے"۔ اس سے اس مسند کی عظمت کا اندزہ ہوسکتا ہے حافظ ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں کہ مسنداحمد کی شرط روایت ابوداؤد کی ان شرائط سے قوی ہے، جو انہو ں نے اپنی سنن میں اختیار کی ہیں، امام ابوداؤدؒ (۲۷۵ھ) لکھتے ہیں: "وَمَا لَمْ أَذْكُرْ فِيهِ شَيْئًا فَهُوَ صَالِحٌ وَبَعْضُهَا أَصَحُّ مِنْ بَعْضٍ"۔ (صحیح ابوداؤد، مقدمہ:۱/۱۳) اور جس راوی کے بارے میں میں نے کچھ نہیں لکھا وہ اس لائق ہے کہ اس سے حجت پکڑی جائے۔ علامہ ابن الجوزی اور حافظ عراقی نے مسنداحمد کی ۳۸/روایات کو موضوع قرار دیا ہے، حافظ ابن حجرعسقلانی رحمہ اللہ نے ان میں ۹/روایت کا پورا دفاع کیا ہے اور اس پر ایک مستقل کتاب لکھی ہے، جو حیدرآباد دکن سے شائع ہوچکی ہے، چودہ روایات کا جواب حافظ جلال الدین سیوطیؒ نے "الذیل المہد" میں دیا ہے، حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے مسندامام احمد کو طبقۂ ثانیہ کی کتابوں میں جگہ دی ہے، حافظ سراج الدین عمر بن علی ابن الملقن (۸۰۴ھ) نے مسند احمد کا ایک اختصار بھی کیا ہے اور علامہ ابوالحسن سندھی (۱۲۳۹ھ) نے مسند احمد کی ایک شرح بھی لکھی ہے، شیخ احمد بن عبدالرحمن البناء نے اسے فقہی ابواب پر مرتب کیا اور شیخ احمد شاکر نے اس پر تحقیقی کام کیا ہے، اس کا نام الفتح الربانی من مسنداحمد بن حنبل شیبانی ہے، یہ ۲۲/جلدوں میں ہے، ۱۳۵۳ھ میں پہلی جلد شائع ہوئی، ۱۳۷۷ھ میں آخری جلد مطبع غوریہ مصر سے شائع ہوئی۔ پہلے دور کے یہ دس نمونے مختلف قسموں پر جمع ہوئے ہیں، اس دور کی اور بھی بہت کتابیں تھیں جو اس وقت ہماری رسائی میں نہیں؛ لیکن ان کے حوالے شروح حدیث میں عام ملتے ہیں اور ان کے مخطوطات بھی کہیں کہیں موجود ہیں، ان میں سے چند کے نام یہ ہیں: سنن مکحول الدمشقی (۱۱۶ھ)، سنن ابن جریح المکی (۱۵۰ھ)، جامع معمر بن راشد (۱۵۳ھ)، جامع سفیان الثوری (۱۶۱ھ)، مسند احمد بن عمروالبزار (۱۶۷ھ)، مسندوکیع بن الجراح (۱۹۷ھ)، مسندابن الجارودالطیالسی (۲۰۴ھ)، مسندفریابی (۲۱۲ھ)، مسندابی عبیدقاسم بن سلام (۲۲۴ھ)، مسندابن المدینی (۲۳۴ھ)، مسنداسحٰق بن راہویہ (۲۳۸ھ)یہ سب مجموعے بھی شائع ہوچکے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ اس دور کے آخر میں تالیف حدیث اپنے فنی کمال کو پہونچ گئی اور محدثین نے وہ گراں قدر مجموعے مرتب کئے کہ خود فن ان پر ناز کرے گا، صحیح بخاری اور صحیح مسلم اسی دور آخر کی تالیفات ہیں۔ صحاحِ ستہ کا دورِ تدوین وتالیف مسلمانوں میں حدیث کی چھ کتابیں انتہائی معتمد سمجھی گئی ہیں، انہیں صحاحِ ستہ کہتےہیں، ان میں پہلی دوکتابیں تو صحیحین کہلاتی ہیں اور دوسری چار کتابیں سنن کہلاتی ہیں، یہ سنن اربعہ بیشتر صحیح روایات پر مشتمل ہیں، فن حدیث میں یہ چھ کتابیں انتہائی لائق اعتماد سمجھی جاتی ہیں، ان چھ کتابوں کا تفصیلی تعارف ضروی ہے، یہ کتابیں تدوین حدیث کے دوسرے دور سے تعلق رکھتی ہیں: (۱)صحیح بخاری امام محمدبن اسماعیلؒ (۲۵۶ھ) کی اس کتاب کا پورا نام "الجامع الصحیح المسند من حدیث رسول اللہ وسننہ وایامہ" ہے، اس نام میں مسنداپنے اصطلاحی معنوں میں نہیں، اسے "الجامع الصحیح" بھی کہتے ہیں؛ کیونکہ فن حدیث کے آٹھوں ابواب (کتاب) اس میں جمع ہیں، امام بخاریؒ نے صحتِ سند، فقہ حدیث اور تحریر تراجم میں حدیث کا وہ عدیم النظیرمجموعہ تیار کیا ہے کہ اسے بجاطور پر اسلام کا اعجاز سمجھنا چاہیے، اہل فن اسے اصح الکتاب بعد کتاب اللہ قرار دیتے ہیں۔ امام بخاریؒ تقطیع حدیث (حدیث کو مختلف حصوں میں تقسیم کرکے اس کے اجزاء کو علیحدہ علیحدہ روایت کرنا) کے قائل تھے، وہ حدیث کے مختلف اجزاء کو مختلف ابواب میں لاتے ہیں، امام صاحب کا ترجمۃ الباب "Chapter Heading" امام صاحب کا فقہی نظریہ ہوتا ہے، جو ان کے خیال میں اس حدیث میں لپٹا ہوتا ہے جملہ" فقہ البخاری فی تراجمہ "علمائے حدیث میں بہت معروف ہے، ان فقہی تراجم کے باعث امام صاحب کو بعض روایات باربار بھی روایت کرنی پڑی ہیں، صحیح بخاری کی کل مرویات ۷۲۷۵/ ہیں، مکررات کو حذف کرکے چار ہزار کے قریب رہ جاتی ہیں؛ پھرساری روایات مرفوع (جو حضورﷺ تک پہونچتی ہوں) نہیں ہیں، موقوف روایات (صحابہ کی روایات) اور تابعین کبار کے بہت سے اقوال بھی اس میں ملتے ہیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت امام بخاریؒ حدیثِ رسول کے بعد اپنے آپ کو آزاد نہیں سمجھتے؛ بلکہ ان کی فکر انہیں اسلاف کی طرف متوجہ کرتی ہے، وہ صحابہؓ اور تابعینؒ سے مستغنی رہ کر نہ چلتے تھے، صحابہؓ اور دیگر ائمہؒ کی طرف بھی رجوع کرتے ہیں، علامہ سیدمحمدمرتضیٰ الحسینی زبیدی (۱۲۰۵ھ) نے صحیح بخاری کی اسانید اور مکررات حذف کرکے تجرید بخاری مرتب کی، یہ تجرید بھی اپنی جگہ بہت متداول ہے۔ (۲)صحیح مسلم امام مسلمؒ (۲۶۱ھ) نے فنِ حدیث میں صحت سند، حسن صناعت اور مسلک محدثین کے التزام سے ایسی کتاب ترتیب دی ہے کہ کتب حدیث میں اس کی نظیر نہیں، اس پہلو سے یہ صحیح بخاری سے بھی فائق ہے، ابواب مسلم کے لکھے ہوئے نہیں؛ یہی وجہ ہے کہ آپ حدیث پوری روایت کرتے ہیں، جس میں کئی کئی مضامین ہوتے ہیں، آپ امام بخاریؒ کی طرح تقطیع حدیث (حدیث کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے اپنے متعلقہ موضوعات میں لانا )نہیں کرتے، صحیح مسلم کی احادیث مکررات حذف کرنے کے بعد چار ہزار رہ جاتی ہیں، حافظ ابن عوانہ الاسفرائنی (۴۱۶ھ) نے صحیح مسلم پر استخراج کرکے مسند ابی عوانہ مرتب کی ہے، جو صحیح مسلم کی شرطوں پر مزید احادیث ہیں، حافظ منذری (۶۵۶ھ) نے تجرید الصحیح کے نام سے اس کی تجرید کی ہے، محمدبن احمد محمدالغرناطی (۷۶۴۱ھ) نے تہذیب الصحیح کے نام سے اس کا اختصار کیا ہے، علمائے حدیث نے صحیح مسلم کی کئی شرحیں لکھی ہیں۔ اس دور میں جس کے پیشرو حضرات امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ ہوئے اور بھی کئی بلند پایہ اہل فن اٹھے، جنھوں نے اپنے گراں قدر مجموعہائے حدیث سے اس فن کو تکمیل بخشی، ان میں یہ تین کتابیں چوٹی کی کتابیں ہیں اور بعض فنی اعتبارات سے ان کی بھی نظیر نہیں ملتی۔ (۱)سنن ابی داؤد (۲۷۵ھ) (۲)جامع ترمذی (۲۷۹ھ) (۳)سنن نسائی (۳۰۳ھ)۔ (۱)سنن ابی داؤد (۲۷۵ھ) فقہی اعتبار سے بہت بلند پایہ کتاب ہے، ایک مجتہد تہذیب شریعت اور تدوین فقہ میں جن احادیث کا محتاج ہوسکتا ہے وہ سب اس سنن میں موجود ہیں، اسے ادق الکتب بعد کتاب اللہ کہا جاتا ہے، صحیح بخاری اصح ہونے میں اس سے اوّل ہے؛ مگرادق ہونے میں اس کا نام آگے ہے، حافظ منذری نے اس کی بھی تلخیص کی ہے، کتبِ حدیث میں یہ سب سے پہلی کتاب ہے جس کی شرح سب سے پہلے لکھی گئی، حافظ احمد بن محمد امام ابوسلیمان الخطابی (۳۸۸ھ) نے معالم السنن کے نام سے اس کی شرح لکھی، جو بار بار چھپ چکی ہے۔ امام ابوداؤدؒ کی کتاب مراسیل ابی داؤد مرسلات پر پہلا مرتب مجموعہ ہے، بعض اہل مطابع نے اسے سنن کے آخر میں شامل کردیا ہے، امام ابوداؤد حنبلی مسلک کے تھے، امام احمد کی طرح احادیث صحابہ کو بہت اہمیت دیتے تھے اور مرفوع احادیث کے اختلاف میں عملِ صحابہ کو حجت سمجھتے تھے، امام ابوحنیفہؒ کو بھی امام تسلیم کرتے تھے، حافظ ذہبیؒ لکھتے ہیں: "قَالَ أَبُوْدَاؤدَ رَحْمَہُ اللہُ إِنَّ أَبَاحَنِیْفَۃَ کَانَ إِمَاماً"۔ (تذکرۃ الحفاظ: ۱/۱۶۹) ابوداؤد نے کہا: بے شک ابوحنیفہ امام تھے۔ سنن أبی داؤد کی مرویات ساڑھے چار ہزار کے قریب ہیں۔ (۲)جامع ترمذی (۲۷۹ھ) اس کتاب کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ امام ترمذیؒ ہرحدیث کے آخر میں اس کی سند کے بارے میں صحیح، حسن یاضعیف ہونے کا حکم لگاتے ہیں اور طلبہ حدیث کو مدارجِ حدیث معلوم کرنے میں اس سے بہت مدد ملتی ہے؛ پھرآپ آخر ابواب میں مذاہب فقہاء بھی بیان کرتے ہیں، اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان دنوں فہم حدیث میں مذاہب فقہاء کو کس درجہ اہمیت حاصل تھی اور محدثین بیان حدیث میں فقہاء کی آراء بیان کرنے میں کوئی عار نہ سمجھتے تھے۔ آپ اس کتاب میں ہرمسلک کی روایات کو لاتے ہیں، اس سے شریعت کی وسعت نظر اور سنن کی وسعت عمل کا پورا نقشہ پوری حکمت سے پرنظر آتا ہے، آپ نے اس میں امام بخاری کی طرح جمیع ابواب حدیث کو روایت کیا ہے، اس لیے سنن ترمذی کو جامع ترمذی کہا جاتا ہے؛ ورنہ اپنی نوع میں یہ سنن کی طرز پر مرتب ہے، امام نجم الدین سلیمان بن عبدالقوی الطّوفی (۷۱۰ھ) نے مختصر جامع ترمذی کے نام سے اس کا ایک اختصار کیا ہے، جامع ترمذی کی کئی شروح لکھی گئی ہیں، جو علماء میں متداول ہیں۔ (۳)سنن نسائی (۳۰۳ھ) صحت سند میں صحیحین کے بعد اسی کا درجہ ہے، سند حدیث کی علل پر امام نسائی کی نظر امام ابوداؤد اور امام ترمذی سے بھی گہری ہے، آپ اس باب میں امام ابوزرعہ اور امام بخاری کے طبقہ کے معلوم ہوتے ہیں، سنن نسائی جو مدرسوں میں پڑھائی جاتی ہے اس کا اصل نام "المجتبی من سنن النسائی" ہے، امام نسائی نے سنن نسائی کا یہ خود اختصار کیا ہے، امام نسائی کی سنن کبریٰ مخطوطات کی شکل میں کئی کتب خانوں میں موجود ہے، بعض علماء دیوبند اس پر تحقیقی کام کررہے ہیں، اس کی اشاعت سے حدیث میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوگا(بحمدللہ یہ بھی شائع ہوچکی ہیں) امام نسائی نے المجتبی میں احادیث کے تبویب امام بخاریؒ کے طرز پر کی ہے اور کوشش کی ہے کہ تراجم ابواب میں مضمون حدیث کی طرف پورا اشارہ ہوجائے۔ نواب صدیق حسن خان صاحب نے آپ کو شافعی المسلک لکھا ہے؛ مگرمولانا انور شاہ صاحب محدث کشمیری رحمۃ اللہ علیہ آپ کو حنبلی المسلک بتاتے ہیں، سنن نسائی پر بھی شروح وحواشی کا بہت کام ہوا ہے اور متونِ حدیث میں اسے بڑی اہمیت حاصل رہی ہے، صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے ساتھ مل کر یہ تین کتابیں صحاحِ ستہ کی اصل ہیں، مؤطا امام مالک یاسنن دارمی یاسنن ابن ماجہ کو ساتھ ملاکر انہیں صحاحِ ستہ کہتے ہیں۔ مؤطا امام مالک کا ذکر دور اول کی دس کتابوں میں ہوچکا ہے، سنن دارمی، ابومحمدعبداللہ بن عبدالرحمن الدارمی سمرقندی (۲۵۵ھ) کی تالیف ہے، امام بخاری کے ہمعصر ہیں، آپ سے امام مسلم، ابوداؤد اور ترمذی نے بھی یہ روایات لی ہیں، سنن دارمی پہلے ہندوستان میں مطبع نظامی کان پور میں ۱۲۹۳ھ میں چھپی، اب مصر میں بھی بارہا چھپ چکی ہے، دوجلدوں میں ہے اور اس کا اردو میں ترجمہ بھی ہوچکا ہے، سنن ابن ماجہ (۲۷۳ھ) ابوعبداللہ محمد بن یزید بن ماجہ القزوینی کی تالیف ہے، آپ نے امام مالکؒ کے کئی شاگردوں سے حدیث سنی، سنن ابن ماجہ اپنی وسعت اور جامعیت سے اس لائق ہے کہ اسے صحاحِ ستہ کی چھٹی کتاب سمجھا جائے، علمائے حدیث نے اس پر بھی بہت کام کیا ہے اور اس کی بسیط حواشی لکھے ہیں، مولانا عبدالرشید نعمانی کی کتاب "ماتمس إلیہ الحاجہ لمن یطالع سنن ابن ماجہ" اس باب میں ایک نہایت مفید مقدمہ علم حدیث ہے۔ صحاحِ ستہ کے بعد کے متداول مجموعے صحاحِ ستہ کے بعد جن کتابوں کو زیادہ شہرت حاصل ہوئی اور وہ علماء کو دستیاب ہیں یہ ہیں: (۱)شرح معانی الآثار امام طحاوی (۳۲۱ھ) اپنے طرز کی نہایت عجیب کتاب ہے، کتبِ حدیث میں اس کی مثل نہیں، درسی کتاب ہے، دارالعلوم دیوبند میں دورۂ حدیث میں پڑھائی جاتی ہے، افسوس کہ اس کی طباعت میں بہت کم محنت کی گئی ہے، موجودہ مطبوعہ نسخوں میں تقریباً ہرنسخے میں کوئی نہ کوئی غلطی موجود ملتی ہے، مظاہر علوم سہارنپور کے مولانا محمدایوب صاحب نے اس سلسلہ میں بہت محنت کی ہے اور "تصحیح الاغلاط الکتابیہ الواقعۃ فی النسخ الطحاویہ" دوضخیم جلدوں میں شائع کی ہے، یہ کتاب مکتبہ اشاعت العلوم سہارنپور سے ملتی ہے، علامہ عینی جیسے بلند پایہ محدثین نے "شرح معانی الآثار" کی شروح کئی ضخیم جلدوں میں لکھی ہیں۔ (۲)مشکل الآثار امام طحاوی (۳۲۱ھ) امام طحاوی نے اس میں مشکل اور ظاہراً متعارض احادیث پر بہت فاضلانہ بحث کی ہے، افسوس کہ یہ پوری شائع نہیں ہوئی، حیدرآباد دکن سے اس کی چار جلدیں شائع ہوئی ہیں اور یہ پوری کتاب کا تقریباً نصف ہے، امام طحاوی نے اس کا ایک اختصار بھی کیا ہے، جسے قاضی جمال الدین یوسف بن موسیٰ نے المعتصر من المختصر من مشکل الآثار کے نام سے مرتب کیا ہے، یہ المعتصر ۱۳۱۲ھ میں حیدرآباد دکن سے پہلی مرتبہ شائع ہوئی ہے؛ پھریہ مصر سے بھی شائع ہوچکی ہے۔ (۳)المعجم الکبیر للطبرانی (۳۶۰ھ) حافظ ابوالقاسم سلیمان بن احمد بن ایوب الطبرانی (۳۶۰ھ) نے حدیث کے تین مجموعے قلمبند کئے، ان میں سے سب سے بڑا مجموعہ یہ ہے "المعجم الکبیر للطبرانی" مطبع انصاری دہلی میں ۱۳۱۱ھ میں چھپی تھی، المعجم الکبیر کا ایک مخطوطہ کسی زمانہ میں جامعہ عباسیہ بہاولپور کی لائبرری میں موجود تھا۔ (۴)سنن دارقطنی (۳۸۵ھ) ابوالحسن علی بن عمر الدارقطنی بغداد کے محلہ دارقطن کے رہنے والے تھے، علل احادیث میں اپنے وقت کے امام اور منتہی تھے، اسماء الرجال میں کہیں کہیں تعصب کی رو میں بہہ نکلے ہیں، بہت سے علماء نے اس کتاب پر قابل قدر حواشی لکھے ہیں، کتاب میں بہت سی منکر، شاذ، ضعیف اور موضوع روایات موجود ہیں؛ تاہم کئی پہلوؤں سے یہ کتاب مفید ہے۔ (۵)مستدرک حاکم (۴۰۵ھ) چارضخیم جلدوں میں حیدرآباد دکن سے شائع ہوئی ہے، ساتھ ساتھ حافظ شمس الدین الذہبی کی کتاب تلخیص المستدرک بھی ہے، حافظ ذہبی اسانید پر ساتھ ساتھ کلام کرتے جاتے ہیں، حاکم نے اپنے زعم میں صحیح بخاری اور صحیح مسلم پر اسی کتاب میں استدارک کیا ہے؛ اسی لیے اسے "مستدرک علی الصحیحین" کہتے ہیں۔ (۶)سنن کبریٰ للبیہقی (۴۵۸ھ) ابوبکر احمد بن الحسین البیہقی کی کتاب "سنن کبریٰ" دس ضخیم جلدوں میں حیدرآباد دکن سے شائع ہوئی ہے، ساتھ ساتھ علامہ علاؤ الدین الماردینی الترکمانی کی کتاب "الجوہر النقی فی الرد علی البیہقی" بھی ہے، اس میں علامہ ترکمانی حنفیہ کی طرف سے امام بیہقی کو ساتھ ساتھ جواب دیتے جاتے ہیں، امام بلند پایہ شافعی المذہب فقیہ تھے۔ (۷)معرفۃ السنن والآثار للبیہقی (۴۵۸ھ) دوجلدوں میں مصر سے شائع ہوئی ہے، اپنے طرز کی نادر کتاب ہے، امام بیہقی نے اس میں کہیں کہیں امام طحاوی کے طرز پر چلنے کی کوشش کی ہے؛ لیکن اس میں وہ کامیاب نہیں ہوسکے، ویسے یہ ایک بلند پایہ کتاب ہے، امام بیہقی کی شعب الایمان جس سے صاحب مشکوٰۃ نے روایات لی ہیں اس کے علاوہ ہے۔ (۸)کتاب التمہید لابن عبدالبر المالکی (۴۶۳ھ) امام ابن عبدالبر نے "جامع بیان العلم" میں اور "الاستیعاب" میں اپنی سند سے بہت سی روایات لی ہیں؛ لیکن "کتاب التمہید لما فی المؤطا من المعانی والاسانید" اپنے موضو ع میں نہایت فاضلانہ مجموعہ حدیث ہے، مراکش کے محکمۂ شئون اسلامی نے اسے تحقیقی کام کے ساتھ بیس جلدوں میں شائع کیا ہے، امام ابن عبدالبر نے "تجرید التمہید" کے نام سے اس کی ایک تلخیص کی ہے، جو دوجلدوں میں چھپ چکی ہے۔ (۹)نوادرالاصول فی معرفۃ اقوال الرسول یہ ابوعبداللہ محمد الحکیم الترمذی کی تالیف ہے، جو حاشیہ مرقات الوصول کے ساتھ بیروت سے شائع ہوئی ہے، حکیم ترمذی اپنے وقت کے قطب تھے،اور اب مستقل طور سے بھی چھپ چکی ہے (۱۰)حلیۃ الأولیاء لابی نعیم الاصفہانی (۴۳۰ھ) خطیب تبریزی اکمال میں لکھتے ہیں: "ھومن مشائخ الحدیث الثقات المعول بحدیثھم المرجوع إلی قولھم کبیر القدر"۔ ثقہ مشائخ حدیث میں سے ہیں، جن کی روایت اور ان کے قول کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے۔ (نوٹ) ان کتابوں کے علاوہ اس دور کی کچھ اور کتابیں بھی ہیں، جن کا شمار معتبر کتابوں میں ہوتا ہے، یہ چونکہ زیادہ متداول نہیں اس لیے ان کی روایات بدون تحقیق اسناد نہ لینی چاہئیں، ان میں یہ کتابیں زیادہ معروف ہیں: مسندابی یعلی (۳۰۷ھ)، صحیح ابن خزیمہ (۳۱۱ھ)، صحیح ابن حبان (۳۵۴ھ) عمل الیوم واللیلۃ حافظ ابوبکر احمد بن اسحٰق المعروف بابن السنی (۳۶۳ھ)، تہذیب الآثار لابن جریر الطبری (۳۱۰ھ)، مسند ابی بکر عبداللہ بن الزبیر الحمیدی (۲۱۹ھ) مسندابن بزار (۲۹۲ھ) منتقی ابن الجارود (۳۰۷ھ) المحلی لابن حزم (۴۵۷ھ)۔ بیان کتبِ حدیث کتبِ حدیث مختلف وضع وترتیب سے لکھی گئی ہیں، اس لیے یہ مختلف الانواع ہیں، جوترتیب سب سے زیادہ عمل میں آئی وہ سنن کی ترتیب ہے، اس کے بعد جس ترتیب نے راہ پائی وہ مسند ہے جوجاذبیت اور مقبولیت لفظ صحیح میں ہے، اس پہلو سے یہ سب سے مقدم ہے۔ (۱)مؤطا جس کتاب کو مؤلف نے دوسرے علماء کے سامنے پیش کیا ہو اور انہوں نے اس پر اتفاق فرمایا ہو، اسے مؤطا کہتے ہیں، جیسے مؤطا ابن ابی ذئبؒ (۱۵۹ھ) مؤطا امام مالکؒ (۱۷۹ھ) مؤطا امام محمد (۱۸۹ھ) وغیرہ۔ (۲)الصحیح یہ وہ کتابیں ہیں جن میں ان کے مؤلفین نے اپنے خیال میں صرف صحیح احادیث لانے کا التزام کیا ہو، جیسے صحیح بخاری، صحیح مسلم، صحیح ابن خزیمہ، صحیح ابن حبان وغیرہ۔ (۳)المصنف جن میں روایات محض جمع کرنے کے ارادے سے لکھی گئی ہوں، جیسے المصنف لعبدالرزاق (۱۲۱۱ھ) المصنف لابن ابی شیبہ (۲۳۵ھ) یہ دونوں مصنف چپھ چکے ہیں۔ (۴)الجامع جامع وہ کتاب ہے جس میں تفسیر، عقائد، آداب، احکام، مناقب، سیر، فتن، علامات، قیامت وغیرہ ہرقسم کے مسائل کی احادیث مندرج ہیں، جیسے صحیح البخاری، کتب سنن میں صرف سنن ترمذی ہے، جو ان تمام ابواب پر مشتمل ہے اور اسے جامع ترمذی بھی کہا جاتا ہے۔ (۵)السنن یہ وہ کتابیں ہیں جو فقہی ابواب یااحکام کی ترتیب سے لکھی گئی ہیں، جیسے سنن دارمی (۲۵۵ھ) سنن ابی داؤد (۲۷۵ھ) سنن ترمذی (۲۷۹ھ) سنن نسائی (۳۰۳ھ) سنن ابن ماجہ (۲۷۳ھ) سنن دار قطنی (۳۸۵ھ) سنن بیہقی (۴۵۸) وغیرہ۔ (۶)المسند یہ وہ کتابیں ہیں جو صحابہ کرامؓ کی مرویات کی ترتیب سے لکھی گئیں، جیسے مسندامام اعظمؒ (۱۵۰ھ) مسندامام شافعیؒ (۲۰۴) مسندامام احمد (۲۴۱ھ) اور مسند ابی یعلی (۳۰۷ھ) وغیرہ۔ (۷)المعجم یہ وہ کتابیں ہیں جنھیں مؤلفین نے اپنے شیوخ کی ترتیب سے تالیف کیا ہے، جیسے معجم طبرانی (۳۶۰ھ) المعجم لحافظ ابی بکر احمد بن ابراہیم الجرجانی (۳۷۱ھ) وغیرہ۔ (۸)المستدرک امام بخاری اور امام مسلم نے صحیح احادیث کے لیے جو شرطیں لگائی تھیں، شیخین کے بعد ان شرطوں پر کچھ اور حدیثیں بھی ملیں، اس پہلو سے ان رہ گئی حدیثوں کی تلاش پچھلے کام پر ایک استدراک ہے، مستدرک حاکم (۴۰۵ھ) مستدرک الحافظ ابی ذر (۴۳۴ھ) اسی اصول پر مرتب ہوئیں۔ (۹)المستخرج دوسرے محدثین کے جمع کردہ مجموعہ حدیث کو اپنی سندوں سے دریافت کرنا اور اس کے مطابق انہیں روایت کرنا تالیف حدیث کی ایک نئی محنت ہے، یہ عمل استخراج کہلاتا ہے، حافظ ابن عوانہ (۳۱۶ھ) نے صحیح مسلم پر مستخرج لکھی، اسی کا نام مستخرج ابی عوانہ ہے، جو حیدرآباد سے چھپ چکی ہے۔ اسی طرح اس عنوان اور طرز پر مستخرج ابن رجاء الاسفرائنی (۲۸۶ھ) مستخرج ابن حمدان (۳۲۱ھ) لکھی گئی جو المنتقی لابن الجارود (۳۰۷ھ) صحیح ابن خزیمہ پر استخراج کی گئی ہے۔ (۱۰)جو کتابیں اپنے موضوع سے موسوم ہوئیں ابن سلام (۲۳۴ھ) کی کتاب الاموال، امام احمد (۲۴۱ھ) کی کتاب الزہد، امام بخاری (۲۵۶ھ) کی جزءالقراءۃ اور جزءرفع الیدین، امام ابوداؤد (۲۷۵ھ) کی مراسیل، ابن قتیبہ (۲۷۶ھ) کی کتاب تاویل مختلف الحدیث، امام ترمذی (۲۷۹ھ) کی شمائل، امام نسائی (۳۰۳ھ) کی مناقب علی، کتاب السنہ لابی بکر الخلال البغدادی (۳۱۱ھ) مشکل الآثار امام طحاوی (۳۲۱ھ) عمل الیوم واللیلۃ للحافظ ابی بکر احمد بن اسحٰق المعروف بابن السنی (۳۶۳ھ)، کتاب الیقین للحافظ ابن ابی الدنیا (۲۸۱ھ) کتاب السنہ لابن حبان (۳۶۹ھ)، کتاب الاسخیاء للدارقطنی (۳۸۵ھ)، کتاب السنہ ابن مندہ العبدی (۳۹۴ھ)، امام بیہقی (۴۵۸ھ) کی کتاب الاسماء والصفات اور شعب الایمان اس نوع کی اہم کتابیں ہیں۔ ملحوظ رہے کہ کئی محدثین نے مختلف اصناف پر حدیثیں جمع کی ہیں، اس لیے ان کے نام اگر مختلف انواع کتب کے تحت بار بار آئیں تو تعجب نہ ہونا چاہیے؛ پھرایسا بھی ہے کہ ایک کتاب مختلف اعتبارات سے مختلف ناموں سے موسوم ہو، جیسے صحیح بخاری اس نام سے بھی معروف ہے اور اسے جامع بخاری بھی کہا جاتا ہے، جامع ترمذی، سنن ترمذی کے نام سے بھی معروف ہے، ہم نے ان انواع کتب میں چند معروف کتابوں کا ذکر کرکے ان مختلف اقسام کی تالیف کا ایک مختصر اور اجمالی تعارف کرادیا ہے۔ اب تک ہم پچپن کتبِ حدیث کا ذکر کرچکے ہیں، دس کتابیں پہلے دور کی اور پندرہ اس سنہری دور کی جس میں فن تالیف حدیث اپنے کمال کو پہونچ چکا تھا، اس دور کا آغاز امام بخاریؒ اور امام مسلم جیسے ائمہ فن سے ہوتا ہے، امام نسائیؒ (۳۰۳ھ) کے بعد صحتِ اسناد کی محنت پھرکمزور پڑگئی تھی، صحاحِ ستہ کا نام چھ کتابوں تک محدود ہوکر رہ گیا ہے؛ تاہم اس سے انکار نہیں کہ بعد کے آنے والے ائمہ حدیث نے بھی وہ گرانقدر ضخیم مجموع ہائے حدیث مرتب کئے کہ ان کے اعتبارات ومتابعات اور شواہد وزوائد فن کی تحقیق وتنقیح میں مزید نکھار کا موجب ہوئے ہیں اور ان میں کئی ایسی صحاح (صحیح حدیثیں) بھی آگئیں جو پہلے مجموعوں میں نہ تھیں، ان کتابوں کی تالیف سے سلسلہ تالیف حدیث مکمل ہوا، آئندہ کے لیے صرف یہ محنت باقی رہی کہ ان کتابوں کی مدد سے استخراج اور انتخاب کا سلسلہ آگے چلے۔ محدثِ کبیر حضرت مولانا خیرمحمد صاحب جالندھری نے اصول حدیث پر ایک مختصر رسالہ خیرالاصول کے نام سے لکھا ہے، اس میں آپ نے کتبِ حدیث کی تقسیم اس طرح کی ہے، حدیث کی کتابیں وضع وترتیب مسائل کے اعتبار سے نو قسم پر ہیں: پہلی تقسیم (۱)جامع، (۲)سنن، (۳)مسند، (۴)معجم، (۵)جزء، (۶)مفرد، (۷)غریب، (۸)مستخرج، (۹)مستدرک۔ (۱)جامع وہ کتاب ہے جس میں تفسیر، عقائد، آداب، احکام، مناقب، سیر، فتن، علاماتِ قیامت وغیرہ ہرقسم کے مسائل کی احادیث مندرج ہوں، کما قیل ؎ سیرآداب وتفسیر وعقائد فن احکام واشراط ومناقب (۲)سنن وہ کتاب ہے جس میں احکام کی احادیث، ابواب فقہ کی ترتیب کے موافق بیان ہوں، جیسے سنن ابی داؤد، سنن نسائی وسنن ابن ماجہ۔ (۳)مسند وہ کتاب ہے جس میں صحابۂ کرامؓ کی ترتیب یاترتیب حرف ہجا یاتقدم وتأخر اسلامی کے لحاظ سے احادیث مذکور ہوں، جیسے مسنداحمد ومسنددارمی۔ (۴)معجم وہ کتاب ہے جس کے اندر وضع احادیث میں ترتیب اساتذہ کا لحاظ رکھا گیا ہو، جیسے معجم طبرانی۔ (۵)جزء وہ کتاب ہے جس میں صرف ایک مسئلہ کی احادیث یک جا جمع ہوں، جیسے جزء القراءۃ وجزء رفع الیدین للبخاری وجزء القراءۃ للبیہقی۔ (۶)مفرد وہ کتاب ہے جس میں صرف ایک شخص کی کل مرویات ذکر ہوں۔ (۷)غریب وہ کتاب ہے جس میں ایک محدث کے مفردات جو کسی شیخ سے ہوں وہ ذکر ہوں۔ (۸)مستخرج وہ کتاب ہے جس میں دوسری کتاب کی حدیثوں کی زائد سندوں کا استخراج کیا گیا ہو، جیسے مستخرج ابی عوانہ۔ (۹)مستدرک وہ کتاب ہے جس میں دوسری کتاب کی شرط کے موافق اس کی رہی ہوئی حدیثوں کو پورا کردیا گیا ہو، جیسے مستدرک حاکم۔ دوسری تقسیم کتبِ حدیث مقبول وغیرمقبول ہونے کے اعتبار سے پانچ قسم پر ہیں۔ پہلی قسم وہ کتابیں ہیں جن میں سب حدیثیں صحیح ہیں، جیسے (۱)مؤطا امام مالک، (۲)صحیح بخاری، (۳)صحیح مسلم، (۴)صحیح ابن حبان، (۵)صحیح حاکم، (۶)مختارہ ضیاء مقدسی، (۷)صحیح ابن خزیمہ، (۸)صحیح ابن عوانہ، (۹)صحیح ابن سکن، (۱۰)منتقی ابن جارود۔ دوسری قسم وہ کتابیں ہیں جن میں احادیث صحیح وحسن وضعیف ہرطرح کی ہیں مگر سب قابلِ احتجاج ہیں؛ کیونکہ ان میں جوحدیثیں ضعیف ہیں وہ بھی حسن کے قریب ہیں، جیسے (۱)سنن ابوداؤد، (۲)جامع ترمذی، (۳)سنن نسائی، (۴)مسنداحمد۔ تیسری قسم وہ کتابیں ہیں جن میں حسن، صالح، منکر، نوع کی حدیثیں ہیں، جیسے (۱)سنن ابن ماجہ، (۲)مسند طیالسی، (۳)زیادات امام احمدبن حنبل، (۴)مسندعبدالرزاق، (۵)مسندسعید بن منصور، (۶)مسند ابی بکر بن ابی شیبہ، (۷)مسندابی یعلی موصلی، (۸)مسندبزار، (۹)مسندابن جریر، (۱۰)تہذیب ابن جریر، (۱۱)تفسیرابن جریر، (۱۲)تاریخ ابن مردویہ، (۱۳)تفسیرابن مردویہ، (۱۴)طبرانی کی معجم کبیر، (۱۵)معجم صغیر، (۱۶)معجم اوسط، (۱۷)سنن دارِقطنی (۱۸)غرائب دارِقطنی (۱۹)حلیہ ابن نعیم، (۲۰)سنن بیہقی، (۲۱)شعب الایمان بیہقی۔ چوتھی قسم وہ کتابیں ہیں جن میں سب حدیثیں ضعیف ہیں، الاماشاء اللہ جیسے (۱)نوادرالاصول حکیم ترمذی، (۲)تاریخ الخلفاء، (۳)تاریخ ابن نجار، (۴)مسندالفردوس دیلمی، (۵)کتاب الضعفاء عقیلی، (۶)کامل ابن عدی، (۷)تاریخ خطیب بغدادی، (۸)تاریخ ابن عساکر۔ پانچویں قسم وہ کتابیں ہیں جن سے موضوع حدیثیں معلوم ہوتی ہیں، جیسے موضوعاتِ ابن جوزی، موضوعاتِ شیخ محمدطاہر نہروانی وغیرہ۔ (رسالہ فیما یجب حفظہ للناظر، مولف: حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ)